Micro-fiction
مائیکروفکشن یا مختصر ترین افسانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو ہمیں مائیکروفکشن کو اس کے اپنے ادبی و لسانی تناظر میں دیکھنا ہے جہاں سے یہ اصطلاح آئی ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا انگریزی میں مائیکروفکشن ایک باقاعدہ ادبی صنف ہے بھی کہ نہیں؟ یہ وہ بڑے سوال ہیں جن کے جوابات کو ہم سب سے پہلے ترجیح دیتے ہیں اس کے بعد ہم اسکے دیگر عناصر کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔
فکشن کا لفظ اب اردو ادب میں عام فہم ہو چکا ہے ۔ اس لفظ کی ادائیگی سے ہی فکشن کا پورا ڈھانچہ اپنی ہیئت میں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے تاہم جب ہم اس کے ساتھ مائیکرو کا اشتراک کرتے ہوئے مرکب بناتے ہیں تو یہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسی فکشن جو مختصر الفاظ میں اپنی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک پورا خیال، کہانی یا کردار کو سامنے لائے جہاں قاری اس کی تفہیم میں کسی طور پر ابلاغ کی بھول بلیوں میں نہ کھو جائے بلکہ مرکزی خیال کی ترسیل اس کے ذہن میں تصویر کی طرح ابھر جائے۔ ہاں اسی طرح علامتی کہانیوں میں استعاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ اسکا ابلاغ مکمل ہو ۔
مائیکروفکشن یا مختصر افسانہ دراصل الفاظ کی ایک خاص تعداد کا نام نہیں بلکہ کسی بھی کہانی کو مکمل تصویر کرتے ہوئے ادیب الفاظ کی ایک خاص مقدار کے اندر ہی اسے تجسیم کرے۔ دوسرے لفظوں میں کہانی کو الفاظ کی ایک مخصوص مقدار کے اندر ہی سمونا ادیب کی ہنر مندی ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ اردو افسانے کی ساخت اور اسکے اجزائے ترکیبی تو اسقدر وسیع و عریض ہیں کہ انہیں تین سو الفاظ کے اندر کیسے سمویا جا سکتا ہے۔ ہم آگے چل کر اس سوال پر بھی بات کرتے ہیں۔
انگلش میں مائیکروفکشن کو فلیش فکشن کی ذیلی یا متوازی شاخ بھی کہا جاتا ہے جہاں کوئی بھی کہانی تجسیم ہوتے ہوئے اپنے داستانی محور سے ہٹتی نہیں بلکہ انہی مخصوص اور نپے تلے الفاظ میں اپنے انجام تک پہنچتی ہے ۔ ہاں البتہ اردو میں افسانے کی ساخت و ہیئت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مائیکروفکشن میں زیادہ محنت کرنی پڑے گی کیونکہ اردو ادب میں جب ہم کسی کہانی کو تصوراتی دنیا سے الفاظ کا پیراہن پہناتے ہوئے تجسیم کرتے ہیں تو اردو زبان کی لوچ و رچاؤ کا خیال بھی رکھتے ہیں، افسانوینت کی ممکنہ شکل کا ادیبانہ محاکمہ بھی لازم ہے۔
تو آئیے پہلے ابتدائی سوالات کو پرکھ لیتے ہیں ۔ مائیکرو فکشن جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ مخصوص الفاظ کے اندر پورے خیال کو سمونا کہلایا جاتا ہے۔ انگلش ادب میں سٹیو المنڈ ، ایمی ہیمپل، گراہم جونز اور لیڈیا ڈیوس نے مائیکروفکش کو نہ صرف رقم کیا بلکہ انکی کہانیاں انگریزی ادب میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں ۔ جوشیم فرینک اور رومالائین انٹی اب بھی کئی ایک نئی کہانیاں مائیکروفکشن کی صنف میں تحریر کر رہے ہیں۔ اردو ادب میں منٹو نے اس کی ابتدائی شکل پیش کی جس پر بعد میں گو کوئی زیادہ کام نہیں ہوا تاہم عصر حاضر میں کام کرنے کے مواقع ہیں۔
یہاں میں یہ ضرور کہنا چاہونگا کہ دوسطری اقوال زریں ، مقولے یا لطائف یا ون لائنر کسی صورت میں مائیکروفکشن کی تعریف میں نہیں آتے۔ ہم پوری کہانی کو فکشنلائز کرتے ہوئے جب اردو میں لکھیں گے تو اردو لسانی و ثقافتی مروجہ ادبی روایات اس مختصر افسانے میں سموئیں گے۔ مرکزی خیال کو کردار یا واقعیت نگاری سے مزیں کریں گے اور اسکے ساتھ مربوط ، حتمی اور کہانی کو مکمل کر دینے والا انجام بھی عطا کریں گے۔
یہاں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر ہم کیوں مائیکروفکشن کا اہتمام کریں کیوں اسے ترقی و ترویج دیں؟ قاری کے نقطہ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی مصروف دنیا میں وقت کی کمی ایک ایساعنصر ہے جس پر ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ملکوں میں اب اس پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ لیکن انسانی ذہنی آسودگی کو برقرار رکھنے اور انسانی جمالیات کو حساس ہونے سے بچانے کے لئے ادب اور انٹرٹیمنٹ کا سہارا ضروری ہے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ طویل افسانے یا ناول نہیں پڑھ سکتے لہذا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے مائیکروفکشن کی صنف وجود میں آئی ۔
بین ہی اسی طرح ایک ادیب کے پاس انہی اصولوں کے پیشِ نظر اپنے ہنر اور فن کے بہترین استعمال کا موقع میسر آتا ہے جہاں ادیبانہ صلاحیتوں کو پرکھنے کے لئے مختصر افسانہ لکھنا ایک چیلنج سے کم نہیں وہیں خیال کی ندرت اور متنوع اصنافی اسلوب و بیانیہ اسکی ہنر مندی کی شان ہے۔میری رائے میں جو نوجوان ادیب اب فکشن لکھ رہے ہیں انہیں مائیکروفکشن میں لکھنا ضروری ہے اس سے بہترین الفاظ کا چناؤ ، انکا درست استعمال ، الفاظ کی فریزینگ ( یعنی جملہ سازی) ، مختصر مکالمہ اگر ہو اور کردار و واقعیت نگاری کے مربوط جملہ اجزائے ترکیبی سے تادیر اور اثرپذیر کہانیاں وجود میں آئیں گی۔
میں یہاں اپنے مختصر مضمون کے قارئین کیلئے مثال کے طور پر ایک انگریزی مائیکروفکشن کہانی پیش کرتا ہوں جس کا ترجمہ میں نے ابھی ابھی کیا ہے۔ یہ کہانی میرے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے۔ اسکی وجہ اسکا مصنف ہے جو ایشیائی نام رکھتا ہے جو یقینی طور پر اردو ادب سے واقف ضرور ہوگا اسی لئے اس کہانی میں آپ کسی حد تک مغربی ثقافت کے ساتھ ایشیائی ثقافت بھی محسوس کریں گے۔
سب سے آخر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب سے اسی کی بیوی پادری کے ساتھ نکل گئی تھی ، میتھیو اکثر بار اور پبز میں ہی پایا جاتا تھا۔ وہ کسانوں کی طرح بے تحاشا شراب پیتا۔ گزرتی ہوئی ٹرین کی وسل کو مسلسل سنتا رہتا اور بیتھی کے بارے میں اکثر جھوٹ بولتا کہ وہ مر چکی ہے۔ وہ اپنے خوشگوار دنوں کی یاد میں ڈوب جاتا جہاں ذمہ داریاں صرف ایک سایے کی مانند تھیں۔ وہ جونئیر منٹس کو بچوں کے پاس چھوڑتا، قطار در قطار اپارٹمنس کے پاس سے گزرتا ہوا ، اجنبیوں پر اچٹتی نظر ڈالتا ہوا، اپنے ذہن کے اندر انکی شناخت کو مار دیتا۔
اسکا ذہن بیتھی کے لکھے اُس نوٹ پر تیز و تند ہوا کی مانند کانوں میں سائیں کرتا ہوا گزر جاتا جس میں لکھا تھا کہ ’’اس کے سامنے بڑے مقاصد ہیں ، اور تم بھی بڑا مقصد رکھتے ہو‘ ‘
وہ اکثر جیوک باکسسز کے پاس کھڑی لڑکی سے جھوٹ بولتا اور کہتا اسے کینسر تھا لیکن وہ اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ وہ تنہائی میں چاند سے بھی باتیں کرتا اور اپنے اندر کے خالی پن کو یقین کی حد تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتا کہ وہ ہی دنیا کا سب سے آخری شخص ہے جسے بیتھی نے چھوڑا تھا ۔ ‘‘
مصنف ۔میر یاشعر سید بخاری
(نوٹ ۔ یہ کہانی ایک انگلش مائکروفکشن منڈے میگزین نامی وہب سائٹ سے لی گئی ہے۔)
اس کہانی سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ گو انگلش میں افسانویت کا اس قدر اہتمام نہیں کیا جاتا بلکہ کہانی کے اتار چڑھاؤ سے اسکی کیفیات کو رقم کیا جاتا ہے اور لفظوں کی بناوٹ اور درست استعمال سے کہانی کو فروغ دیتے ہوئے اس اسکے منطقی انجام تک لایا جاتا ہے۔ ہم اردو ادب میں بھی اسی قسم کے مختصر افسانوں کی ترویج کو حتمی شکل دے سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر انگلش سے مستعار لے جانے والی صنف کو اردو ادب میں سمونے کا قائل ہوں ۔ اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلے مختصر افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے کام کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ اسی کے ساتھ ہمیں اردو اور انگلش ادب کے بلینڈ سے مختصر افسانے کی صنف کو ادب کا حصہ سمجھنا ہوگا ورنہ مختصر ترین افسانہ اپنے ارتقا پذیری میں ہی رہے گا۔
۔۔۔۔
نعیم بیگ
لاہور پاکستان
0 Comments