Subscribe Us

Header Ads

راجہ روی ورما کی ایک پینٹنگ 


 جمالیات کا مصور .....راجہ روی ورما 


حقانی القاسمی


 



             غالب نے کہاتھا:

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری

تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے

شاید راجہ روی ورما نے بھی اپنی محبوبہ کے لیے ہی مصوری سیکھی ہوگی مگر وہ خود ہی مصوری کی وجہ سے ’محبوب‘ بن گئے اور اسی مصوری نے انہیں ہندوستانی آرٹ کی تاریخ میں زندہ جاوید کردیاہے۔

ہندوستانی آرٹ کو نئی جمالیاتی جہت، نیازاویہ اور اسلوب عطاکرنے والی شخصیت اور جدید ہندوستانی جمالیات میں انقلاب بپا کرنے والے راجہ روی ورماکوئل تھمپورن (1848-1906) کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے مذہبی رزمیے رامائن اورمہابھارت کے اساطیری کرداروں کو کینوس پراتار کران دونوں رزمیوں کے ذریعہ ہندوستان کے Ethosکو عوامی شعور سے متعارف کرایا اوران میں ارضیت کا عنصر شامل کرکے نئی طرفیں کھول دیں۔ 

راجہ روی ورمانے اپنی پینٹنگس میں قدیم ہندوستانی آرٹ اور یورپی واقعیت پسندی (realism) کے امتزاج سے کمال ہنر کا مظاہرہ کیا اور قدیم وجدید آرٹ کے مابین ایک مضبوط رشتے کی بنیاد ڈال دی۔ اسی لیے انہیں روایت پسندوں کے درمیان ماڈرن اور جدت پسندوں کے درمیان معقولیت پسند (rationalist) سمجھاجاتاتھا۔ نئی تکنیک اور میڈیم کی وجہ سے ان کی پینٹنگس کو شہرت و مقبولیت نصیب ہوئی اورعالمی سطح پر مصور کی حیثیت سے راجہ روی ورما کی شناخت بھی مستحکم ہوئی۔ انہوں نے مصورانہ موضوعات اور تکنیک کی سطح پر کئی نئے تجربے بھی کیے خاص طورپر رامائن اورمہابھارت کے اساطیری کرداروں سے جڑی کہانیوں کو کینوس پر اتارا اور اسے عصری حسیت اورمعنویت عطاکی۔ 

ہندوستانی اساطیر کی تصویرکاری نے ہندوستانی تخیل کو نئی جہت اور اجتماعی لاشعور کو نئی زمین عطا کی ہے۔ راجہ روی ورما نے اپنی پینٹنگس میں ہندو دیویوں کو جنوبی ہند کی خوبصورت ناریوں کے روپ میں پیش کیا۔ دیویوں کے تقدس اور حسن و جمال کی علامت کے طورپر جنوبی ہند کی خواتین کے امیج کے استعمال پر اعتراضات بھی ہوئے مگر مجموعی طورپر دیویوں کایہ مقدس حسین روپ عام ناظرین کو بے حد پسند آیا۔

راجہ روی ورما نے ہندوستانی آرٹ کو نئے آفاق سے آشنا کیا اور مصوری کو نئے جمالیاتی معیارات بھی عطاکیے کہ انہوں نے خود کو چند موضوعات میں محصور نہیں رکھا بلکہ نئے موضوعات اور کینوس کی تلاش میں ہندوستان کے طول و عرض کا سفرکیا۔ نگاہ شوق اور شوخی نظارہ نے نئے موضوعات اور کینوس عطاکئے، اس طرح ان کی مصوری تنوع اورتجدد کی نئی لہروں سے آشنا ہوئی۔ 

راجہ روی ورما کا جمالیاتی وژن بہت گہرا تھا اور حس نہایت لطیف اسی لیے ان کی مصوری نے جمالیات کی ایک نئی کائنات تخلیق کی۔ جمالیاتی نقطہ نظر سے ان کی مصوری کے شاہ کاروں میں خوبصورت ساڑیوں میں ملبوس خواتین کی پینٹنگس بھی شامل ہیں۔ ساڑی ان کی تصویروں میں جمالیات کی ایک پروقار علامت کے طورپر نظرآتی ہے۔ ساڑی کے ذریعے نسائی جوہر (Feminity)اور جنسی حساسیت اورجاذبیت، رعنائی و زیبائی کااتنا خوبصورت مصورانہ اظہاراور فنتاسی کا جمال بہت کم مصوروں کے ہاں نظرآتاہے۔ ساڑی میں ملبوس ناریاں نسائیت سے معمور اور حسن وجمال کا مرقع نظرآتی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتاہے جیسے 

بھیگی ہوئی ساڑیوں سے کوندے لپکے

ہر پیکر نازنیں کھنکتی ہوئی چنگ

اپنی مصوری میں راجہ روی ورما نے ساڑی کو ایک نئی معنویت عطاکی ہے اور حسن افزا ساری کے مصورانہ تخلیقی استعمال نے ان کی مصوری کے رنگ واسلوب کو ایک نئی شناخت بھی عطاکی ہے۔ان کی ایک پینٹنگ اس تعلق سے اتنی مشہور ہوئی کہ ایک ساڑی پر جب راجہ روی ورما کی پینٹنگ کی نقل اتاری گئی تو اس کی قیمت 40لاکھ روپے طے ہوئی۔ بیش قیمت جواہرات سے سجی دنیا کی یہ سب سے مہنگی ساڑی ہے جس کانام لمکا بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے۔ اس ساڑی کی خوبی یہ ہے کہ اس پر راجہ روی ورما کی پینٹنگLady Musicians کا عکس ہے۔ 

راجہ روی ورما کی مصوری میں عورت کا آرچ ٹائپ ہے جسے یونگ نے سول امیج (Soul Image) کہاہے اور روی ورما نے عورت کے پورے جمالیاتی نقش کو اس کی تمام تر کیفیات کے ساتھ کینوس پر اتارا ہے۔ عورتوں کی Paintings میں راجہ روی ورما نے اتنے جمالیاتی ارتعاشات پید اکردئیے ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ان کی پینٹنگس کی موہنی ہو یا دمینتی، شکنتلا ہو یا کوئی اور سب ونڈرفل نظرآتی ہیں۔ انہوں نے اپنی مصوری میں عورتوں کو Seductress اور Tempress کی حیثیت سے بھی پیش کیاہے اور موج خیز بدن کے نشیب و فراز، جمالیاتی زاویوں مخفی عبارتوں، سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ، روانی روش اور مستی ادا کو کینوس پر کچھ اس خوبصورتی سے اتاراہے کہ :

رس کے ساگر میں ڈوب جاتی ہے نگاہ

خاص طورپر مہاراشٹر کی حسین عورتوں کی پینٹنگس کا تو جواب نہیں۔

ایسی پینٹنگس دیکھ کر’ رتی یگ‘ کے ’شرنگار کا ویہ‘ کا گماں گزرتاہے یا پھر فراق کے ’روپ‘ کی رباعیاں کینوس پر روشن ہوتی نظرآتی ہیں:

وہ روپ کہ کامدیو جس کا ہوشکار

وہ رنگ اوشا نے جیسے چھیڑا ہو ستار

وہ ہونٹوں کارس جان طراوت ہر بوند

وہ گات کہ سر سے ایڑیوں تک چمکار

151151

یہ روپ مدن کے بھی خطا ہوں اوسان

یہ سج جو توڑ دے رتی کا ابھمان

پھیکی پڑتی ہے دھوپ یہ جوبن جوت

یہ رنگ کہ آنکھ کھول دے جیون گان




🔴موت ڈاٹ کام کے تربیت یافتہ قارئین کے لیے ایک اہم ادبی وجودی پیشکش 


لرزش میں بدن کی باغ جنت کی لہک

وجدان سیاہ کار گیسو کی لٹک

ہر عضو کے لوچ کا کچھ ایسا انداز

ست رنگے دھنش میں جیسے آجائے چمک

پینٹنگ میں بھی ہر خط بدن کی لومیں مدھم جھنکار سنائی دینے لگتی ہے رس میں ڈوبا ہوا لہراتایہ راگ بدن کینوس پر کچھ اور رنگ بکھیر جاتاہے۔ سجل بدن کے رسیلے روپ کی ایسی تصویر کشی بہت کم مصوروں نے کی ہے۔

راجہ روی ورما کی مصوری نے ہندوستانی طرز فکر اور احساس کو بھی تبدیل کیااور اس حدتک کہ فلم اور میوزک ویڈیوزجیسے پاپولر کلچر میں ان کی پینٹنگس کی نقالی شروع ہوگئی اورفلم سے جڑے ہوئے تخلیقی اذہان کو بھی ان کی پینٹنگس سے تحریک ملی۔ کہاجاتا ہے کہ سب سے زیادہ نقل راجہ روی ورما کی Paintings کی گئی۔ پھالگنی پاٹھک کے میوزک ویڈیو کے گانے ’’مری چنراڑاڑجائے‘‘ میں بھی ورما کی مشہور پینٹنگ ’شکنتلا‘ کی نقالی کی گئی ہے۔ ہندوستانی سنیما کے فادر داداصاحب پھالکے، راجہ روی ورما کی static realismسے بے انتہا متاثر تھے۔ اسطوری تاریخ پر بنائی گئی فلموں میں بھی راجہ روی ورما کی پینٹنگس کا استعمال کیاگیاہے۔ 1950کے دوران کتھاکلی کے ماہرکلامنڈلم رمن کٹی نائر نے پرشورام (وشنو کے اس اوتار کا خاص ہتھیار کلہاڑی ہے) کے کاسیٹوم کو دوبارہ ڈیزائن کیااور اس کو راجہ روی ورما کے پورٹریٹ کی شکل میں ڈھالا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ راجہ روی ورماکی مصورانہ بصیرت اور حسیت کی کیااہمیت اور معنویت تھی۔ 

راجہ روی ورماہندوستانی آرٹ میں جدید حسیت (Modern Sensibility) کانقطہ آغاز تھے اورانہیں مصوری کے ایک نئے دبستان کی حیثیت حاصل تھی۔ انہوں نے مصوری میں جو نئے ہیئتی اور موضوعاتی تجربے کیے اس کی وجہ سے ان کی مخالفت بھی ہوئی۔ راجہ روی ورما پر فحاشی اور عریانیت کے الزامات بھی لگے، ان کی گرفتاری بھی عمل میں آئی،مذہبی اور تہذیبی جذبات اوراخلاقی اقدار کی پامالی کے جرم میں معتوب بھی ہوئے۔ ان کی پینٹنگس میں اروشی اور مینکاوشو امتر پر بھی عریانیت کالیبل چسپاں کیاگیا، اپنی محبوبہ سگندھا کے سلسلے میں بھی وہ مقہور ہوئے مگرتخلیقی آزادی کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہی اور ملامتوں کے درمیان ان کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ 

پورٹریٹ پینٹنگس میں انہیں درک کامل تھا۔ انہیں اتنی مہارت تھی کہ بڑی سے بڑی شخصیتیں بھی راجہ روی ورما کے اس ہنر سے مسحور تھیں۔ ماسٹرپینٹر آف پورٹریٹس کی حیثیت سے انہیں عالمی شہرت حاصل تھی۔ ان کے پورٹریٹ اتنے خوبصورت ہوتے تھے کہ میسور کے مہاراجہ نے اپنے اوراپنے خاندا ن کے پورٹریٹ کے لیے 1885 میں انہیں خاص طورپر مدعو کیا۔ بڑودا کے گائیکوارکی خصوصی دعوت پر انہوں نے وہاں کئی سال گزارے۔ راجہ روی ورما نے ہی اودے پور کے مہارانا اور ان کے پیش روؤں کے پورٹریٹ بنائے۔ روی ورما نے مہارانا پرتاپ کا جو پورٹریٹ بنایا ہے، اسے شاہکار کادرجہ حاصل ہے۔ 1904 میں مدراس گورنمنٹ ہاؤ س میں سرآرتھر ہیولاک (Sir Arthur Havelock) کی تصویر بنانے کے لیے انہیں خاص طور پر مدعو کیاگیااور اسی سال انہیں قیصرہندگولڈمیڈل عطاکیاگیا۔ راجہ روی ورما نے مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے پورٹریٹ بھی بنائے اوران میں عورتوں کاحسن نہایت ہی دلفریب، جانفزا، مسحور اور مدہوش کن نظرآتا ہے۔ راجہ روی ورما کو پورٹریٹ آرٹسٹ کی حیثیت سے اس وقت شہرت ملی جب 1870 اور1878 کے دوران انہوں نے برطانوی افسران اور ہندوستانی ارسٹوکریٹس کے پورٹریٹ بنائے۔ پورٹریٹ بنانے کی وجہ سے انہیں اتنی شہرت ملی کہ کلمنور جیسے چھوٹے گاؤں میں حکومت کو پوسٹ آفس کھولنے پرمجبور ہوناپڑا۔ کیونکہ غیرممالک سے پورٹریٹ کی فرمائشیں آتی تھیں۔پورٹریٹ میں راجہ روی ورما نے تنجور (Thanjavoor) روایت کے اسالیب اور یوروپی حقیقت پسندی کے عناصر کاخوبصورت امتزاج پیش کیا۔ انہوں نے اپنے پورٹریٹ میں تنجور کی روایت کا احترام ملحوظ رکھا جس میں نائیکاز کا تصور عام تھا۔ اس دبستان مصوری میں نسائی جذبات کو مرکزی خیال کی حیثیت حاصل تھی۔

راجہ روی ورما کی وجہ سے ہی ’کلینڈرآرٹ‘ کو فروغ ملا۔ ان کے Oleographic Art کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ1894 میں Oleography Press قائم کیاگیا جس کانام روی ورما پکچرس ڈپوٹ رکھاگیا۔ یہ پریس دیوان آف بڑودہ کے مشورہ پر قائم کیاگیا تاکہ عام لوگوں تک ان کی پینٹنگس کی رسائی ہوسکے۔ ان ہی کی وجہ سے پاپولرپینٹنگس کے ماس پروڈکشن کے عہد کاآغاز ہوا، مگر بیسویں صدی کے آرٹ مورخین نے اسے discard کیااور اسے انڈین امیج کے Industrializationکا نتیجہ قراردیا اور ان کی پینٹنگس کوIndustrialization of Gods سے تعبیرکیا۔

راجہ روی ورما نے ہندوستان کے قدیم آرٹ اور فوک کے ساتھ مذہبی بیانیے کے Illustrationsبھی بنائے۔ قصہ گوئی کے میڈیم کے طورپر Illusionist Paintings ورما کی اپنی ذہنی اختراع اور ایجاد ہے۔ 

راجہ روی ورما کی پینٹنگس کا تہذیبی تاریخی سیاق وسباق بھی ہے۔ ہندوستان کے تہذیبی استعارات، تاریخی علائم اور تلازمات کی انہوں نے خوبصورت عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اجتماعی لاشعور کو بصری اظہارات (Visual Expressions) میں ڈھال کر عوامی شعور کو ایک نیا تصورعطاکیا، یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی مصوری کے ذریعے ہندوستانی اساطیر کو ایک نئی زندگی عطاکی اورانہیں اپنی مصوری کے لیے اساطیر کی شکل میں ایک وسیع ترکائنات کی کلید مل گئی ۔ رامائن اور مہابھارت دو ایسے مذہبی رزمیے ہیں جن میں قدیم ہندوستانی سماج، فلسفہ، ثقافت، سنسکرتی، مذہب اورنظام حیات کی پوری تاریخ ہے۔ انہوں نے اپنی مصوری کے ذریعے اس ’اتیہاس‘ کو عوامی شعور اور تخیل کا حصہ بنادیا اور ماضی کی حسیت کو اجتماعی حافظے میں روشن کردیا۔ انہوں نے وشنوکے دو اہم اوتاروں کی کہانیوں کو کینوس میں ڈھال کر گویاہندوستانی شعور اور ثقافت کی ترجمانی کی ہے اوراپنی مصوری کے ذریعے ہندو فلسفے اوراخلاقیات کے اہم سرچشمے سے ہندوستانی ذہن کو روشناس کرایا ہے۔ رامائن اورمہابھارت دوسنسکرت رزمیوں کو مرکزی حیثیت عطاکرکے انہوں نے مصوری کے ذریعے قدیم ہندوستانی تاریخ اور سنسکرتی کا احیاکیاہے اور ہندوازم کو آفاقی بصری اکائی(Visual Unity) بھی عطا کی۔ رامائن جووالمیکی کا تحریرکردہ ہے اس میں وشنو کے ساتویں اوتار رام کی زندگی اورعہد کابیان ہے جب کہ 1370 قبل مسیح میں عظیم شاعر اور مفکر ویاس کے تحریر کردہ رزمیہ (epic) مہابھارت میں کوروں اور پانڈوؤں کی جنگ، زندگی اورعہد کی عکاسی ہے اور اس عہد کارشتہ وشنو کے آٹھویں اوتار شری کرشن جی سے ہے۔ راجہ روی ورما کی پینٹنگس میں وہ اساطیری کردار مقدس اساطیری حیوانات جنہیں دیوی دیوتاؤں کا مقام بلند بھی حاصل تھا اور وہ دیوی دیوتا شامل ہیں جن کاذکر مہابھارت یا رامائن میں ہے۔ ایسے کردار جن سے ہر شعبہ حیات اور ہر عمر کے افراد تحریک حاصل کرسکیں ان میں کرشن، ارجن، بھیشم، بھیم جیسے کردار ہیں تو وہیں خواتین کے لیے دروپدی اور کنتی جیسے اسطوری کردار۔ مہابھارت شاعروں کے لیے مکمل کاویہ ہے تو بہتوں کے لیے مکمل ضابطہ حیات کہ اس میں زندگی کا مکمل گیان ہے اور اس کے ساتھ ہی خیرو شر کی جنگ میں خیر کی فتح دکھائی گئی ہے اور یہ بھی پیشین گوئی کی گئی ہے کہ پرتھوی اپنی جوانی کھو چکی ہے اور آنے والے دن نہایت ہیبت ناک ہوں گے۔ راجہ روی ورما نے مہابھارت کی مکمل رزمیہ روایت کو پینٹنگس میں زندہ کیاہے۔ انہوں نے دشینت، شکنتلا، رادھا، شری کرشن، دیوکی، نل اوردمینتی کی پینٹنگس بھی بنائی ہیں اور اپنی سرزمین کے کلچر اور تجریدی خیالات (absract ideas) کو visualiseکیا ہے۔

راجہ روی ورماکی جمالیاتی، اساطیری رومانی حسیت کی مظہر پینٹنگس میں درج ذیل بہت اہمیت کی حامل ہیں:

nVillage Belle 

nLady Lost in Thought

nDamayanti Talking to a Swan

nThe Orchestra

nArjuna and Subhadra

nLady with lemon

nThe Heartbroken

nShakuntala

nLord Krishna as Ambassador

nJataya, a bird devotee of Lord Rama is mauled by Rawana

nVictory of Indrajit

nA family of Beggers

nA Lady Playing Swarbat

nLady Giving Alms at the Temple

nLord Rama Conquers Varuna

nNair Woman

nRomancing Couple

nDraupadi Dreading to Meet Kichaka


nShantanu and Matsyagandha

nShakuntala Composing a Love Letter to King Dushyanta

nGirls in Sage Kanwa's Hermitage (Rishi-Kanya)

راجہ روی ورما کی پینٹنگس جو دیوی دیوتاؤں، رزمیہ کے ہیرو، ہیروئنوں سے متعلق ہیں ان سے روی ورما کی سائیکو اساطیر (Psycho-Mythology) کی شناخت کے ساتھ ساتھ Pan-Indian Iconography کی نئی تعبیر سامنے آتی ہے۔ ان کی زیادہ تر پینٹنگس کا جوPanoramic بیک گراؤنڈ اور لینڈاسکیپ ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ان کی امیج میں بھیArtistocratic Orientalism ملتی ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے بصری ثقافتی ورثے(Visual Cultrual Heritage) میں گراں قدر اضافہ کیاہے۔




حقانی القاسمی  معروف ناقد دہلی 


راجہ روی ورماایک ایسے خانوادے کے چشم و چراغ تھے جہاں آرٹ اور کلچر کا خوبصورت ماحول تھا اور خاندان میں ودوان کوئل نمپورن، کتھاکلی کے مصنف راون وجائم، تلال رقص کی مشہور کتاب ’پاورتی سوائم ورم‘ کی مصنفہ اوماانبابائی نمپورتی جیسے آفتاب ومہتاب تھے۔روی ورما کا جنم 29؍اپریل1848 میں کلیمنور(جواب کیرالہ کا ایک چھوٹا ساگاؤں ہے) میں ہوا۔ ان کے والد اممبا تھمپوری تھے اور ماں کانام نیلاکندن بھٹا تھری پد تھا۔ سات سال کی عمر میں ہی انہیں مصوری کاشوق پیدا ہوگیاتھا۔ گھر کی دیواروں کو چارکول سے رنگنے کاسلسلہ شروع ہوا توان کے چچا راجہ راجہ ورما کوان کی پیشانی پر ذہانت کا نور نظرآیا اور چچا نے اپنے بھتیجے کے ذوق مصوری کو مہمیز کرنے کے لیے اس کے آداب سکھانے شروع کردئیے۔ اس طرح ایک آبلہ پاوادی پر خار میں داخل ہوا۔ مصوری کے رموز ونکات سے آگہی نے راجہ روی ورما کے ذہنی کینوس کو مزیدوسعت عطاکی۔ مصوری کے سلسلے میں ٹراونکور کے مہاراجہ ائیلائم تھرونل (Ayilyam Thirunal)نے بھی ان کے جذبہ وجنوں کو مہمیز کیا۔ چودہ سال کی عمر میں تھروونتھا پورم میں مودتھ مادام ہاؤس میں مقیم رہ کر راج محل کے مصور راماسوامی نائیڈو کی نگرانی میں روی ورما نے واٹر پینٹنگ سیکھی اور اطالوی مصوروں کی پینٹنگس دیکھنے کا انہیں موقع ملا۔ تین سال کے بعد برطانوی پینٹر تھیوڈرجینسن (Theoder Jenson)نے انہیں Oil Paintingسکھائی۔ اس سلسلے میں ان کی راہ میں سنگ گراں بھی آئے کیونکہ اس وقت اس پینٹنگ کی تکنیک سے ٹراونکور میں صرف ایک ہی شخص واقف تھا جس کانام تھا راماسوامی نائیکر۔ راجہ روی ورما کی شکل میں سوامی کو ایک طاقت ور حریف نظرآنے لگا اس لیے انہوں نے یہ تکنیک سکھانے سے منع کردیا۔ پتیوں پھولوں، درخت کی چھالوں اور مٹیوں سے پینٹنگس بنانے والے راجہ روی ورما کے مصورانہ تخیل کو نئی اڑان اس وقت ملی جب انہیں کینوس پر رنگوں کے استعمال کاایک سنہرا موقع ملااور پھر انہوں نے ستاروں سے آگے کے جہاں کی جستجو شروع کردی اور حدپرواز سے آگے ممکنات کی نئی دنیائیں تلاش کرلیں۔ غالب کی طرح انہوں نے بھی دشت امکاں کو ایک نقش پاپایا۔ 1873 میں انہیں مدراس کی پینٹنگس نمائش میں Nair Lady at the toilet پر پہلا انعام ملا اور پھر جب ویانا (Vienna) انٹرنیشنلArt Exhibition میں انہیں پہلا انعام ملا توان کی شہرت نئی بلندیاں چھونے لگی اورآرٹ کی پوری دنیا ان کے جذبوں کے رنگ میں اپنے تخیل کی کائنات تلاش کرنے لگی۔1874 میں A Tamil Lady پر بھی انہیں ایوارڈ ملا۔اس کے بعد 1893 میں ورلڈ کولمبین کمیشن ایوارڈ (شکاگو) سے سرفراز ہوئے۔

راجہ روی ورما نے کینوس میں حقیقی رنگ بھرنے کے ساتھ اپنی زندگی کے کینوس کو کورا نہیں چھوڑا۔ اپنی نجی زندگی کو بھی سوندھی سوندھی خوشبوئے بدن سے معطر کیا جس کی تازگی اور صباحتیں ان کی پینٹنگس میں بھی نظرآتی ہیں اور وہ رعنائی خیال بھی جو اس کے تصور سے تھی۔ ان کی شادی شاہی خاندان Mavelikaraکی رانی بھاگیرتھی بائی سے ہوئی۔ جنہوں نے ان کے خواب زندگی کو بدلا اور پھر خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال اپنا رنگ بکھیرنے لگا۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے پرنس کیرالہ ورما کی پیدائش 1876میں ہوئی تھی۔ 1912 میں گم ہوئے تو ان کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ان کے دوسرے بیٹے پرنس راما ورماایک آرٹسٹ تھے جنہوں نے ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ تیسرے بیٹے پرنس راجہ راجہ ورما تھے۔ان کی بڑی صاحبزادی پرنسیز مہاپربھا ٹراونکور کی مہارانی سیتھو لکشمی بائی کی ماں تھی ایک اور صاحبزادی پرنسیز اوما بائی تھی جو مہاراجہ چتھرا تھرونل بلرام ورما کی دادی تھی اس طرح مویلکارا شاہی خاندان سے ان کا رشتہ بہت گہراتھا۔

راجہ روی ورمانے 2؍اکتوبر1906 میں 58سال کی عمر میں آخری سانس لی اوراس جہان فانی سے اپنا رشتہ توڑلیا مگرآرٹ کی دنیا سے ان کا رشتہ اتنا مضبوط ومستحکم ہوگیا کہ آج بھی آرٹ کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ ان کی زندگی کی نئی پرتیں کھلتی جارہی ہیں اوران کے فن کے اسرار منکشف ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے مصوری کو جن ممکنات سے متعارف کرایا ان پر تحقیق کاسلسلہ جاری ہے۔ان کی عظمت کا اعتراف صرف ہندوستان میں آرٹ کے شیدائی ہی نہیں کرتے بلکہ غیرملکی ماہرین آرٹ بھی ان کی مصورانہ عظمتوں کو سلام کرتے ہیں۔ ان پر انگریزی اور ملیالم میں بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ پرس رام ، منگھارام نے

Raja Ravi Verma: The Most Celebrated Painter of India 

کے نام سے دوجلدوں میں کتاب لکھی ہے وہیں دو جرمن اسکالرز Erwin Neumayer and Christine Schelberger نے Raja Ravi Verma and the Printed Gods of India کے نام سے کتاب مرتب کی اور رنجیت ڈیسائی نے ان سے متعلق ایک سوانحی ناول ’’راجہ روی ورما‘‘ کے نام سے لکھا جس پر انگریزی اور ہندی میں کیتن مہتا جیسے ڈائریکٹر کی فلم ہے۔ انگریزی میں یہ فلم "Colors of Passion" کے عنوان سے ہے جب کہ ہندی میں ’رنگ رسیا‘ کے نام سے جس میں نوبل انعام یافتہ ماہراقتصادیات امرتیاسین کی بیٹی نندناسین نے روی ورما کی محبوبہ سوگندھ کارول اداکیاہے۔

ہندوستانی آرٹ میں ان کی خدمات کااعتراف کرنے کے لیے کیرالہ حکومت نے ان کے نام پر راجہ روی ورما پر سکارم کاآغاز کیا جس کے تحت آرٹ اور کلچر کے میدان میں نمایاں اور امتیازی کردار اداکرنے والوں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ اب تک ایم ایف حسین (2007) سمیت کے جی سبرامنین (2001) ایم وی دیوان (2002) اے راماچندرن (2003) واسو دیون نمبودری (2004) کنائی کنہی رمن (2005) وی ایس ولیاتھن(2006) اس ایوارڈ سے سرفراز کیے جاچکے ہیں۔ کیرالہ کے Mavelikara ضلع میں ان کے نام پر ایک کالج بھی تعمیر کیاگیا ہے۔


****



حقانی القاسمی

h_qasmi@rediffmail.com

Post a Comment

0 Comments