وجیہہ وارثی
عنوان کی کشاکش سے باہرنکلی نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدال اور قتال
اگر
تمہاری تاریخ سے
حذف کر دیے جاے
تو
تمہاری تاریخ
گندم کے ایک دانے پر
لکھی جاسکتی ہے
۔۔۔۔۔۔
کنجی
۔۔۔۔۔
ایک بیمار ذہن
بہتر ہے
اس بند دماغ سے
جس کی کجنی
سمندر کی تہہ میں
ایک اندھی ویل مچھلی کے پیٹ میں
سوئے ہوئے
اس دیو کے گلےمیں
لٹکے لاکٹ میں ہے
جو بچوں کی کہانیوں سے
فرار ہونے کی
سزا کاٹ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیزوفرینیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایسے قبیلے میں پیداہوا
جہاں سوچناجرم تھا
سوچنے والوں کوزندہ گاڑدیاجاتاتھا
میں سوچتے ہوئے فرارہوا
اس قبیلے کی شہزادی کی محبت میں
جہاں محبت فروخت ہوتی تھی
عشاق کاجشن ہوتاتھا
میں خالی ہاتھ پیداہونے والاشاعر
دوربیٹھا
موج مستی،جام وسبواور
انزال کی آوازیں سنتارہتاتھا
ایک دن میری پشت پر
نامردگی کی مہر لگادی گئی
نکال دیاگیا
میں مہذب سماج میں آیا
جہاں سب
ایک دوسرے کی بوٹیاِں نوچ رہے تھے
مجھے ایک کتے کی بیلٹ پکڑادی
جسے ہڈیوں سے وحشت تھی
ایک دن کتے نے کہا
"میں انسان ہوں "
اورمیں
"کتا"
اس دن کے بعد
میں چاردیواری سے نہیں نکلا
مغربی دیوارمیری محبت میں گرفتارہوگئی
تڑخ گئی
بولی
"تم نے میرادل توڑدیا"
مشرقی دیوارمجھ سے نفرت کرنے لگی
"میں کسی دن تم پرگرجائوں گی"
مشرقی دیواراندرسے ننگی ہے
باہرپردہ پڑاہے
ایک دن ایک آوارہ گرددیوار
کہیں سے آئی اورمیرے سائے میں بیٹھ گئی
مغربی دیوارکی دراڑکودیکھ کرنعرے لگانے لگی
"گرتی ہوئی دیواروکوایک دھکااوردو"
جنوبی اورشمالی دیواریں
جوخاموش تھیں
جھوم جھوم کرنعرے لگانے لگیں
"ایشیاسرخ ہے"
ایشیاسبزہے"
آوارہ گرددیوارچیخی
"نہ ایشیاسرخ ہے نہ ایشیاسبزہے
ایشیاکوقبض ہے"
ساری دیواریں قہقہے لگانے لگیں
میں پھربھی چپ رہا
پانچوں دیواریں
مجھے دیوارسمجھتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ کے نتھنوں سے بدبو کے بھپکے ٹکراٸیں
توسمجھ جانا یہ میرا لاوارث علاقہ ہے
آگے کچرے کاڈھیر
ڈھیر پر کھیلتے بچے
ان بچوں کوپیارمت کرنا
جراثیم سے بھرے ہیں
(مستقبل کے جراٸم پیشہ افراد)
ان کے ہاتھوں کی لکیر مت دیکھنا
غربت کی لکیر نظرآۓ گی
بچیاں اپنے ہاتھوں کوچھپاٸیں گی
ان کے ہاتھوں پرچھالے ہیں
پھرآپ کو گٹگاکھانے والی قوم ملے گی
یہ میری قوم ہے
ان سے گفتگومت کرنا
یہ زہر اگلتی ہے
پھر میری ماں ملے گی
بددعاٶں سے آپ کا استقبال کرے گی
آگے داٸیں پھر باٸیں
میرا باپ راکٹ بناتاملے گا
کچھ دیرمیں خلاٶں کے سفر پر روانہ ہوگا
قدم آگے بڑھاٶ ہم تمہارے ساتھ ہیں
یہ کٹیا ہے
میری تین نابینا بہنیں منتظرہیں
یہ پیداٸشی اندھی نہیں
تہہ خانے میں رہنے کی وجہ سے دنیادیکھنے سے قاصرہیں
یہ آپ کو ٹٹولیں گی
خوش ہونگیں
پھر آپ کو تڑے مڑے کاغذوں کے درمیان
ایک تپ دق زدہ انسان نماملے گا
یہ میں ہوں
اور تڑے مڑے کاغذات میری نظمیں ہیں
ان کاغذوں میں سے ماں ایک کاغذاٹھاۓ گی
چولہاجلاۓ گی
اور کہے گی
شاعری سے چولہا کہاں جلتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برزخ
۔۔۔
دوست احباب کسی طور لاش کو
کندھا دینے کے لیے تیار نہیں تھے
کیونکہ
ایک مردہ ملحد پاپ کی گٹھڑی سمان ہوتاہے
شمشان گھاٹ پر جتانہیں جلی
کیونکہ
سیلاب کے کارن تما م لکڑیاں گیلی تھیں
برج خموشاں کے گدھ
لاش دیکھ کر منہ پھیر کرپرواز کرگئے
(سناہے!جہاں انصاف نہیں ہوتاگدھ ہجرت کر جاتے ہیں)
تعفن پھیلنے کے خوف نے
ایک شودرکی مٹھی گرم کر دی
چندسکوں کے عوض
لاش ایک خچر پر رکھی
(مرنے کے بعد یہ اس کی پہلی توہین تھی)
شہر فراموش کے
ایک ویران بیابان قبرستان میں
ایک ٹوٹی پھوٹی قبر میں انڈیل گیا
وہ بھی رات کی تاریکی میں
(یہ اس کی دوسری توہین تھی)
اس قبر میں پہلے سے ایک مولوی تھا
جو ناخنوں سے سرنگ کھود رہاتھا
”کیا میں آپ کی مددکرسکتاہوں“
”نہیں“
”جنت کے لیے ہر شخص اپنا راستہ خود بناتاہے“
”ہم سفر بننے کا معاوضہ دینے کو تیار ہوں“
اس نے نام پوچھا
اس نے نام بتایا
قطمیر
نام اسے حیوانی لگا
اس نے پلید کہہ کر نکال دیا
اس کی روح بدروحوں کی طرح بھٹکتی رہی
ایک قدیم خستہ قبر نظرآئی،جودھنس گئی تھی
اس نے اندر جھانکا
یہ ایک جابر کی قبرتھی
وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے،اژدھے کے سر پربیٹھا
مسکرارہاتھا
اسے انسانی کھوپڑیوں سے مینارتعمیر کرنے کا جنون تھا
سینکڑوں بچیوں کی، مباشرت سے جان لی تھی
اس نے اپنی آنکھوں سے فحش اشارہ کیا
وہ اپنی عزت بچھا کر بھاگا
(ایک مردہ کی عزت زندہ سے زیادہ ہوتی ہے)
بھاگتے بھاگتے اوندھا گرا
یہ ایک تہہ خانہ نما قبر تھی
اس قبر میں جلاد اور پھانسی کی سزاپانے والا
زندگی کے فلسفے پربحث کر کررہے تھے
وہ بھاگا
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیراچھانے لگاتھا
اچانک
اس کی نظر ایک مزار نماقبر پر پڑی
جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی
موسیقی کی دھن ابل رہی تھی
خداکے نام کا دھمال ہورہاتھا
حشیش کے رقیق دھوئیں سے مدہوش ہوگیا
اس وقت آنکھ کھلی
جب مجاورکفن اتاررہاتھا
وہ پھر بھاگا
ایک قبر سے سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبوآرہی تھی
چرخہ کاتنے کی آواز لوری میں لپٹی تھی
اسے ماں یاد آگئی
وہ قبر میں داخل ہوا
چاند کی بڈھیا
چرخہ کاتنے میں مصروف تھی
اس نے اشارے سے پاس بلایا
سر پر ہاتھ پھیرا
”میں چاند کی بڈھیانہیں ہوں،وہ میراعکس ہے“
اس نے مٹی سے تکیہ بنایا
اورکہا
”سوجاؤمیں جاگ رہی ہوں“
”میں سونے کے لیے نہیں مراماں“
”سوجاؤمنکر نکیر آنے والے ہیں“
اس کے بھائیوں کی صورت
منکر نکیر داخل ہوئے
سوالات داغنے لگے
وہ چیخا
”ان سوالوں کے جوابات زندگی میں دے چکاہوں“
دونوں احتجاجاًماں کو لے گئے
اسے الٹالٹکادیا
تب سے وہ برزخ میں الٹالٹک رہاہے
الٹی دنیا دیکھ رہاہے
۔۔۔۔۔۔۔
میرے زنانہ ہاتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جس کوکھ سے جنما
زندگی بھرخوف کے زیراثررہی
سنِ طفلی تک
ذادوں سے ڈرتی رہی
بلوغت سے پہلے
پردہ بکارت پھٹنے کاخوف حاوی رہا
پھرایک دہشت سے بیاہی گئی
تواترسے تین بچیوں کوجنم دیا
نازک اندام سے
بھاری بھرکم عورت میں تبدیل ہوئی
سوکن کی ننگی تلوارسرپرلٹکتی رہی
ایک دن
دہشت نے
انگارے جیسی آنکھوں سے کہا
"وارث پیداکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ ایک اورعورت سرپربیٹھادوں گا"
"ایک بوسیدہ تکیہ اور پھٹی چادرکے لیے
وارث کی کیاضرورت ہے"
اس کے الفاظ لعاب دہن بن کررہ گئے
خاموشی میں حکمت ہے
خاموشی تشددسے بچاتی ہے
ایک خاموش رات
ایک معمولی کیچڑکے قطرے کی صورت
عدم سے وجود میں آیا
دل کی دھڑکن سے پہلے
جنس کی تشکیل ہوئی
علامات ظاہرہوتے ہی لرزگئی
مصلا بچھایا
خداکے پیرپکڑکر
سربسجودہوئی
اس وقت تک گڑگڑاتی رہی
جب تک کوکھ کی گواہی نہیں آئی
پھرمیں پیداہوا
میرے ہاتھوں کی مخروطی انگلیاں
بہنوں سے زیادہ حسین اورنازک تھیں
بہنیں باری باری چومتی تھیں
ماں خوف زدہ ہوجاتی تھی
"یہ ہاتھ مزدوری کیسے کریں گے"
کسی نے تسلی دی
یہ قلم کی مزدوری کرے گا
میں زنانہ ہاتھوں سے
مردانہ وارنظمیں نہیں لکھ سکا
ماں کاخوف بالغ ہوچکاتھا
خوف تنہائی پسند بنادیتاہے
میرے ہاتھ جب بھی
میرے جسم سے مس ہوتے ہیں
ایک سنسناہٹ
پورے جسم میں دوڑجاتی ہے
میں ان ہاتھوں کے ساتھ
کسی بھی سیارے پرزندگی گزارسکتاہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیپیریشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ابھی تمہیں
ڈائری سے بے دخل کیاہے
تمہارے محبت نامے
مردہ دلی سے
سمندربردکردیے ہیں
تمہارافون نمبر محفوظ ہے
نودوگیارہ
آخری چارہندسے ازبرہیں
نام کے بجائے
اسٹارکی علامت سے سیو ہے
(تم مجھے بجھاہواستارہ کہتی تھی)
دیوارپر ٹنگی تمہاری تصویر
ترچھی ہوگئی ہے
ہاتھ کسی طور
سیدھا کرنے پرآمادہ نہیں
واٹس ایپ پہ تمہاری ویڈیوز
بچوں کے ہاتھ لگ گئیں ہیں
وہ پوچھتے ہیں
ماں کدھرہے
میں انہیں کیابتائوں؟
جاتے جاتے تم
دل کے دروازے کی کنڈی
باہر سے بند کرگئی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوک کتھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے بندکرنے کے لیے ہوتے ہیں
اورکھڑکیاں روشنی کے لیے
میں اپنی محبوبہ سے ملنے ہمیشہ کھڑکیوں سے جاتا
وہ مجھے روشنی کہتی
میں اسے لیلٰی
دروازے کے دوسری طرف
اک اوردنیاتھی
کیدوکی دنیا
محبت کی سرگوشیاں
دروازے کی جھریوں سے باہرنکلیں
کھڑکیوں پرمیخیں ٹھوک دی گئیں
دروازے کھول دیے گئے
پھرمجھے پتاچلا
دروازے میت نکالنے کے لیے ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت اوردریافت کاکھیل سے ایک نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولاہا
۔۔۔۔۔۔
نظم سے میری پرانی دوستی ہے
نظم مجھے گھاس پرکھیلتی ہوئی ملی
دیکھتے ہی لپک کرگود میں آگئی
نظم گلابی رنگ کی کرتی پہن کرڈیٹ پرآئی
نظم شڑاپ شڑاپ کافی سڑک رہی تھی
نظم روٹھ گئی
نظم حاملہ ہوگئی
نظم کامس کیرج ہوگیا
نظم مینوپازسے گزررہی ہے
ہروقت چڑچڑکرتی ہے
نظم مرگئی
آج نظم کاسوئم ہے
میرے پیارے نادان شاعر
ہرنظم میں نظم لکھنے سے نظم
نظم نہیں بنتی
نظم کے لیے جگنوبنناپڑتاہے
کبھی کبھی شہد کی مکھی کے چھتے میں نظم مل جاتی ہے
چیونٹیوں کے پروں پر
جونظمیں لکھی ہوتی ہیں
ناپائیدار ہوتی ہیں
سچی نظم تتلی بن کراڑجاتی ہے
ریشم کے لاروے میں مردہ نظمیں ہوتی ہیں
مردہ نظموں کوزندہ کرنے کے لیے
جولاہابنناپڑتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غربت
۔۔۔۔۔۔۔
وہ سمجھاسکتی ہے
ہربات بغیر چیخے
مگروہ چیختی ہے
ڈپریشن کی مریضہ ہے
وہ ماں بننے کی خواہش رکھتی ہے
دل میں
اس کے رحم میں سرطان پھیل رہاہے
اس کاشوہراسے چھوڑگیاہے
معمولی بات پر
سالن میں نمک کیوں نہیں
نمک ہوتاتوڈالتی
وہ روسکتی ہے
پھوٹ پھوٹ کے
مگرنہیں روتی
کیونکہ اس کی آنکھ میں موتیاہے
اسے موتیاسے عشق ہے
وہ اندھی ہوجائے گی
مگرآپریشن نہیں کرائے گی
کیونکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں
وہ مرجائے گی
کسی کوبتائےبغیر
سسک سسک کے
کیونکہ وہ خوددار ہے
وہ کون ہے
وہ میری ماں ہے
میں کون ہوں
غربت
۔۔۔۔۔۔۔۔
تعزیت نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شاعر مر رہا ہے
اس کی ادھوری نظمیں
جھاگ بن کے منہ سے نکل رہی ہیں
واہ واہ کرنے والے واہ واہ کررہے ہیں
کچھ دیر میں
واہ واہ آہ آہ میں تبدیل ہوجائے گی
ایک ڈرامہ نگار مر رہا ہے
جسے رد کر دیا گیا
وہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ کا کفن بنا لیتا ہے
لوگ سمجھتے ہیں
نیاڈرامہ رچا رہا ہے
ایک افسانہ نگار مر رہا ہے
کچھ دیر میں افسانوی کردار میں ڈھل جائے گا
ایک ناول نگار مر رہا ہے
اس کے کردار رو رہے ہیں
کیوں کہ
وہ زندہ رہیں گے
ایک فنکار مر رہا ہے
تماش بین تالیاں ٹھونک رہے ہیں
تعزیت نامہ لکھنے والے
سنہرے قلم میں سرخ روشنائی بھر ریے ہیں
0 Comments