ہٹلر بدھا نازی نروان
یوں تو بیسویں صدی نے بڑے بڑے ولن پیدا کیے جیسے جنرل ڈائر،میلازوچ،میسولینی،جنرل فرانکو،جارج ڈبلیو بش سینئر، جارج ڈبلیو بش جونیئر،شاکال اور موگیمبو وغیرہ۔مگر جو شہرت اور بدنامی ہٹلر کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی،کیونکہ نفرت اور تعصب کو اپنا فلسفہ بنا کر اُس نے ایک پوری قوم کی اجتماعی نفسیات تباہ کر دی۔یہ کرائم آف پیشن نہیں،کرائم آف ریزن تھا، اور کرائم آف ریزن کو انسانی تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرتی!۔۔۔
اور ایک دن جب گوتم بدھ اور ہٹلر،ایک بوڑھے برگد کی چھاؤں تلے بیٹھے نروان ڈھونڈ رہے تھے،تَو اچانک ہٹلر کا ضبط جواب دے گیا اور وہ لاحاصلی کی تکان سے چکنا چُور ہو کر بولا:
''جو جیسا ہے،ہمیشہ ویسا ہی کیوں رہے ؟''
ـــOـــ
دھت تیرے کی!۔۔۔یہ تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ اِن دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی!۔۔۔آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ بیسویں صدی کے جم پل ہٹلر کا پانچ سو سال قبلِ مسیح کے گوتم بدھ کے ساتھ سنگم ہو بھی تو کیسے ہو!۔۔۔اِس کے پیچھے ایک نہایت طویل کہانی ہے مگر آپ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہیں کہ آپ طویل کہانیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے،لہٰذا میں اِسے مختصر کرکے سنانے کی کوشش کرتا ہوں!۔۔۔
جس طرح بہت کم لوگ اِس بات سے واقف ہیں کہ بجلی کا موجد تھامس ایڈیسن نہیں بلکہ نکولا ٹیسلا ہے بالکل اِسی طرح بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ انیس سو چوالیس کے اواخر میں فریڈرک کوہلر نامی ایک جرمن سائنسدان نے ایک ایسی مشین ایجاد کر لی تھی،جو کسی بھی فرد کے ڈی۔این۔اے سے دوبارہ وہی آدمی بنا سکتی تھی۔ہٹلر کو اِس مشین سے بہت توقعات وابستہ تھیں،لہٰذااُس نے گسٹاپو اور تمام دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضیِ بعید اور ماضیِ قریب سے سینکڑوں عظیم لوگوں کے ناخن اور بال اکٹھے کر لئے،مگر اِس سے پہلے کہ اُن کے کلون تیار کیے جاتے، ہٹلر اور اُس کے اتحادیوں کو دوسری جنگ عظیم میں شکست کاسامنا کرنا پڑا۔کہا جاتا ہے کہ اِس کے بعد ہٹلر نے خودکشی کرلی،لیکن یہ بات درست نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جونہی اتحادی فوجیں جرمنی کی حدود میں داخل ہوئیں،ہٹلر نے اپنے ایک ڈپلیکیٹ کو قتل کیا اور اِسے خودکشی کا رنگ دے کر پہلے ترکی اور پھر امریکہ فرار ہوگیا،جہاں وہ اگلے بیس سال تک انڈر گراؤنڈ رہا اور ایک فقیر کا روپ دھار کر نیو یارک کی سڑکوں پر بھیک مانگتا رہا۔
اِس دوران اُس نے کئی بار اپنی سابقہ زندگی کا محاسبہ کیا۔اُس کا خبطِ عظمت تو جنگ میں شکست کے بعد ہی فنا ہو گیا تھا،نازی فلسفہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔اُس نے پہلے وجود اور پھر تجرید میں پناہ لے کر اپنے جرائم کو جسٹی فائی کرنے کی کوشش کی،مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کے ضمیر کا بوجھ بڑھتا گیا!۔۔۔
کئی بار اُس نے گرفتاری دینے کا سوچا،مگرڈر گیا!۔۔۔کئی بار اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا،مگر ناکام رہا!۔۔۔بالآخر اُس نے ورچوئل سوسائیڈ کی راہ اپنائی،عدم تشدد کے فلسفے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور گوتم بدھ کے راستے پر چلتے ہوئے نروان کی تلاش میں نکل پڑا، مگر نروان اُس کے نصیب میں نہیں تھا!۔۔۔
اورجب موت کی دیوی نے اُس کے دروازے پر دستک دی تو ہٹلر نے سوچا کہ شاید اُس کی موت ہی اُس کا نروان ہے،مگر اگلے ہی لمحے جینے کی ایک کمینی سی خواہش نے زور پکڑا تو یکایک اُس نے ایک پرانے سے صندوق سے ایک پرانی سی مشین نکالی،اُس میں اپنا ایک بال پھینکا،دوسرا بال گوتم بدھ کا پھینکا،اور آنکھیں موند لیں!
ـــOـــ
کچھ ہی دیر بعد ہٹلر کی آنکھ کھلی تو انکشاف ہوا کہ وہ پچھلے بیس برسوں سے گوتم بدھ کے پہلو میں بیٹھا،ایک بوڑھے برگد کی چھاؤں تلے نروان ڈھونڈ رہا تھا،تَو اچانک اُس کا ضبط جواب دے گیا اور وہ لاحاصلی کی تکان سے چکنا چُور ہو کر بولا:
''جو جیسا ہے،ہمیشہ ویسا ہی کیوں رہے؟…ہرنیا دن پہلے جیسا ہی کیوں ہو؟…کتنا مزا آئے رات کا قیدی صبح کو جاگے تَو بادشاہ ہو،اور وہی بادشاہ اگلے روز ایک جوکر ہو،اور اُس سے اگلی صبح ایک مالی ہو،اور پھر ایک شیر خوار بچہ ہو،اور پھر ایک کنیز ہو،اور پھر ایک درخت،اور پھر ایک پرندہ،اور ایک جگنو!…جو جیسا ہے،ہمیشہ ویسا ہی کیوں رہے؟ ''
گوتم بدھ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے گلے سے نروان کی مالا اُتار کر ہٹلر کی گردن میں ڈالتے ہوئے بولا:
''پچھلے لمحے تم کچھ بھی ہو سکتے تھے،اگلے لمحے تم کچھ بھی ہو سکتے ہو،مگر اِس لمحے تم ایک بدھ ہو!…آؤ میرے ساتھ!…مل کر کوئی جنگل تلاش کریں،اور اِس بار برگد کے بجائے نیم کی چھاؤں میں نروان ڈھونڈیں گے!…جو جیسا ہے،ہمیشہ ویسا ہی کیوں رہے؟''
ـــOـــ
گوتم بدھ اور ایڈولف ہٹلر،رات گئے تک کبھی نیویارک کی گنجان سڑکوں،تو کبھی رہائشی کالونیوں میں خراماں خراماں ٹہلتے ہوئے نیم کا درخت تلاش کرتے ہیں۔بدقسمتی سے اُنہیں نیم کا درخت تَو نہیں ملتا،تاہم نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ایک گشتی دستہ ضرور مل جاتا ہے جو اُنہیں مشکوک سمجھ کر دھر لیتا ہے اور سیر حاصل تفتیش کے بعد آوارہ گردی اور بدچلنی کی دفعات لگا کر حوالات میں بند کر دیتاہے۔
دس بائی دس کی بیرک ایک سرد جہنم کا سا منظر پیش کرتی ہے جہاں ہٹلر اور بدھ،یوگا کے کنول آسن میں بیٹھے زندگی کی بے ثباتی اور سردی کی شدت کے بارے میں کافی غور و خوض کرتے ہیں۔
ہٹلر:لارڈ بدھا!میں نے بچپن میں مرغیاں چرائیں،جوانی میں بلوے کئے اور ادھیڑ عمری میں یہودیوں کی کھالوں کے جوتے بنوا کر پہنے مگر ایک بار بھی قانون کی گرفت میں نہیں آیا! اور آج جب میں مکتی کی تلاش اور نروان کی جستجو میں اپنے گھناؤنے وجود کی بدبودار کینچلی اتار کر باہر نکلا ہوں تَومجھے بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لیا گیا!…میرا جی تو چاہتا ہے اِس ڈیوائن کامیڈی پر خوب بڑے بڑے قہقہے لگاؤں مگر آپ کی عزت و تکریم آڑے آ جاتی ہے۔
بدھ:(کنول آسن کو توڑ کر ڈالفن مچھلی کا پوز بناتے ہوئے) ہنسو بالک!…کھل کے ہنسو!…جب تم ہنستے ہو تَو فطرت کی دیوی بھی تمہارے ساتھ مل کر خوب ہنستی ہے۔
ہٹلر:(بدھا کے نئے آسن کی مضحکہ خیز پیروی کرتے ہوئے) اورجب ہم روتے ہیں،تب کیا ہوتا ہے؟
بدھ:تب بس ہم ہی ہوتے ہیں!… رونا سب کو اکیلے ہوتا ہے۔
ہٹلر:پیرومرشد!غم پر قابو پانے کا طریقہ کیا ہے ؟
بدھ:زندگی کو دور سے دیکھو!
ہٹلر:کتنی دور سے ؟
بدھ:کبھی اِنچی ٹیپ سے ماپ کر تَو نہیں دیکھا ! … لیکن کم از کم سو میٹر تَو ضرور ہو۔
ہٹلر:اگر آپ اجازت دیں تَو میں اِنچی ٹیپ استعمال کر لوں؟
بدھ:اجازت ہمیشہ اپنے آپ سے مانگنی چاہیے!… بزرگوں سے محض آشیرواد مانگو۔
ہٹلر:نروان کہاں ملتا ہے گرو ؟
بدھ:ہر جگہ ! … بس تمہاری طلب سچی ہو ۔
ہٹلر:تَو کیا دس بائی دس کی اِس بیرک میں بھی؟
بدھ:نروان کا کیا ہے بچے جمہورے!…ملنا ہو تَو پھانسی گھاٹ کے تختے پر بھی مل جائے اور نہ ملنا ہو تَو مل کر بھی نہ ملے۔
ہٹلر:(ایکدم چونکتے ہوئے) ابھی آپ نے مجھے بچہ جمہورا کہا مرشدی؟
بدھ:(تھوڑا بوکھلاتے ہوئے) میں تَو محض بچہ کہنا چاہ رہا تھا!… پھر پتا نہیں کیا ہوا؟…(پھر ایک دم خود کو سنبھالتے ہوئے) …تمہیں برا لگا کیا؟
ہٹلر:برا تَو نہیں!…مگر عجیب لگا۔
بدھ:ابھی تمہاری ''میں'' زندہ ہے بالک !
ہٹلر:(تھوڑا پریشان ہوتے ہوئے) اور اِس ''میں'' کو مارنے کا کیا طریقہ ہے لارڈ بدھا ؟
بدھ:خودکشی!…
ہٹلر:(مزید پریشان ہوتے ہوئے) یہ تَو بہت مشکل ہے آقا!
بدھ:آسان تَو کچھ بھی نہیں ہوتا مورکھ!
ہٹلر:(لجاجت بھرے انداز میں) خودکشی کی تاب نہیں مرشد! …کچھ اور عطا ہو۔
بدھ:(خلا ء میں گھورتے ہوئے) تَو پھر ''میں'' کو لکڑی کے ایک تابوت میں ڈال کر اپنے گھر کے صحن میں دفن کر دو۔
ہٹلر:اور اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟
بدھ:تَو اُس کو مارڈالو!
ہٹلر:( ٹھٹھکتے ہوئے) وہ کیوں؟
بدھ:رازداری نروان کی پہلی شرط ہے بالک !
ہٹلر:(ایک دم شدید کنفیوژ ہوتے ہوئے) تَو اِس مارنےاوراُس مارنے میں فرق کیا ہوا لارڈ بدھا ؟
بدھ:(خلاء میں موجود کسی ایک نقطے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرتے ہوئے) فرق محض ''اِس''میں اور'' اُس '' میں ہے۔ مارنے کو دونوں کا نقطۂ اشتراک سمجھ لو۔
ہٹلر:نہیں!…میں دراصل''ہولو کاسٹ مرڈر'' اور''نروان مرڈر'' کے بیچ کا فرق جاننا چاہ رہا ہوں۔
بدھ:(تھوڑا جھنجھلاتے ہوئے) ابے کہا تَو ہے فرق محض ہولو کاسٹ اور نروان کا ہے۔اِن دونوں کو بریکٹ میں لے کر،مرڈر کو مشترک لے لو تَو بالکل ٹھیک جواب نکل آئے گا۔
ہٹلر:( نفی میں سر ہلاتے ہوئے) اِتنی ریاضی تَومجھے بھی آتی ہے لارڈ بدھا!…میٹرک میں پورے اٹھانوے نمبر تھے!
بدھ:(طنزیہ انداز میںمسکراتے ہوئے) بس اِتنے ہی؟…میرے تَو سو میں سے سو تھے!…گندھارا بورڈ میں دوسری پوزیشن آئی تھی !
ہٹلر:(مایوس ہو کراپنا سر پیٹتے ہوئے ) اوہو!…مگر ہم نے تَو بس ''میں'' مارنی تھی ناں!…آدمی تو نہیں مارنا تھا۔
بدھ:(ذرا درشتی سے) تَوکون مر گیا؟…(پھر کچھ توقف کرتے ہوئے)…ابھی تَو تمہاری ''میں'' بھی نہیں مری۔
گوتم بدھ،ڈولفن مچھلی آسن توڑ کر بالکل سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور گہری گہری سانسیں لینے لگتا ہے۔
ہٹلر: رنگ،نسل،زبان اور مذہب سے بالاتر ہوکر انسانوں سے محبت کرنے کا کیا گُر ہے لارڈ بدھا؟
گوتم بدھ کے چہرے پر ایک دراڑ سی نمودار ہوتی ہے،جیسے ہٹلر کا سوال سن کر اُس کے اندر کچھ تڑخ سا گیاہو۔
بدھ:(مضطرب ہو کر) تخلیہ!
ہٹلر:(حیرانی سے کندھے اچکاتے ہوئے) تخلیہ؟… مگر کیوں؟…ابھی تَو بہت سوال باقی تھے۔
بدھ:(شعوری کوشش سے اپنے اضطراب کو کم کرتے ہوئے) کچھ سوال کل کے لئے بھی چھوڑ دے بالک!
ہٹلر:(مزید حیران ہوتے ہوئے) زندگی نہ آنے والے کل میں ہوتی ہے،نہ بیتے ہوئے کل میں ہوتی ہے،زندگی تَو بس اِسی ایک پل میں ہوتی ہے!…آپ ہی نے تَو کہا تھا لارڈ بدھا!… مگر شاید!…ممکن ہے،نہ بھی کہا ہو!
اِسی اثناء میں تالہ کھلنے کی آواز آتی ہے اور ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر آدمی کو اُن کی بیرک میں دھکیل دیا جاتاہے۔
سیاہ فام:( اُن دونوں کی جانب ایک دوستانہ مسکراہٹ اچھالتے ہوئے) ہیلو!
ہٹلر:(خوشدلی سے) گڈ مارننگ!
'' گڈ مارننگ'' کہتے ہی ہٹلر کو احساس ہوتا ہے کہ اُس نے زمینی حقائق کو پوری طرح سے مدِنظر رکھے بغیر لب کشائی کر ڈالی۔گوتم بدھ اُسے تنبیہی نگاہوں سے دیکھتا ہے اورانکھیں موندلیتا ہے ۔
سیاہ فام برمے کی سی تیز نگاہوں سے ہٹلر اور بدھ کا معائنہ کرتا ہے اورجلد ہی کسی نتیجے پر پہنچ کر ایک معنی خیز ہنکارا بھرتا ہے۔
سیاہ فام:( ہٹلر کی جانب دیکھتے ہوئے) کب سے ہیں یہاں؟
ہٹلر:چند ہی گھنٹے ہوئے ہیں!
سیاہ فام:چہرے مہرے سے تَو آپ دونوں ہی کرمنل نہیں لگتے! …پھر یہاں کیسے ؟
ہٹلر:(ایک دم چہرے پر بے پناہ سنجیدگی طاری کرتے ہوئے) کرمنل ہونا اور کرمنل لگنا دو بالکل علیحدہ چیزیں ہیں بالک!… کبھی ایک نرم خو،بظاہر پروقار اور وجہیہ آدمی کے اندر نہایت سفاک قاتل چھپا ہو سکتا ہے اور کبھی ایک کرخت نقوش والا بدصورت آدمی،جھیل میں ڈوبتے ہوئے بچوں کی خاطر اپنی جان قربان کر دیتا ہے!…چہروں پر کردار لکھے ہوتے تَو لوگ کبھی دھوکہ ہی نہ کھاتے!…(پھر تھوڑا توقف کرتے ہوئے) … خیر!…آوارہ گردی کا چارج لگا ہے ہم پر! …کسی حد تک درست بھی ہے! …آپ یہاں کس سلسلے میں؟
سیاہ فام: کوئی ڈاکومینٹس کا بتا رہے تھے!… ویزہ!… ہاں،شاید ویزہ ہی کہا تھا!
ہٹلر:(تھوڑا حیران ہوتے ہوئے) تَو آپ یہاں کے نہیں ہیں؟
سیاہ فام نفی میں سر ہلا دیتا ہے ...
ہٹلر:تَو پھر ؟
سیاہ فام:تَو پھر کیا ؟
ہٹلر:مطلب کہاں کے ہیں ؟
سیاہ فام:(جس کے چہرے پر ادھیڑ عمری کے باوجود ایک خاص طرح کی معصومیت اور ملائمت ہے،کافی پراسرار سے انداز میں مسکراتے ہوئے) بتا تَو دوں! …آپ شاید یقین نہ کریں!
بدھ:(ایک دم مراقبے سے باہر آتے ہوئے) اِس سے کیا پوچھتے ہو، مجھ سے پو چھو بالک! … یہ ناہنجار ایک ایلیسن ہے،اور غالباً پلوٹو سے آیا ہے۔
ہٹلر:پلوٹو کو تَونظامِ شمسی سے نکال دیا گیا !
بدھ:(ایکدم شدید طیش میں آتے ہوئے) ہمارے نکالنے یا نہ نکالنے سے کیا ہوتا ہے بچے جمہورے!…ہم سے زیادہ تَو ایک چمگادڑ کی اِڈ جانتی ہے!… ایک چیونٹی کی جبلت جانتی ہے! … ایک کاکروچ کا اجتماعی لاشعور جانتا ہے!…(پھرکچھ نرم پڑتے ہوئے )… پلوٹو نظام شمسی میں تھا ،ہے ، اور ہمیشہ رہے گا!… تھوڑا بدچلن اور ٹھنڈا ہے تَوکیا ہوا!…ہے تَو سیارہ ہی!… کوئی ٹِچ بٹن تو نہیں ہے۔
ہٹلر:(تعظیم کے سے انداز میں جھکتے ہوئے) اِتنی سائنس کہاں سے سیکھی لارڈ بدھا؟
بدھ:(ایک گہرا سانس اندر کھینچتے ہوئے) نروان سب سکھا دیتا ہے بالک!
ہٹلر:تو گویا یہ آدمی پلوٹو سے آیا ہے،جو ایک سیارہ ہے،اور اب بھی ہمارے نظامِ شمسی کا حصہ ہے؟…(پھر سیاہ فام آدمی کی طرف تشکیک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) … کیوں ٹھیک ہے ناں؟
سیاہ فام،جو اِس ساری گفت و شنید سے کافی محظوظ ہو رہا ہے، بےاختیار قہقہا اُٹھتا ہے۔ سیاہ فام کا قہقہانا جلتی پر تیل کاکام کرتا ہے اور گوتم بدھ برانگیختہ ہو کر مگرمچھ آسن میں چلا جاتا ہے۔بدھ کی دیکھا دیکھی،ہٹلر بھی اِس آسن کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے مگر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتا اوردھڑام سے نیچے جا گرتا ہے۔سیاہ فام تیزی سے ہٹلر کی جانب لپکتا ہے اور اُسے زمین سے اٹھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ہٹلر:(اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے) تھینک یو مسٹر ایلیسن!
سیاہ فام:(ایک شریر سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے) تھینک یو کے لئے شکریہ،مگر میں ایلیسن نہیں ہوں!
ہٹلر:(نفی میں سر ہلاتے ہوئے) نروان غلط نہیں ہو سکتا!… لارڈ بدھا غلط نہیں ہو سکتے!…میں جانتا ہوں تم ایلیسن ہی ہو!
سیاہ فام:میں مستقبل کا انسان ہوں میرے بھائی!…اے مین فرام دی فیوچر!…فیوچر تَو سمجھتے ہو ناں؟
گوتم بدھ:(اُسی مگرمچھ آسن میں لیٹے لیٹے) بکواس کرتا ہے!…ہارلم سے آیا ہے!…کسی راہ گیر کو چاقو گھونپ دیا ہو گا!… تم بھی ذرا محتاط رہنا!
ہٹلر،گوتم بدھ کا نیا مفروضہ سن کر سٹپٹا جاتا ہے اور دانت کچکچانے لگتا ہے۔سیاہ فام کے چہرے پر شرارت اور اسرار کے ملاپ سے جنم لیتی ہوئی مسکراہٹ مزید گہری ہو جاتی ہے۔اگلے ہی لحظے،وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہے اور بیرک کی سلاخوں سے اپنا سر ٹکرا دیتا ہے۔وہ اِس عمل کو بار بار دہراتا ہے یہاں تک کہ اُس کا ماتھا لہولہان ہو جاتا ہے اور خون کے قطرے اچھل اچھل کر فرش پہ گرنے لگتے ہیں۔پھر اچانک وہ اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرتا ہے تَولہواور چوٹ کا نشان،دونوں غائب ہو جاتے ہیں ۔
بدھ اپنے آسن سے باہر نکل کر حیرت سے منہ پھاڑے یہ سارا منظر دیکھتا ہے اور نفی میں سر ہلادیتا ہے۔ہٹلر کی آنکھوں میں بھی ایک بے یقینی کی سی کیفیت ہے جو آہستہ آہستہ تیقّن کی جانب بڑھ رہی ہے۔سیاہ فام اپنے بدن کو ایک خاص زاویے سے جھٹکا دیتا ہے تَو اُس کے پاؤں زمین کی سطح سے کافی بلند ہو جاتے ہیں۔ دس پندرہ سیکنڈ تک ہوا میں معلق رہنے کے بعد وہ آہستگی سے نیچے اتر آتا ہے۔
بدھ:(اپنے تمام حواس کو مجتمع کرتے ہوئے) کون ہو تم؟
سیاہ فام:پہلے ہی بتا چکا!
ہٹلر:سائنٹسٹ ہو؟
سیاہ فام:سائنٹسٹ بھی ہوں!
بدھ:کوئی ٹائم مشین وغیرہ؟
سیاہ فام:ہاں ایسا ہی کچھ!
ہٹلر:کتنا عرصہ؟
سیاہ فام:تمہارے ٹائم فریم میں دیکھیں تو لگ بھگ دو ملین سال!
ایک لحظے کو ہٹلر اور بدھ، دونوں ہی کپکپا کے رہ جاتے ہیں؛اُن کی ریڑھ کی ہڈیاں سنسنا اٹھتی ہیں؛بدن کا روئیں روئیں سرسرانے لگتا ہے ۔
بدھ:(اپنی آواز کی کپکپاہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے) تَویہاں کیسے؟
سیاہ فام:تعلیمی دورہ!…پکنک بھی۔
ہٹلر:اور حوالات میں کیسے؟
سیاہ فام:ویزہ جو نہیں تھا۔
بدھ:تَو اُڑ کیوں نہیں گئے؟
سیاہ فام:پھر یہاں کیسے آتا؟
یکایک گھمبیر خاموشی کا ایک طویل وقفہ نمودارہوتا ہے جس کے دوران ہٹلر اپنی جگہ سے اٹھ کر بیرک کی عقبی دیوار تک جاتا ہے،پانی کا ایک گلاس پیتا ہے، کچھ دیر وہیں بیٹھ کر خلاؤں میں تکتا ہے،پھر واپس اپنی جگہ پر آ کر لیٹ جاتا ہے۔
ہٹلر:(ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں بڑبڑاتے ہوئے) تَو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے تمام تر پاگل پن کے باوجود ہم بچ گئے!… یہ ممکن تَو نہیں تھا!…ہم سب پاگل جو ہو گئے تھے! …اور بارود کے ڈھیر پر بیٹھے تھے! …اور ہر شخص کے ہاتھوں میں ماچس کی ایک ایک تیلی تھی!…(پھر ایک دم دیوانہ وار قہقہے لگاتے اور خوشی سے اچھلتے ہوئے)…ہم بچ گئے!… ہاہا ہا!…ہم بچ گئے !
سیاہ فام:(ایک دم اپنے چہرے پر دنیا جہان کی کرختگی طاری کرتے ہوئے) وہ بارود کا ڈھیر پھٹ گیاتھا!…سب لوگ مر گئے تھے!…کوئی ایک بھی نہیں بچا تھا۔
گوتم بدھ:(دکھ اور حیرت کی ملی جلی کیفیات سے مغلوب ہو کر) کوئی ایک بھی نہیں؟پھر یہ سب کیسے؟…اور تم؟…تَو پھر تم کہاں سے آگئے؟
سیاہ فام:(اپنے لہجے کی درشتی برقرار رکھتے ہوئے) پھر سے وہی سب کچھ! … دوبارہ سے!
ہٹلر:(کسی ان دیکھے جذبے کی شدت میں بھیگتے ہوئے ) تب بھی تَو تم ہماری ہی اولاد ہوئے ناں؟…آدم کی اولاد!…جو ازل سے زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گی۔
سیاہ فام آہستہ سے نفی میں سر ہلا دیتاہے...
گوتم بدھ:(نیم استہزائیہ انداز میں) تَو پھر تم کس کی اولاد ہو میرے بچے؟…جنابِ ڈارون کے لنگور کی؟
سیاہ فام:(گوتم بدھ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے) وائرس!…ہم وائرس کی اولاد ہیں۔
ایک دم گوتم بدھ کے دل میں مستقبل کے انسان کے لئے نفرت کی ایک شدید لہر اٹھتی ہے۔پھر وہ ہٹلر کی طرف دیکھتا ہے جس کا چہرہ بھی غم و غصے سے بگڑرہا ہوتا ہے۔دونوں بیک وقت چلاتے ہیں:
''کِل ہِم!…کِل ہِم!…مادر چود کا بچہ!''
جونہی ہٹلر اور بدھ،مستقبل کے انسان کو مارنے کے لئے دوڑے۔اُس نے ٹائم مشین آن کی اور غائب ہو گیا۔
ـــOـــ
گوتم بدھ اور ہٹلر،حوالات سے رہائی کے بعد میکسیکو چلے جاتے ہیں جہاں اُنہیں بہت تلاش بسیار کے بعد نیم کا ایک درخت تَو مل جاتا ہے مگر تمام تر ریاضت کے باوجود نروان نہیں مل پاتا۔گوتم بدھ اِس روحانی ہزیمت کا سارا ملبہ ہٹلر پر ڈال دیتا ہے جبکہ ہٹلر اِس ساری صورتحال کا ذمہ دار تقدیر کو ٹھہراتا ہے جس کے بعد دونوں آدھے آدھے پیسے ملا کر نروان کوچنگ سنٹر کھول لیتے ہیں جو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے پہلے نروان پبلک سکول اور بعدازاں نروان گروپ آف کالجز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ نروان گروپ آف کالجز کا ایک ہونہار جاپانی طالب علم ای ہونڈا تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے شفیق اساتذہ اور نروان شدہ دوستوں کی معاونت سے ملٹری اکیڈمی کھول لیتا ہے جس میں تعلیم حاصل کرنے والے نوعمر کیڈٹس کو کتگابازی،شمشیر زنی،چاند ماری،تائیکوانڈو اور نیوکلیئر فزکس کے ساتھ ساتھ آتما شکتی،کالا جادو،لِنگ پوجا،جن جپھا اور آسن سازی کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے ____
اُدھرمستقبل کا انسان،جو رات کو نیویارک کی ایک جیل میں قید تھا،اگلی صبح یونائیٹڈ ڈزنی لینڈ کا بادشاہ ہوتا ہے۔اُس کی تاج پوشی کے موقع پر جان ایلٹن اور لیڈی گاگا،اپنی سریلی آوازوں میں''پیلو پکیاں نے'' گا کر سماں باندھ دیتے ہیں۔مستقبل کا انسان اگلے کچھ ہی گھنٹوں میں ہر قسم کے نسلی،جنسی اور لسانی تعصب کا خاتمہ کرڈالتا ہے،تاہم جونہی وہ مذہبی تعصب کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تَوچھوٹا بھیم،جیان اور حسن بغدادی مل کر ایک گوریلا وار شروع کر دیتے ہیں،جس کے نتیجے میں فیلڈ مارشل جنرل مکی ماؤس کو ملک بھر میں ایک جزوی مارشل لاء نافذ کرنا پڑ جاتا ہے،جو کچھ ہی منٹوں بعد عوام کی پرزور فرمائش پر مکمل مارشل لاء میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اِس دوران مستقبل کا انسان حالات کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے جھانسی کی رانی کا شٹل کاک برقعہ پہن کر دبئی فرار ہو جاتا ہے ۔۔۔
0 Comments