Subscribe Us

Header Ads

برائے موت ڈاٹ کام تجریدی مائکروف سید تحسین گیلانی ۔ ساہیوال ۔ پاکستان کثیر المعنویت

سید تحسین گیلانی 

 برائے موت ڈاٹ کام

تجریدی مائکروف

سید تحسین گیلانی  ۔ ساہیوال ۔ پاکستان 


              کثیر المعنویت 

کلی کے چہرے پر نشانات میں پیوست اساطیری کہانی کا عکس' استقرائی عمل کا استخراجی انداز ' فطرت کی پراسراریت اور حالتِ سکون کی تکذیب کے بجائے محسوسات کی توانائیوں کا مؤید بنا نقاب کشائی کے صوفیانہ عمل کے عکس میں مقید ہو کر صدائے بازگشت کی معروضی دنیا میں غرق ہوتا گہرے شعور کی مانند ابھرتا تو خیالات و محسوسات کی دنیا نمودار ہوتی' جہاں زندگی کے رنگوں میں تصورات کا قدرتی بہاؤ خارج اور داخل کے انضمام کی نشاندہی کرتے ہوئے' حد کی جذباتی سطح پر بے قراری اور تشنج کے مرحلے سے گزر کر تنویر کے باطن میں ڈھلتے نوک پلک سنوارتے ریاضت و محنت کے مدارج طے کرتے' نروان حاصل کرنے کی سعیء لاحاصل کو ریزہ ریزہ کر کے اس عمل کو 

The Night Journery 

سفرِ شب کا نام دیتے ہوئے سونے اور بیدار ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتے' غیر شعوری تاثرات کی پرورش کو خیال کی پشت پر سوار کر کے تخلیقی عمل سے دست کش ہونے کے روپ میں ڈھل کر ابھرتے سورج کی آنکھ میں سوئی چبھوتا لمحہ ' روتے ہوئے طلوع ہوتی رات کی بانہوں میں سدھارتھ سے مکالمے کے بعد انتہائی مسرت و تسکین اور اوپر اٹھنے کی کیفیت سے مملو ہوتا ہے تو پھر اسے امرِت منتھن کے دودھ کا ٹھہرا ہوا سمندر یاد آتا ہے یوں وہ بھی زور سے  دودھ کے سمندر کو نوح کی مدد کے لیے پکارتا ہے پر ہر شے بے کنار و بے ہیئت نراج میں ڈھل جاتی ہے اور کوزہ گری کے دھندلکوں میں رقص کرتے پستان اس کے ہاتھوں میں پیوست ہوجاتے ہیں۔ وہ مرمری جسم کی تعظیم میں خیالی شہوت کے رتھ پر سو

سید تحسین گیلانی (مایکروفکشن) 

ار ہو کر جسم کی منزلیں طے کرتا ہوا بیضے اور جرثومے کی صدائیں سنتا دل کی آواز کو بھی سنتا جاتا ہے 'مگن مست الست کہ یکہ یک بندروں کا ایک غول اسے دبوچتا ہے اور وہ عکس' مراحلِ تخلیق کے نصف مدارج میں ہی تکمیل کو پہنچ جاتا ہے یوں سفید ہاتھوں سے ٹپکتے سرخ خلیوں میں وہ سانس لیتا ہے ۔۔۔۔ کہیں جنم لے کر مقدس بن کر رقص کرتا ہے اور کبھی کبھی آنکھوں کے بیچ اتر کر اپنی بدھی مکروہ شکل کو گھورتا ہے اور اسی لمحے کلی ہوا کی زد میں آ کر جھومتی ہے تو تالاب میں عکس مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے کوئی تالاب میں ہنس رہا ہو ۔۔۔۔

بُرے موسم میں

Post a Comment

0 Comments