Subscribe Us

Header Ads

جج صاحب :- اُودے پرکاش ہندی کہانی بہ شکریہ :- *اجمل کمال (آج)*

 جج صاحب

اُودے پرکاش

__

ہندی کہانی

اودے
  پرکاش


نو سال ہو گئے، اُتّری دہلی کے روہنی علاقے میں تیرہ سال تک رہنے کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر ویشالی کی اس جج کالونی میں آئے ہوے۔ یہ ویشالی کا ‘پاش’ علاقہ مانا جاتا ہے۔ اترپردیش کی سرکار نے منصفوں کے لیے یہاں پلاٹ مخصوص کیے تھے۔ ایسے ہی ایک پلاٹ پر بنے ایک گھر میں میں رہتا ہوں۔

جس سڑک پر یہ اپارٹمنٹ بنا ہے، اس کا نام ہے ’نیائے مارگ‘، حالانکہ اس سڑک میں جگہ جگہ گڈھے ہیں، ہر تین قدم پر یہ سڑک اکھڑی پکھڑی ہے اور کئی جگہ سے ’ون وے‘ ہو گئی ہے، کیونکہ بلڈروں نے سڑک کے اوپر ہی ریت، اینٹیں، روڑی گٹی، سیریا پائپ کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہر روز یہاں ’ون وے‘ کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے ہیں اور کوئی کارروائی اس لیے نہیں ہوتی کہ بلڈروں اور ٹھیکیداروں کے پاس بہت روپیہ اور اوپر تک پہنچ ہے۔

اسی کالونی میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ جج کا پوتا اسی ’ون وے‘ پر ایک ڈمپر کے نیچے آ گیا تھا اور تین مہینے تک اسپتال میں رہنے کے بعد اس کی موت ہو گئی تھی۔

لیکن وہ بلڈنگیں ابھی بھی بن رہی ہیں۔ ڈمپر اور ٹرک ابھی بھی چل رہے ہیں۔ ویشالی کا ’نیائے مارگ‘ ابھی بھی گڈھوں حادثوں سے بھرا ہوا ’ون وے‘ ہے۔

ویشالی جج کالونی بہت تیزی سے ڈیولپ ہوتی کالونی ہے۔ نو سال پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو دو کلومیٹر کی دوری تک صرف دو شاپنگ مال تھے؛ اب اکیس بڑے بڑے بہومنزلہ مال، دو انٹرنیشنل فائیو سٹار ہوٹل اور شیورلے سے لے کر ہیونڈئی اور سوزوکی کار کمپنیوں کے جگمگاتے شو روم ہیں، ہلدی رام، مکڈانلڈز، ڈومینوز پیزا، کینٹکی فرائڈ چکن، بیکانیر والا جیسی سیکڑوں کھانے پینے کی جگہیں ہیں۔ ریسٹورنٹ اور بار تو ہر قدم پر ہیں۔

اپنے ساٹھ سال کے جیون میں میں نے اتنا پینے کھانے والا سمے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

نو سال پہلے جب میں یہاں آیا تھا تب یہاں جنگل اور کھیت ہوا کرتے تھے۔ سرسوں اور گیہوں باسمتی کے کھیت۔ کبھی یہ سرسوں کے پیلے پھولوں کے رنگ اور باسمتی دھان کی خوشبو سے بھرا علاقہ تھا۔ محلّوں میں رہنے والے روئی دھنکنے والے دھنکیے، گوبر کے اُپلے پاتھتی عورتیں، لوہے کی کڑاہیاں، چمٹے، کھرپی بنانے والے لوہار اور ان کی کوئلے کی آگ سے سلگتی دھونکنیاں، سویرے سویرے سؤر کا شکار کرنے والے لوگوں کے جتھے، کھلے میں رفع حاجت کرتی ہوئی غریب عورتیں چاروں اور تھیں۔ صبح میں جلدی اپنی بالکنی میں اس لیے نہیں نکلتا تھا کیونکہ سامنے کے خالی پڑے میدان میں عورتیں اور مرد، سؤروں کے ساتھ، اسی میدان میں رفع حاجت کرتے آنکھوں کے سامنے آتے تھے۔ پاس میں ہی نہر کے کنارے کنارے اگی جھاڑیوں سے لگی سنسان جگہیں یہاں ’اینکاؤنٹر گراؤنڈ‘ ہوا کرتی تھیں، جہاں ’مجرموں‘ کو پکڑ کر رات میں پولیس گولی مارتی تھی اور اگلی صبح اخبار میں ڈاکؤں یا دہشت گردوں کے ساتھ ہوئی پولیس کی اچانک مٹھ بھیڑ کی خبریں چھپا کرتیں تھیں۔

لیکن اب تو ان بیتے نو برسوں میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ جیسے کسی لمبی فلم کا کوئی بالکل دوسرا شاٹ پردے پر اچانک آ گیا ہو۔

اس کالونی میں بہت سے جج رہتے ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ اور کچھ ابھی بھی الگ الگ عدالتوں میں نیائے (انصاف) دینے کی اپنی اپنی نوکریاں کرتے ہوے۔

بغل میں ہی ایک پارک ہے۔ سندر سا۔ صبح صبح جب کبھی وہاں گھومنے جاتا ہوں، تو ہر صبح کئی ججوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان میں سے جو بوڑھے ہو چکے ہیں وہ زیادہ دیر اور دور تک چل نہیں پاتے، یا پھر دھیرے دھیرے چھڑی کے سہارے چلتے ہیں۔ ایک دو کے ساتھ ان کا کوئی مددگار بھی ہوتا ہے، انھیں گرنے سے بچانے کے لیے یا اچانک دل کا دورہ پڑنے یا سانس رک جانے پر ترنت انھیں اسپتال پہنچانے کے لیے۔ یہ جج اب اپنی کوٹھیوں میں اکیلے رہتے ہیں۔ کچھ اپنی پتنیوں کے ساتھ اور کچھ بالکل اکیلے۔ ان کے بچے بڑے ہو کر دوسرے شہروں یا دیشوں میں چلے گئے ہیں، جو سال دو سال میں کبھی کبھار کچھ دنوں کی چھٹیوں میں یہاں آگرہ، شملہ، نینی تال، دارجیلنگ وغیرہ گھومنے آتے ہیں۔ ایک اکیلے رہ گئے بوڑھے جج کا کہنا ہے کہ پتا نہیں ان کی امریکی بہو اور ان کے بیٹے کو انڈین چڑیوں کا اتنا کریز کیوں ہے کہ جب بھی دو چار سال میں وہ آتے ہیں تو دو چار دن ان کے ساتھ رہ کر بھرت پور اور راجستھان کی برڈز سینکچوئری دیکھنے نکل جاتے ہیں۔ وہ دھیرے سے کہتے ہیں، ’’پتا نہیں کیا ایسا ہے ان چڑیوں میں کہ میں اپنی زندگی، نوکری، انصاف اور عدالت سے اُوب گیا، لیکن وہ لوگ چڑیوں سے نہیں اکتائے۔‘‘ اس کے بعد ایک لمبی اداس سانس بھر کر وہ کہتے ہیں، ’’مجھے اچھی طرح سے پتا ہے کہ میرا بیٹا اور اس کی فیملی مجھے نہیں، انڈیا میں چڑیا اور پرانی عمارتیں دیکھنے آتی ہے۔‘‘

ان بوڑھے ججوں کا اس طرح چلنا دیکھ کر لگتا ہے جیسے ان کا پورا شریر ماضی کی ان گنت یادوں کے وزن سے لدا ہوا ہے اور یہ ان کا بڑھاپا نہیں، یادوں کا بھار ہی ہے جسے وہ سنبھال نہیں پا رہے ہیں اور کسی قدر ڈھو رہے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، اکثر وہ بہت جلدی تھک کر پارک میں بنی کسی بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہاں بھی ان کا ماتھا کسی بوجھ سے نیچے کی اور گرتا ہوا دکھتا ہے۔

بہت بھار ہو گا ضرور گہری لکیروں سے بھرے ان کے بہت پرانے ماتھے کے اوپر۔ ان کے بھیتر کی ’ہارڈ ڈِسک‘ بھر چکی ہو گی۔

کیا وہ اپنے پچھلے دنوں میں کیے گئے کسی فیصلے کے بارے میں اس وقت دوبارہ سوچ رہے ہوتے ہیں، پچھتاوے سے بھرے ہوے؟

کئی بار ان کی مچمچاتی بوڑھی ہو چکی آنکھوں سے آنسو کی کچھ بوندیں لکیر بناتی ہوئی ان کا چہرہ بھگو دیتی ہیں۔ وہ جیب میں رکھا ہوا کوئی بہت پرانا، مٹ میلا ہو چکا رومال نکال کر جھریوں سے بھرا اپنا چہرہ اور چشمہ دھیرے دھیرے پونچھتے ہیں۔

لیکن جو جج ابھی بھی اتنے کمزور اور بوڑھے نہیں ہوے ہیں، وہ پارک میں اپنے جاگنگ سوٹ اور سپورٹس شوز کے ساتھ تیز قدموں سے ٹہلتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی جلدبازی میں ہیں۔ انھیں شاید کوئی فیصلہ سنانا ہے۔ کوئی نہ کوئی معاملہ ان کی عدالت میں زیرغور ہے اور اس کی گتھیاں وہ اپنے ٹہلنے کی بےچین رفتار میں سلجھا رہے ہوتے ہیں۔

ان سبھی ججوں کے پاس بہت سے قصے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں۔ بےشمار۔ سچ اور جھوٹ کے الجھے ہوے ایسے معاملے جن کے بارے میں اپنے دیے ہوے فیصلوں کو لے کر انھیں ابھی بھی ہچکچاہٹ ہے۔ اگر میں آپ کو ان سارے قصوں کو الگ الگ سنانا شروع کروں تو ایک تو کوئی ایسا ناول بن جائے گا جسے پڑھنے کے بعد آپ کا وشواس سچ، جھوٹ، نیائے، اَنیائے سب سے اٹھ جائے گا۔

میرا تو اٹھ چکا ہے، اسی لیے درگاہوں، جنگلوں، بچوں اور مندروں میں زیادہ سمے بِتاتا ہوں۔ جج لوگ مجھے بےسہارا اور کورٹ ایک خاص طرح کا روزگار اور تنخواہ دینے والے کسی بہت پرانے مال یا سمارک جیسے لگتے ہیں۔

اوہ! لیکن میں قصہ تو جج صاب کا سنانے جا رہا تھا، جن کا ہماری جج کالونی میں تو اپارٹمنٹ ہی نہیں تھا۔ وہ کہیں دوسری جگہ، کسی دوسرے سیکٹر میں رہتے تھے، لیکن نو سال پہلے جب میں یہاں آیا تھا تب سے ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ان کا اصلی، سرکاری نام جو بھی رہا ہو، سب لوگ انھیں ’جج صاب‘ ہی کہتے ہیں۔

ان سے میری ملاقات ہمیشہ سنیل یادو کی پان کی دکان پر ہوتی تھی۔ پان اور کھینی، یہ دو ایسی چیزیں تھیں جن کی لت ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی تھی۔

اس کے علاوہ ایک ایڈکشن یا لت اور تھی۔ (اس کے بارے میں میں کہانی کے بالکل انت میں بتاؤں گا۔ اور اس کہانی کا ’ڈس کلیمر‘ میں یہیں رکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا سمبندھ کسی حقیقی شخص، جگہ یا وقت سے نہیں ہے۔ اگر ایسا پایا جاتا ہے تو وہ فقط اتفاق ہے اور اس پر کوئی مقدمہ انھیں ’جج صاب‘ کی عدالت میں چلے گا، جہاں بھی وہ اس وقت تعینات ہوں گے۔)

تو، اب اصلی قصے پر آئیں۔ یہ بہت چھوٹا سا اور کچھ کچھ سینسیشنل جیسا ہے۔

ہر صبح ٹھیک نو بجے، جج صاب سنیل کی پان کی دکان پر ملتے تھے۔ ہمیشہ تازگی سے بھرے اور مسکراتے ہوے۔ پچاس کے کچھ پار رہی ہو گی ان کی عمر، لیکن چشمہ نہیں لگاتے تھے۔

’’نمسکار! کیسے ہیں سرجی؟‘‘ یہ ان کا پہلا جملہ ہوتا تھا۔ ’’میں ٹھیک ہوں جج صاب۔ آپ کیسے ہیں؟‘‘ یہ ہمیشہ میرا پہلا جواب ہوتا تھا۔

’’میں ویسا ہی ہوں، رائٹرجی، جیسا کل تھا۔‘‘ یہ بھی ان کا ہر بار کا جواب تھا۔

’’ہم سب بھی ویسے ہی ہیں جیسے کل تھے!‘‘ میرے یہ کہنے پر جج صاب ہی نہیں، سنیل کی دکان پر کھڑے سارے لوگ ہنسنے لگتے تھے۔ یہ بھی ہر بار کا جواب تھا اور سب کا ہنسنا بھی ہر بار کا ہنسنا تھا۔

یہ سچ تھا۔ چاروں اور سب کچھ تیزی سے بدل رہا تھا، لیکن ہم سب، کل یا پرسوں یا اور اس کے پہلے کے دنوں جیسے ہی تھے۔ لگ بھگ جوں کے توں۔

سنیل پان والے کی دکان میں ہم سب کے ہر روز اکٹھا ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ سنیل بھی ہر روز پچھلے روز کی طرح ہی ہوتا تھا۔ اس کی پتنی کو کرونک دمہ تھا اور ایلوپیتھی، آیوروید سے لے کر جادو ٹونے اور جڑی بوٹیوں تک کا سہارا وہ لے رہا تھا۔ پانچ بچے تھے، دو لڑکیاں، تین لڑکے، جن میں سے تین سکول جاتے تھے۔ ہر روز وہ سکول کو گالیاں دیتا تھا جو کتاب کاپیوں کے علاوہ جوتے، موزے، بستہ، وردی کسی خاص طرح کی، کسی خاص برانڈ اور کوالٹی کی مانگ کرتا تھا اور اگر وہ اپنے بچوں کو یہ سب جلدی، کسی ایک خاص مقررہ تاریخ تک خرید کر نہیں دے پاتا تھا تو بچے سکول نہیں جاتے تھے، اس ڈر سے کیونکہ وہاں کی میڈم انھیں کلاس سے بھگا دیتی تھی۔ وہ اس بس کو بھی گالیاں دیتا تھا جو اس کے بچوں کو سکول لے جاتی تھی اور ہر دوسرے تیسرے مہینے اس کا کرایہ بڑھ جاتا تھا۔ وہ سرکار اور پٹرول کمپنیوں کو گالیاں دیتا تھا جن کی وجہ سے ہر مہینے پٹرول کے دام بڑھ جاتے تھے، جس سے اس کی پرانی موٹرسائیکل کا خرچ بڑھ جاتا تھا۔ وہ اپنے بچوں اور پتنی کو گالیاں دیتا تھا جن کی وجہ سے وہ دن رات کُھٹتا رہتا تھا اور کبھی اپنے پہننے کے لیے ٹھیک کپڑا اور پینے کے لیے دارو کا پوّا نہیں خرید پاتا تھا۔ وہ پولیس اور میونسپلٹی کو گالیاں دیتا تھا جو اس کے پان کے کھوکھے کو ہفتہ وصولی کے بعد بھی، ہر مہینے دو مہینے میں ہٹا دیتے تھے اور پھر اسے عدالت میں جا کر جرمانہ بھرنا پڑتا تھا۔

لیکن اس نے اپنے ساٹھ سال کے پتا کی بیماری میں ستر ہزار خرچ کر کے اور ان کی دن رات سیوا کر کے، ان کے سپائنل کے روگ کو ٹھیک کرا ڈالا تھا اور وہ پھر سے چلنے پھرنے لگے تھے۔ لیکن اب وہ اپنے پتاجی کو بھی ماں بہن کی گالیاں دیتا تھا کیونکہ انھوں نے گاؤں میں جو زمین بیچی تھی اس میں سے اس کو ایک پیسہ نہیں دیا تھا اور ساری جائیداد اس کے نکمے، گنجیڑی بھائی کے نام کر دی تھی، جو بڑی چالو چیز تھا۔

سنیل یادو پان والے کی بھاشا میں اتنی زیادہ گالیاں تھیں کہ میں اچنبھے میں آ جاتا تھا۔ لیکن افسوس یہ ہوتا تھا کہ ایسی بھاشا میں راج بھاشا ’ہندی‘ کا کوئی ادب نہیں رچا جا سکتا تھا۔ ’ہندی‘ کے شبدکوشوں اور شبدساگروں میں سنیل پنواڑی کی بھاشا کے شبد نہیں تھے۔

اس کی گالیاں سن کر ہم سب ہنستے تھے کیونکہ ہم سب اپنی اپنی گالیوں کو اپنی اپنی ہنسی میں ہنر کے ساتھ چھپاتے تھے۔

جج صاب تو سب سے زیادہ ہنستے تھے۔ ٹھہاکا لگا کر۔ کئی بار، جب ان کا منھ پان سے بھرا رہتا تھا اور سنیل گالیاں دینے لگتا تھا، جنھیں سن کر سب ہنستے تھے اور جج صاب ٹھہاکا مارتے تھے، تو پان کی پیک ان کے کپڑوں پر گر جاتی تھی اور تب وہ بھی بہت گالی دیتے تھے اور پھر سنیل سے چونا مانگ کر پان کی پیک کے اوپر رگڑتے تھے کیونکہ اس سے داغ چھوٹ جاتا تھا۔

ایسا ہی کوئی دن تھا، جب وہ اپنی سفید شرٹ کے اوپر پڑی پان کی پیک کے داغ کے اوپر چونا رگڑ رہے تھے، اور تب پہلی بار میں نےاچانک پایا کہ پچھلے دس مہینے سے ہر روز، ہر صبح وہ ہمیشہ وہی ایک سوٹ پہن کر وہاں آتے تھے۔ شاید ان کے پاس کوئی دوسرا سوٹ یا کوٹ پینٹ نہیں تھا۔

صبح وہ اس طرح تیار ہو کر آتے تھے جیسے کسی کورٹ میں جانے والے ہوں اور ابھی کچھ ہی دیر میں کوئی چارٹرڈ بس آئے گی اور اس میں بیٹھ کر وہ چلے جائیں گے۔

لیکن جج صاب ہمیشہ پیدل ہی لوٹ جاتے تھے۔ سنیل نے بتایا کہ وہ ابھی انتظار کر رہے ہیں۔ پچھلی بار جب وہ جج تھے تو ان کی میعاد بڑھائی نہیں گئی۔ جس منتری کی سفارش پر وہ کسی عدالت میں جج بنے تھے، وہ منتری کسی بلاتکار کے کیس میں جیل جا چکا ہے اور ابھی تک وہ کوئی نیا کانٹیکٹ نہیں بنا پائے ہیں جو انھیں دوبارہ جج بنا دے۔

اس دن کے بعد سے مجھے ان سے ہمدردی ہونے لگی تھی اور کئی بار میں انھیں پاس کے ہی پنڈجی کے ڈھابے میں چائے پلانے لگا تھا۔

ایک دن وہ صبح نہیں، شام تین بجے سنیل کی دکان پر بہت پریشانی کی حالت میں ملے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا گھر سے بھاگ گیا ہے اور کہیں مل نہیں رہا ہے۔ دو دن سے وہ اسے کھوج رہے ہیں۔ تھانے میں بھی انھوں نے گمشدگی کی رپورٹ لکھائی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پولیس والے ان کے سات سال کے بیٹے کو زندہ کھوجنے کے بجاے کہیں اس کی لاش کی اطلاع پانے کے انتظار میں ہیں۔ یہی اکثر ہوتا تھا۔ گمشدہ بچے مشکل سے ہی دوبارہ کبھی ملتے تھے۔ اکثر ان کی لاش ہی ملا کرتی تھی۔

غنیمت تھی کہ اس وقت تک گیس آ چکی تھی اور میری کار سی این جی سے چلنے لگی تھی۔ میں بھی فکرمند ہوا اور جج صاب کے بیٹے کو کھوجنے کے لیے، ان کے ساتھ ویشالی کے سارے علاقوں میں، اس کی جانی انجانی سڑکوں، گلیوں، محلوں بستیوں میں نکل پڑا۔

جج صاب بہت پریشان تھے اور باربار ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک آتے تھے۔ وہ جذبات میں آ کرکبھی میرا ہاتھ تھام لیتے تھے، کبھی کندھوں پر جھول جاتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پارتھو کو انھوں نے ڈانٹا تھا کیونکہ وہ پڑھنے کے بجاے کرکٹ کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ دیکھ رہا تھا، جبکہ صبح اس کا امتحان تھا۔ انھوں نے ٹی وی بند کر دیا تھا، ٹھیک اس سمے جب ڈیلہی ڈیرڈیوِلز کو راجستھان ریئلز سے جیتنے کے لیے آخری چار اووروں میں پینتیس رن بنانے تھے اور سریش رینا چوکے چھکے لگا رہا تھا۔

صبح پارتھو سکول کے لیے نکلا تھا اور تب سے لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ سکول سے پتا چلا کہ وہ امتحان میں بھی نہیں بیٹھا تھا۔

تو وہ کہاں گیا؟

ہم تین گھنٹے سے اسے ہر جگہ کھوج رہے تھے۔ کوئی کونا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ تین سے اوپر بج چکے تھے اور ڈر تھا کہ اگر اندھیرا ہو گیا تو آج کا ایک دن اور بیکار چلا جائے گا۔ دوسری بات یہ تھی کہ جج صاب اپنے گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ اکیلے ہی ان دنوں رہ رہے تھے کیونکہ ان کی پتنی ان کے گھر جھانسی جا چکی تھی۔ وہ دو وجہوں سے یہاں رکے ہوے تھے۔ ایک تو بیٹے پارتھو کی پڑھائی اور امتحان اور دوسرے، انھیں پچھلے دس مہینے سے ہر روز، ہر صبح یہ امید لگی رہتی تھی کہ شاید آج ان کا کام کہیں بن جائے اور وہ دوبارہ کسی جگہ، لیبر کورٹ ہی میں سہی، جج بن جائیں۔ ہر صبح وہ اخبار میں راشی پھل دیکھ کر نکلتے تھے۔ منتروں کا جاپ کرتے تھے۔ شنی دیو کے مندر میں تیل اور سکے چڑھاتے تھے۔ لیکن ہر روز ہر روز جیسا ہی ہوتا تھا۔

اب تک کار سے اور پیدل چل کر ہم نے ساری سمجھ میں آ سکنے والی جگہیں کھوج ڈالی تھیں۔ ہر جگہ مایوسی۔ ویشالی کے چپے چپے سے ہاری ہوئی چار خالی سونی آنکھیں۔ ان گنت لوگوں سے پارتھو کا حلیہ، عمر، ناک نقشہ بتا کر پوچھے گئے سوالوں کے جوابوں سے ناامیدی۔

اور تب، جب لگنے لگا کہ اندھیرا اب بڑھ جائے گا اور رات اتر آئے گی، تب مجھے ایک ڈراؤنا خیال آیا۔ نہر کے کنارے کنارے اگی جھاڑیوں میں پارتھو کی کھوج۔ زندہ نہ سہی، جیون کے بعد کا شریر۔

لیکن سمسّیا یہ تھی کہ میں یہ جج صاب سے کہتا کیسے؟ اس لیے، بنا انھیں بتائے، میں کار نہر کی اور لے گیا۔ یہ ہماری آج کی آخری کوشش تھی۔

اور وہاں، جہاں سرکاری زمینوں پر تمام دیوی دیوتاؤں کے مندر اندھ کرت ڈھنگ سے بنے ہوے تھے، جو جگہ کاغذوں میں ویشالی کی گرین بیلٹ تھی اور جو اب ’مندر مارگ‘ میں بدل چکی تھی اور جہاں پہلے پولیس کا ’اینکاؤنٹر گراؤنڈ‘ ہوا کرتا تھا، وہیں نہر کے کنارے کی ایک چھوٹی سی خالی جگہ میں کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔

جج صاب اچانک چیخ پڑے: ’’رائٹرجی، وہ رہا پارتھو!‘‘

میں نے کار کو بریک لگایا، اسے سڑک کے کنارے کھڑا کیا اور تیزی سے بھاگتے ہوے جج صاب کے ساتھ دوڑ پڑا۔

جج صاب اپنے سات سال کے بیٹے پارتھو کے سامنے کھڑے تھے، اسے اپنی اور کھینچ رہے تھے، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن پارتھو ان کی پکڑ سے چھوٹنے کے لیے چھٹپٹا رہا تھا۔

اس کے ساتھ کھیلنے والے سارے بچے سہمے ہوے چپ چاپ جج صاب اور پارتھو کی پکڑادھکڑی دیکھ رہے تھے۔ میں پانچ قدم دور کھڑا دیکھ رہا تھا۔ تبھی اچانک سارے بچوں نے چلّانا شروع کر دیا۔

بچے ڈر گئے تھے۔ انھیں لگا تھا کہ پارتھو کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ وہ چیخ رہے تھے اور کچھ نے جج صاب کو ڈھیلے مارنا شروع کر دیا تھا۔ ایک لگ بھگ نو سال کا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کرکٹ کے بیٹ سے جج صاب کو مارا۔ نشانہ سر کا تھا، اُدھر جدھر دماغ ہوا کرتا ہے، لیکن ٹھیک اسی پل جج صاب جھکے اور بیٹ ان کی پیٹھ پر لگا۔

شور سن کر آس پاس لوگ اکٹھا ہونے لگے تھے۔ مندر کے کچھ پجاری اور سادھو بھکاری بھی آ گئے تھے۔

پارتھو چلّا رہا تھا، ’’مجھے اس آدمی سے بچاؤ! پلیز …پلیز …ہیلپ می!‘‘

شاید کسی نے فون کیا ہو گا، کیونکہ ہمیشہ دیر سے پہنچنے کے لیے بدنام پولیس کی پی وین سائرن بجاتی ہوئی وہاں اس روز ٹھیک وقت پر پہنچ گئی۔

پارتھو باربار کہہ رہا تھا: ’’میں ان انکل کو نہیں جانتا‘‘، اور جج صاب روتے ہوے، اسے اپنی اور کھینچتے ہوے باربار لوگوں کی بھیڑ اور پولیس کو سمجھاتے ہوے کہہ رہے تھے کہ ’’یہ پارتھو ہے۔ میرا بیٹا۔‘‘

پولیس کے ساتھ میں اور جج صاب تھانے گئے اور پھر وہاں سے پارتھو کو گھر لے جایا گیا۔

میں اندر سے ہل گیا تھا۔

اس کے بعد، اگلی صبح سے جج صاب مجھے سنیل پان والے کی دکان پر نہیں دکھے۔ آج تک وہ نہیں دکھ رہے ہیں۔

اب وہ کبھی نہیں دکھیں گے۔

سوچتا ہوں، کاش یہ اس قصے کا انت ہوتا۔ اسی بےانجام جگہ پر آ کر کہانی ختم ہو گئی ہوتی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جج صاب کی کہانی ابھی باقی ہے، جس کے بارے میں پہلے ہی یہ ڈسکلیمر لگا ہوا ہے کہ اس کا کسی زندہ یا مردہ شخص سے کوئی سمبندھ نہیں ہے۔ یہ پوری طرح خیالی جگہوں اور کرداروں پر مبنی کہانی ہے اور اسے پڑھنے سے کوئی کرک روگ نہیں ہو سکتا۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ تین دن بعد مجھے ملک سے باہر جانا پڑ گیا، پورے تین مہینے کے لیے، اور جب میں وہاں سے لوٹ کر آیا تو سنیل کی دکان اس جگہ پر نہیں تھی۔ اس کے کھوکھے کو وہاں سے میونسپلٹی والوں نے ہٹا دیا تھا۔ اس جگہ ایل کا پائپ ڈالنے کے لیے گڈھے کھود دیے گئے تھے اور باہر کنٹیلے تاروں کی فینسِنگ تان دی گئی تھی۔ سڑک کے پار جو ایک لمبا چوڑا پلاٹ خالی پڑا تھا، اور جہاں کالونی کا کوڑاکچرا پھینکا جاتا تھا، جہاں لاوارث گائیں، سڑک کے کتے، سؤر اور کووں کی بھیڑ جٹی رہتی تھی، وہاں ‘شبھ سواگتم بینکویٹ ہال’ کا بڑا سا بینر لگ گیا تھا۔

جج صاب کے بارے میں میری یاد کچھ دھندلی ہونے لگی تھی۔ اتنے دنوں تک دوسرے دیش کے دوسرے شہروں کی یاترائیں اور بالکل دوسری طرح کی زندگی۔ پھر یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ مشکل سے پانچ دنوں کے بعد مجھے اپنے گاؤں جانا پڑ گیا۔

تین مہینے بعد میں واپس لوٹا اور لوٹنے کے ایک ہفتے بعد پھر سے مجھے سنیل پان والے کی یاد آئی۔ یاد آنے کی دو وجہیں تھیں، ایک تو میرے اندر یہ جاننے کی جستجو تھی کہ اس کی پتنی کی طبیعت کیسی ہے اور بچوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔ دوسری وجہ زیادہ اہم اور فیصلہ کن تھی۔ وہ یہ کہ مجھے کسی دوسرے پنواڑی کے ہاتھ کا لگایا پان کھانے میں وہ سواد ہی نہیں مل رہا تھا جو سنیل یادو کے ہاتھ کے پان کا تھا۔

پان کھلانے کے پہلے سنیل دکان کے نیچے رکھی بوتل سے پہلے پانی پلاتا تھا۔ ’’لیو، پہلے کلّا کرکے برادری کا پانی پیو، پھر پان کھاؤ‘‘ اور پھر شروع ہوتی تھیں اس کی دھواں دھار گالیاں۔

وہ بھاشا مجھے مسحور کرتی تھی اور میں ہمیشہ سوچتا رہتا تھا کہ کیسے ان گالیوں کو راشٹر راج نوسنسکرت بھاشا ’ہندی‘ کے شبدکوش اور اس کے ادب میں شامل کروں۔ یہ ایک عجیب غضب کی بےچینی تھی، جس سے میں پچھلی تین دہائیوں سے گزر رہا تھا۔ جب بھی کبھی میں ایسی کوئی کوشش کرتا اور اپنی کسی کہانی یا کویتا میں، سطح کے اوپر کے جملوں میں یا ان کے بھیتر کے تہہ خانوں میں چھپے معنوں میں، کسی گالی کا استعمال کرتا، مجھ پر حملے شروع ہو جاتے۔ ہاتھ آئے کام چھین لیے جاتے۔ افواہیں پھیلا دی جاتیں اور میں پھر صحیح سمے کا انتظار کرنے لگتا۔

اس سمے اور اس موقعے کا انتظار جب میں کھل کر ان گالیوں کو اپنی رچناؤں میں، ایڑی سے چوٹی تک بےتحاشا استعمال کر سکوں۔

یہی وہ کارن تھا کہ میں نے پھر سے سنیل کا نیا ٹھکانہ کھوج نکالا اور اس کے پاس جا پہنچا۔ وہ اب سیکٹر تیرہ میں جا چکا تھا اور میونسپلٹی اور پولیس والوں کو کچھ گھوس گھاس دے کر اس نے پٹری پر اس نئی جگہ کا جگاڑ کر لیا تھا۔

مجھے اتنے سمے کے بعد دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے اس کی بوتل کا پانی پی کر کلّا کیا۔ اس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پان کھایا۔ ہمارا مجمع پھر جڑا۔ سب پہلے کی طرح ہی تھے۔ کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ سنیل کی پتنی کو اب بھی دمہ تھا۔ اسے ٹھیک کرنے کے لیے سنیل اب بھی ایلوپیتھی، آیوروید، جڑی بوٹی، جھاڑ پھونک، جادو ٹونا، تنترمنتر کا سہارا لے رہا تھا۔ اس کے بچے اب بھی سکول جا رہے تھے۔ وہ اب بھی اسی طرح سکول، بس، پٹرول کمپنیوں، سرکار، پولیس، سب کو گالیاں دے رہا تھا۔ اسی بیچ کوئی چناؤ ہوا تھا، جس میں اس نے اپنی جات کے ایک امیدوار کو ووٹ دیا تھا لیکن اب اسے بھی گالیاں دے رہا تھا کہ دکان کے لیے جب پٹری کے لائسنس کی سفارش کے لیے وہ گیا تو اس نیتا کے پی اے نے اس سے بیس ہزار کی گھوس مانگی۔ وہ گالیاں دیتے ہوے قسم کھا رہا تھا کہ اب آئندہ وہ اپنے کسی جات برادری کے نیتا کو ووٹ نہیں دے گا۔ سب سالے چناؤ جیت کر چوٹٹے ہو جاتے ہیں۔

اس کی گالیوں پر ہم سب اپنے اپنے بھیتر کی گالیاں، اپنے اپنے ہنر سے چھپا کر ہنستے تھے۔

اور تبھی ایک صبح، جب سب ہنس رہے تھے، مجھے جج صاب کی اچانک یاد آئی۔ ان کی یاد آنے کی وجہ تھی سنیل کی گالیاں سن کر ان کے ٹھہاکے کے ساتھ ان کی شرٹ پر پڑنے والی پیک کے لال دھبے اور اس پر ان کا چونا رگڑنا۔

پھر مجھے اس روز ان کے گمشدہ بیٹے پارتھو اور اسے کھوج نکالنے کی گھٹنا کی یاد آئی۔ اور تب میں نے سنیل سے جج صاب کے بارے میں پوچھا۔

سنیل نے جو بتایا، وہی اس قصے کا آخری حصہ ہے۔

میرے ودیش چلے جانے کے بعد، یعنی پارتھو کی برآمدگی کے لگ بھگ چھ سات دنوں کے بعد، ایک صبح جج صاب سنیل کے پاس اپنا وہی پرانا سوٹ پہن کر آئے تھے اور انھوں نے اس سے کہا تھا کہ اب ان کی جج والی نوکری پھر بحال ہونے والی ہے، جس کے لیے انھیں کچھ روپوں کا انتظام کرنے جھانسی جانا ہے۔ وہ بہت خوش تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ دس پندرہ دنوں میں وہ جھانسی سے روپوں کا انتظام کر کے لوٹ آئیں گے۔

انھوں نے سنیل پان والے سے چھ ہزار روپے ادھار مانگے تھے۔

سنیل کے پاس روپے نہیں تھے تو اس نے کہیں کسی کمیٹی سے اٹھا کر، مہینے بھر کے بیاج کی شرط پر روپے لے کر انھیں چھ ہزار روپے دیے تھے۔

جج صاب پندرہ دن تو کیا، ڈھائی مہینے تک نہیں لوٹے تھے۔ کمیٹی والا ہر روز بیاج بڑھاتا جا رہا تھا اور اب سنیل کی گالیاں جج صاب کے لیے نکلنے لگی تھیں۔ جج صاب اسے اپنا موبائل نمبر اور جھانسی کے گھر کا پتا لکھ کر دے گئے تھے۔ لیکن سنیل جب جب اس موبائل نمبر پر فون کرتا، اس کا سوئچ آف ملتا۔

’’جج صاب بھی چوٹٹا تھا سالا۔ پنواڑی کو ہی چونا لگا گیا۔‘‘ وہ کہتا تو سارے لوگ اسی طرح ہنستے۔ اپنے اپنے ہنر کے بھیتر اپنی اپنی گالیوں کو چھپاتے ہوے۔

پھر بیاج پر بیاج کی راشی جب زیادہ بڑھ گئی اور کمیٹی والے نے تھانے میں شکایت کر دی اور پولیس والے آ کر اس کا کھوکھا اٹھا کر تھانے لے گئے تو جج صاب کی کھوج میں سنیل جھانسی گیا۔

جھانسی میں جج صاب کا گھر کھوجنے میں سنیل کو آٹھ گھنٹے لگ گئے۔ بیچ بیچ میں اسے لوگوں نے بھی بتایا کہ یہ پتا شاید نقلی ہے، جسے سن کر سنیل ایک آدھ بار جھانسی جیسے انجان شہر میں، جہاں وہ پہلی بار ہی گیا تھا، رویا بھی تھا اور وہاں بھی اس نے اکیلے میں بھرپور گالیاں آنسوؤں کے ساتھ دی تھیں۔

جھانسی میں ویشالی کا مجمع نہیں تھا، جو ہنستا۔

آخرکار شہر سے سات کلومیٹر دور وہ محلہ ملا اور وہ گھر جس کا نمبر جج صاب نے سنیل کو اپنے پرانے لیٹر ہیڈ پر لکھ کر دیا تھا۔ وہ لیٹرہیڈ پرانا تھا، اس سمے کا جب وہ جج ہوا کرتے تھے۔ اس پر تین منھ والے شیر کا چھاپہ اوپر لگا تھا۔

لیکن اس گھر میں تالا لٹکا ہوا تھا۔ سیل بند، سرکاری تالا۔

سنیل کے ہوش اڑ گئے۔

بہت مشکل سے ایک پڑوسی نے جو بتایا، وہ کچھ بہت ہی معمولی سے جملوں کے اندر تھا۔ اسے بتاتے ہوے پڑوسی کا چہرہ لکڑی جیسا سپاٹ تھا، جیسے وہ کسی کٹھ پتلے کا چہرہ ہو۔

’’یہاں رہنے والے نے فیملی کے ساتھ سوئسائڈ کر لیا۔ دو مہینے پہلے۔ پولیس تالا لگا گئی ہے۔ ابھی تک یہاں اس کا کوئی رشتےدار نہیں آیا۔‘‘

سنیل پہلے تو سُن رہ گیا، پھر رویا اور پھر اس نے خوب گالیاں بکیں، جنیںپ سن کر اس سپاٹ چہرے والے کٹھ پتلے کو بھی خوب ہنسی آئی، جسے اس نے اپنے کسی ہنر کے بھیتر نہیں چھپایا۔

سنیل نے اپنے گاؤں جا کر اپنے پتاجی، جن کے سپائنل کے علاج میں اس نے ستر ہزار خرچ کیے تھے اور جن کی اس نے آٹھ مہینے دن رات سیوا کی تھی، ان سے ڈیوڑھے بیاج کی در پر دس ہزار کا قرض، روٹری کے سٹیمپ والے کاغذ پر حلف نامہ لکھ کر اٹھایا۔ اس میں سے اس نے ساڑھے سات ہزار کمیٹی والے کو اور دو ہزار پولیس اور میونسپلٹی والے کو دے کر اپنا کھوکھا پھر سے پٹری پر لگایا۔

یہ بات بتا کر سنیل نے پھر سے اپنی گالیاں شروع کیں، جنیںر سن کر میں ہنسا اور ہمارے مجمعے کے سارے لوگ ہنسے، لیکن اس بار پان کی پیک میری شرٹ پر گری اور میں سنیل سے مانگ کر وہاں چونا رگڑنے لگا، جس سے وہاں پیک کے دھبے نہ رہیں۔

اچانک میں نے دیکھا کہ میری شرٹ بھی، جسے میں نے پہن رکھا ہے، لگ بھگ اٹھائیس سال پرانی ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے اپنے اور جج صاب کی دو ایڈکشن یا لتوں کے بارے میں بتایا تھا، جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوے تھے۔ ایک پان اور دوسری کھینی۔ اور تب میں نے کہا تھا کہ اپنی اور ان کی تیسری لت کے بارے میں میں کہانی کے بالکل انت میں بتاؤں گا۔

تو وہ تیسری لت یا ایڈکشن تھی زندگی۔

ہر حال میں زندہ رہے جانے کی لت۔

سنیل، وہاں اکٹھے ہوتے لوگ، سارا مجمع اسی ‘ایڈکشن’ کا شکار تھا، لیکن جس لت کے کارن کوئی کرک روگ نہیں ہوتا۔ یہ کھینی سگریٹ گٹکے کی طرح جان لیوا نہیں ہے۔

بشکریہ 🔴🔴: اجمل کمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments