*کوئی بھی پروپیگنڈہ فلسطینی زخم کو چھپا نہیں سکتا-🌸ارون دھتی رائے*written by قندیل14 اکتوبر, 2024*انگریزی سے ترجمہ**ترجمہ :نایاب حسن*مشہور ہندوستانی ادیبہ اور ممتاز سماجی کارکن ارون دھتی رائے کو PEN پنٹر پرائز 2024 سے نوازا گیا ہے۔ یہ انگلش PEN (ایک سو تین سالہ قدیم ادبی ادارے)کی طرف سے نوبیل ایوارڈ یافتہ ڈرامہ نگار ہیرلڈ پنٹر(Harold Pinter) کی یاد میں دیا جانے والا سالانہ ایوارڈ ہے۔ انعام کے لیے نامزد ہونے کے فوراً بعد راے نے اعلان کیا کہ وہ انعامی رقم کا اپناحصہ فلسطینی بچوں کے ریلیف فنڈ میں عطیہ کررہی ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ مذکورہ انعام پانے والے برطانوی-مصری مصنف اور سماجی کارکن علا عبد الفتاح کو writer of courage(جرأت مندادیب )قرار دیا۔ درجِ ذیل مضمون قبولِ انعام کے موقعے پر ان کی تقریر کا تحریری ورژن ہے، جو 10 اکتوبر 2024 کی شام برٹش لائبریری میں کی گئی تھی۔اصل انگریزی تحریر’دی وائر‘ پر شائع ہوئی ہے۔’دی وائر‘ کے شکریے کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔PEN پنٹر پرائز سے نوازنے کے لیے میں انگلش PEN اور جیوری کے ارکان کی شکر گزار ہوں ۔ میں اپنے اظہارِ تاثرات کا آغاز اس سال کے writer of courage کے نام کا اعلان کرتے ہوئے کرنا چاہوں گی، جن کے ساتھ میں یہ ایوارڈشیئر کر رہی ہوں۔writer of courage اور میرے شریک ایوارڈ علا عبدالفتاح،میں آپ کو سلام پیش کرتی ہوں۔ ہم امید اور دعا کر رہے تھے کہ ستمبر میں آپ کو رہا کر دیا جائے گا؛ لیکن مصری حکومت نے فیصلہ کیا کہ آپ بہت خوبصورت ادیب اور اتنے ہی خطرناک مفکرہیں؛اس لیے ابھی رہا نہیں ہو سکتے؛ لیکن آپ یہاں ہمارے ساتھ اس کمرے میں موجود ہیں، آپ اس تقریب کی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ جیل سے آپ نے لکھاہے’میرے الفاظ کی طاقت ختم ہو گئی ، پھر بھی وہ میری زبان و قلم سے نکلتے رہے، میرے پاس اب بھی ایک آواز ہے، چاہے مٹھی بھر سننے والے ہی کیوں نہ ہوں‘۔ ہم سن رہے ہیں علا،ہم بہت قریب سےسن رہے ہیں۔میری پیاری نومی کلین،علا کی اور میری دوست ،آپ کو بھی سلام ۔ آج رات یہاں آنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ آپ کا یہاں ہونا میرے لیے پوری دنیا کے مماثل ہے۔یہاں موجود تمام سامعین کو سلام ، ان لوگوں کو بھی سلام ،جو بھلے اس تقریب کے شاندار سامعین میں موجود نہیں ہیں؛ لیکن اس کمرے میں موجود کسی بھی شخص کی طرح مجھے نظر آرہے ہیں۔ میں ہندوستانی جیل میں قیداپنے دوستوں اور ساتھیوں کی بات کر رہی ہوں ،جن میں عمر خالد، گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرجیل امام، رونا ولسن، سریندر گڈلنگ اور مہیش راوت جیسے وکلا، ماہرین تعلیم، طلبہ اور صحافی شامل ہیں۔ میرے دوست خرم پرویز( میرے جاننے والوں میں نہایت ممتاز) میں آپ سے بھی مخاطب ہوں، آپ تین سال سے پسِ دیوارِ زنداں ہیں اور عرفان مہراج،آپ سے اور کشمیر اور پورے ملک میں قید ان ہزاروں لوگوں سے بھی مخاطب ہوں،جن کی زندگیاں تبادہ کردی گئیں ۔جب انگلش PEN اور پنٹر پینل کی چیئر روتھ بورتھوک نے مجھے پہلی بار اس اعزاز کے بارے میں لکھا، تو انھوں نے کہا کہ پنٹر پرائز ایسے مصنف /ادیب کو دیا جاتا ہے، جس نے ’ہماری زندگی اور ہمارے معاشروں کی اصل حقیقت‘ کو ’بے جھجھک ،غیر متزلزل اور پرجوش فکری عزم‘ کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہ نوبل ایوارڈ قبول کرنے کے موقعے پر ہیرلڈ پنٹر کی تقریر کا اقتباس ہے۔لفظ ’غیر متزلزل‘(Unflinching) نے مجھے ایک لمحے کو توقف پر مجبور کر دیا؛ کیونکہ میں اپنے بارے میں تو یوں محسوس کرتی ہوں کہ مجھے مسلسل اپنے عزم و ارادے سے سمجھوتا کرنا پڑ رہا ہے۔ویسے میں ’فلنچنگ‘ اور ’اَنفلنچنگ‘ کے موضوع پر تھوڑا سا غور کرنا چاہوں گی، جس کی بہترین مثال خود ہیرلڈ پنٹر نے پیش کی ہے:’’میں 1980 کی دہائی کے آخر میں لندن کے امریکی سفارت خانے کی ایک میٹنگ میں موجود تھا۔امریکی کانگریس یہ فیصلہ کرنے والی تھی کہ آیا ریاست نکاراگوا کے خلاف اپنی مہم میں کونٹرا (امریکی حمایت یافتہ دائیں بازو کے تشددپسند گروپس) کو مزید رقم دینا ہے یا نہیں۔ میں نکاراگوا کی جانب سے بات کرنے والے وفد کا رکن تھا؛ لیکن اس وفد کے سب سے اہم رکن فادر جان میٹکاف تھے۔ امریکی ادارے کا سربراہ ریمنڈ سیٹز تھا (اس وقت سفیر کے بعد اس کی دوسری پوزیشن تھی، بعد میں وہ بھی سفیر ہوا)۔ فادر میٹکاف نے کہا: ’’سر، میں نکاراگوا کے شمال میں ایک پارش(کسی پادری کے زیر کنٹرول رہنے والا مسیحی مذہبی خطہ) کا انچارج ہوں۔ میرے پارشینوں نے ایک اسکول، ایک ہیلتھ سینٹر، ایک ثقافتی مرکز بنایا تھا۔ ہم پر سکون زندگی گزارر ہے تھے کہ چند ماہ قبل ایک کونٹرا فورس نے پارش پر حملہ کردیا۔ انھوں نے اسکول، ہیلتھ سنٹر، ثقافتی مرکز سب کچھ تباہ کر دیا۔ انھوں نے نرسوں اور اساتذہ کی عصمت دری کی، ڈاکٹروں کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے ذبح کردیا،انھوں نے لوگوں کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کیا۔ براہ کرم امریکی حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس خوفناک دہشت گردانہ کارروائی سے اپنی حمایت واپس لے۔‘‘’’ریمنڈ سیٹز کی ایک معقول، ذمے دار اور انتہائی نفیس آدمی کے طور پر شہرت تھی، سفارتی حلقوں میں بھی اس کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ وہ سنتا رہا، رکا اور پھر کچھ سنجیدگی سے بولا: ’’فادر!میں آپ سے ایک بات کہوں؟ جنگ کا خمیازہ ہمیشہ بے گناہوں کوبھگتنا ہوتا ہے‘‘۔ اس کی بات سن کر مجلس پر ایک منجمد سا سکوت چھا گیا ، ہم اسے گھوررہے تھے،مگر اسے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔‘‘یاد رکھیں کہ صدر ریگن نے اپنے پسندیدہ لفظوں میں کونٹرا کو ’ہمارے معمارانِ قوم کی اخلاقی نظیر‘ قرار دیا تھا۔ اس نے یہ جملہ سی آئی اے کے حمایت یافتہ افغان مجاہدین کی وضاحت کے لیے بھی استعمال کیا تھا، جوبعد میں طالبان میں تبدیل ہو گئے اور یہی طالبان امریکی حملوں اور قبضوں کے خلاف بیس سالہ طویل جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان پر حکومت کر رہے ہیں۔ کونٹرا اور مجاہدین سے پہلے، ویتنام کی جنگ میں اسی غیر متزلزل امریکی عسکری نظریے نے اپنے فوجیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ ’ہرنقل و حرکت کرنے والی چیز کو مار ڈالو‘۔اگر آپ پینٹاگون پیپرز اور ویتنام میں امریکی جنگ کے مقاصد سے متعلق دیگر دستاویزات کو پڑھیں، تو آپ نسل کشی کے بارے میں کچھ جاندار ،غیر متزلزل بحثوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ،مثلاً یہ کہ کیا لوگوں کو فوری طورپر قتل کرنا بہتر ہے یا انھیں آہستہ آہستہ، بھوکا رکھ کر مارنا بہتر ہے؟ کون سا طریقہ زیادہ اچھاہو گا؟ پینٹاگون کے ہمدرد مینڈارنز(بیوروکریٹس) کو جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، وہ یہ تھا کہ امریکیوں کے برعکس، جو ان کے مطابق ’زندگی، خوشی، دولت، طاقت چاہتے ہیں‘، ایشیائی ’دولت کی تباہی اور جانوں کے ضیاع کو پورے صبر و استقامت سے قبول کرتے ہیں‘ ۔ اس کی وجہ سے امریکہ ’اپنی تزویراتی منطق ،یعنی قتلِ عام کو اپنے انجام تک پہنچانے پر مجبور ہوا‘، جو ایک ایسا خوفناک بوجھ ہے، جس کو بلاتردد برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔اب ہم موجودہ حالات پر آتے ہیں، اتنے عرصے بعد،پچھلے سال بھر سے زائد سے ایک اور قتل عام کیا جا رہا ہے۔ نوآبادیاتی قبضے اور نسل پرست ریاست کے دفاع میں غزہ اور اب لبنان میں امریکہ و اسرائیل کی ’غیر متزلزل‘ اور ٹیلی وائزڈ (ٹی وی پر نشر ہونے والی)نسل کشی جاری ہے۔ اب تک سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 42,000 ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں، جو عمارتوں، پڑوس کی بلڈنگوں اور شہروں کے ملبے کے نیچے چیختے چلاتے مر گئے اور وہ جن کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں۔ آکسفیم کی ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں اس سال بھر میں پچھلے بیس سال کی کسی بھی دوسری جنگ سے زیادہ بچے مارے گئے ہیں۔نازیوں کے ذریعے لاکھوں یورپی یہودیوں کی ہلاکت پر اپنی ابتدائی سالوں کی بے حسی کے اجتماعی جرم کے ازالے کے لیے امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کی شکل میں دوسری نسل کشی کی بنیاد ڈالی ہے۔تاریخ کی ہر اس ریاست کی طرح جس نے نسلی تطہیر اور نسل کشی کی ہے، اسرائیلی صیہونیوں نے ( جو خود کو ’خدا کے منتخب بندے‘ مانتے ہیں ) فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے اور ان کا قتل کرنے سے پہلے ان کے انسان ہونے کو ہی مسترد کرنا شروع کردیا تھا؛چنانچہ وزیر اعظم میناچم بیگن نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والے جانور‘ کہا، اسحاق رابن نے انھیں ’ٹڈی‘ کہا، جنھیں ’کچل دینا چاہیے‘ اور گولڈا میر نے کہا کہ ’فلسطینیوں جیسی کوئی چیز زمینی وجود نہیں رکھتی‘۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا تھا ’میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ چرنی(جانوروں کے چارے کا برتن) پرموجود کتے کا اس پر حتمی حق ہے، گرچہ وہ وہاں دیر تک رہے‘ اور پھر یہ اعلان کردیا کہ ایک ’اعلی نسل‘ کو چرنی پر حتمی حق حاصل ہے۔ ایک بار جب ان دو ٹانگوں والے جانوروں، ٹڈیوں، کتوں اور غیر موجود لوگوں کو قتل کر دیا گیا، ان کی نسلی تطہیر کردی گئی اور یہودی بستی بنا دی گئی،تو ایک نئے ملک نے جنم لیا اور اور اس کے حصول کا جشن یوں منایا گیا کہ ’یہ انسانوں سے خالی زمین تھی،جہاں ایک انسانی قوم کو بسایا گیا‘۔ دراصل جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کے حق میں مشرق وسطیٰ کی قدرتی ثروت اور وسائل پر تعینات فوجی چوکی اور گیٹ وے کے طور پر کام کرنا تھا۔ گویا استعماری اہداف و مقاصد کا ایک ’خوبصورت اتفاق‘ رونما ہوا۔نئی ریاست کی حمایت بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور بے جھجھک کی گئی،اس نوزائیدہ ملک کو مسلح کیا گیا،اس پر خزانوں کی بارش کی گئی اور اس نے چاہے جتنا بھی خوفناک جرم کیا ہو،بدلے میں اس کے ناز اٹھائے گئے،اس کے حق میں تالیاں بجائی گئیں۔ یہ کسی امیر گھرانے کے ایسے نک چڑھے بچے کی طرح پلا بڑھا، جس کی بدکرداریوں اورظلم و زیادتی پر بھی والدین فخر سے مسکراتے ہیں؛چنانچہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آج وہ نسل کشی پربھی کھلے عام اظہارِ فخر کر رہا ہے۔ (کم از کم پینٹاگون پیپرز تو خفیہ تھے، انھیں چوری کرنا پڑا اور وہ لیک ہوئے تھے)،کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسرائیلی فوجیوں نے شرمندگی کا احساس بھی کھو دیا ہے، کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسی گھٹیا ویڈیوز نشر کرتے ہیں، جن میں وہ اپنے ذریعے قتل یا بے گھر کی گئی خواتین کا زیر جامہ پہنے ہوتے ہیں، مرتے ہوئے فلسطینیوں اور زخمی بچوں یا عصمت دری اور تشدد کا نشانہ بننے والے قیدیوں کی نقل اتارتے ہیں،ان کا مذاق اڑاتے ہیں، کانوں میں ہیڈ فون لگائے موسیقی سنتے اور سگریٹ پیتے ہوئے عمارتوں کو اڑانے کی تصاویر شیئر کرتے ہیں۔یہ کون لوگ ہیں؟اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کا جواز کیا ہو سکتا ہے؟اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا کا جواب گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کا حملہ، اسرائیلی شہریوں کا قتل اور اسرائیلیوں کو یرغمال بناناہوگا۔ ان کے مطابق یہ تاریخ صرف سال بھر پہلے شروع ہوئی ہے۔یہ میری تقریر کا وہ حصہ ہے، جہاں مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں اپنے آپ کو، اپنی غیرجانبداری ، اپنی فکری حیثیت کی حفاظت کی طرف متوجہ کروں۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں میرا مقصد اخلاقی مساوات کو ختم کرنا اور حماس، غزہ کے دوسرے عسکریت پسند گروپ اور لبنان میں ان کے اتحادی حزب اللہ کے ذریعے شہریوں کے قتل اور لوگوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کرنے کے ساتھ غزہ کے ان عوام کی مذمت ہونا چاہیے، جنھوں نے حماس کے حملے پر جشن منایا۔ ایک بار جب یہ ہو جائے، تو سب آسان ہو جاتا ہے، ہے نا؟ ہر شخص خطرناک ہے، کوئی کیا کر سکتا ہے؟ چلو اس فکر میں پڑنے کی بجائے شاپنگ کرنے چلتے ہیں…مگر میں مذمتی کھیل کھیلنے سے انکاری ہوں، میں اپنا موقف واضح طورپر بیان کرنا چاہتی ہوں، میں مظلوموں کو یہ نہیں بتاتی کہ وہ ظلم کا مقابلہ کیسے کریں یا ان کے حلیف کون ہونے چاہئیں۔جب امریکی صدر جو بائیڈن نے اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے دورے کے دوران وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی جنگی کابینہ سے ملاقات کی ،تو انھوں نے کہا ’میں نہیں مانتا کہ صیہونی ہونے کے لیے آپ کا یہودی ہونا ضروری ہے ، میں یہودی نہ ہوتے ہوئے بھی صہیونی ہوں‘۔صدر جو بائیڈن کے برعکس، جو خود کو ایک غیر یہودی صیہونی کہتے ہیں اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کو بلا جھجھک اموال و اسلحہ فراہم کرتے ہیں، میں اپنے آپ کو کسی ایسے طریقے سے بیان کرنے یا اس طرح اپنی شخصیت کی توضیح کرنے والی نہیں ہوں، جو میری تحریر سے زیادہ محدود ہو، میں خارج میں بھی وہی ہوں، جو میں لکھتی ہوںمیں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ایک ادیب، غیر مسلم اورعورت ہونے کے ناطے میرے لیے حماس، حزب اللہ یا ایرانی دائرۂ اقتدار میں زیادہ دیر تک رہنا بہت مشکل؛بلکہ شاید ناممکن ہو گا؛لیکن یہاں بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس تاریخ اور ان حالات سے آگاہ کریں، جن کے تحت وہ وجود میں آئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس وقت وہ ایک نسل کشی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ بات اپنے آپ سے سوال پوچھنے کی ہے کہ کیا ایک لبرل، سیکولر ،لڑنے والی قوت نسل کشی کی جنگی مشین کے خلاف جا سکتی ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ان کے خلاف ہیں، تو ان کے پاس تو رجوع کے لیے خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ حزب اللہ اور ایرانی حکومت کے خلاف ان کے ممالک میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ جیلوں میں بھی بند ہیں یا بدترین نتائج کا سامنا کر چکے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ ان کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ تاہم، ان میں اور جو کچھ اسرائیل اور امریکہ غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں، ان میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ تمام تشدد کی جڑ ( بشمول 7 اکتوبر کے حملے کے) اسرائیل کا فلسطینی سرزمین پر قبضہ اور فلسطینی عوام کو اپنا محکوم بنانا ہے۔ تاریخ 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوئی۔میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ اس ہال میں موجود ہم میں سے کون شخص ہے، جو اس بے عزتی اور توہین کو خوشی خوشی برداشت کرلے گا،جس کا غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو دہائیوں سے سامنا ہے؟ فلسطینی عوام نے کون سے پرامن طریقے نہیں آزمائے ؟ انھوں نے کون سا سمجھوتہ قبول نہیں کیا؟ اب تو صرف یہی بچا ہے کہ وہ گھٹنوں کے بل رینگیں اور مٹی کھائیں۔اسرائیل اپنے دفاع کی جنگ نہیں لڑ رہا ہے،وہ جارحیت کی ،مزید فلسطینی علاقوں پر قبضے کی ، اپنے نسل پرستانہ نظام کو مستحکم کرنے اور فلسطینی عوام اور خطے پر اپنا کنٹرول زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔7اکتوبر 2023 کے بعد سے دسیوں ہزار لوگوں کوقتل کرنے کے علاوہ اسرائیل نے غزہ کی اکثریتی آبادی کو بے گھر کر دیا ہے، اس نے ہسپتالوں پر بمباری کی ہے، اس نے جان بوجھ کر ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا اور قتل کیا ہے، پوری آبادی بھوکوں مر رہی ہے ، اس کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سب کو اخلاقی اور مادی طور پر دنیا کی امیر ترین، طاقت ور ترین حکومتوں اور ان کے میڈیا کی حمایت حاصل ہے ۔ (ان میں، میں اپنے ملک بھارت کو بھی شامل کرتی ہوں، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں ورکرز فراہم کرتا ہے ) ان ممالک اور اسرائیل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف پچھلے سال بھر میں امریکہ نے اسرائیل کی 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد کی ہے؛ لہٰذا آئیے ایک بار اور ہمیشہ کے لیے امریکہ کے ثالث ہونے، بدامنی کو روکنے میں بااثر ہونے یا الیگزینڈریا اوکاسیوکورٹیز (جسے امریکہ کی مرکزی دھارے کی انتہائی بائیں بازو کی سیاست داں سمجھا جاتا ہے) کے اس جھوٹ کو مسترد کر یں کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے انتھک کوشش کر رہے ہیں‘۔ نسل کشی کا فریق ثالثی نہیں کر سکتا۔ساری طاقت اور پیسہ ، روے زمین پر موجود تمام ہتھیار اور پروپیگنڈے اس زخم کو مزید چھپا نہیں سکتے ، جس کا نام فلسطین ہے، وہ زخم جس سے اسرائیل سمیت پوری دنیا خون آلود ہے۔سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک کی حکومتیں اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کرتی ہیں، وہاں کے شہریوں کی اکثریت نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔ ہم نے دنیا کے مختلف ملکوں میں لاکھوں لوگوں کے احتجاجی مارچ دیکھے ہیں ، جن میں ان یہودیوں کی نوجوان نسل بھی شامل تھی، جو استعمال ہو ہوکر تھک چکے ہیں، جھوٹ بول بول کر تھک چکے ہیں۔ کس نے سوچا ہوگا کہ ہم وہ دن دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے جب جرمن پولیس یہودی شہریوں کو اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کرے گی اور ان پر یہود دشمنی کا الزام لگائے گی؟ کس نے سوچا ہوگا کہ امریکی حکومت، اسرائیلی ریاست کی خدمت میں، فلسطین کے حق میں لگائے جانے والے نعروں پر پابندی لگا کر آزادیِ تقریر کے اپنے بنیادی اصول کو مخدوش کر ے گی؟ مغربی جمہوریتوں کا نام نہاد اخلاقی ڈھانچہ (چند قابل قدر مستثنیات کے ساتھ ) باقی دنیا کے لیے ایک سنگین مذاق بن گیا ہے۔جب نیتن یاہو مشرق وسطیٰ کا ایسا نقشہ دکھاتاہے، جس میں فلسطین کو مٹا دیا گیا ہے اور اسرائیل دریا سے سمندر تک پھیلا ہوا ہے، تو وہ ایک ایسے وژنری کے طور پر سراہا جاتا ہے، جو یہودیوں کے اپنے وطن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کام کر رہا ہے؛لیکن جب فلسطینی اور ان کے حامی ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، تو ان پر واضح طور پر یہودیوں کی نسل کشی کے لیے بھڑکانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔کیا وہ واقعی ایسا کر رہے ہیں؟ یا یہ ایک بیمار تصور ہے جو اپنی تاریکی دوسروں پرتھوپ رہا ہے؟ ایک ایسا تصور ، جو تنوع کا مقابلہ نہیں کر سکتا، دوسرے لوگوں کے ساتھ، مساوی طور پر، مساوی حقوق کے ساتھ ایک ملک میں رہنے کے خیال کا سامنا نہیں کر سکتا۔ ایک ایسا تصور جو یہ تسلیم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ فلسطینی اسی طرح آزاد ہونا چاہتے ہیں، جیسے جنوبی افریقہ آزاد ہوا، جیسے ہندوستان آزاد ہوا، جیسے وہ تمام ممالک آزاد ہوئے، جنھوں نے استعمار کے جوے کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکا ہے۔ وہ ممالک جو متنوع ہیں،ان کے اندر گہری اور شاید مہلک خامیاں بھی پائی جاتی ہیں؛ لیکن وہ آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقی اپنی ریلیوں کا یہ مقبولِ عام نعرہ لگا رہے تھے کہ ’ اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘ تو کیا وہ سفید فاموں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے تھے؟ نہیں۔وہ بھی اسی طرح نسل پرستانہ ریاست کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے، جس طرح فلسطینی کر رہے ہیں۔اب جو جنگ شروع ہوئی ہے، وہ خوفناک ہو گی؛ لیکن بالآخر اسرائیلی نسل پرستی کے خاتمے پر منتج ہوگی۔ پوری دنیا یہودیوں سمیت سبھی لوگوں کے لیے زیادہ محفوظ اور کہیں زیادہ انصاف پسند ہوگی۔ یہ ہمارے زخمی دل سے تیر نکلنے کے مترادف ہوگا۔اگر امریکی حکومت نے اسرائیل کی حمایت واپس لے لی تو آج ہی یہ جنگ رک سکتی ہے، دشمنی اسی لمحے ختم ہو سکتی ہے، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جاسکتا ہے، فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جاسکتا ہے، حماس اور دیگر فلسطینی اسٹیک ہولڈرز ،جو ایک ناگزیر جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مذاکرات اسی وقت ہوسکتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کے مصائب کا سلسلہ رک سکتا ہے،مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے ایک بے ہودہ اورمضحکہ خیز تجویزباور کریں گے۔علا عبدالفتاح!اپنی تقریر کا اختتام میں آپ کی ایامِ اسیری میں تحریر کردہ خودنوشت You Have Not Yet Been Defeated کے اقتباس سے کرتی ہوں۔ میں نے فتح و شکست کے معنی اور آنکھوں میں چمکتی مایوسی کو ایمان داری سے دیکھنے کی سیاسی ضرورت کے بارے میں ایسے خوبصورت الفاظ کم ہی پڑھے ہیں، میں نے ایسی تحریر کم ہی دیکھی ہے، جس میں کوئی شہری خود کو ریاست سے، جرنیلوں سے حتیٰ کہ تحریر اسکوائر کے نعروں سے بھی یکساں وضاحت سے الگ کرتا ہو :’’مرکز(اقتدار) غداری سے عبارت ہے؛ کیونکہ اس میں صرف جنرل کی گنجائش ہے،مرکز غداری سے عبارت ہے اور میں کبھی غدار نہیں رہا، وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انھیں یہ احساس نہیں کہ ہم نے کبھی میدان نہیں چھوڑا، ہم صرف تھوڑی دیر کے لیے پیچھے ہٹے ہیں۔ بیلٹ بکس، وزارتی محلات، جیلیں،حتی کہ قبریں بھی ہمارے خوابوں کے لیے ناکافی ہیں۔ ہم نے کبھی مرکز نہیں مانگا؛ کیونکہ وہاں اپنے خوابوں سے دستبردار ہونے والوں کے علاوہ کسی کے لیے جگہ نہیں ہے، یہاں تک کہ تحریر اسکوائر بھی ہمارے لیے اتناوسیع نہیں تھا؛ اس لیے انقلاب کی زیادہ تر لڑائیاں اس کے باہر ہوئیں اور اس کے زیادہ تر ہیرو فریم سے باہر رہے‘‘۔غزہ اور اب لبنان میں ہم جس ہولناکی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ تیزی سے علاقائی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کے حقیقی ہیرو فریم سے باہر ہیں؛ لیکن وہ لڑرہے ہیں؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن:دریا سے سمندر تکفلسطین آزاد ہو گاآزاد ہوکر رہے گاآپ اپنی نگاہ اپنے کیلنڈر پر رکھیں، اپنی گھڑی پر نہیں۔اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام ( نہ کہ عسکری جنرل ) اسی طرح وقت کی پیمایش کرتے ہیں۔
0 Comments