Subscribe Us

Header Ads

نا آسودگی اور ادیب کی ذہنی فکر کا رشتہ عرق ریزی ⚫ : مشرف عالم ذوقی🔴, سنڈے اسپیشل ‏🔴الف لیلیٰ یاہزار داستان۔۔ ہم اس داستان سے کبھی باہر نہیں آ سکے۔ یہ داستان ایسی ہے کہ عورت مرد کے رشتوں کے تسلسل سے یہ داستان بار بار پیدا پیدا ہوتی رہے گی۔ ڈی ایچ لارینس کے ناولوں میں بھی اس داستان کا عکس ہے۔۔ایم جی لیوس کے یہاں بھی۔ لیوس کا مشہور ناول ’دی میک۔۔۔۔‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول کو لے کر نااتفاقی کی فضا پیدا ہوگئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا_ مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی۔ منٹو نے بھی اس داستان سے لطف لیا۔اور عصمت نے بھی۔اور عجب ظلم کہ زمانہ آج بھی عورت مرد کی داستان کو فحش نگاری کے زمرے میں رکھتا ہے۔ سمرقند کا بادشاہ شہر یار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے بدظن ہو گیا۔ اور اْس نے یہ دستور بنا لیا کہ ہر روز ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کر دیتا۔ عورت، بے وفایی، وصل، خواہشات، جسم کی مانگ اور جسم کی انتہا،اور کس نے کہا کہ ادب میں جسم نہیں آتا؟ جسم کی مانگوں کو ادب کی خیرات قبول نہیں؟ آخری دنوں میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں ممتاز شیریں نے بھی اس بات کو مانا تھا کہ جسم کی مانگوں نے عورت کو اداس کر دیا ہے اور مرد کے مظالم کن ہونے کا نام نہیں لیتے . منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی۔ورجینا وْلف کی ایک کتاب تھی ’اے روم آف ونس آن‘۔ اْن سے جب عورت اور اصناف ادب پر بولنے کے لئے کہا گیا تو وہ ایسی کھری سچائیوں تک پہنچی، جہاں پہنچنا آسان نہیں تھا۔ ورجینیا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ”میں عورتوں کی پوری اور مکمل آزادی کو پسند کرتی ہوں۔“ لیکن ورجینیا کو بھی پتہ تھا کہ اس، مردوں کے سماج میں عورتوں کی کیا جگہ ہے؟ شاید اسی لئے انہوں نے سخت الفاظ میں اپنے وقت کے سماج کو دھیان میں رکھتے ہوئے بتایا___ ”اب مجھے تھوڑا سخت لہجہ اپنانے دیجئے۔ کیا میں نے پیچھے لکھے الفاظ میں مردوں کے چیلنج کو آپ تک پہنچایا نہیں؟ میں نے آپ کو بتایا کہ ’مسٹر آسکربراؤننگ‘ آپ کے بارے میں بہت ہلکی رائے رکھتے ہیں۔ میں نے اشارہ کیا تھا کہ کبھی نیپولین نے آپ کے بارے میں کیا سوچا تھا اور ابھی موسولنی کیا سوچتا ہے؟ اگر آپ میں سے کوئی افسانہ یا ادب لکھنا چاہے تو آپ کے فائدے کے لئے میں ایک ناقد کی صلاح اْتارلائی ہوں جو عورتوں کی تنقید کو منظور نہیں کرتے۔ورجینیا الف، ہیمنگوے، سلویا پاتھ، بے شمار ادیبوں کے لئے ایک خاص وقت میں زندگی کا مقصد فوت ہو گیا۔ورجینیا نے بہت سے پتھروں کو ساتھ میں لیا اور اویس ندی کی طرف جان دینے کے ارادے سے بڑھ گئی۔جو ہماری دنیا کی ترجمانی کر رہے تھے، زندگی میں تناؤ پیدا ہوا تو انھیں حقیقت کا مقابلہ کرنا مشکل معلوم ہوا۔جیرارڈ ڈی نیروال۔ایک ایک سچا رومانٹک تھا۔ اس کے لئے اصل دنیا جہنم تھی. اس نے مرنے سے قبل لکھا..“یہ زندگی ایک سرقہ اور بدنامی کی جگہ ہے۔ مجھے شرم ہے کہ خدا مجھے یہاں دیکھے..جہاں تخلیقیت ہوتی ہے، وہاں مینٹل النس یا ڈس آرڈر کیوں ہوتے ہیں؟ میں نے اس مؤضو ع پر بہت سے مضامین کا مطالعہ کیا مگر تکنیکی اصطلاح کے دشت کے سوا مجھے یقین دلانے والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔خود کو ذہنی تشدد کا نشانہ بننے والا فنکاردر اصل ایک وقت میں بہت اکیلا ہو جاتا ہے،فرض کر لیتے ہیں،لیکن ہیمنگوے، سلویا پاتھ بننے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ بے شمار مصور، کمپوزر، مصنفین اور موسیقاروں کے پاس ذہنی دباؤ اس قدر ہوتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں یا مراقبے میں چلے جاتے ہیں،بہت سے فنکار شیزوفرینیا کا سامنا کرتے ہیں۔ڈانسرز، فوٹوگرافروں اور مصنفین میں بائپولر ڈس آرڈر زیادہ عام ہے۔بیتھوون موسیقار اور کمپوزر تھا۔لیجنڈری کمپوزر لڈ وِگ وین بیتھوون کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ افسردگی کا شکار تھا. شراب نوشی نے اسے بستر مرگ پر پہچا دیا. وہ افسردہ تھے اور خود کشی کی طرف بڑھنے لگے تھے.مشور آرٹسٹ واں گوگ نے 37 سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔ وین گو کے آخری ایام عبرتناک تھے.جین آسٹن کے تمام ناولوں میں محبت اور شادی کا موضوع ملتا ہے . اگرچہ آسٹن کی اپنی محبت کی زندگی (اس نے کبھی شادی نہیں کی) کے بارے میں بہت کچھ انکشاف ہوا ہے، لیکن ان کے ناولوں میں بتایا گیا ہے کہ وہ شادی میں محبت، احترام اور ذہانت کی اہمیت کو شدت سے محسوس کرتی ہیں۔ اسٹین سے اب تک ایک دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ جائیں آسٹن بھی گہری اداسی کا شکار تھی .اپنی زندگی سے ہیمنگوے بھی خوش نہیں تھا . نا آسودگی اور ادیب کی ذہنی فکر کا رشتہ ہمیشہ سے بہت گہرا رہا ہے . سماج اور معاشرے کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ ادیب کے لئے ساری زندگی نا آسودگی کے حبس سے باہر نکلنا کبھی کبھی دشوار ہو جاتا ہے .🔴🔴🔴🔴🔴

Post a Comment

0 Comments