ہندی کہانی |
پِیرُو حجام عرف حضرت جی
انور سہیل/ عامر صدیقی
ہندی کہانی
ایک صبح فجر کی نماز سے پہلے ،حضرت جی کی لاش باتھ روم میں گُو مُوت سے لتھڑی پڑی ملی۔ لاش دیکھ کر ایسا لگتا تھا، جیسے مرنے سے پہلے باتھ روم سے نکلنے کے لئے، انہوں نے کافی جدوجہد کی ہو۔اس کوشش میں وہ کئی بار گرے ہوں گے اور پھر اٹھنے کی کوشش کی ہوگی۔ان کے کپڑے، ہاتھ پاؤں یہاں تک کے پورا بدن ہی گندگی سے سنا ہوا تھا۔ہمیشہ مشک و عنبرسے بسا رہنے والا بدن اتنا غلیظ دکھ رہا تھا کہ ابکائی آجائے۔ حضرت جی کے عالیشان کمرے میں اٹیچ باتھ روم تھا۔چکنے ،چمکدار ٹائلز اور مو زائیک کا کمال ۔۔۔ جو حضرت جی کی نفیس فطرت ظاہرکرتا تھا۔
چونسٹھ سالہ حضرت جی کو آج جس حالت میں ’’گُو مُوت‘‘ نے اپنی آغوش میں لیا تھا، اسے دیکھ کوئی کیسے یقین کرے کہ یہ کسی مقدس شخصیت کی لاش ہے۔سید شاہ بابا کی درگاہ کے گدی نشین،تعمیر کنندہ اور سربراہ حضرت جی کا اتنا المناک اختتام!
پہلے اس درگاہ شریف میں صرف ایک ہی مزار تھا۔
سید شاہ بابا کا مزار۔
اب وہاں دو مزار ہیں۔
ایک تو سید شاہ بابا اور دوسرا جناب حضرت جی کا۔
حضرت جی یعنی سید شاہ بابا کے مزار کی خواہش کو حقیقت میں بدلنے والی شخصیت یعنی کہ پِیرُو حجام کا ۔۔۔
حضرت جی کی پِیرُو حجام سے پیر بننے کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔
آج جہاں سید شاہ بابا کا مزار ہے، پہلے وہاں ایک خشک پیپل کے درخت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
پہلے حضرت جی بھی تو حضرت جی نہ تھے۔
گاندھی چوک پر ان کی حجامت کی ایک چھوٹی موٹی دکان تھی۔
پِیرُو حجام کی دکان۔
وہ خاندانی نائی تھے۔
ان کے باپ دادا خلیفہ کہلاتے تھے۔
ختنہ کرنے والے خلیفہ ۔۔۔
حضرت جی نے پشتینی دھندہ چھوڑ کر حجامت والا دھندہ پکڑا۔
ان تین بیویوں سے پیدا ہوئے کوئی درجن بھر اولادوں میں سے، دو بیٹے اب اسی دھندے میں ہیں۔
کہتے ہیں کہ پِیرُو حجام یعنی کہ حضرت جی بچپن سے ہی بہت خرافاتی مزاج کے تھے۔
بالغ ہوئے تو فطرتاً مقامی مسجد کے صدر بننے کا خواب دیکھنے لگے۔
تب شہر میں ایک ہی مسجد تھی۔ وہاں شیخ، سیدوں اور نودولتمند تاجروں کا اثرو رسوخ تھا۔ اورانہی لوگوں کے بیچ سے صدر، سکریٹری وغیرہ منتخب کئے جاتے تھے۔
وہاں حضرت جی کی کہاں چلتی۔
اسی لیے انہوں نے جلاہوں،قصائیوں، دُھنیوں اور دیگر پسماندہ اور نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کو منظم کرنا چاہا۔
جامع مسجد کے بڑے امام صاحب دیوبندی تھے اور ان کی دیکھ بھال میں کسی طرح کا ہنگامہ نہ تھا۔ چھوٹے بڑے سب ان نورانی شخصیت کا ادب واحترام کرتے تھے۔
وہاں حضرت جی کو کامیابی نہ ملی۔
تب حضرت جی نے جامع مسجد کے تمام نمازیوں کے خلاف فتوی دلوانے کا جگاڑ کیا کہ جامع مسجد وہابیوں کی مسجد ہے۔ وہاں نبیوں کے سردار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام نہیں پڑھا جاتا ہے۔ یہ دیوبندی وہابی لوگ ولیوں اور بزرگوں کو نہیں مانتے۔ بزرگوں کے مزارات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بد دین ہوتے ہیں یہ دیوبندی وہابی، ان سے تو کافر بھلے۔
ان وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے۔
ان دیوبندیوں میں سے کوئی اگر سلام کرے، تو جواب نہ دو۔
ان سے روٹی بیٹی کا تعلق نہ بناؤ۔
حضرت جی کے اس پروپیگنڈے کو بریلی سے آئے ایک مولانا نے شہ بھی دی۔آخر کار کچھ لوگ ان کے مزاج کے مل ہی گئے۔
حضرت جی کو پرانی مسجد میں اپنا حق نہ ملنے کا اندیشہ تھا، تو وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں با جماعت نماز ادا کرنے لگے۔ ان کے کچھ شاگرد بھی بن گئے۔
حضرت جی کے چہرے پر نورانی داڑھی آگئی۔ کھچڑی بالوں پر مہندی لگائی، تو ایک نئی شخصیت بن گئی۔ سر پر سبز پگڑی باندھی اور گلے میں کالے، نیلے، لال، پیلے، ہرے، سفید پتھروں کی مالا ڈالنے پر وہ اب سکہ بند بابا بن گئے۔
موٹوانی ایک فوٹو گرافر تھا۔ اس کا دھندہ بڑا مندا چلتا تھا۔ اس کے لئے حضرت جی نے دعائیں کیں۔
ان دعاؤں کی بدولت موٹوانی کا اسٹوڈیو چمک اٹھا۔
اب یہ حضرت جی کی دعاؤں کا نتیجہ ہو یا میونسپل والوں کی مہربانی! اس ا سٹوڈیو کے سامنے سے گزرنے والی گلی کو ،میونسپل والوں نے بڑھا کر، اسے ہائی اسکول اور کچہری جانے والی سڑک سے جوڑ دیا تھا۔
موٹوانی کی آمدنی بڑھ گئی۔
اب موٹوانی کے پاس ایک جاپا نی فوٹوکاپی مشین بھی آگئی۔
اس نے تین چار ملازم رکھ لئے۔
وہ حضرت جی کا مرید بن گیا۔
حضرت جی کی تیسری شادی کرانے میں اس کا اہم رول تھا۔
موٹوانی کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے حضرت جی کے جھاڑ پھونک اور دعا تعویز کا کاروبار چمک اٹھا۔ دھندہ مندا ہو تو تیز ہو جائے گا۔ لڑکا نہ ہو رہا ہو تو تعویز سے لڑکوں کی لائن لگ جائے گی۔ شوہر شرابی ہو یا کہ ادھر ادھر منہ مار دیتا ہو تو اسے صحیح راستے پر لانے کے لئے حضرت جی سے دعائیں کروا لو۔ کورٹ کچہری کا چکر ہو تو مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا۔
لوگوں نے انہیں زندہ ولی قرار دیا تھا۔
ایک صبح حضرت جی نے فجر کی نماز کے وقت، مریدوں کے سامنے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا۔
انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بائی پاس چوراہے کے قریب قبرستان سے ملحق زمین پر جو پیپل کا درخت ہے، اس کے پاس ایک بزرگ سید شاہ بابا کی قبرِمبارک ہے۔
مرحوم حضرت سید شاہ بابا نے خود خواب میں آکر انہیں اس جگہ کی نشاندہی کی ہے۔
موٹوانی کو خبرملی۔
وہ بھاگا بھاگا حضرت جی کے پاس آیا۔
حضرت جی نے اس سے بھی یہی بات بتائی۔
موٹوانی حضرت جی کو اپنی ماروتی میں بٹھا کر بائی پاس چوراہا لے گیا۔
وہاں واقعی قبرستان کے کونے پر ایک خشک پیپل کا درخت تھا۔
درخت ایک ہریجن استاد چندو بھائی کی زمین پر تھا۔
چندو بھائی نے جب موٹوانی سے حضرت جی کے خواب کے بارے میں سنا، تو اس نے فوراً زمین کا وہ ٹکڑا سید شاہ بابا کے مزار کے نام کرنے کا یقین دلایا۔
اس نے شرط بس اتنی رکھی کہ اس زمین پر جو بھی کام کیا جائے، اس کی اطلاع چندو بھائی کو بھی ضرور دی جائے۔
اس میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟
حضرت جی، موٹوانی اور چندو بھائی یہی تینوں اس زمین کے ٹکڑے کر کے ٹرسٹیز بنے۔
حضرت جی کے مسلمان مریدوں نے اعتراض کیا۔ اسلامی کاموں میں غیروں کو اتنی اہمیت دینا ٹھیک نہیں۔ سب سے پہلے باقاعدہ ایک کمیٹی بنائی جائے۔ حضرت جی اس کے اہم عہدیدار رہیں اور پھر سید شاہ بابا کے درگاہ کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا جائے۔
ان مخالفت کرنے والوں میں سلیمان درزی اور عزیز قریشی اہم تھے۔
حضرت جی نے انہیں اپنے گروپ میں شامل تو کر لیا ،مگر رسمی طور پر کوئی کمیٹی نہ بننے دی۔
اسی لیے حضرت جی کی موت کے بعد مشکلات پیش آنی شروع ہوئیں۔
موٹوانی نے صاف صاف اعلان کر دیا کہ حضرت جی کا جو حکم ہوگا، اس تعمیل کی جائے گی۔
سلیمان درزی اور عزیز قریشی دل مسوس کر رہ گئے۔ مسلمانوں کی زیارت گاہ پر غیر مسلموں کی اس طرح کی دخل اندازی ،ناقابل برداشت تھی۔
مگر کیا بھی کیا جا سکتا تھا؟
موٹوانی اور چندو بھائی کی وجہ سے ہی اس نئے مزار پر بھیڑ بڑھنے لگی۔
شروع شروع میں جو مسلمان اس اتحاد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہ بھی آہستہ آہستہ پگھلنے لگے۔
ہر جمعرات کو چڑھاوا آنے لگا۔زائرین کی تعداد میں بھی آہستہ آہستہ اطمینان بخش اضافہ ہونے لگا۔ وہاں پر اب زوردار سالانہ عرس منعقد ہونے لگا۔ بنارس اور پٹنہ سے قوال بلائے جانے لگے۔ آس پاس خوانچے اور دیگر ضروریات کی دکانیں سجنے لگیں۔
موٹوانی نے شہر کے مشہور پینٹر مشتاق سے سید شاہ بابا کی ایک تصویر بنوائی۔
پینٹر مشتاق ایک نمبر کا شرابی تھا۔ اس نے حضرت جی سے خواب والے بزرگ سید شاہ بابا کا حلیہ پوچھا۔ ان کے بیان اور اپنے تخیل کے زور سے اس نے کئی تصویریں بنائیں۔
ایک تصویر کو حضرت جی نے منظوری دے دی۔
وہ ایک سفید داڑھی اور بڑی بڑی آنکھوں والے خوبصورت بزرگ کی تصویر تھی۔
موٹوانی نے اپنی عقل استعمال کر کے ا س تصویر کے ساتھ، پیپل کے سوکھے درخت اور درگاہ شریف کی تصویر کا ایک بہترین کولالج سیٹ کروا کر ،اسے بہت بڑے سائز میں پرنٹ کروایا۔
اس نے ان تصاویر کو مزار شریف کے باہر لگنے والی پھولشیرینی کی دکانوں میں بھی زائرین کے لئے رکھوایا۔
موٹوانی کا بیٹا بڑا ہوشیار تھا۔ بارہویں کلاس میں تیسری بار فیل ہونے کے بعد وہ دھندے میں لگ گیا تھا۔ اس نے عرس کے موقع پر منعقدہ قوالی کے پروگرام کی ریکارڈنگ کروائی اور کٹنی جاکر چند کیسٹس تیار کروا لئے۔ ان کیسٹس میں سید شاہ بابا کی درگاہ کی شان و عظمت پر مبنی، بہترین قوالیاں موجود تھیں۔ ان کیسٹس کی ڈیمانڈ بڑھی ،تو پھر اس کا بھی ایک سلسلے وار دھندہ بن گیا۔
اس سے سید شاہ بابا کی مزار کی بھرپور مشہوری ہوئی، مگر کسے پتہ تھا کہ اتنی بڑی مذہبی شخصیت جناب حضرت جی کا اتنا غلیظ انجام ہوگا!
حضرت جی کی لاش پر اب مکھیاں بھی بھنبھنانے لگی تھیں۔
سید شاہ باباکے مزار کے سربراہ کی حالت زار پر، انکی درجن بھر اولادیں اور تینوں بیویاں دہاڑے مار مار کر رو رہی تھیں۔
حضرت جی کا یہ کمرہ بڑاعالیشان تھا،اس کے دو حصے تھے۔
ایک طرف شاندار ڈبل بیڈ، بڑی سی الماری، قد آدم آئینے والی ایک ڈریسنگ ٹیبل، کونے میں رکھا ہوا ایک شوکیس، جس پر رکھا تھا ایک کلر ٹیلی ویژن۔ دوسرے حصے میں حضرت جی کی عبادت گاہ تھی۔ خوبصورت قالین جیسی جائے نماز، کتابوں کی الماری جس میں عربی اردو کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔
اس افراتفری کے ماحول میں کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا ہوگا؟
مرحوم حضرت جی کی تیسری بیوی کلثوم اور انکے بڑے بیٹے حیدر نے روتے روتے ایک دوسرے کو دیکھا، تو جیسے انہیں لگا کہ اس طرح رو رو کر وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ ٹھوس فیصلے کئے جائیں۔
باقی لوگوں کو روتا دھوتا چھوڑ کر، وہ دوسرے کمرے میں آگئے۔
یہ کلثوم بیگم کا کمرہ تھا۔
حضرت جی کی سب سے پیاری بیوی کا کمرہ ۔۔۔ حضرت جی نے خود اس کمرے کی سجاوٹ میں دلچسپی لی تھی۔ حضرت جی کی نفیس سوچ کا ایک منفرد نمونہ!
ہلکے گلابی رنگ کی دیواریں اور اسی رنگ کی تمام چیزیں۔
کونے پر شاہی مسہری۔ موٹا گدا۔ مخملی چادریں اور نرم گاؤ تکیے۔
کلثوم بیگم مسہری پر بیٹھ گئیں۔
حیدر ان کے سامنے قالین پر رکھے موڑھے پر بیٹھ گیا۔
حضرت جی کی پہلی بیوی کا بیٹا حیدر، کلثوم بیگم کو دھیان سے دیکھنے لگا۔
کلثوم محض تیس برس کی کسے بدن والی لڑکی تھی۔
حضرت جی سے شادی سے پہلے اس کا نام کسم تھا۔
کسم سے کلثوم بننے کی بھی ایک کہانی ہے۔
موٹوانی کے پھیلائے جال میں کسم کا تیلی باپ پھنس گیا۔
کسم کے باپ گردھاری گپتا کی شہر میں ایک ویران اور بے رونق سی کریانہ کی دکان تھی۔ سیٹھ گردھاری گپتا جب خود دکان پر بیٹھتا، تو ایک بھی گاہک نہ آتا۔ جب اس کی بیٹیاں دکان سنبھالتیں، تب کہیں جاکر ' 'بوہنی بٹّا‘‘ ہوپاتا۔
کہنے والے کہتے کہ گردھاری گپتا کی دکان میں ہر سائز کا مال ملتا ہے۔
پانچ بیٹیاں، پانچ سائز ۔۔۔
گردھاری گپتا نے ایک عدد بیٹے کی کھوج میں گپتائن کے ساتھ کئی تجربات کئے۔ پانچ بیٹیوں کے بعد اسے بیوی کی خراب ہو چکی بچے دانی کا آپریشن کروانا پڑا۔ پر بیٹا ایک بھی نہ ہوا۔
کسم منجھلی بیٹی تھی۔
اس سے بڑی ایک بہن نے ہاتھ پیلے نہ ہونے کے غم میں خود کشی کی تھی۔
فطرتاً چنچل کسم بے وقت مرنا نہیں چاہتی تھی۔
اسے زندگی سے پیار تھا۔
موٹوانی کا ا سٹوڈیو اس کی دکان کے سامنے تھا۔
لڑکے والوں کو دکھانے کے لئے وہاں سے، اسکی کئی تصویریں کھنچوائی گئی تھیں۔
موٹوانی فارغ وقت میں اپنے اسٹوڈیو سے بیٹھاکسم کو لائن مارا کرتا تھا۔
اس امید پر کہ شاید کبھی تو وہ پگھلے اور کسم کون سا پتھر تھی کہ نہ پگھلتی۔
موٹوانی نے کسم کی سینکڑوں تصویریں مختلف پوزوں میں کھینچیں۔ لڑکے والے کسم کو پسند کر بھی لیتے ،مگر جہیز کی ڈیمانڈکے آگے گردھاری گپتا گھٹنے ٹیک دیتے۔
ایک دن موٹوانی نے گردھاری گپتا کو بیٹیوں کے موزوں وروں کے لئے، سید شاہ بابا کی درگاہ پر جاکر منت مانگنے کا مشورہ دیا۔
پھر تو گردھاری گپتا کے خاندان کا درگاہ شریف جاکر منتیں مانگنے کا سلسلہ ہی بن گیا۔
حضرت جی تب ادھیڑ تھے۔ ان کے تندرست بدن پر روحانیت کا رنگ بے مثال تھا۔ جب سے وہ درگاہ شریف کے متولی بنے، انہیں اچھی خوراک بھی ملنے لگی۔ گال گلابی اور آنکھیں نشیلی سی لگنے لگی تھیں۔ درگاہ شریف میں آنے والی خواتین انکی خوبصورت شخصیت کے سحر کا شکار ہونے لگی تھیں۔
حضرت جی کی دو بیویاں تھیں، مگر اب ان میں وہ بات نہ تھی۔
کسم حضرت جی کی سحر انگیز شخصیت کے جال میں کب قید ہوئی، اسے پتہ ہی نہ چلا۔
موٹوانی سے اس کا چکر چل ہی رہا تھا۔
حضرت جی بھی چاہتے تھے کہ کسم ان کی محبوبہ بنے۔
اور کسم نے خود ایک دن انہیں اسکا موقع فراہم کر دیا۔
ایک جمعرات ،جب وہ ماں کے ساتھ مزار شریف پر نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے آئی، تب اس نے حضرت جی کو اکیلے پا کر ان سے دریافت کیا۔
حضرت جی کے ہاتھوں میں مورپنکھ کا جھاڑو تھا اور وہ اس سے سید شاہ بابا کے مزار کی صفائی میں مصروف تھے۔
ان کے پاس جا کر کسم نے کہا ،’’'میں خود کشی کرنا نہیں چاہتی حضرت جی ۔۔!‘‘
حضرت جی نے آنکھیں جھپکائیں، یعنی کہ چڑیا خود جال میں آئی ہے۔
’’۔۔۔ میری مری دیدی کی روح مجھے اپنے پاس بلاتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں بھی گلے میں دوپٹہ ڈال کر چھت سے جھول جاؤں۔ میں کیا کروں بابا ؟۔۔۔ مجھے راہ دکھائیے۔ ‘‘
حضرت جی نے کہا کہ تم سید شاہ بابا کے مزار کی خدمتگار بن جاؤ اور یہاں آنے والی خواتین اور شردھالو مہلاؤں کی خدمت کرو۔
کسم تیار ہو گئی۔
شہر میں اس کی مخالفت ہوئی۔
ہندوتووادی سنگٹھنوں نے جب ایک ہندو لڑکی کا یہ اقدام دیکھا تو وہ ہاف پتلونوں اور دھوتیوں سے باہر ہوئے۔
کسم نے کسی بھی طرح مزار شریف سے باہر نکلنا قبول نہ کیا، تب حضرت جی نے صورتِ حال کو سنبھالا۔
انہوں نے کسم کو نکاح کی پیشکش کی۔
اس طرح کسم ان کی تیسری بیوی بنی۔
اس کا نام نکاح کے بعد کلثوم ہو گیا۔
حضرت جی کا بڑا بیٹا حیدر، کسم کے ساتھ پرائمری ا سکول میں پڑھ چکا تھا۔
اس نے باپ کی تھوڑی مخالفت کی، مگر کسم سے کلثوم بنی، کسم نے جلد ہی اسے یہ احساس کرا دیا کہ وہ اس کی چھوٹی ماں نہیں رہے گی، بلکہ وہ تو اس کی کسم ہی رہے گی۔
کلثوم کے موٹوانی سے جسمانی تعلقات پہلے ہی سے تھے۔ اب اس فہرست میں دو اور لوگ شامل ہو گئے۔ حضرت جی اور انکا بڑا بیٹا حیدر۔
درگاہ کمیٹی کے لوگ سب جانتے تھے ،لیکن حضرت جی کے آگے کسی کی نہ چلتی۔
حضرت جی کی بے وقت موت سے پیدا ہوئے اس بحران میں، حیدر جانتا تھا کہ کلثوم بی بی کوئی نہ کوئی آسان حل ضرور نکال لے گی۔
کلثوم بیگم کی مسہری کی سائیڈ ٹیبل پر فون رکھا تھا۔
یہ فون خاص کلثوم بیگم کے لئے لگایا گیا تھا۔ اس سے صرف وہی بات کیا کرتیں۔
گھر میں جو دوسرا فون تھا، اسے دیگرگھر والے استعمال کرتے تھے۔
حیدر فون کی طرف دیکھ رہا تھا، جس کا مطلب کلثوم بیگم سمجھ گئیں۔
کلثوم بیگم نے فوری طور پر موٹوانی کا نمبر ملایا۔
کلثوم بیگم کی کھوئی کھوئی اور حیرت میں ڈوبی آنکھوں میں حیدر نے جانے کیا پا لیا تھا کہ وہ بھول گیا کہ اس کے والد صاحب انتقال فرما چکے ہیں۔ اوران کی گُو مُوت سے لتھڑی لاش باتھ روم میں پڑی ہوئی ہے۔ گھر میں تمام لوگوں کا رونا دھونا مسلسل چل رہا ہے۔ اس کی اپنی ماں اور منجھلی ماں کا روتے روتے برا حال ہو چکا ہے۔ اپنے درجن بھر بھائی بہنوں کے ساتھ، آج وہ بھی یتیم ہو گیا ہے۔ وہ سب بھول چکا ہو جیسے!
حیدر، کلثوم بیگم کے حسن میں بندھا ہوا تھا۔
وہ کلثوم بیگم کو چھوٹی ماں کبھی نہیں کہتا تھا۔
کہتا بھی کیسے؟
شاید ادھر سے موٹوانی کی آواز سنائی دی ہو ،تبھی تو کلثوم بیگم کی آنکھیں چمکیں۔
کلثوم بیگم نے روہانسی آواز میں بتایا ،’’حضرت جی نہیں رہے موٹوانی جی! آپ فوری طور پر چلے آئیے۔ ہو سکے تو چندو بھائی کو بھی لیتے آئیے۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کروں؟‘‘
اُدھر سے کچھ کہا گیا۔
کلثوم نے کہا ،’’آپ دوڑے چلے آئیے اور اپنی آنکھوں سے سب دیکھئے۔ میں کچھ بھی بتا نہیں پاؤں گی۔ میرا دماغ کام نہیں کر رہا ہے موٹوانی جی۔‘‘
اور پھر وہ فون پر ہی رونے لگیں۔
کلثوم بیگم نے فون رکھ دیا۔
حیدر اٹھ کر مسہری پر، کلثوم بیگم کی بغل میں بیٹھ گیا۔
کلثوم بیگم نے روتے روتے اپنا سر حیدر کے کندھے پر رکھ دیا۔
حیدر ان کے بال سہلاکر انہیں تسلی دینے لگا۔
حیدر کو ذرا بھی رونا نہیں آ رہا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اگر موٹوانی سے پہلے، سید شاہ بابا کی درگاہ کمیٹی سے منسلک سلیمان درزی اور عزیز قریشی کو، حضرت جی کی ناپاکی کی حالت میں موت کی بھنک لگ گئی، تو غضب ہو جائے گا۔
حضرت جی جیسے پائے کے بزرگ کا انتقال اور وہ بھی ناپاک حالت اور غلاظت والی جگہ میں؟
وہ کلثوم کے کانوں میں بھنبھنایا،’’ سنبھالیے اپنے آپ کو۔ چل کر بُڑھاہو کو باتھ روم سے باہر نکال کر، انہیں پاک صاف کرنے کا جگاڑ کرتے ہیں۔‘‘
وہ دونوں اٹھ کر پھر اسی کمرے میں پہنچے۔
حیدر نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں سے کہا کہ وہ باغ سے پلاسٹک کا لمبا والا پائپ نکال کرلے آئیں۔ اسی پائپ سے حضرت جی کی لاش دھوئی جائے گی۔
حجامت کی دکان میں بیٹھنے والے دونوں بھائی پائپ لے کر آ گئے۔
پائپ فوری طور پر نل سے جوڑا گیا۔
تب تک موٹوانی اور چندو بھائی بھی آ گئے۔
حضرت جی کی حالت زار دیکھ کر، موٹوانی نے رومال ناک پر لگا لیا اور حیدر سے کہا کہ فوری طور پر لاش کو دھو پونچھ کر، حجرے میں لٹا دیا جائے۔
پائپ سے پانی کا تیز پریشر دے کر لاش کو دھویا جانے لگا۔
موٹوانی نے کلثوم بیگم کو اشارہ کیا اور وہ دونوں کلثوم بیگم کے کمرے میں چلے گئے۔
وہاں جو بھی باتیں ہوئی ہوں ،معلوم نہیں، لیکن باہر نکل کر موٹوانی زارو قطار رونے لگا۔
روتے روتے وہ صرف یہی دہراتا کہ حضرت جی نے کل شام کو ہی اپنے جانے کا اشارہ دے دیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ آنے والے کسی بھی وقت پردہ فرما سکتے ہیں۔
حضرت جی نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں سید شاہ بابا کی قبر کے برابر دفن جائے۔
حیدر، موٹوانی کی اس بے سروپیر کی بات سن چونکا، تو کلثوم بی بی نے جھٹ اشارہ کر دیا کہ وہ چپ رہے اور دیکھتا جائے۔ یہ جو کرے گا سب ٹھیک ہی ہوگا۔
حیدر کی نگرانی میں حضرت جی کی لاش دھوپونچھ کر، ان کے حجرے میں لیجائی گئی۔
اگربتی اور لوبان کے دھوئیں کے درمیان لاش کو کفن پہنا دیا گیا۔
سلیمان درزی اور عزیز قریشی نے حضرت جی کو فجر کی نماز میں نہ پایا، تو وہ دونوں سیدھے حضرت جی کی خیریت جاننے حجرے کی طرف آئے۔
وہاں انہوں نے دیکھا کہ حضرت جی کی لاش رکھی ہوئی ہے اور آہ و زاری مچی ہوئی ہے۔
موٹوانی، چندو اور کلثوم بیگم کی تِگڑی دیکھ کر ان دونوں کا ماتھا ٹھنکا۔
یعنی کہ غیروں کو خبر دے دی گئی، لیکن ہم مذہبوں کو کچھ بھی پتہ نہیں۔ ضرور اس میں کوئی چال ہے۔
انہیں دیکھ موٹوانی اور زور زور سے رونے لگا۔
’’۔۔۔ ہائے حضرت جی ہمیں یتیم کر گئے ۔۔۔ میں آپ کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔ سید شاہ بابا کی قبر کے برابر آپ کو دفنایا ہی جائے گا۔‘‘
سلیمان درزی اور عزیز قریشی، حضرت جی کی پہلی بیوی یعنی کہ حیدر کی ماں سے ملے۔ ان لوگوں نے روتے روتے واقعے کی پوری تفصیل انہیں دی۔ یہ بھی بتایا کہ باتھ روم میں حضرت جی کی موت ہوئی تھی۔
تفصیل سن کر سلیمان درزی دہاڑے،’’اتنی بڑی بات ہو گئی اور ہمیں خبر ہی نہیں دی گئی۔‘‘
’’حد ہو گئی! کیا جنازے کی نماز بھی ان کافروں سے پڑھوائیں گے آپ لوگ؟‘‘
عزیز قریشی اسی طرح زہر اگلا کرتے ہیں۔
چندو بھائی سے رہا نہ گیا تو اس نے کہا،’’اگر اتنا ہی آپ لوگ حضرت جی کے قریبی تھے ،تو حضرت جی نے پردہ ہونے سے پہلے آپ لوگوں کو کیوں نہیں وصیت کی؟‘‘
دونوں تلملا گئے ، لیکن کیا کرتے؟
بازی پلٹ چکی تھی۔
اب ایک ہی حل بچا تھا کہ موٹوانی کی وصیت والی بات کو جھوٹا ثابت کیا جائے۔
وہ دونوں اڑ گئے کہ ایسا ہو نہیں سکتا۔
حضرت جی کو سید شاہ بابا کی مزار شریف کے برابر دفن کرنا جائز نہیں۔
اس سے سید شاہ بابا کی درگاہ کی بے حرمتی ہو گی۔ ایسے تو ان کے بعد جتنے بھی گدی نشین ہوں گے، انہیں بھی درگاہ شریف کے اندرونی حصے میں دفن کرنا ہوگا۔
موٹوانی روئے جا رہا تھا۔
اس کی یہی فریاد تھی کہ مرحوم حضرت جی نے جو وصیت کی تھی، اگر اس پر عمل نہ کیا گیا، تو ان کی روح کو چین نہ ملے گا۔
موٹوانی کی بات کی کلثوم بی بی اور حیدر حمایت کر رہے تھے۔
حضرت جی کے پردے فرمانے کی خبر ،جنگل میں آگ کی طرح چاروں طرف پھیل گئی۔
بڑی تعداد میں معتقد ین اورشردھالو آنے لگے۔
حضرت جی کی لاش پھولوں کی چادروں سے ڈھکنے لگی۔
موٹوانی نے اپنا اسٹوڈیو بند کرواکر ، سبھی شاگردوں کو ویڈیو وغیرہ بنانے کے کام میں لگا دیا۔
کلثوم بی بی، موٹوانی اور چندو بھائی کی غمگین صورتوں کے ساتھ ،حضرت جی کی لاش اور معتقد ین اورشردھالوؤں کی عقیدت مندی کے نظارے کیمرے میں قید ہونے لگے۔
حضرت جی کی موت کے اس موقع پرستی والی مہم کو دیکھ کر سلیمان درزی، عزیز قریشی اور تمام مسلمان بھائی تلملا رہے تھے۔
وہ کہاں سے فتوی لاتے کہ عام انسان کو زبردستی پہنچا ہوا ثابت کرنا گناہ ہے۔ وہ کس طرح ثابت کرتے کہ موٹوانی کے خواب کی باتیں من گھڑت ہیں۔ اگر موٹوانی کا خواب من گھڑت ہے ،تو پھر حضرت جی نے جس خواب کا ذکر کرکے سید شاہ بابا کی درگاہ کا پروپیگنڈہ کیا تھا، وہ کیا تھا؟
بیشک، یہ تو سچ ہے کہ حضرت جی کو سید شاہ بابا نے خواب میں اپنا دیدار کرایا تھا، لیکن موٹوانی کو حضرت جی نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی، یہ بات کسی کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی۔
ماحول اب ایسا بنتا جا رہا تھا کہ موٹوانی کی بات کو جھٹلانے سے، اِنہی لوگوں پر وہابی ہونے کا فتوی جاری کیا جا سکتا تھا۔
وہابی یعنی مزاروں اور درگاہوں کا احترام نہ کرنے والے مسلمان، وہابی یعنی کہ نبی اور اولیاء پر درود وسلام نہ بھیجنے والے مسلمان، وہابی یعنی کہ برادری سے باہر کر دیے جانے کا ڈر ۔۔۔
سلیمان درزی اور عزیز قریشی بڑی کشمکش میں پھنس چکے تھے۔
انہیں لگنے لگا کہ اب موٹوانی کی وصیت والی تھیوری کی حمایت کرنے میں ہی بھلائی ہے ،ورنہ وہابی ہونے کا فتوی انہیں جھیلنا پڑ سکتا ہے۔
اور اس طرح سید شاہ بابا کی درگاہ شریف میں دو، دو قبریں بن گئیں۔
***
0 Comments