Subscribe Us

Header Ads

کہانی :- نامکمل انسان :- ماریہ فاروقی کراچی پاکستان جو کہا نہیں گیا - جو سنا نہیں گیا ایک ایسی کہانی *موت ڈاٹ کام مالیگاوں*پر *Maut. ‏Com. ‏Malegaon*

نا مکمل انسان
ماریہ فاروقی، کراچی 
پاکستان
"کہاں جانا ہے بہن؟؟" بھاری سی آواز پہ اس نے پلٹ کے دیکھا تو خوف کے مارے آواز ہی نہیں نکلی۔اوپر کا سانس اوپر،نیچے کا نیچے رہ گیا۔ غیر ارادی طور پہ وہ کچھ قدم پیچھے سرک گئی۔
"کیا ہوا۔کوئی مسئلہ ہوگیا ہے کیا؟" اسے اس طرح خاموش دیکھ کر پھر پوچھا گیا۔
وہ جو پہلے ہی گرمی اور پیاس سے نڈھال تھی اس نئی افتاد پہ تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ آنے والے نے بھی شاید اس کی کیفیت بھانپ لی تھی۔ سو اس بار اپنے تئیں اس نے آواز اور لہجہ دونوں نرم رکھنے کی کوشش کی مگر اس میں اس کا قصور نہیں تھا۔
"مجھے بتاؤ بہن میں کسی کام آسکوں تو۔۔۔۔ "
" مم۔۔۔میں تمہاری بہن وہن نہیں ہوں۔" وہ بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ کے بولی۔وہ خود کو ہر ممکن طور پہ پر سکون اور بے خوف ظاہر کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ بچپن سے اس کو ایسے لوگوں سے ڈرایا گیا تھا۔ان کا ایک انجانا خوف بٹھایا گیا تھا اس کے اندر جیسے کہ ایسے لوگ کوئی بہت برے یا خطرناک ہوتے ہیں۔
وہ معمول کا چیک اپ کروانے جارہی تھی۔بس سٹاپ پہ رش بہت تھا ایک ساتھ دو تین بسیں آگے پیچھے آگئیں تو وہ جلدی چڑھنے کے چکر میں غلط بس میں بیٹھ گئی۔ پتہ جب چلا جب کنڈیکٹر ٹکٹ کے پیسے لینے آیا تو اس نے مطلوبہ اسٹاپ پہ اتارنے کا کہا جس پہ کنڈیکٹر نے بتایا کہ وہ غلط بس میں بیٹھ گئی ہے۔اور اب کب سے اسٹاپ پہ کھڑی بھوکی پیاسی مطلوبہ بس کا انتظار کر رہی تھی۔لیکن بس کا کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ 
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔لیکن اتنی گرمی میں اور ۔۔۔۔اور وہ بھی اس حال میں۔۔۔۔۔یہاں اکیلی کیوں کھڑی ہو۔؟" اس کی خاموشی پہ اس نے اس کے جسم کی طرف اشارہ کیا جو یہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک ننھا وجود بھی اس عورت کے ساتھ ہے۔
"دیکھو میری بہن!!۔۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔مجھے غلط مت سمجھو۔...... تمہیں یہاں ایسے دیکھ کے مجھے تکلیف ہورہی ہے۔ اپنا نہیں تو..... اس ننھی جان کا ہی کچھ خیال کرلو۔ تم خود بھی شاید بھوکی ہو اور....اور اس کو بھی غذا کی ضرورت ہے۔" فکر مندی اس کے لہجے سے صاف ظاہر تھی۔ وہ پھر بھی منہ پھیرے کھڑی رہی۔
"تم بھلے مجھے اپنی طرح نہ سمجھو لیکن انسان ہی سمجھ لو۔۔۔۔ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں۔" اس کا لہجہ اسے نم محسوس ہوا۔ وہ خاموش رہی تو اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
"اللہ نے میرے سینے میں بھی دل رکھا ہے جو ہر کسی کی تکلیف میں دکھتا ہے۔ ان کی تکلیف میں بھی جو مجھے۔۔۔۔۔۔اپنے جیسا سمجھنا تو دور کی بات انسان تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔" اب کی بار لہجے کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی نم تھیں۔ وہ چپ کرکے اس کی بات سن رہی تھی۔ اس کی خاموشی اسے بولنے کا حوصلہ دے رہی تھی۔
"میرا تو کوئی قصور نہیں ہیں ناں اس میں۔۔۔" چہرے پہ بہتے آنسو الفاظ پہ صداقت کی مہر ثبت کر رہے تھے۔
"روزانہ خود کو صرف انسان ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔پھر بھی ذلت ہی ہاتھ آتی ہے۔ یہ دنیا ہمیں انسان نہیں سمجھتی بس اپنی تسکین کا سامان سمجھتی ہے۔ کبھی ہم اپنے چہرے پہ رنگوں کی تہہ سجا کے ان کو خوش کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری اپنی زندگی بے رنگ ہوتی ہے۔ اپنے پیروں کو ان کی خواہش پہ نچاتے ہیں۔ کبھی پیٹ کی خاطر تپتی دھوپ میں سڑکوں پہ ہاتھ پھیلائے اس دوزخ کا ایندھن مانگتے ہیں تو کبھی یخ بستہ راتوں میں سڑک کنارے ہوس کے ماروں کے لیے عیاشی کا سامان بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی کسی طور ہمیں وہ نہیں ملتا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں سکون نہیں ملتا۔۔۔۔۔عزت نہیں ملتی۔۔۔۔ہمیں۔۔۔۔۔ہمیں ہماری شناخت نہیں ملتی۔۔۔۔۔شناخت نہیں ملتی۔۔۔۔۔" آنسوؤں سے چہرہ تر ہوچکا تھا۔ آواز کا کرب سینہ چیر رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ ایک ٹک اس کو دیکھنے لگی۔وہ چہرہ اتنا بھیانک نہیں تھا۔ بلکہ وہ چہرہ بھیانک تھا ہی نہیں۔۔۔اس پہ بھی دو آنکھیں تھیں، ناک تھی، ہونٹ تھے۔ اس کے بھی ہاتھ تھے۔ دونوں پیر تھے۔ پھر۔۔۔۔ پھر کیوں وہ انسان تک کہلانے کا حقدار نہیں۔۔۔۔؟؟
اسے لگا بھیانک وہ چہرہ نہیں ہم سب کی سوچ تھی۔
اس نے ایک نظر اپنے دائیں طرف رواں دواں "مکمل انسانوں" کے ہجوم کو دیکھا جس میں سے کوئی ایک بھی اس کی حالت اور موسم کی شدت کے باوجود بھی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اور ایک نگاہ اس نے اپنے سامنے کھڑے اس " نا مکمل انسان" پر ڈالی۔جو اپنی غیر منصفانہ حیثیت کے باوجود بے غرض اس کی مدد کو تیار تھا۔
اسے اس طرح خاموش کھڑا دیکھ کے اس نے مایوس ہوکر واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو وہ ایک دم بولی۔
"بات سنو!" اس نے پلٹ کے دیکھا تو وہ پھر جلدی سے بولی۔
" مجھے پیاس لگی ہے۔" 
" میرا گھر وہ سامنے گلی میں ہے۔اگر مناسب سمجھو تو کچھ دیر وہاں چل کر کچھ کھا پی لو۔ محلے میں ایک رکشے والے سے میری سلام دعا ہے۔ وہ تمہیں گھر تک چھوڑ دے گا۔"
اس نے جلدی جلدی بات مکمل کی۔
"میرا نام آمنہ ہے۔۔۔اور تمہارا؟"
آمنہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا
" ببلی۔۔۔جی ببلی نام ہے میرا۔" اس نے اٹھلا کے کہا تو آمنہ کو ہنسی آگئی۔
اس نے تاسف بھری ایک نگاہ "نا مکمل انسانوں" کے اس ہجوم پہ ڈالی اور ببلی نامی اس مکمل انسان کے ساتھ اس کے گھر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

✍️ ماریہ فاروقی

Post a Comment

0 Comments