"اُس وجود کا جنم"
وہ ایک نیم تاریک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔ شاید مکمل تاریک رستہ تھا اتنا تاریک کہ سامنے دیکھنے پہ صرف سیاہ چادر تنی لگ رہی تھی مگر جوں ہی نگاہ ذرا دائیں بائیں ہوتی تو اندازہ ہوتا کہ رستے کے بالکل بیچ کچھ ہی دور اس تاریکی سے بھی زیادہ تاریک کوئی ہیولہ موجود ہے۔ وہ ہیولہ اتنا مبہم تھا کہ جاننا مشکل تھا کہ وہاں واقعی کوئی موجود تھا یا اس کے ذہن کی اختراع تھی ؟ اگر ہوتا تو سامنے دکھائی دیتا، ترچھی نگاہ سے ہی کیوں موجودگی کا اظہار کرتا۔ اس نے مزید غور سے تاریکی کی چادر پہ نظریں جمائیں کچھ بھی تو نظر نہیں آرہا۔ رستہ بھی یہاں ہے اس کا ادراک بھی پہلے سے ہے ورنہ آنکھیں تو کہہ رہی ہیں مہیب تاریکی ہے جس کے پار پوری دنیا بھی آباد ہوسکتی ہے اور خلاء بھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر محسوس ہوئی جیسے اس ہیولے کے ہونے نہ ہونے کا یقین نہیں تو کیا پتا رستہ بھی اب یہاں نہ ہو۔ تو کیا وہ آگے بڑھے؟ یا پلٹ جائے؟ پلٹے بھی تو کہاں جب آگے موجود معلوم دنیا نظر سے اوجھل ہے اور اپنے وجود پہ شاکی بھی، تو کیا پتا پیچھے بھی اب کچھ نہ ہو۔ کون یقین دلائے گا کہ آگے اور پیچھے کی دنیا جوں کی توں موجود ہے جیسی روشنی میں ہوتی ہے۔ اور وہ ہیولہ؟ کیا وہ وہاں واقعی موجود ہے۔ یا وہ بھی اس کی یاد کا حصہ ہے جسے اس کے دماغ نے اس رستے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ اس نے نظر جھکا کر اپنے وجود کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہی مہیب تاریکی اس کے وجود پہ حاوی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی سمت دیکھا۔ اصولاً وہاں ستارے ہونے چاہئیں تھے۔ مگر وہاں بھی وہی تاریکی تھی۔ چاند کی کھوج کا کیا فائدہ کہ چاند وہاں ہوتا تو خیراتی ہی سہی لیکن اتنی روشنی تو پہنچا ہی دیتا کہ رستے اور ہیولے کا حقیقت ہونا نہ ہونا پتا چل سکتا۔ اس تاریکی میں جہاں اسے اپنا وجود تک نہیں مل پارہا تھا اسے کسی انجان ہیولے کی فکر تھی کہ وہ وہاں وجود رکھتا بھی ہے کہ نہیں۔ جہاں اسے یہ نہیں پتا تھا کہ وہ درست رستے پہ ہے یا نہیں بلکہ سرے سے کسی رستے پہ بھی ہے اسے یہ فکر تھی کہ وہ ہیولہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے۔ وہ جسے اپنے وجود کی خبر نہیں تھی اسے اس ہیولے کی وجہ سے اپنی بقاء خطرے میں لگنے لگی۔ شاید یہ کوئی درندہ ہے جو مجھے رات کی تاریکی میں چیر پھاڑ کے کھا جائے گا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک پہنچے مجھے کہیں چھپ جانا چاہیے۔ لیکن کہاں؟ اس کی یاداشت میں جو رستہ تھا وہاں کوئی چھپنے کی جگہ نہیں تھی۔ کیا پتا جس طرح اسے وہ درندہ دکھائی نہیں دے رہا تھا بالکل اسی طرح اس درندے کو بھی وہ دکھائی نہ دے۔ اور حملہ کرکے چیر پھاڑ کے کھانے کے لیے نظر آنا بہت ضروری ہے۔ نہیں جنگلی درندوں کو اندھیرے میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ وہ تو جسم کی بو سے بھی شکار تک پہنچ جاتے ہیں۔ جسم کی بو یا خون کی؟ اسے یاد آیا اس کے جسم پہ کئی زخم تھے اور شاید ان سے خون بھی رس رہا ہو۔ بشرط یہ کہ وہ اب جس تاریکی میں ہے وہاں اس کا جسم واقعی موجود ہو۔ شاید اس کا جسم بھی اس کی یاداشت کا حصہ تو نہیں؟ اس نے اپنے وجود کو محسوس کرنے کی کوشش کی۔ ناک سے نکلنے والی گرم سانس ایک دم ہی اوپری لب پہ اپنی ہلکی ہلکی گرمائش کا احساس دلانے لگی۔ یوں لگا جیسے اتنی دیر سے وہ اسی بات کا انتظار کر رہی تھی کہ اس کی طرف دھیان جائے اور وہ اپنا کام شروع کرے۔ پھر اس کا دھیان دھڑکتے دل کی طرف گیا۔ یک دم جسم کے کئی حصوں میں خون کی روانی محسوس ہونے لگی۔ سینے، انگلیوں کی پوروں میں، کنپٹی پہ ایک ساتھ دھڑکن سی ہونے لگی۔ اسے احساس ہوا وہ سر جھکائے کھڑی تھی۔ یا شاید کھڑا تھا۔ اسے یاد تھا کہ وہ لڑکی ہے۔ مگر یہ یاد داشت کم بخت آج ہر ہر بات پہ وسوسہ ڈال رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے اپنے سینے کو چھوا۔ وہاں موجود ابھاروں نے اسے مزید شش و پنج میں مبتلا کردیا۔ کیا عورت یا لڑکی ہونے کے لیے اتنے ہی ابھار ہونا ضروری ہیں؟ یا ان میں کوئی کمی بیشی ہے۔ اسے یک دم اپنی چھاتی سپاٹ محسوس ہونے لگی۔ اور پھر اس کے دونوں ہاتھ خلاء میں تیرنے لگے جیسے وہاں کوئی چھاتی تو دور کی بات کوئی جسم ہی نہ ہو۔ اس نے گھبرا کے ہاتھ اندھیرے میں یہاں وہاں مارے کبھی لگتا ہاتھ کسی چیز سے ٹکرا رہا ہے کبھی لگتا وہ صرف ہوا کا دباؤ ہے۔
پھر اسے یاد آیا کہ قدموں کے نیچے راستے کا لمس بھی راستے کے وجود کی دلیل ہوتا ہے۔
اس نے ایک پیر اٹھا کے دوبارہ زور سے اسی مقام پہ مارا جہاں پہلے موجود تھا۔ اور اس کے دماغ نے کانوں کی طرف سے پیغام کا انتظار شروع کردیا کہ اب پیر کے فرش سے ٹکرانے کی آواز آئے گی۔ اب اس کی ساری توجہ یا تو کان سے موصول پیغام کی جانب تھی یا پیر کی جانب سے کسی لمس کے بدلنے کے اشارے کی۔ لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کہیں خلاء میں معلق ہے کہ نہ پیر کو کوئی لمس محسوس ہوا نہ کان تک کوئی آواز پہنچی۔ اس نے اندازے سے اپنا رخ اپنی پیٹھ کی جانب موڑ لیا۔ اور راستہ کھوجنے کی کوشش کی۔ مگر اس جانب بھی تاریکی کا مہیب سمندر تھا۔ اس کا خوف بڑھتا جارہا تھا پہلے جو ہیولا راستے کے بیچوں بیچ کھڑا نظر آرہا تھا اب ایسا لگنے لگا تھا جیسے جس طرف سے اس کی نظر ہٹتی ہے وہاں ہیولوں کا جلوس ہے جو پتا نہیں اس کی طرف بڑھ رہے ہیں، دور جارہے ہیں یا وہیں کے وہیں جمے کھڑے ہیں کچھ اندازہ نہیں تھا۔ بس ایک احساس سا تھا بہت سے ہیولوں کے وجود کا۔ پھر اسے خیال آیا اگر یہ سب واقعی ہیں تو ان کے لیے وہ بھی ہیولہ ہے۔ یہ ادراک بہت خوش کن تھا اس کا وجود کسی کے احساسات پہ اثر کر سکتا تھا۔ کسی کو اسی خوف میں مبتلا کرسکتا تھا جس طرح کے خوف میں اس کی ذات تھی۔ جیسے خود اسے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ مرد ہیں یا عورت بس وہ ہیں۔ اسی طرح وہ بس ہے۔ اسے اپنا ہونا اور اس ہونے کا احساس ہونا عجیب سی لذت دینے لگا۔ وہی لذت جو شاید صرف دو جسموں کے اختلاط سے ہوتی ہے۔ یہاں کون تھا جو اسے یہ لذت دیتا سوائے تاریکی کے۔ وہ تاریکی اس پہ حاوی ہوتی چلی گئی۔ بلکہ کون غالب تھا کون مغلوب اندازہ لگانا مشکل تھا۔ یہاں تک کہ تاریکی اور اُس نے مل کے مزید تاریکی اور مزید ہیولے جنم دینے شروع کردئیے اور خود ان نئے وجودوں میں تحلیل ہوگئے۔
تحریر ابصار فاطمہ
0 Comments