Subscribe Us

Header Ads

پردہ لولاک پہ خطاطی کا دعوے دار مصور صادقین ___

: پردہ لولاک پہ خطاطی کا دعوے دار مصور صادقین ___
*موت ڈاٹ کام مالیگاوں*کے لیے خصوصی طور پر*Maut. Com. Malegaon*___مصوری پہ اہم مضبون 

عالم گیر شہرت یافتہ مصور صادقین کے دورۂ بھارت کی چند خوش گوار جھلکیاں، سید فیضان رضا کے قلم سے
سید فیضان رضا (شاداب عظیم آبادی) جے پور، بھارت 

 
سید صادقین احمد نقوی ولد سید سبطین احمد نقوی کا نام دنیا کے کسی گوشے میں محتاج تعارف نہیں ہے ۔ آج بروز 30 جون اس کامل فن مصور کا یوم پیدائش ہے، لہذا انہیں یاد کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا ہے ۔ صادقین 1930ء میں امروہہ کے ایک موقر گھرانے میں پیدا ہوۓ ۔ آپ نے بی۔اے۔ کی سند آگرہ یونیورسیٹی سے حاصل کی ۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلے گئے اور وہاں ترقی کی سیڑھیاں بجلی کی رفتار سے جڑھنے لگے ۔


صادقین دورۂ بھارت کے موقع پر احباب کے ساتھ
انہیں ہندوستان اور امروہہ کی یاد تو ہمیشہ ستاتی تھی لیکن وطن آنے کا موقع صرف ایک بار ہی ملا ۔ لہذا وہ 2 نومبر 1981ء کو 33 سال کے بعد پاکستان سے ہندوستان آۓ ۔ جب امروہہ کی محبت نے جوش دکھایا تو 5 نومبر کو اہل امروہہ سے ملاقات کے لیے چلے گئے ۔ یوں تو ہندوستان کے سفر کا ارادہ صرف چند دنوں کا ہی تھا، لیکن ارض وطن کی محبت نے اسے طوالت بخشی اور موصوف ہندوستان میں 30 دسمبر 1982ء تک مقیم رہے ۔ اس دوران انہوں نے ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور اپنے فن پاروں سے انہیں منور کیا ۔ دہلی، امروہہ، علی گڑھ، حیدراباد (دکن)، بنگلور، میسور، بنارس اور لکھنؤ کے اہل فن ابھی بھی صادقین کے سحر سے مسحور ہیں ۔ آپ نے ٹیپو سلطان سے اپنی محبت کا ثبوت سری رنگا پٹنہ میں اس مجاہد آزادی کے مزار پر حاضری دے کر دیا ۔ ارادہ تو جیپور میں بھی نمائش کا تھا لیکن چند اسباب کی بنا پر وہ مکمل نہ سکا ۔

وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کرتے رہے لیکن سفر کا مرکز دہلی ہی رہا ۔ ؎

لپٹتی ہے بہت یاد وطن جب دامن دل سے
پلٹ کر اک سلام شوق کر لیتا ہوں منزل سے

صادقین کے دہلی میں قیام کا مفصل حال مرحوم گلزار احمد نقوی صاحب نے اپنے ایک طویل مضمون، صادقین: وہ رنگا رنگ بزم آرائیاں، میں قلمبند کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ “غالباً 1981ء کے نومبر کی پہلی تاریخ اور رات کے آٹھ بجے تھے جس وقت بھائی صادقین دہلی پہنچے تھے ۔ میں ان کو ایر پورٹ لینے شاید عام حالات میں بھی جاتا مگر سرکاری طور پر ذمے داری ملنے کے بعد یہ آسانی ہو گئی کہ میں گاڑی، ڈرائیور، وغیرہ کی پریشانی سے آزاد ہو گیا تھا”۔ صادقین کا گلزار صاحب کو پہلی مرتبہ دیکھ کر یہ کہنا کہ “تم گلزار ہو بلکہ گل و گلزار ہو”، ان کی ذہانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ ؎

دماغ بر سر ہفت آسماں تھا دہلی کا
خطاب خطہ ہندوستاں تھا دہلی کا

صادقین کے بھانجے محمد حیدر نقوی عرف مما (بانی صادقین میموریل ٹرسٹ) بتاتے ہیں کہ ان کے ماموں کو ہندوستان آنے کی دعوت پاکستان میں ہندوستانی سفیر کنور نٹور سنگھ صاحب نے دی تھی، لہذا وہ بطور سرکاری مہمان ہندوستان تشریف لاۓ تھے ۔ وہ دہلی کے معروف امپیریل ہوٹل کے کمرہ نمبر 45 میں ٹھہرے ۔ یہ کمرہ ایک خاص احمیت کا حامل تھا کیونکہ جب بھی بانی پاکستان محمد علی جناح دہلی آتے تو وہ اسی کمرے میں ٹھہرتے تھے ۔

خیر، صادقین کا پہلا استقبالیہ غالب اکاڈمی، دہلی، میں ہوا جہاں سامعین کی ایک درخشندہ محفل انہیں سننے کو بے چین تھی ۔ مہمانوں میں مقبول فدا حسین، خوشونت سنگھ، کنور نٹور سنگھ، عبدالستار، کلدیپ نیر، عبدالحمید، مالک رام، مہندر سنگھ بیدی اورگوپی چند نارنگ کے اسماۓ گرامی قابل تحریر ہیں ۔ اس تقریب کے بعد صادقین نے دہلی میں انٹر نیشنل ٹریڈ فیر اور للت کلا اکاڈمی میں اپنی تصاویر کی نمائش کی ۔ للت کلا اکاڈمی میں منعقدہ نمائش کا افتتاح معروف مصور مقبول فدا حسین صاحب نے کیا تھا۔ مقبول صاحب خود ہی عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ تھے، لیکن وہ بھی مرتے دم تک صادقین کی مصوری اور محبت کا دم بھرتے رہے ع

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ!

دہلی میں ان کامیاب تقاریب و نمائش کے بعد موصوف کو ملک کے دوسرے شہروں کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ صادقین کے علی گڑھ دورے کی ایک جامع اور مستند رپورٹ پروفیسر منظر عباس نقوی صاحب فراہم کرواتے ہیں ۔ وہ اپنے مضمون، بھائی صادقین علی گڑھ میں۔کچھ یادیں، میں مصور کے علی گڑھ کے قیام کا ایک زندہ اور موثر نقشہ کھینچتے ہیں ۔ ؎

اے علی گڑھ اے جواں قسمت دبستان کہن
عقل کے فانوس سے روشن ہے تیری انجمن

موصوف نے جنوری اور فروری 1982ء میں علی گڑھ کا دورہ کیا اور اس دوران انہوں نے کینیڈی ہال اورمولانا آزاد لائبریری میں مصوری کے جادو بکھیرے ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یونیورسیٹی کے شعبہ جغرافیہ کے لیے میٹل کا میورل بنایا جو اب تک موجود ہے ۔

علی گڑھ میں ایک روز مشہور مورخ پروفیسر خلیق احمد نظامی صاحب کے گھر دعوت کا اہتمام تھا ۔ صاحب خانہ نے انواع و اقسام کے کھانے بنواۓ تھے ۔ یا یوں کہا جاۓ کی کھانوں کی ایک قطار لگا دی تھی۔ لیکن صادقین نے صرف ماش کی دال پر اکتفا کیا۔ نظامی صاحب کے اصرار پر بولے: “سر، میں امروہوی کھانوں کا شوقین تو ہوں لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم لوگ ون۔ڈش۔مین ہیں ۔ یعنی ایک وقت میں عموماً ایک ہی سالن سے روٹی کھاتے ہیں۔ آج ماش کی دال ہی سہی”۔

ایک دن علی گڑھ میں ویمینز کالج کی طرف سے مسعود محل میں ایک تقریب رکھی گئی تھی جہاں 

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانا آتا ہے

اگر ہمارے میر تقی مؔیر بہ حیات ہوتے تو وہ اپنا شہرت یافتہ شعر اسی موقع پر پڑھتے ۔ ؎

آگے جب اس آتشیں رخسار کے آتی ہے شمع
پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع

جی ہاں، صادقین کو علی گڑھ کی علیگ برادری میں شامل ہونے کا دیرینہ شوق تھا ۔ یہ خواہش تب بر آئی جب ایک جلسے میں انہیں یونیورسیٹی کے وائس چانسلر نے شیروانی اور بیج بطور تحفہ عطا کیا ۔ یہ شیروانی ان کے علی گڑھ میں کیے گئے کارہاۓ نمایاں کا انعام تھی، کیونکہ صادقین پیسے کے بھوکے نہیں تھے بلکہ محبت کے متمنی تھی اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہندوستان میں کیے گئے کاموں کا کوئی بھی معاوضہ طلب نہیں کیا، اور اگر کسی نے دینے کی کوشش کی بھی تو اسے انتہائی محبت سے منع کر دیا۔

علی گڑھ کے قیام کے بعد صادقین چند دنوں کے لیے دہلی پلٹے جہاں 18 فروری 1982ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسیٹی میں ان کی تصاویر کا ایک اگزبیشن ہوا۔

شمالی ہندوستان کی سیر کرنے کے بعد اب جنوب کی منازل ہمارے مصور کی راہ دیکھ رہی تھیں۔ لہذا صادقین نے حیدراباد (دکن) کی محبت میں رخت سفر باندھا اور نکل پڑے نئے اشخاص و تجربات کی تلاش میں ۔

صادقین کے حیدراباد (دکن) کے دورے کے بارے میں محمد حیدر نقوی صاحب لکھتے ہیں: “دہلی میں غالب اکاڈمی کے شاندار استقبالیہ میں حیدراباد کے مشہور اخبار سیاست کے مدیر عابد علی خاں بھی موجود تھے جنہوں نے صادقین صاحب کو حیدراباد آنے کی دعوت دی ۔ اردو گھر حیدراباد کے لیے انہوں نے کچھ پینٹینگ بنانے کی درخواست کی ۔ صادقین نے اپنے علی گڑھ کے دورے کے بعد حیدراباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اردو گھر حیدراباد کے لیے ایک عظیم اور شاندار 30 فٹ لمبی پینٹینگ بنائ۔ اس کی نمائش میں ڈاکٹر سید محمود جو ایک بین الاقوامی سائنسی ادارے سے وابستہ تھے وہ اپنے ڈائریکٹر ڈاکٹر ہری نارائن کے ساتھ پہنچے تھے ۔ ڈاکٹر نارائن اس میورل سے بہت زیادہ متاثر ہوۓ اور صادقین صاحب سے ملاقات کے دوران انہوں نے اپنے سائنسی ادارے این۔ جی۔ آر۔ آئی کے لیے سائنس متعلق میورل بنانے کی درخواست کی ۔ ان کی درخواست پر ایک ماہ کے قیام کے پر صادقین نے متعلقہ ادارے کے لیے شاندار فنکاری کی” ۔ قارئین و محققین کے لیے بتا دوں کہ اردو گھر میں نمائش 4 مارچ 1982ء اور این۔جی۔ آر۔ آئی کے میورل کی نقاب کشائی 22 مارچ 1982ء کو عمل میں آئی تھی۔ ؎

حیدراباد جسے شہر نگاراں کہییے
رنگ رخسار سحر حسن بہاراں کہییے

سچ ہے مسافر کو نہ دن میں چین تھا، نہ رات کو آرام ۔ خدمت خلق کا وہ جذبہ تھا کہ سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔ اب باری تھی حیدراباد (دکن) کو الوداع کہنے کی اور ساتھ ہی تلاش تھی ایک نئی منزل کی ۔ لہذا قطب شاہی سلاطین کی سرزمین سے مزید جنوب میں عظیم مجاہد آزادی شہید ٹیپو سلطان کا مسکن تھا ۔ شہر کا نام تھا سری رنگا پٹنہ۔ شہر تو ویران ہو چکا تھا لیکن سلطان کے نام لیوا اب بھی باقی تھے ۔ ساتھ ہی قائم تھیں سلطان کی نشانیاں ۔ تو بس، صادقین بنگلور ہوتے ہوۓ سری رنگا پٹنہ پہنچے ۔ شہید سلطان کے لیے فاتحہ پڑھا اور لکھا بھی ۔ جی ہاں، لکھا۔ فاتحہ کی آیات کو قرطاس پر نمایاں کیا اور اسے اپنی طرف سے مجاور کو دے دیا ۔ یہ تھا مصور کا تحفہ ۔ بعد کو نہ جانے اس فن پارے کے ساتھ کیا ہوا ۔ اب تو اس کا کوئی سراغ بھی نہیں ملتا ہے ۔ قرنیہ اغلب ہے کہ یہ بھی دیگر نگینوں کی طرح یا تو تباہ ہو گیا یا کسی رئیس کی دولت کی نذر ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ؎

بسی ہے جنگ سرنگا پٹام آنکھوں میں
کسی شہید پہ سایہ کیے ہیں شمشیریں
مرے شہید ترے نام پاک سے قومیں
کریں گی آیۂ حب وطن کی تفسیریں
اس ایک جان گرامی پہ لاکھ جاں صدقے
اس ایک موت پہ سو عمر کاوداں صدقے

اس طرح حیدراباد (دکن) اور میسور کے دن خوش گوار گزرے۔ لیکن مسافرت کا یہ سلسلہ اتنا جلد منزل مقصود کو نہیں پہنچنے والا تھا ۔ گنگا جمنی تہذیب کا یہ علمبردار اب واقعی گنگا کے پانی سے اپنی تشنہ لبی ختم کرنا چاہتا تھا۔ یوں بھی ایسے فقیر و قلندر کی ارواح پیاسی ہوتی ہیں ۔ آب بقا نہ سہی یہی سہی ۔ مانو تو امرت نہیں تو صرف پانی ۔ اور ہاں، گنگا تب تک میلی نہیں ہوئی تھی ۔ دھیرے دھیرے آلودگی کے اسباب مہیہ ضرور ہو رہے تھے ۔ غالباً وہ بھی اسی انتظار میں تھی کہ دور دیس سے آے مسافر کو سیراب کر لے پھر زہر پینے کا سلسلہ شروع ہو ۔ ؎

ہر اک کو بھاتی ہے دل سے فضا بنارس کی
وہ گھاٹ اور وہ ٹھنڈی ہوا بنارس کی

خیر، حیدراباد کے قیام کے بعد یہ عظیم مصور بنارس کی طرف چل نکلا اور آخر کار 10 مئی 1982ء کو اس کی کشتی گھاٹ کے کنارے لگی ۔ وہاں ان کی ملاقات بنارس کے راجہ صاحب سے ہوئی ۔صادقین نے بنارس ہندو یونیورسیٹی کے لیے ایک میورل تیار کیا۔ اگلے مہینے کی گیارہ تاریخ کو راجہ صاحب نے بھارت کلا بھون(بی۔ایچ۔ یو) کے میورل کی نقاب کشائی کی ۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے نقاب کے پشت پر بے صبری سے انتظار کر رہے فن پاروں میں روح پھونک دی گئی ہو ۔

بنارس ہندو یونیورسیٹی میں صادقین کی مصوری کو خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ یونیورسیٹی اور دیگر اداروں سے وابستہ طلاب ان سے ملاقات کا شرف پاتے رہے اور مصوری کے باریک نکات سے فیض یاب ہوتے رہے ۔

یہاں صادقین کا ایک ۔ ڈیڑھ مہینے کا قیام اچھی یادوں میں ملبوس رہا اور مصور نے اس شہر کو خیرباد کہا۔ اگر مرزا غاؔلب زندہ ہوتے تو صادقین کو اتنا جلد نہ جانے دیتے ۔ ایک تو غاؔلب خود ہی بنارس کے دلدادہ تھے، اس پر صادقین غاؔلب کے عاشق ۔ عشق غاؔلب اس کمال پر تھا کہ مجتبیٰ حسین صاحب سے پہلی ملاقات بھی مزار غاؔلب پر ہی کی ۔ خیر، بڑے لوگوں کی باتیں اور اطوار بھی عظیم ہوتے ہیں۔

وہ کشتی جو گنگا کے کنارے اپنے سوار کا انتظار کر رہی تھی اب گومتی ندی میں ہچکولے کھانے کے لیے آمادہ تھی۔ یوں بھی امروہہ اور لکھنؤ کا رشتہ پرانا ہے۔ ؎

رات دن چین ہم اے رشک قمر رکھتے ہیں
شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں

23 جون 1982ء کو لکھنؤ کے للت کلا اکاڈمی میں صادقین نے اپنے فن کے جوہر دکھاۓ ۔ جون کا مہینہ لکھنؤ میں کسی عزاب سے کم نہیں ہوتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسی عزاب سے نجات پانے کے لیے مصور نے در و دیوار کو عجلت میں سلام کیا اور دہلی کی راہ لی۔ ؎

در ودیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

غالب کی محبت انہیں دوبارہ غالب اکاڈمی، دہلی، تک کھینچ لائی جہاں 18 جولائی 1982ء کو موصوف کی خطاطی کا اگزبیشن منعقد ہوا ۔ بعد ازاں انہیں اگست کے مہینے میں انٹرنیشنل مرکری اوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ موصوف ستمبر سے نومبر 1982 ء تک انڈین انسٹیچیوٹ اوف اسلامک اسٹڈیز میں اسماۓ حسنہ کا عکس بناتے رہے، جس کی رونمائی دسمبر کے مہینے میں عمل میں آئی ۔ یہ موقع تھا دہلی میں منعقد انٹر نیشنل قران کانفرینس کا۔ یہ وہ آخری عظیم کارنامہ تھا جسے صادقین نے دہلی میں انجام دیا ۔ ؎

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے یہی نا، کہ دو پشت چار پشت

اب وہ موقع بھی آ گیا تھا جسے صادقین چاہ کر بھی نہیں روک سکتے تھے ۔ سلام آخر کے لیے وہ اپنے وطن امروہہ گئے ۔ وہاں 26 دسمبر 1982ء کو آل احمد گرلز کالج میں میں ان کی تصاویر کا ایک منفرد اگزبیشن ہوا ۔ دل میں وطن سے رخصت ہونے کے خیال نے انہیں پریشان کر رکھا تھا ۔ صادقین جہاں بھی گئے اپنی امروہیت ساتھ لے کر گئے ۔ لیکن اب معاملہ بر عکس تھا ۔ اب تو امروہہ کو ہی الوداع کہنا تھا ۔ با دل نا خواستہ دوستوں، احباب، قرابت داروں، رشتہ داروں، گلی، محلوں سے رخصت ہو کر دہلی پہنچے، جہاں سے 30 دسمبر 1982ء کو طیارے میں سوار ہوکر اور پاکستان چلے گئے اور ایسا گئے کہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آۓ ۔ ؎

علم و ہنر کا مرکز ہے اور شہر ہے جؔون و ناؔصر
جب تک چاند ستارے چمکیں امروہہ آباد رہے

لا ریب، زندگی بے وفا ہے ۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین دنیا سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کے ارتحا ل سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ نہ ابھی تک پر ہوا ہے اور نہ کبھی آگے ہوگا ۔ بقول شاؔد عظیم آبادی ؎

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

Post a Comment

0 Comments