Subscribe Us

Header Ads

ویلکم رام (سریندر پرکاش کی کہانی ’’بن باس۔۸۱ ‘‘پر مبنی یک بابی ڈرامہ) محمداسلم پرویز ممبئی 🔴موت ڈاٹ کام مالیگاوں* کے لیے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا ڈرامہ


 ویلکم رام 


(سریندر پرکاش کی کہانی ’’بن باس۔۸۱ ‘‘پر مبنی یک بابی ڈرامہ)


محمداسلم پرویز


(منچ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ دور کہیں سیگھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازابھرتی ہے۔ دھیرے دھیرے روشنی ہوتی ہے اور چار پنڈت رسیوں سے بندھی مورتیوں کو کھینچتے ہوئے لاتے ہیں تبھی پس منظر سے گیت ابھرتا ہے۔)

ایودھیا  ...!

ایودھیا آرہا ہوںمیں

میں تیری کوکھ سے جنما

تیری گودی کا پالا ہوں

اودھیا! آرہا ہوں میں ...

( گیت کے دوران کالے سفید گھوڑوں کا ایک رتھ دائیں ونگ سے نکلتا ہے رتھ پر مہاراجہ بھرت براجمان ہیں ان کے سر پر رام چندر جی کی کھڑاؤں ہے ۔ رتھ بائیں ونگ میں چلا جاتا ہے۔ گیت ختم ہوتے ہی پنڈت مورتیوںکو ان کی جگہوں پر رکھ دیتے ہیں)

دیانند:ودیا ساگر!  سمئے کے ساتھ مورتیوں کا بھار بھی بڑھتا جارہا ہے...

ودیا ساگر:موریتوں کا بھار نہیں تو بوڑھا ہوتا جارہا ہے۔

دیانند: بھنڈار گھر سے انہیں لاتے لاتے میری تو ہڈیوںکی لگدی بن گئی ہے ۔

ودیا ساگریہ دیکھو اس پر دھول کی کیسی رنگولی بنی ہے رام رام رام ...

دیانند:(ایک لڑکی کی مورتی کو دیکھ کر)گئے ورش اس مورتی کی جانگھ میں ایک چڑیا نے گھونسلہ بنادیا تھا۔۔

ودیا ساگر:او بامن دیوتا کم سے کم ان نرجیو مورتیوں کو تو چھوڑ دو... ( چاروں پنڈت ہنس پڑتے ہیں اورہنستے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں ... اچانک خاموشی ... مورتیوں میں حرکت ہوتی ہے وہ سب ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں۔)

مورتی -۱: دیکھو سرجو ندی کا جل اپنی گتی بھول گیا ہے ۔

مورتی -۳:اور پورن ماشی کا چاند آکاش پر کیسے بلک رہا ہے ۔

مورتی-۴:اُس کے پیلے آلوک میںراج محل کتنا رہسیہ پورن لگ رہا ہے ۔

مورتی-۱:: اور اُس اور مہاراجہ دشرتھ کی سمادھی پر جلتا ہوا دیا ایودھیا کے نگر واسیوں کے ہردیہ کی بھانتی دھڑک رہا ہے ۔

مورتی -۲ :پر رام چندر کی پرتکشا میں ہمارے ہردیہ دھڑکنا بھول گئے ہیں۔

(پیروں کی آہٹ ہوتی ہے مورتیاں چوکنی ہوکر یہاں وہاں دیکھتی ہے اور دوبارہ اپنی جگہوںپر لوٹ آتی ہے سوائے ایک مورتی کے ۔کچھ پل بعد ہاتھوں میں آرتی کی تھالی اور ہار پھول لئے چاروں پنڈت واپس آتے ہیں۔ وہ اپنی کسی بات پر ہنس رہے ہیں۔)

ودیاساگر: ... تیرے من میں تو لڈو پھوٹ رہے ہونگے۔

دیانند:اس بار بھگوان رام آجائیں تو اس کاریہ سے چھٹی ملے۔

ودیاساگر:ورش میں ایک بار محنت کرنی پڑتی ہے اس میں بھی تیری کمر ٹوٹتی ہے ۔ (اچانک مورتیوںکی بدلی ہوئی جگہ دیکھ کر ...۔)  یہ کیا۔ یہ یہاںکیسے آگئی؟یہ تو ...

دیانند:تو کیا ہوا؟ جن کے سر پر کھڑاؤں ہوتی ہے وہ چمڑی ایک سمان ...  جلدی ہاتھ چلا ۔ مہاراجہ بھرت کا رتھ آتا ہی ہوگا۔

ودیاساگر:تجھے کیا لگتا ہے اس بار مہاراجہ بھرت رام چندر جی کو لانے میں سپھل ہونگے۔

دیانند:نکشتروں کے لکشن تو یہی کہتے ہیں۔اب چلو (وہ چاروںپنڈت چلے جاتے ہیں۔ ان کے جاتے ہی مورتیاں ایک بار پھر جیوِت ہو اٹھتی ہیں۔)

مورتی-۲ :سنا وہ بامن دیوتا کیا بول رہا تھا۔اس پورن ماشی کی رات کو رام اوشیہ آئیں گے۔

مورتی-۱ :اب کی بھگوان رام کو آجانا چاہئے ۔ ہاں شری رام کی پرتیکشا میں ہماری آنکھیں دئے بن گئی ہیں۔

مورتی-۴ :اُس دئے کے پرکاش میں دکھائی دے رہا ہے ایک ویراٹ اندھکار

مورتی-۳  :شراون کمار کے ماتا پتا کے شراپ سے ادھیک کالا گھنا اور گاڑھا اندھکار 

مورتی-۱ :وہ اندھکار نہیں بندھو دھول ہے۔ مہاراجہ بھرت کے رتھ سے اٹھنے والی روپہلی ریشمی دھول۔

مورتی-۲ :اور اُس دھول کے پرے دِکھ رہا ہے مجھے ایودھیا کا بھاگیہ  ... ...

(کالے سفید گھوڑوں کا رتھ ایک بار پھر ایک وِنگ سے نکل کر دوسری ونگ میں چلا جاتا ہے۔گیت ابھرتا ہے ۔)

ایودھیا 

ایودھیا آرہا ہوںمیں

میں تیری کوکھ سے جنما

تیری گودی کا پالا ہوں

تیری صدیوں پرانی مٹی میں کھیلا ہوں

سر اٹھا اور دیکھ لے مجھ کو 

تھکے قدموں سے تیری جانب آرہا ہوں میں

سفر تاریک ہے پگ پگ پہ ٹھوکریں کھا رہا ہوں

مجھے آواز دے گھبرا رہا ہوں میں

ایودھیا! آرہا ہوں میں...

(گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز ابھرتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے دور چلی جاتی ہے ۔ ایک ڈھنڈورچی گلے میں ڈھول لٹکائے ڈھول پیٹتا ہوا نمودار ہوتا ہے۔ سارے نگر واسی اس کے آس پاس جمع ہونے لگتے ہیں۔ )

ڈھنڈورچی : سنو سنو سنو ۔ ایودھیا کے نگر واسیو سنو!

( منچ کی دوسری طرف مہاراجہ بھرت کا رتھ رکتا ہے سر پر کھڑاؤں دھرے بھرت نیچے اترتے ہیں۔ پروہت اور پنڈت اُن کا سواگت کرتے ہیں۔)

پروہت: مہاراجہ بھرت ایودھیا کی ماتربھومی پر آپ کا سواگت ہے۔کہئے کیا سماچار لائے ہیں۔

(بھرت کچھ کہتے ہیں مگر ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف ڈھنڈورچی کہتا ہے ۔)

ڈھنڈورچی : رام چندر جی نے ایودھیا آنے سے انکار کردیا۔

(ایک ساتھ بہت ساری عورتوں کی بین کرنے کی آوازیں)

بھرت: (سمادھی کے پاس جاکر ) پتاجی !  مجھے چھما کریں۔آپ کی سمادھی پر اس ورش پھر میں خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ 

ڈھنڈورچی: (دوسری طرف دیکھ کر کہتا ہے) پرمہاراجہ بھرت کو وشواس ہے کہ شِدھر ہی وہ رام چندر جی کو ایودھیا لانے میں سپھل ہونگے۔

بھرت : کیا کروں پتاجی وہ آپ کی اِچھّا کا پالن کرنے پر وِوش ہیں۔ اور میں ان کی آگیا کا پالن کرنے پر۔

ڈھنڈورچی: جب تک شری رام کا بن واس پورا نہیں ہوتاان کی پاون کھڑاؤں ہی ایودھیا کاراج کاج چلائے گی۔ سنو!  سنو!  سنو!

( سب کے چہرے پر نراشا پھیل جاتی ہے اور مہاراجہ بھرت اپنے پیچھے کھڑی بہت ساری مورتیوں کو دیکھ کر  پھپھک  پھپھک کر رونے لگتے ہیں۔)

پروہت : آپ ادھیر نہ ہو ںمہاراج ۔ رام آئیں گے اوشیہ آئیں گے۔

بھرت :پروہت جی ۔ جس پرکار سُگندھ کے بنا پھول ، بان کے بنا دھنشیہ اور آتما کے بنا شریر کا کوئی ارتھ نہیں اسی طرح راجہ کے بنا راج سنگھاسن بھی ارتھ ہین ہے۔

پروہت : نہیں مہاراج ۔ ایودھیا کے راج سنگھاسن پر راجہ رام چندر کے پاون کھڑاؤں کا واس ہے۔اور جہاں رام جی کی پدچاپ ہو وہاں سویم رام چندر جی ہیں۔اور ایودھیا کے سنگھاسن پر تو ساکشات اُن کے کھڑاؤں اُپستھت ہیں۔ اور مہاراج !  ہمارے لئے تو یہ کھڑاؤں ہی رام چندر جی سے ادھیک پاون ہیں۔

پنڈت : پرنتو ...

ڈھنڈورچی :پرنتو ...

پروہت :(کھڑاؤں ہاتھ میں لے کر چومتا ہے ۔)  مہاراج اب تو ہمارا مہا تیرتھ یہی ہے۔ (کھڑاؤں اٹھا کر سنگھاسن پر رکھتا ہے ۔) آپ یاترا سے تھک گئے ہیں۔ جاکر وِشرام کیجئے۔ (پنڈت کی طرف مڑ کر)سنو پنڈت سارے نگر میں ڈگی پٹوا دو۔ (تبھی ڈھنڈورچی زور زور سے ڈھول پیٹنے لگتا ہے ۔)

ڈھنڈورچی :سنو!  سنو!  سنو!  پورن ماشی کی رات کو رام چندر جی کے پاون کھڑاؤں کی اُپاسنا کی جائے گی۔

پروہت  : (پنڈت سے )اس اپاسنا میں تلسی کے پتوں کی پشپ پرن دی جائے گی اُس سمے ہر ناگرک کی اُپستتھی انیواریہ ہے  ۔

ڈھنڈورچی : یدی کسی ناگرک نے اس راج اگیہ کا اُلنگھن کیا تو وہ راج دروہ کا دوشی ہوگا۔ ( جاتے ہوئے) سنو!  سنو!  سنو!  ایودھیا کے نگر واسیوں سنو!  (سب لوگ جاتے ہیںکیول بھدرا رہ جاتی ہے جو کٹیا کے باہر اپنے آنگن میں کھڑی یہ سب دیکھ رہی ہے ۔ تبھی اندر سے بھیکو سر پر اناج کی بوری لئے آتا ہے وہ بہت خوش ہے ۔ )

بھیکو : تو کچھ بھی بول بھدرا اس ورش  جَو اچھا ہوا ہے ۔ 

بھدرا :(اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے ) بھیکو تونے راج آواہن سنا ؟ 

بھیکو : ہاں...پر تو کیوں چنتا کرتی ہے ۔رام کا جنم ایودھیا کے لئے ہی ہوا ہے ۔ رام کا بھاگیہ ایودھیا اور ایودھیا کابھاگ رام ۔اس ورش  رام نہیں آئے تو اگلی پورن ماشی کو اوشیہ آئیں گے۔پر یہ بول تیرا لاڈلا کدھر ہے ؟  نگر دوار نہیں جانا ہے کیا اُسے؟ (تبھی رگھو  ایک ۸ -۹ سال کا بچہ آتا ہے ۔)دیکھا چنڈال کا نام لیا اور یہ ... ( پس منظر سے گیت کا الاپ ابھرتا ہے بھدرا بے چین ہوجاتی ہے۔بھیکو اُسے دیکھ کر پوچھتا ہے ۔) کیا ہوا بھدرا ؟ 

بھدرا : بھیکوتو آج نگر دوار متی جا۔ 

بھیکو : باوری ہوگئی ہے کیا ؟تو ہی تو کہہ رہی تھی کہ نمک کا ڈھیلا نہیں ہے اور دیکھ میرا پُتر بھی آگیا چل اب جلدی سے ستو باندھ دے۔(وہ ویسے ہی کھڑی رہتی ہے ۔)  بات کیا ہے ؟

بھدرا : بھیکو میں نے کل رات ایک دوسوپن دیکھا۔

بھیکو :دوسوپن ؟ کیا مجھے دیکھ لیا سپنے میں؟

بھدرا :(گمبھیرتاسے )نہیںبھیکو شری رام چندر جی آئے تھے میرے سپنے میں ۔

بھیکو :تو باوری ، تو وہ دوسوپن کیسا ؟ اری پگلی اس سے تو تیرے میرے آگے پیچھے کے سات پرکھوں کے جنم سپھل ہوگئے۔پر یہ بول تونے دیکھا کیا سپنے میں۔

بھدرا : بھیکو میں نے دیکھا رام چندرجی (کہتے کہتے ایک پل کے لئے رکتی ہے پھر جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب کر کہنے لگتی ہے ۔) میں نے دیکھا رام چندر جی کے مستک پر چاند کا ہالہ تھا۔ پر اُس کی روشنی بجھ گئی تھی۔ بھوکے پیارے وہ ایودھیا کی اور آرہے تھے ایک کے بعد ایک جنگل پار کرتے ندی نالے پتھریلی پگڈنڈیوں سے چلتے چلتے، اُن کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ وہ ایودھیا آرہے تھے تبھی ان کے نیچے کی دھرتی پھٹنے لگی اور اس میں چوہے نکلنے لگے۔

بھیکو :چوہے؟

بھدرا  : ہاں! جو ہے یہ بڑے بڑے کالے دُھس چوہے۔ بہت سارے ۔ ان گنت۔ وہ رام چندرجی کے پیروں میں لوٹنے لگے ۔ دھیرے دھیرے کالے چوہوں کا ایک بونڈر رام چندرجی کے پیروں کے نیچے نرمت ہونے لگا۔ پر رام رکے نہیں۔ پھر میں نے دیکھا اُن چوہوں کے پر پھوٹنے لگے اور ان کی تھوتھنیوں سے کٹار ایسی چونچ نکل آئی۔ہاں بھیکو سچ میں۔ میں نے دیکھا وہ چوہے آپ ہی آپ گدھوں میں بدلنے لگے اور چیں چیں کرتے آکاش میں اڑنے لگے ۔ ایودھیا کا سارا آکاش اُن گدھوں کے پروں سے بھر گیا۔ لمبی اور نوکیلی چونچ والے گدھ۔

رگھو :پھر کیا ہوا ماں؟

بھدرا :پھر بہت سارے گدھ ہمارے گھر کی چھت پر آکر بیٹھ گئے اور پھر ...۔۔ (کہتے کہتے رک جاتی ہے)

بھیکو :اور پھر ؟

بھدرا :اور پھر میری آنکھ کھل گئی ۔ میں نے دیکھا گھر میں اندھیرا تھا اور میرے سرہانے کا دیا بجھ گیا تھا۔ (کچھ پل کے لئے سارے ماحول میں ایک بے نام سناٹا چھا جاتا ہے۔)

بھیکو :(ماحول کی گمبھیرتا کو کم کرنے کے لئے رگھو سے) ہاں... ہاں... تو تیار ہو گیا ( رگھوسے) اب منہ کیا دیکھ رہا ہے ... دھوپ پیلی پڑ رہی ہے سویرے تک نگر دوار پہونچنا ہوگا ... چل ...( وہ بوری باندھتا ہے۔)

بھدرا :بھیکو ... میں کہہ رہی تھی کہ ... تو آج نگر دوار متی جا... کک ... ک ...کہیں کچھ امنگل، اشبھ نہ ہوجائے۔

بھیکو :باوری ہوگئی ہے کیا ... آج پورن ماشی کی رات ہے ... سارا نگر اتسو کے رنگ میں ڈوبا ہے ۔آج تو سارے دکھ ساری پیڑائیں یاتنائیں سرجو ندی کو سمرپت کرنے کی راتر ہے... آج پاون کھڑاؤں کی اُپاسنا کی جائیگی۔ جا جلدی جا کر تلسی کی پتی لے آ... اور تیرے اس چنڈا ل کے لئے ستو... (پلٹ کر رگھو سے ) چل اوئے اڑیل ٹٹو ( بوری اٹھاتا ہے بھدرا رگھو کو پوٹلی دیتی ہے۔ بھدرا کے سر پر ہاتھ رکھ کر )تو چنتا متی کر شری رام نے چاہا تو سب بھلا ہی ہوگا... چلتا ہوں

(کہہ کر وہ اور رگھونکل جاتے ہیں بھدرا انہیں جاتے ہوئے دیکھتی ہے دھیمے دھیمے اندھیرا ہوتا ہے اور پھر سے وہ گیت شروع ہوتا ہے )

ایودھیا 

ایودھیا آرہا ہوںمیں

میں تیری کوکھ سے جنما

تیری گودی کا پالا ہوں

تیری صدیوں پرانی مٹی میں کھیلا ہوں

ایودھیا اجڑ کر رہ گیا جو وہ میلا ہوں

بھرا سنسار ہے پھر بھی اکیلا ہوں...

سر اٹھا اور دیکھ لے مجھ کو

تھکے قدموں سے تیری جانب آرہا ہوں میں

ایودھیا! آرہا ہوں میں...

(رگھو اور بھیکو چل رہے ہیں)

رگھو :باپو اگر تیرے پاس اپنے بیل ہوتے تو تجھے یہ بوجھا نہیں ڈھونا پڑتا نا...






بھیکو:بیل کہاں سے آویں گے بیٹا؟ہر ورش سوکھا آدھے سے زیادہ کھیت کھا جاتا ہے وہ تو شری رام کی کرپا ہے کہ اپنی زمین اچھی ہے کہ ہاتھ بھر زمین سے مٹھی بھر جَو مل جاتا ہے ... (خاموشی)

رگھو :باپو نگر دوار اب یہاں سے کتنی دور ہے ؟

بھیکو :وہ دیکھ سرجو ندی ہے بس وہی ہے نگردوار۔ بھوک لگی ہوئے گیتجھے؟

(رگھو فوراً بیٹھتاہے بھیکو ہنس پڑتا ہے ... پوٹلی کھولتا ہے)

رگھو :باپووہ سرجو ندی کے تٹ پر کیا ہے ؟

بھیکو :باگھ اور میمنہ ایک ساتھ؟

رگھو :باگھ اور میمنہ ؟ ایک ساتھ بابا

بھیکو: یہی تو رام راجیہ ہے بیٹا...

(تبھی دو راج سینک کسی کو بندی بنائے لے جاتے ہیں)

رگھو :یہ کون ہیں باپو؟

بھیکو :(بنا دیکھے)کہا ناباگھ اور میمنا...

رگھو :(رگھو ہنس پڑتا ہے ) یہ باگھ ہیں تو ہم لوگ کون ہیں؟... میمنے...؟

بھیکو :(بھیکو سینک کو دیکھ کر)یہ راجا کے سینک ہیں بیٹا راجا کی اور سے یہ ہماری رکشا کرتے ہیں۔

رگھو یہ کس سے ہماری رکشا کرتے ہیں...

بھدرا:شترو سے...

رگھو :ہمارا شترو کون ہے ؟ (بھیکو رگھو کو غور سے دیکھتا ہے)

بھیکو :میں نہیں جانتا 

رگھو :تو کون جانتا ہے ؟

بھیکو :راجا ... شاید راجا جانتا ہو...؟

رگھو:پر ہمارا راجا تو ون واس میں ہے...۔

بھیکو : توکیا ہوا اُن کی پاون کھڑاؤں تو راج سنگھاسن پر ہے...

راگھو:باپو جو کھڑاؤں راج سنگھاسن پر ہے کیا وہ سچ مچ بھگوان رام چندرجی کی ہے۔۔؟

بھیکو:(کھاتے کھاتے اسے ٹھسکا لگتا ہے ) کیا کہا؟

رگھو :یہی کہ جو کھڑاؤں...

بھیکو :(بات کاٹ کر) اپنا کھٹ راگ بند کر (رگھو کچھ کہنے جاتا ہے ۔ اس کے کہنے سے پہلے ) اپنا منہ بند رکھ اور چپ چاپ کھانا کھا ۔

رگھو:منہ بند رکھونگا تو کھانا کیسے کھاؤنگا...؟

بھیکو:(پیار سے چپت مارتے ہوئے ) تیری جیبھ تالو میں ٹھہرتی نہیںہے لے کھا... ( اسے اپنے ہاتھ سے کور بنا کر کھلاتاہے ۔ کالے سفید گھوڑوں کا رتھ ایک ونگ سے نکل کر دوسری ونگ میں جاتا ہے ۔ تبھی ڈھنڈورچی آتا ہے اور ایک ایک کرکے بہت سے لوگ اُس کے آس پاس جمع ہونے لگتے ہیں۔)

ڈھنڈورچی: سنو !   سنو!  سنو!  ایودھیا کے نگر واسیو سنو!  اس ورش بھی راج پروہت ون سے خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ ( کھاتے کھاتے رگھو رک جاتا ہے)

ڈھنڈورچی :پر بھگوان رام نے  اپنی بھینٹ میں انہیں وشواس دلایا کہ وہ اگلی پورن ماشی کی رات کو ایودھیا اوشیہ لوٹیں گے۔ آج کھڑاؤں کا راج ابھیشیک کیا جائیگا۔ سنو!  سنو!  سنو! : (ڈھنڈورچی ڈھول بجاتا ہوا نکل جاتا ہے ۔)

رگھو:باپو کیا رام چندر جی کا ون واس تیرے سامنے ہواتھا۔

بھیکو:نہیں مجھے میرے باپو نے بتایا تھا۔

رگھو:تو کیا تیرے باپو کے سامنے...

بھیکو:نہیں !  اسے اُس کے باپو نے بتا یا تھا۔(رگھو کچھ اور پوچھنے جاتا ہے اس کی بات کو سنے بنا ) اور اسے اُس کے باپو نے بتایا تھا۔ اب چلنا ہے یا نہیں کہ یہیں پسر کر بیٹھا رہے گا۔ (وہ لوگ چلنے کی تیاری کرتے ہیں کہ اچانک رگھو سرجو ندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھتا ہے ۔ )

رگھو:باپو ! باپو!  وہ ادھر باگھ اور میمنہ سرجو ندی کا جل پی رہے ہیں۔ ان کے شریر اتنے استھر اور نرجیو کیوں ہیں۔ ( تبھی دو راج سینک وہاں آتے ہیں۔ بھیکو اور رگھو کو دیکھ کر)

سینک-۱:اے کون ہے ادھر ؟

سینک-۲:کیا کررہا ہے ؟

بھیکو:میں شبھ گاؤں کا کسان ہوں۔ جَو دے کر نمک لینے نگر دوار جارہا ہوں۔ 

سینک-۲:تو یہاں کیا کررہا ہے گدھے کی جھول؟

بھیکو:کچھ نہیں مائی باپ۔ میرا بیٹا اور میں باگھ اور میمنے کو ایک ساتھ پانی پیتا دیکھ کر رک گئے۔

سینک-۱:(ڈپٹ کر ) نمک لینے آیا ہے نا؟ تو جا نمک لے  ...نگر دوار کھلنے ہی والا ہے۔بیچ میں رکنا متی... (کہہ کر دونوں سینک نکل جاتے ہیں)

رگھو:باپو کیا یہی لوگ راجا کی اور سے ہماری رکشا کرتے ہیں۔ (بھیکو ایک دم چپ ہوجاتا ہے ۔ کچھ پل بعد) باپو یہ بتا ...

بھیکو:(چڑ کر) اب کیا ہے؟

رگھو:رام چندرجی کے کھڑاؤں سنگھاسن پر ہیں تو بنا کھڑاؤں کے اُن کے پاؤں پتھریلی راستوں اور کٹیلی جھاڑیوں سے خونم خون ہورہے ہونگے نا۔

بھیکو:(کچھ کہنا چاہتا ہے مگر اسے کچھ سوجھتا نہیں ہے ۔ روشنی اس کے چہرے پر پڑتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے اندھیرا ہونے لگتا ہے۔ کچھ پل بعد جب روشنی ہوتی ہے تو منچ پر منڈی سجی ہے۔ وٹھل سیٹھ کی دوکان ہے ایک دو گراہک آجا رہے ہیں۔ تبھی بھیکو اور رگھو وہاں آتے ہیں۔ وٹھل سیٹھ انہیں دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے۔ )

وٹھل:آؤ آؤ بھیکو کیا لائے ہو ؟

بھیکو:جَو لایا ہوں مالک ۔جَو کے بدلے نمک لے جاؤں گا۔

وٹھل:(اپنے نوکر سے )ارے مکندی ! اس کا جَو تول دے۔ (پلٹ کر بھیکو سے) توتو شبھ گاؤں کا ہے نا؟ (بھیکو گردن ہاں میں ہلاتا ہے) تم مورکھ تلسی کیوں نہیں اگاتا تو ۔شبھ گاؤں کے مٹی میں تلسی بہت پھلتی ہے۔ مول بھی اچھے ملیں گے ۔ 

بھیکو:پر مالک تلسی تو آنگن میں لگتی ہے اس کی کھیتی ...

وٹھل:جب کھیت میں اگائیگاتو کھیتی ہوگی نا۔ مول اچھے ملیں تو کھیتی کو آنگن بنانے میں کیا آپتّی ہے؟

بھیکو:ہم کسان ہیں مالک۔ آکاش وایو دیتا ہے ساگر جل دیتا ہے دھرتی انّ دیتی ہے اور جب کسان دھرتی سے انّ نہیں اگاتا تو دھرتی شراپ دیتی ہے اور پھر کھیتوں میں بھوک اُپجتی ہے یدی میں ... 

وٹھل:ہاں  ہاں  جیسی تیری اِچّھا...میں تو تیرے بھلے کی کہہ رہا تھا۔ (تبھی دو سینک وہاں آتے ہیں۔)

سینک-۱:رام رام وٹھل سیٹھ۔

وٹھل:ارے آپ لوگ ۔ رام رام  (وٹھل ان کی طرف مڑتا ہے اور پلٹ کر مکندی سے ) ارے مکندی بھیکو کا جَو لے کر نمک تول دینا۔ ( کہہ کر وٹھل سینک کے ساتھ اندر کے کمرے میں چلا جاتا ہے ۔)

مکندی:ویسے سیٹھ جی ستیہ بول رہے تھے۔ آج کل پوجاؤں میں تلسی کی پتیاں ہی رچی جاتی ہیں۔ اسی لئے ان کا مول اچھا ملتا ہے اور ... (اچانک بھیکو کے چہرے کو دیکھ کر وہ چپ ہوجاتا ہے ۔ پھر دوسرے ہی پل ... لہجہ بدل کر ) ویسے جو تجھے بھلا لگے وہ کر تیرے کھیت ہیں میرا کیا ۔ (ترازو سے جَو تولتا ہے ) دیکھ ٹھیک ہے نا  ( بھیکو ہاں میں گردن ہلاتا ہے ۔ پھر مکندی لوہے کے باٹ ہٹا کر اُن کی جگہ سونے کے باٹ ایک پلڑے میں رکھتا ہے اور دوسرے پلڑے میں نمک )

بھیکو :ارے یہ کیا کررہے ہو؟

مکندی:تو بھی کیا یاد کرے گا۔ تجھے نمک سونے کے باٹ سے تول کر دے رہا ہوں۔ 

بھیکو:پر میرا جو تو تم نے لوہے کے باٹ سے تول کر لیا ہے ۔( تبھی وٹھل آتا ہے ساتھ میں وہ دو سینک بھی ہیں۔)

وٹھل:بھیکو توبھی کیا کپول کتھا لے کر بیٹھ گیا۔ بیکار کے ترک میں مت پڑ۔ گھر جا اور نمک کا اُپ بھوگ کر۔سوادشٹ نمک ہے اور ویسے بھی دونوں باٹوں کے وزن میں انتر نہیں ہے ۔ 

بھیکو:تو پھر دھاتو میں انتر کیوں ہے؟ ہزاروں ورشوں سے ہمارے پوروج یہاں وستو لے کر آرہے ہیںآج تک کانٹے میں وستو بدلتی رہی باٹ کی دھاتو نہیں۔ پر آج یہ نیا نیم کیوں؟

وٹھل:نِیَم !یہی تو نیا نِیم ہے۔اوریہ نیم ہم ویپاری لوگ نہیں رچتے۔ وہ تو رام جی کی پاون کھڑاؤں رچتی ہے۔

رگھو:کھڑاؤں ؟

سینک-۱:ہاں تجھے معلوم نہیں کیا ایودھیا کے راج سنگھاسن کی جانگھ پر رام جی کی پاون کھڑاؤں براجمان ہے ۔ 

سینک-۲:اور ایودھیا کا سمودھان اسی کھڑاؤںکی دھوری پر گھوم رہا ہے ۔ 

بھیکو:پر کاٹھ کی ایک نرجیوں کھڑاؤں...

سینک-۱:ساودھان! (اپنا بھالا اس کی طرف تانتا ہے) شری رام کی کھڑاؤں کے بارے میں ایک بھی اپ شبد کہاتو...۔ 

وٹھل:بھیکو تجھے پتا نہیںاُن نرجیو کھڑاؤں میں ہی رام جی کا ویاس ہے۔ 

سینک-۲:اسی لئے چپ چاپ نمک کا بورا اٹھا اور اپنے گھر جا۔

بھیکو:آپ مائی باپ ہیں۔ چاہے تو دس جوتے سر پر لگائیں۔ (پھر ایک دم مضبوط لہجے میں) پر سونے کے باٹ سے تولا گیا نمک میں نہیں لے جاؤنگا۔ اور اس اوستھا میںتو کبھی نہیں جب میرا جو لوہے کے باٹ سے تول کر لیا گیا ہو۔ 

وٹھل:(سمجھاتے ہوئے ۔) تو ایسا کیوں کررہا ہے ۔ ہم لوگ تیرے ساتھ کوئی انیائے تھوڑے ہی کررہے ہیں۔ ہم تو کیول راج نِیم کا پالن کررہے ہیں۔ 

سینک-۲:کچھ نہیں وٹھل سیٹھ ۔بہت چربی چڑھ گئی ہے اس کے پچھواڑے میں۔انومتی دو تو ابھی ...

: (وٹھل اسے اشارے سے منع کرتے ہیں)

وٹھل:تو چاہتا کیا ہے بھیکو؟ 

بھیکو:(اپنے بچے کو اپنے سے قریب کرتا ہے ۔)ہم کیول نیائے چاہتے ہیں مالک۔ 

وٹھل:ٹھیک ہے ۔ تیری سنتوشٹی کے لئے نیائے انیائے کا کھیل یا جو کچھ بھی وہ ہے ۔ یدی تو اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہے تویہی سہی۔

:(دھیرے دھیرے اندھیرا ۔ دوسرے ہی پل روشنی ہوتی ہے ۔ منچ پر راج دربار سجا ہے ۔ پروہت، پنڈت دوسرے درباری سینک کے ساتھ بھیکو ، رگھو ، وٹھل سیٹھ بھی کھڑے ہیں۔ کچھ لڑکیاں رام جی کی آرتی گا رہی ہیں۔ پروہت اور بھیکو کچھ کہہ رہے ہیں پر اس کی آواز آرتی میں کھو گئی ہے ۔ دھیرے دھیرے آرتی کی آواز کم ہوتی ہے اور بھیکو کی آواز سنائی دیتی ہے ۔)

بھیکو: ... پرنتو مہاراج میں پوچھتا ہوںیہ راج نِیم کس نے رچا؟

پروہت:(کڑے لہجے میں) اور کون رچے گا مہا مورکھ! شری رام نے ۔ 

رگھو:پر شری رام تو ...۔ (سینک تیکھی نظر سے دیکھتا ہے ۔)

پروہت:(رگھو کی بات پوری کرتے ہوئے ۔ ) ...ون واس میں ہیں۔ پرنتو بیٹے شری رام کی پاون کھڑاؤں تو راج سنگھاسن پر براجمان ہے ۔ یہی کھڑاؤں ایودھیا کا راج مکٹ ہے۔ بھیکو کاہے کو ہیکڑی کرتاہے۔ ارے جب نمک بھی اچھی کوٹی کا ہے اور دونوں باٹ کا وزن بھی سمانیہ ہے تو تجھے آپتی کیا ہے ؟(بھیکو کچھ کہنے جاتا ہے ہاتھ کے اشارے سے اسے 

:روک کر) اور ویسے بھی نمک جیبھ کے سواد کے لئے ہوتا ہے پھر اس سے کیا انتر پڑتاہے کہ اسے کس دھاتو کی باٹ سے تولا گیا ہے ۔ 

بھیکو:انتر پڑتا ہے راج پروہت جی۔ یدی میری وستو لوہے کی باٹ سے تول کر لی جارہی ہے تو اپنی وستو سونے کے باٹ سے تولنے پر کیوں اوتارو ہے۔ باٹ بدلنے سے سواد میں چاہے کوئی انترنہ پیدا ہوتا ہو پر ملیہ میں انتر اوشیہ پیداہوتاہے ۔ اور مولیہ میں انتر بھاونا میں انترپیدا کرتا ہے۔اور یہ بات تو آپ بھلی بھانتیجانتے ہیں کہ بھاونا کا انتر ہی دنیا کا سب سے بڑا انتر ہے کہ اسی کے گربھ سے اوشواس ،انیائے ، انرتھ اور استیہ جنم لیتے ہیں۔ 

پروہت :وشواس ، اوشواس، نیائے ،انیائے ، ارتھ ، انرتھ، ستیہ استیہ کی بھاشا کہاں سے سیکھی تونے بھیکو۔

بھیکو:اپنے کھیت سے ،اپنی مٹی سے مائی باپ ...

پروہت:اسی لئے تو اپنا جَو سونے کے باٹ سے ...

بھیکو:نہیں مہاراج! میں کسان ہوں، انّ پیدا کرنا میرا دھرم بھی ہے اورکرم بھی۔ میں اپنا جَو سونے کے باٹ سے تلوانا نہیں چاہتااور نہ ہی اپنا ادھیکاربھِکشا کے پاتر میں چاہتا ہوں۔میرا پرتی پرشن کیول اتنا ہے کہ وٹھل سیٹھ اپنا نمک لوہے کے باٹ سے تول کردیں۔

:(پروہت دوسرے پنڈتوں سے بات کرتا ہے ۔ آرتی کی آواز تیز ہوتی ہے کچھ دیر بعد آرتی دھیمی ہوتی ہے ۔)

بھیکو:مہاراج! جب میں اپنے گاؤں سے نگر آرہا تھا تب سرجو ندی کے تٹ پر میری آنکھوں نے ایک درشیہ دیکھا ۔ باگھ اور میمنہ ایک ساتھ سرجو ندی کا پانی پی رہے تھے۔ کیا وہ کیول میری آنکھوں کا بھرم تھا ؟  ...۔

پروہت:(بات کاٹ کر) نی سندھیہ وہ ستیہ تھا... ستیہ ہے ... اتنا ہی ستیہ جتنا اس راج سنگھاسن پر دھری یہ بھگوان شری رام کی پاون کھڑاؤں...رام راجیہ کی یہی وشیشتہ ہے کہ یہاں باگھ اور میمنہ ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ 

بھیکو:تورام راجیہ میں کسان اور ساہوکار کے لئے دو الگ الگ ماپ ڈنڈ کیوں؟

(درباری ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں ... کانا پھوسی  ...بڑبڑاہٹ... کچھ پل بعد پروہت گمبھیرتا سے کہتا ہے)

پروہت:شبھ گاؤں کے بھیکو ...تیرے پرشن کا اُتّر یہ کھڑاؤں ہی دیگی جسے سوئم شری رام نے ایودھیا کے راج سنگھاسن پر نیوکت کیا ہے ۔ اے پتیت پاون کھڑاؤں شبھ گاؤں کے اس بھیکو کسان کے ساتھ نیائے کر۔

(آرتی کی آواز ایک بار پھر تیز ہوتی ہے اور دھیرے دھیرے کم ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ راج دربار کے سدسیہ ایک ایک کرکے آگے آتے ہیں۔)

ایک:شری رام چندر جی کی کھڑاؤں سروسریشٹھ رگھو کلی ہے۔

دو:کرونا کی مورتی ہے ۔ پریم کا سروور ہے۔ گیان کا ساگر ہے۔

تین:کام دھینو کی بھانتی کلیانی ہے ۔ سوریہ دیو کی بھانتی تیجسوی ہے۔ اور پرتھوی جیسی دھیرج والی ہے ۔ 

چار:پرم شکتی ہے ۔ پرم مِتر ہے ۔ سریشٹھ سارتھی ہے۔ 

پانچ:استر ہے ۔شستر ہے ۔دشٹوں کے لئے وَجر ہے۔

چھ:من موہنی ہے ۔ سیّمی ہے۔ شبری کے پھل سے بنی ہے ۔ 

سات:جیون سنچالک ہے ۔ انگ رکھشک ہے۔ سدرشنی ہے ۔ مارگ درشنی ہے۔

آٹھ:وجر ہے ۔ کٹھور ہے۔ دھنودھری ہے۔ مہارتھی ہے۔ 

نو:امرت کلش ہے ۔ سنجیونی بوٹی ہے ۔ پنچ وٹی کی نواسی ہے ۔ 

دس:اس کی نابھی سے ستیہ اور نیائے جنمتے ہیں۔ 

پروہت:( ہاتھ اٹھاکر)رام جی کی لیلا سچ مچ اپرمپار ہے (پھر فیصلہ سناتے ہوئے) بھیکو ! تو سونے کی باٹ سے تولا گیا نمک ہی اپنے گھر لے جائیگا۔

درباری :(ایک ساتھ) ستیہ وچن ستیہ وچن

بھیکو:یہ کیسا نیائے ہے اور کس نے کیا؟

پروہت:دیکھا نہیں کیا تونے؟ بھگوان شری رام کے پاون کھڑاؤں نے کیا ہے تیرے لئے نیائے۔

بھیکو:(غصے سے) جھوٹ ! کھڑاؤں نے کچھ نہیں کہا۔یہ نیائے نہیں انیائے ہے ۔ 

(سب سینک اپنے اپنے بھالے بھیکو پر تان دیتے ہیں۔ )

پروہت:(سفاکی سے) یدی تو شری رام کے پاون کھڑاؤں کے سمکش کھڑا نہیں ہوتا تو اسی پل تجھے جیوت اسی دھرتی میں گڑوادیتا۔(پھر خودکو قابو میں کرتے ہوئے) لگتا ہے تیرے اور اس کھڑاؤں کے بیچمانیتاؤں کی گہری کھائی ہے ۔یہی اُچیت ہوگا کہ تیرے ساتھ نیائے سوئم شری رام کریں۔

بھیکو:ہاں گرووَر ۔ یدی راج سنگھاسن پر میرے رام چندر جی ہوتے تو کبھی میرے ساتھ ایسا نہیںہوتا۔

وٹھل:ایسا متی بول بھیکونہیں تو نرک میں بھی ٹھور نہیں ملے گا۔

پروہت:(بھیکو سے) تو ٹھیک ہے تو جیسا اُچیت سمجھتا ہے ویسا ہی ہوگا۔تجھے اپنے بھگوان رام چندر جی کے لوٹنے کی پرتیکشاکرنی ہوگی۔

بھیکو:(چونک کر)کیا؟یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟

پروہت:میں تو کیول راج دھرم نبھا رہا ہوں۔تجھے یدی اس کھڑاؤں کے نرنئے پر کوئی سندیہہ ہے تو رام کی پرتیکشا کرنی ہوگی۔

بھیکو:پر رام لوٹیں گے کب؟

پروہت:اگلی پورن ماشی کو

رگھو:اور یدی وہ نہیں آئے تو؟

پروہت:تو اس کے بعد والی پورن ماشی کوآئیں گے۔ آج نہیں تو کل وہ اوشیہ آئیں گے۔ ایودھیا کا گرت آکرشن انہیں ایودھیا اوشیہ لائے گا۔(پلٹ کر سینکوں سے) لے جاؤ شبھ گاؤں کے اس کسان کو اور سرجو ندی کے تٹ پر اسے انکِت کردو۔(پلٹ کر رگھو سے)تیرا باپ بڑا بھاگیوان ہے ۔ جب رام ایودھیا لوٹیں گے تو سب سے پہلے اسے ہی ان کے درشن ہوںگے۔جا بھیکو! رام جی کی پاون کھڑاؤں اپنے سر پر دھر کر اُن کی پرتیکشا کر۔کہ اب سے یہی تیرے جیون کا لکشیہ ہے اور زندہ رہنے کا کارن بھی۔ رام آئیں گے ۔  اوشیہ آئیںگے۔ (کہہ کر پاس کھڑے پنڈت سے کہتا ہے ۔ )جل

بھیکو:پر مائی باپ یہ راج دنڈ ہے یا ...

پروہت:یہ راج دنڈ نہیں۔ (اس دوران سینک کھڑاؤں لے کر آتے ہیں ۔ پروہت اسے ان کے ہاتھوں سے لے کر بھیکو کے سر پر رکھتا ہے۔) یہ تو مان مُکٹ ہے جو میں تیرے مستک پر رکھ رہا ہوں ۔(پنڈت اسے ایک کمنڈل میں جل دیتا ہے )

بھیکو:(جل کو دیکھ کر)یہ کیا ہے ؟

پروہت:مایاوی جل۔کہتے ہیں جل پشو ،پکشی ،جیو، جنیت، ورکش، منشیہ کے جیون کو گتی دیتا ہے ۔ پر یہ جل تیرے شواس کے گتی کو اِستھر کردے گا۔ اس جل کا اسپرش تجھے پتھر بنادیگا۔

بھیکو:مہاراج آپ تو ستیہ کی پراکرتی ہی بدل رہے ہیں۔  

( ایک ویدھی شروع ہوتی ہے ۔ پروہت جل اس کے پیروں پر چھڑکتا ہے اور بھیکو کے پیر اپنی جگہ پر جم جاتے ہیں۔ )

بھیکو:ارے  میرے پاؤں؟  یہ میرے پاؤں ...( منچ کے دوسرے حصے سے اس کی بیوی بھدرا دوڑتی ہوئی آتی ہے ۔ )

بھدرا:بول رگھو کیا ہوا تیرے باپو کو؟

پروہت:اب یہ پتھر بن چکے ہیں۔ 

بھدرا:کیا؟ پاؤں پتھر بن گئے ہیں۔پھر تیرا باپو گھر کیسے آئیگا؟

رگھو:پروہت جی نے کہا ہے اب تیرا باپو رام جی کے ایودھیا آنے کے بعد ہی آئے گا۔

بھیکو:میرے پیر پتھر سمان ہوگئے ۔ اب کھیتوں میں ...

پروہت:تو چنتا مت کر بھیکو تیرے گھر اور پریوار والوں کو راجیہ کی اور سے سویدھا دی جائے گی۔

رگھو:ہاں ماں دھیرے دھیرے باپو کا پورا شریر پتھر بن گیا۔

بھدرا:پھر وہ گھر کب آئیں گے؟

پروہت:اس سمے تک نہیںجب تک رام چندر جی سوئم آکر اپنے اسپرش سے ساکار نہیں کردیتے ۔

بھیکو:( اپنی گردن کو چھو کر) میری گردن ؟ 

پروہت:تیرے پریوار والے جیون کی ہر سویدھا بھوگ سکتے ہیں کیول ...

بھیکو:کیول...

بھدرا:کیول ...

پروہت :کیول نمک کا سواد نہیں چکھ سکتے۔

بھیکو:مگر راج پروہت جی  میں... م ۔۔ م ... ک ... ک... ( اس کی آواز اس کی گردن میں ہی گھٹ جاتی ہے۔)

رگھو:باپو کیا ہوا باپو؟

بھدرا:بول نا کیا ہوا تیرے باپو کو۔

:(دونوں پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں)

پروہت:تیرا باپو اب پتھر بن چکا ہے ۔ (سینکوں سے ) لے جاؤ اسے اور نگر دوار پر انکِت کردو۔ جو سمئے بیتنے پر بھی اکشے رہے۔ (سینک اسے اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ رگھو اور بھدرا کے رونے کی آواز فضا میں دیر تک گونجتی رہتی ہے ۔ پس منظر سے گیت شروع ہوتا ہے۔)

ایودھیا 

ایودھیا آرہا ہوںمیں

میں تیری کوکھ سے جنما

تیری گودی کا پالا ہوں

تیری صدیوں پرانی مٹی میں کھیلا ہوں۔

ایودھیا میں تیری مرگھٹ کا واسی ہوں۔

میرے ہر نام سے مجھے تو پہچانتی ہے

ایودھیا! میرا باہر کربلا ہے

اندرون میرا کپل وستو ہے

مکہ ہے مدینہ ہے 

مجھے تیرے روشندان میں جینا ہے

بدن پر ہے تیرا بخشا ہوا کیسری بانا

ہے بھکشا پاتر  ہاتھوں میں

سفر میرا ہے اب تاریک راتوں میں

ایودھیا! آرہا ہوں میں...

(دھیرے دھیرے اند







ھیرا اور ایک ساتھ بہت سارے لوگوں کے ہانپنے کی آواز ۔ کچھ پل بعد الگ الگ وِنگ سے بہت سارے ڈھنڈورچی باہر نکلتے ہیں ۔ سب یہاں وہاں چکر لگاتے ہوئے کہتے ہیں۔)

ایک:سنو !  سنو!  سنو!  ایودھیا کے نگر واسیوں سنو! مہارانی سیتا کا دشٹ راون نے ہرن کرلیا ہے۔

دو:وانر سینا پتی ہنومان نے رام کو بھگوان سویکار کرلیا ہے ۔

تین:بھگوان رام نے راون کی لنکا پر آکرمن کردیا۔

چار:شری رام نے کوکرمی راون کا ودھ کردیا۔

پانچ:شری رام اپنی پتنی سیتا اور بھائی لکشمن کے ساتھ ایودھیا آرہے ہیں۔

دو :سنو!  سنو!  سنو!  ایودھیا کے نگر واسیو سنو۔ بھگوان شری رام اس پورن ماشی کی رات ایودھیالوٹ رہے ہیں۔ 

سب:(ایک ساتھ ) اس شبھ اوسر پر شری رام چندر جی کی پاون کھڑاؤں کی اُپاسنا کی جائے گی۔ سنو!  سنو!  سنو! ایودھیا کے نگر واسیو سنو! (کہہ کر ڈھنڈورچی نکل جاتے ہیں۔ تبھی چاروں پنڈت مورتیوں کو کھینچ کر منچ پر لاتے ہیں۔ وہ سبھی بری طرح ہانپ رہے ہیں۔)

ودیا ساگر:اُف کیسی گندھ ہے ۔ میری تو ناک کے بال جل گئے۔

دیانند:جیسے جیسے تیری عمر بڑھتی جارہی ہے ۔ تیری ناک بھی لمبی ہوتی جارہی ہے ۔ ودیا ساگر...

ودیا ساگر:تجھے کیا لگتا ہے اس پورن ماشی کی رات کو رام آئیں گے؟

دیانند:ہمیں کیا انتر پڑتا ہے ۔ رام آئیں آئیں ، نہ آئیں۔ ہم تو کیول راج کوش سے ویتن لیں اور رام رام کریں۔ ( ودیا ساگر گردن ہلاتا ہے ) اب بھینس کی پونچھ کی طرح گردن کیا ہلا رہا ہے ۔ چل ۔ (وہ لوگ مورتیاں رکھ کر جاتے ہیں۔ ان کے جاتے ہی مورتیاں جیوِت ہوجاتی ہیں۔ 

مورتی-۱:سرجو ندی کا جل کیسا نشچل ہے؟

مورتی-۲:اورا س کے تٹ پر رام چندرجی کے پاون پاؤں کی وشال اور ویراٹ کھڑاؤں کیسے گرْو سے ایودھیا کے آکاش کو دیکھ رہی ہے ۔

مورتی-۳:اس شکتی شالی کھڑاؤں کے نیچے بسا ایودھیا کتنا دربل، نردھن اور جرجر دکھائی دیتا ہے۔( تبھی پیچھے سے بھدرا کی ایک دردناک آوازابھرتی ہے۔)

بھدرا:رگھوا تیرے باپو کے بنا یہ چھوٹی سی کٹیا کتنی بڑی لگتی ہے۔

(سب مورتیاں چونک کر ادھر اُدھر دیکھتی ہے ۔ تبھی راج محل سے پروہت اپنے پنڈتوں کے ساتھ آتا ہے ۔)

پروہت:پنڈت یہ کھڑاؤں واستو میں وِشال رام راجیہ کا سمارک ہے ۔ سونے کے باٹو ں سے بنا کھڑاؤں کا سمارک ایودھیا کی پرگتی کا پرتیک ہے ۔ 

پنڈت:پرنتو راج پروہت جی ۔ سرجو ندی کے تٹ پر بیٹھا ہوا باگھ میمنے کی ہڈیاں چبا رہاہے ۔ 

مورتی-۱:دیکھو نا آکاش کے مرگھٹ پر پورن ماشی کا چاند چتا کی بھانتی جل رہا ہے ۔ 

بھدرا: سرجو ندی کے تٹ پر کھڑی آشائیں چھما کی آکرتی میں کیوں کھڑی ہوگئی ہیں۔ 

مورتی-۲:رام چندر جی آئیںگے اور ہماری آتمائیں ساکار ہونگی۔

بھدرا:رگھوا !  اے رگھوا !

مورتی -۳:تجھے کیا لگتا ہے اس ورش رام چندر جی آئیںگے۔

پروہت:اُن کی یہی آشا تو ہماری انتم اوشکتا ہے۔اس کھڑاؤں کے نیو میں اُن کی آشا کی لو جیویت ہے۔

پنڈت:پرنتو وسنت میں بھی پیڑوں کے پتے پیلے ہوکے جھڑ رہے ہیں۔ 

بھدرا:یہ رگھوا تو میری آواز پر کان ہی نہیں دیتا۔(رگھوا آتا ہے اب وہ ۸-۹ سال کا بچہ نہیں کڑیل جوان ہے ۔)رگھوا نگر دوار نہیں جانا ہے تجھے۔

رگھو: ماں (ایک پل رک کر) ماں کیا اس ورش رام چندرجی آئیں گے۔

پروہت:رام آئیں نہ آئیں راج سنگھاسن پر ان کی کھڑاؤں تو ...

پنڈت:پرنتو راج پروہت جی ۔ ایودھیا کے نگرواسی ...

مورتی-۳:کہیں رام ایودھیا کا راستہ بِسر تو نہیں گئے؟

رگھو:ماں بھوگل کے وشیشگیہ کہتے ہیں رام پورن ماشی کی رات کو آئیںگے۔

بھدرا:نہیں بیٹا ۔ جب رام آئیں گے تب ہوگی پورن ماشی کی رات ( مورتیاں چونک کر ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں۔) 

مورتی -۱:ورنہ تو ہر رات شراون کمار کے ماتا پتا کے شراپ کی بھانتی کالی گھنی اور گاڑھی ہے۔ 

رگھو:ایسا نہ بول ماں!

مورتی-۴:تم نے دیکھا نہیں رنگ برنگے دھوج اور پتاکے اڑاتے مہاراجہ بھرت کے رتھ میں سوئم راج پروہت گئے ہیں بھگوان شری رام کو لانے۔

پروہت:(ہنستا ہے) رام تو لُپت ہوگیا ہے ہماری متھک گاتھا میں۔ 

پنڈت:پرنتو سرجو ندی سوکھ گئی ہوگی اور اس کی مچھلیاں پانی کے میلے بلبلے میں ہوا کے لئے تڑپ رہی ہیں۔

بھدرا:اسی لئے کہتی ہوں بیٹے یدی رام کو آنا ہوتا تو ...

پروہت: کون کہتا ہے رام نہیں آئیںگے ۔ رام آئیں گے۔ اوشیہ آئیںگے۔مہاراجہ بھرت کے رتھ پر آئیںگے۔

پنڈت:پرنتو 

رگھو:پرنتو کیا ماں؟

بھدرا:پرنتو مہاراجہ بھرت کا رتھ تو کب کا ٹوٹ چکا ہے 

مورتیاں:(ایک ساتھ) کیا؟

بھدرا:اور اس کے رتھ میں جُتے گھوڑے بوڑھے ہوکروٹھل سیٹھ کی بگھی میں جوت دیئے گئے ہیں۔ 

پروہت:جس ناگرک کو بھی شری رام چندر جی کی آگمن پر سندھیہ ہوگا...

(ڈھنڈورچی ڈھول پیٹتے ہوئے جاتا ہے)

ڈھنڈورچی:اسے راج دروہ کے آروپ میں بندی بناکر کارا گار میں ڈال دیا جائیگا۔

پروہت:ایودھیا میں رام راجیہ ہے سب خوش ہیں۔

پنڈت:پرنتو مہاراج اب لوگ ہنستے ہیں تو ان کی ہنسی میں ہلدی اور ہینگ کی گندھ نہیں آتی

مورتی-۳:شری رام چندر جی آئیں گے تب ہماری آتما ساکار ہوگی۔

بھدرا:میرے رام تو تیرے باپو ہیں بیٹا۔

رگھو:جب سے باپو نے گھر کا دوار چھوڑا ہے ہم لوگوں کی جیب نے نمک کا سواد نہیں لیا۔ 

بھدرا:اب تو آنسوؤں سے بھی نمک کا سواد دُھل گیا ہے۔

مورتی-۳:ہم کیا کریں۔ ہم تو کیول پتھر کی پرتیمائیں ہیں اِستھر اور نِرجیو

پنڈت:اب تو ان کی کایا سے بندھے پتھر بھی مٹی ہونے لگے ہیں۔ کب آئیں گے شری رام چندر جی۔

پروہت:(ہنستا ہے) رام تو کیول ایک سپنا ہے ۔

بھدرا:ہاں بیٹے۔ رام کیول ایک سپنا ہے ۔

پروہت:ستیہ ہے کھڑاؤں...۔ بھگوان شری رام کے پاؤں کی پاون کھڑاؤں۔ ستہ کی جانگھ پر بیٹھی کھڑاؤں...

پنڈت:پرنتو ایودھیا کے کھیتوں میں کیول بھوک اُپجتی ہے۔

پروہت:تم کیوں ویاکل ہوتے ہوپنڈت؟ راج کرنے والے ورگ کا مہامنتر تم نہیں جانتے؟ جاؤ نگر جنو سے کہہ دو کہ اس کھڑاؤں پر دنت کتھا لکھیں۔

مورتی-۱:تمہیں پتا ہے بچوں کے کھیلنے کے لئے راجیہ کی طرف سے کھڑاؤں کے کھلونے دیئے جارہے ہیں۔ 

مورتی-۳:گروکلوں میں کھڑاؤں کے چتروں کی پرتی یوگیتا آیوجت کی جارہی ہے۔

مورتی-۲:ہر مندر میں کھڑاؤں یگیہ کا پربندھ کیا جارہا ہے ۔ 

مورتی-۴: ہر چورستے پر کھڑاؤں کی پرتیمائیں استھاپت کی جارہی ہیں۔

(اس دوران بھدرا ، رگھواور سبھی مورتیاں ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں۔)

ڈھنڈورچی:(آتے ہوئے)سنو!  سنو!  ایودھیا کے نگر واسیو سنو! راج پروہت جی نے اواہن کیا ہے کہ  ...

پروہت:جن نگر واسیوکی پرتیمائیں سرجو ندی کے تٹ پر انکِت ہیں اُن کا راجیہ کی اور سے ستکار کیا جائے۔

ڈھنڈورچی:انہیں راجیہ کی اور سے سمّانت کیا جائیگا۔

پنڈت:پرنتو راج پروہت جی ۔ راج کوش خالی ہے اور...

(بھدرا رگھو کو کچھ کہتی ہے جس کے جواب میں رگھو کہتا ہے)

رگھو:کیا؟ 

بھدرا:ہاں بیٹے !  ایسا لگا جیسے بہت سارے لوگ ساگر کے اس پار سے ہم پر ٹھٹھا مار کر ہنس رہے ہیں۔

پروہت:سونے کی لنکا ہماری وجے بھومی اور وہاں کا سارا سونا بھگوان شری رام چندرجی کے پاؤں کی دھول ہی تو ہے۔

پنڈت:پرنتو ...

پروہت:پنڈت تم ستّہ کے سوتر دھار ہو۔اور ستّہ کے سوتر دھار کے مکھ پہ  ’پرنتو ‘  شبد شوبھا نہیں دیتا۔

(تبھی بھدرا کے گھر کی کنڈی کھٹکھٹائی جاتی ہے)

رگھو:اس سمئے دوار پر کون ہوگا؟

(دو سینک آتے ہیں)

سینک-۱:ہم راج سینک ہیں۔

سینک-۲:یہ لو راج کی اور سے ایک تچھ بھینٹ (کہہ کرایک سونے کی کھڑاؤں بھدرا کو دیتا ہے )

مورتی-۳:دن ہفتے ، ماس، برس ، یُگ بیت گئے۔ بھگوان رام کب آئیں گے؟

مورتی-۱:ایودھیا میں اب منشیہ کم اور ہماری طرح مورتیاں ادھیک ہیں۔

مورتی-۲ : آشا کی کوکرمی دھوری پرگھوم رہا ہے ایودھیاکا راج۔

بھدرا: کیا ہوا رگھو بیٹے؟ 

رگھو: ماں میں نے آج پھر وہی سپنا دیکھاجو تو دیکھتی آرہی ہے ۔ایودھیا کی اور آتے ہوئے شری رام اور اُن کے پیروں میں لوٹتے ہوئے چوہے اور اُن کے پیروں سے دورہوتا ہوا ایودھیا۔

بھدرا:بیٹے وہ سپنا نہیں ستیہ تھا...۔ ستیہ ہے ...۔۔ ستیہ...۔

مورتیاں: (ایک ساتھ )کیسا ستیہ 

پروہت : ستیہ ...۔ کیسا ستیہ ...۔۔ 

رگھو: بول ماں کیسا ستیہ؟

بھدرا: ہزاروں ورشوں پہلے کی بات تھی یا شاید آج ابھی کی بات ہے یا آنے والے ہزاروں ورشوں بعد کی بات ہوگی جب رام چندر جی بہت چھوٹے تھے۔ہیں۔ یا ہونگے ایک دن آکاش پر سوریہ نہیں اُگاتھا یا اُگا ہے یا نہیں اُگا ہوگا۔کسی انترِکش میں ایودھیا کا سوریہ کھوگیا اس طرح نہ جانے کتنا سمئے بیت گیا دن اور رات کا انترمٹ گیا ۔بنا سوریہ دیوتا کے لوگ ویاکل ہو اُٹھے۔ پوجا ارچنا یگیہ کرائے گئے پر سوریہ دیوتا نے اپنا مکھ نہیں دکھایا تب رام نے اپنی ماں سے پوچھا  : سوریہ دیوتا کیوں نہیں اُگے ۔ کوشلیا نے کہا سوریہ دیوتا تو کب کے آچکے ہیں آکاش پر ۔ پرنتو......

رگھو: پرنتو... 

بھدرا: پرنتو ... سرجو ندی کے تٹ پر کھڑا پربت اُن کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ یہ سن شری رام نے اپنا شستر اٹھایا اور راج محل سے نکل پڑے۔ کوشلیا نے پوچھا کہاں جارہے ہو بیٹا ؟ میرے رام نے کہا : اُس پربت کا ودھ کرنے جوسوریہ کا راستہ روکے کھڑا ہے۔

مورتیاں: (ایک ساتھ )پھر کیا ہوا۔ 

رگھو: بول نا ماں ۔ پھر کیا ہوا ۔

بھدرا: پھر کیا ...رام، رام نہیں رہے اُن کا پورا شریر شستر بن گیا ۔ رام نے اس پوجیہ پربت کو سوریہ کے راستے سے ہٹا دیا۔ 

مورتیاں: پھر ؟ 

بھدرا: پھر کیا؟  چاروں اور پرکاش ہی پرکاش ہوگیا ۔ اننت تیجسوی پرکاش۔ سنسار کے سمست اندھکار کو نشٹ کرنے والا سوریہ دیو ایودھیا کے آکاش پر پھر سے جگمگانے لگا۔

رگھو: پرماں !  یہ کون سے رام کی کہانی ہے ۔

مورتیاں: ہاں ہاں !  کون سے رام کی ؟

رگھو: سرجو ندی کے کنارے کبھی کوئی پربت نہیں تھا ماں !

مورتیاں:ہاں ہاں !  کوئی پربت نہیںتھا۔

رگھو:نا  کبھی رام نے اسے ہٹایا 

پروہت:یہ جھوٹی کہانی ہے ۔

رگھو:یہ کہانی تونے کہاں پڑھی ماں؟ کس رامائن میں؟

مورتی-۱:بتاؤ کس والمیکی یا تلسی داس نے رچی یہ کہانی؟

مورتیاں:(ایک ساتھ) کس نے رچی یہ رامائن؟

رگھو:بول نا ماں کس نے رچی یہ رام کی کہانی۔

بھدرا:میںنے رچی یہ کہانی۔ یا شاید شری رام کے ان پیرو ں نے رچی یہ کہانی جو پربت کا ودھ کرنے راج محل سے نکلے۔یا اس پربت نے رچی یہ کہانی جو سوریہ دیوتا کا راستہ روکے کھڑا تھا۔یا ایودھیا کے اس اندھکار نے رچی یہ کہانی جو شراون کمار کے ماتا پتا کے شراپ سے زیادہ کالا گھنا اور گاڑھا تھا۔کس نے رچی یہ ٹھیک سے پتہ نہیں ۔ پر اتنا میں بھلی بھانتی جانتی ہوںکہ میرا شری رام اتہاس کے پنوں پر شواس لیتا کوئی پاتر نہیں وہ تو سمئے کے اَلِکھِت ادھیائے میں دوڑتی رکت کی وہ موج ہے جو اپنے راستے خود بناتی ہے اور اپنی گاتھا خود رچتی ہے ۔ (جب بھدرا یہ کہہ رہی ہوتی ہے اس دوران نئے جوش اور جذبے سے رگھو اٹھتا ہے ۔ پاس پڑی ہوئی کدال اٹھاتا ہے ۔ )

بھدرا:کہاں جارہا ہے بیٹے ؟

رگھو:پربت کو کاٹنے!

پروہت:ہاڑ، مانس اور رکت سجّا سے بنے سادھارن لڑکے کا یہ ساہس ؟

رگھو:دیکھ ماں ایودھیا کے آکاش پر کتنا اندھکار ہے ۔ آشا کے باٹوں میں بندھی اس وشال اور ویراٹ کھڑاؤں نے پورے ایودھیا کے آکاش کو نگل لیا ۔ شری رام اسی کھڑاؤں کے پیچھے ہیں۔(کہہ کر باہر نکل جاتا ہے)

بھدرا:رگھو !  رگھو !  ( وہ چلاتی ہے ۔ رگھو اس طرف جاتا ہے جہاں بہت ساری مورتیاں کھڑی ہیں۔ بھدرا اس کے پیچھے لپکتی ہے ۔)

(پس منظر سے گیت ابھرتا ہے )

ایودھیا 

ایودھیا آرہا ہوںمیں

میں تیری کوکھ سے جنما

تیری گودی کا پالا ہوں

ایودھیا! آرہا ہوں میں...

پروہت:اس دیش دروہی لڑکے کو بندی بناکر کاراگار میں ڈال دو۔ 

(بہت سارے سینک رگھو کی طرف بڑھتے ہیں ۔ رگھو قطار میں کھڑی بہت ساری مورتیوں کو توڑنے کے لئے کدال اٹھاتا ہے اور اچانک یہ منظر تھم جاتا ہے ۔ کچھ پل کے بعد ایک کالج کا لڑکا منچ پر آتا ہے اور درشکوں سے کہتا ہے ۔)

لڑکا:Sorry to interupt  ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ناٹک کار نے ہمیں یہ ناٹک یہیں تک لکھ کر دیا ہے ۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ ہمیں نہیں معلوم ۔ کیا رگھو نے مورتیوںکے وشال پربت کا ودھ کردیا۔ یا پروہت کے سینکوں نے اسے پکڑ کر کاراگار میں ڈال دیا یا وہ ابھی تک اپنے ہاتھوں میں کدال لئے اپنے پرکھوں کی مورتیوں کے پہاڑ کے سامنے کھڑا ہے۔ہمیںنہیں معلوم۔ شاید ناٹک کار کو بھی نہیں معلوم۔ ( پھر اچانک درشکوں کی طرف انگلی اٹھاکر )

لڑکا:کیا آپ کو معلوم ہے؟

(پردہ دھیرے دھیرے گرتا ہے ۔)


محمداسلم پرویز

صنوبر منزل، ہال روڈ،13/3

رلا(ویسٹ)، ممبئی-۰۷

ٹیلیفون  :7738940046

Post a Comment

0 Comments