جلسہ گھر کا پُرپیچ راستہ
ستیہ جیت رے
انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال
بنگالی کہانی
*موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت
’’لیکن کیا آپ نمِتیتا گئے ہیں؟ وہاں کی حویلی دیکھی آپ نے؟‘‘ پھونس کی چھت والے چائے خانے میں اس معمر آدمی نے پوچھا۔ ہم کلکتے سے ڈیڑھ سو میل دور لال گولا کے گاؤں میں تھے اور ابھی ابھی تیرھویں نوابی حویلی کو دیکھ کر اور غیرمناسب قرار دے کر رد کر چکے تھے۔
’’نمِتیتا؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ ہم نے کسی ولولے کے بغیر پوچھا۔ ہم نے اس جگہ کا کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔
’’یہ یہاں سے ساٹھ میل دور شمال میں ہے۔ پہلے سڑک سے جاتے ہیں، پھر ایک دریا پار کرنا پڑتا ہے۔ اپنی کار آپ کشتی میں رکھ کر لے جا سکتے ہیں۔ پھر سڑک پر بیس میل اور۔ وہاں نشان سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ کہاں مڑنا ہے۔ یہ پدما کے بائیں ہاتھ پڑتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہے۔ نمتیتا میں چودھریوں کی حویلی ہے۔ میں کافی دیر سے آپ لوگوں کی باتیں سن رہا تھا، اور میرا خیال ہے آپ کو مایوس ہونے سے پہلے یہ جگہ دیکھ لینی چاہیے۔‘‘
ہم ان لوگوں کے مفت مشوروں کو بہت شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے جنھیں غالباً ہماری ضرورت کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال، اب سوال صرف یہ تھا کہ ہم اس آخری مہم پر جائیں یا نہیں۔ اگر یہ حویلی بھی پسند نہ آئی تو سارے منصوبے کو ترک کرنا پڑے گا، یا پھر کسی گمبھیر سمجھوتے سے کام چلانا پڑے گا۔ سکے کے ایک ٹاس نے فیصلہ کر دیا اور ہم اپنے ساٹھ میل لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔
جب میں نے تاراشنکر بنرجی کی مشہور کہانی ’’جلسہ گھر‘‘ کو فلمانے کا فیصلہ کیا، اس وقت میں اپنی دائیں ٹانگ پر پلاسٹر چڑھائے بستر پر دراز تھا۔ بنارس میں پتھر کی سیڑھیوں سے پھسل جانے سے میرے گھٹنے میں بری طرح چوٹ لگی تھی۔ میں بستر میں لیٹا، جو بنگالی کتابیں ہاتھ لگتیں پڑھتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں ڈسٹری بیوٹروں میں میری ساکھ کچھ ایسی مضبوط نہیں تھی، اور شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ میں نے غیرشعوری طور پر ’’جلسہ گھر‘‘ کا انتخاب کیا۔
ستیہ جیت رے |
یہ ایک ڈرامائی کہانی تھی جسے جائز طور پر ناچ گانے سے سجایا جا سکتا تھا، اور ڈسٹری بیوٹر ناچ گانے کے دیوانے تھے۔ لیکن دوسری طرف اس میں موڈ، ماحول اور نفسیاتی کرید کی بھی بہت گنجائش تھی۔ میں نے ایک صاف تخلیقی ضمیر کے ساتھ اس کہانی کے حق میں فیصلہ کیا۔ موسیقی کی محفلیں منعقد کرنے کے شوق کے ہاتھوں تباہ ہو جانے والے زمیندار کے مرکزی کردار کے لیے میں نے چھبی بسواس کو منتخب کیا جو ہمارا سب سے عظیم اداکار ہے۔ لیکن سب سے گمبھیر مسئلہ حویلی کی تلاش کا تھا۔ بجٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے اسٹوڈیو میں سیٹوں کی تعمیر کی عیاشی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اگر ایسا کرنا پڑتا تو اس طرزِ تعمیر اور اس کی کہنگی اور زوال کی ہوبہو نقل تیار کرنے کے لیے میرے آرٹ ڈائریکٹر پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، لیکن اس کے لیے رقم کہاں تھی۔
نمِتیتا وہ سب کچھ ثابت ہوا جس کا اس بوڑھے شخص نے دعویٰ کیا تھا، بلکہ اس سے زیادہ۔ اس حویلی پر چھائی ہوئی بےپناہ گہری ویرانی کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن تھا۔ گزرے ہوے برسوں میں پدما نے اپنا پاٹ اس طرح بدل لیا تھا کہ جہاں پہلے گاؤں رہے ہوں گے، وہاں اب دور دور تک ریتیلے ویرانے تھے۔ اور خود حویلی بھی، اپنے یونانی ستونوں اور ان کے اوپر بنی محرابوں سمیت، میرے تخیل کا ہوبہو عکس تھی۔ وہ ایک شکستہ اور المناک وقار کے ساتھ کھڑی ویرانوں کو تکتی معلوم ہوتی تھی۔ وہ دریا کی موج کے ہاتھوں نیست و نابود ہونے سے معجزانہ طور پر بچ گئی تھی جو اس کے سامنے دس گز کے فاصلے تک چڑھ آیا تھا اور باغ اور اصطبلوں کو غرقاب کر کے ٹھہر گیا تھا۔ ستر سالہ گنیندر نرائن چودھری نے، جو اس حویلی اور برطانوی حکومت کے دیے ہوے ایک خطاب کے مالک تھے، اس واقعے کو ہمارے واسطے دوہرایا: ’’ایک صبح ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ ہمیں ہلکی سی گونج سنائی دینا شروع ہوئی۔ باہر برآمدے میں آ کر ہم نے اپنی جاگیر کے ایک خاصے بڑے حصے، تقریباً ایک مربع میل کے حصے، کو ہمیشہ کے لیے زیر آب جاتے دیکھا۔ یہ سب صرف چند سیکنڈ میں ہو گیا۔ پدما کی بھوک تو ضرب المثل ہے۔‘‘
’’مگر کیا آپ کو اس کا خوف نہیں کہ دریا اور آگے بھی آ سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں، ہر بار برسات کا موسم یہی اندیشے لاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ اس جگہ کو چھوڑ کیوں نہیں جاتے؟‘‘
’’اسے چھوڑ کر جانے پر ہم اس کے ساتھ ڈوب جانے کو ترجیح دیں گے۔‘‘
نمتیتا کی حویلی بہترین انتخاب تھی، مسئلہ صرف جلسہ گھر کا تھا۔ ویسے تو اس حویلی میں ایک جلسہ گھر موجود تھا (گنیندر نرائن چودھری کے چچا اُپنیدر نرائن چودھری ہماری کہانی کے مرکزی کردار کی طرح موسیقی کے شائق رہے تھے) لیکن یہ اتنا متاثرکن نہ تھا کہ موسیقی کی ان شاندار محفلوں کے مناظر کے محل وقوع کے لیے کام دے سکے جن کا میں نے منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اسے اسی طرز میں اسٹوڈیو میں تعمیر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر ہماری کہانی کے دو اور عناصر سے چودھری محروم تھے۔ ایک تو ہاتھی، جو ان کے پاس بیس سال پہلے تک تھا مگر اب نہیں، اور دوسرے سفید اسٹالیئن۔ گھوڑا تو خیر کلکتے کے ایک ذاتی اصطبل میں تلاش کر لیا گیا؛ یہ ایک ایسے رئیس کی ملکیت تھا جو اپنے اچھے دن گزار چکا تھا اور اب گھوڑے کا خرچ اس کی برداشت سے باہر تھا؛ اس نے بڑی خوشی سے یہ گھوڑا ہمارے ہاتھ دو سو روپے میں فروخت کر دیا۔ ہاتھی ایک راجہ کے پاس تھا جسے ہاتھی ہمیں ادھار دینے پر رضامند کر لیا گیا۔ وہ ایک سو پینسٹھ میل کا سفر پیدل طے کر کے ہماری لوکیشن پر پہنچا اور راستے میں پانچ دریا پار کیے۔
نمِتیتا سے پہلی بار لوٹ کر میں نے کہانی کے مصنف مسٹر بنرجی کو ٹیلیفون کیا۔ وہ بھی مناسب لوکیشن کے سلسلے میں اتنے ہی بیتاب تھے جتنے ہم لوگ۔
’’مسٹر بنر جی، بالآخر ہم نے اپنی حویلی ڈھونڈ لی،‘‘ میں نے کہا۔
’’اچھا؟ کہاں ہے وہ؟‘‘
’’ایک گمنام سی جگہ ہے، نمتیتا نام کی۔‘‘
’’کیا؟ نمتیتا؟‘‘ ان کی آواز میں ایسی کیفیت تھی جیسے وہ اس جگہ کو پہچان رہے ہوں۔ ’’کہیں وہ چودھریوں کی حویلی تو نہیں؟‘‘
’’بالکل! ‘‘
’’لیکن یہ تو حیرت ناک بات ہے! میں کبھی نمتیتا نہیں گیا، لیکن میں نے بنگالی زمینداروں کی ایک تاریخ میں چودھری گھرانے کا احوال پڑھا تھا، اور موسیقی کے شائق اُپنیدر نرائن چودھری ہی کا حال پڑھ کر میں نے بشومبھر رائے کا کردار تخلیق کیا تھا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل |
0 Comments