'🔴'سدھ کیا ہوا سانپ''🔴
سانپ کی آنکھیں انگارے کی طرح دہکتی تھیں۔پھنکار کے ساتھ دھوئیں اور گیس کے مرغولے نکلتے تھے اور وہ جس طرف راستے سے گذر جاتا وہاں کی گھاس جل جاتی اور پھر برسوں اس پر کوئ سبزہ نہ اگتا۔شہر میں مختلف جگہوں،سڑکوں کے کنارے،پارکوں،کھلے میدانوں،تنگ گلیوں اور مختلف مکانوں میں اسے دیکھا گیا تھا۔چنانچہ آہستہ آہستہ چاروں طرف ایک عجیب بے نام سی دہشت اور خوف نے سارے ماحول میں زہر گھولنا شروع کردیا۔سب سے پہلے پرندے شہر سے غائب ہونا شروع ہوئے اس کے بعد چھپکلیاں،کاکروچ اور جھینگر بھاگ نکلے۔نہ جانے کہاں سے گِدھوں کا ایک جھنڈ شہر میں منڈلانے لگا۔ کبھی کبھی وہ اتنی نیچی اڑان میں چکر کاٹتے کہ ان کے پیروں کی سفیدی اور ادھ کھلی آنکھوں میں للچاتی چمک دکھائ دے جاتی۔
تب لوگوں نے کہا کہ یہ کوئ بلا ہے اور شہر سرِ شام ویران ہوجاتا۔لوگ جلدی جلدی اپنے کام نمٹا کر اپنے گھروں میں بند ہوجاتے،اندھیرا ہونے سے پہلے لوگ اپنے بچوں کو ڈھونڈ لاتے۔عورتوں کا باہر نکلنا بند کردیا گیا تھا۔شادی کی تاریخیں بڑھا دی گئ تھیں۔ریڈیو اور گراموفون پر بجنے والے گانے،جن سے گلی محلے گونجتے رہتے تھے موقوف تھے۔شام ہوتے ہی چاروں طرف ہو کا عالم طاری ہوجاتا۔لوگ سہمے رہتے کہ پتہ نہیں کِس سوراخ سے اور کس دراز سے وہ گھر میں گھس آئے۔اپنے اپنے دماغ سے انہوں نے بہت سارے پتھر بھی جمع کر لئے تھے تاکہ جب وہ اپنے ہی گھروں میں اور اپنی ہی چار دیواری میں غیر محفوظ ہوجائیں اور کوئ صورت نہ رہ جائے تب۔۔۔۔۔۔
یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ اسے اشتعال دلایا گیا تھا یا خود ہی۔۔۔یا پھر اس کے لئے کوئ مخصوص وقت مقرر تھا۔کچھ ٹھیک سے کہنا مشکل ہے مگر ہوا یوں کہ ایک دن اچانک سانپ بپھر گیا۔اس کی انگارے سے دہکتی آنکھوں سے چنگاریاں اور شعلے نکلنے لگے۔سانس سے دھواں اور گیس خارج ہونے لگی۔ہر پھنکار کے ساتھ گیس اور دھوئیں کے مرغولے اٹھتے اور شہر پر چھا جاتے۔دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے سارے شہر کو ڈھانک لیا۔ایسا اندھیرا چھا گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائ نہ دیتا۔گرمی اتنی پڑی جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہو۔زمین تپ کر انگارہ ہوگئ۔جھونپڑیاں،مکان اور کھپریل دھڑادھڑ جل رہے تھے۔کنویں اور تالابوں کا پانی خشک ہوگیا تھا۔عورتوں کے تھن سوکھ گئے تھے اور شیر خوار بچوں کو لوگوں نے اپنا پسینہ نچوڑ کر پلایا تھا۔۔۔۔کہیں جائیں سکون نہیں تھا۔کہیں بھی اس بے پناہ حدت سے پناہ نہیں تھی۔ چاروں طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔لوگ گھروں کو چھوڑ کر ٹھنڈی پناگاہوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔
لوگ بھاگ رہے تھے۔فضا میں جلتے ہوئے انسانی گوشت کی بو سے سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا۔ تین دن اور تین رات تک یہ سلسلہ چلا اور پھر اچانک سانپ رینگتا ہوا جھاڑیوں کے اس طویل سلسلے میں اتر گیا جو دوسرے شہروں کی سرحد تک پھیلا ہوا تھا۔اسے نہ پکڑا جاسکا نہ مارا جا سکا،چوتھے دن جب دھوئیں کے بادل ہٹے اور شعلوں کی حدّت کم ہوئ تو لوگوں نے دیکھا کہ تمام منظر غائب ہو چکے ہیں اور بے منظری کے اس لق و دق ویرانے میں وہ آدمی چِت پڑا ہے۔اس کے ہونٹوں کے گوشے میں جھاگ لگی ہوئ ہے۔خوبصورت چہرے پر جو اپنی دلربائ کے لئے مشہور تھا،جگہ جگہ نیلے نشان ابھر آئے ہیں۔چمکیلی روشن آنکھیں اندھیرے پپوٹوں میں بند تھیں۔سرخ ہونٹ پر سیاہ پپڑیاں جم کر پھٹ گئ تھیں اور زہر مختلف شریانوں سے ہوتا،مختلف رگوں میں پھیلتا اور مختلف حصوں سے گذرتا اب سارے جسم میں پھیل گیا ہے۔پیشے کے اعتبار سے یہ شخص جسے سانپ نے ڈسا تھا آہنگر تھا۔سارے شہر میں اس کی ہنر مندی کی دھوم تھی۔وہ پتھر سے لوہے کو نکالتا اور اس کو جس شکل میں چاہتا ڈھال دیتا۔تمام دن اس کی بھٹّیاں لوہے کو گلاتی رہتیں اور رات گئے جب وہ لوہے کی ڈھلائ کرتا تو آسمان کا سارا کنارا گلنار ہو جاتا۔ سرخ روشنی آسمان سے پھوار کی طرح برستی اور سارے شہر کو ایک نئے انوکھے حسن میں شرابور کر دیتی۔
یہ آدمی جو بہت مقبول تھا،چت پڑا ہوا تھا اور اس کا زہر اتارنے کے لئے ملک کے مختلف علاقوں سے جوگی اور تانترک جمع ہوگئے تھے۔انہیں کسی نے بلایا نہیں تھا۔کہا جاتا ہے کہ جوگی کو جب کبھی کسی کو سانپ کاٹنے کی اطلاع ملے تو اسے وہاں پہنچ جانا چاہئیے۔جھاڑ پھونک کا سلسلہ مسلسل جاری تھا اور دلچسپ تماشہ دیکھنے کے لئے وہ تمام لوگ موجود تھے جن کے لباس جل کر بدن سے گر گئے تھے اور اب وہ اپنی اپنی ہتھیلیوں سے اپنا ستر چھپائے خالی خالی نظروں سے کبھی آسمان کو،کبھی جوگیوں کے خوش رنگ چہروں کو اور کبھی جلی ہوئ بے برگ و آب زمین کو دیکھ رہے تھے۔وہ جوگی جس کے بڑے بڑے گل مچھے تھے اور جو پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل بانسری بجائے جارہا تھا، اس نے اچانک بانسری زمین پر رکھ دی۔
‘‘ہم جوگیوں کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے منتروں کے ذریعہ زہر چڑھا رہے ہیں۔میں زہر اتارنے کی جتنی کوشش کرتا ہوں ،اتنی ہی لوگ زہر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں’’۔
‘‘یہ غلط ہے’’ ایک بوڑھا جوگی مجمع میں سے دو قدم آگے بڑھ آیا۔اپنے میں شکتی نہیں تو دوسروں پر کیوں الزام دھرے ہو۔بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا۔۔۔۔ایک اور جوگی آگے آیا۔‘‘وہاں بھی جہاں ہم پہلے گئے تھے،آپ نے ایسی ہی بات کہی تھی۔آپ خود جوگی ہوکر دوسرے جوگیوں کو۔۔۔’’ تو تو میں میں کافی دیر تک چلتی رہی۔پچھلی تمام جگہوں کا ذکر ہوا جہاں وہ گئے تھے اور جہاں اسی طرح ایک دوسرے کو برا بھلا کہا گیا تھا۔
مجمع اکتانے لگا۔
انہوں نے کسی قدر ترحّم سے ان گیروے کپڑے والے جوگیوں کو دیکھا۔ادھر اس بے منظری والے لق و دق صحرا میں کھڑے ہوکر اس جھگڑے کو دیکھنا نہایت احمقانہ لگ رہا تھا کیوں کہ کبھی کبھی پس منظر سے ہو کے ساتھ چلتے ہوئے یا سڑ کر پھولتے ہوئے جسم کی بدبو کا بھبکا آجاتا اور سب کی انتڑیاں ابل کر ان کے حلق تک آجاتیں اور تب وہ اپنے سراپے پر نظر ڈالتے تو دیکھتے کہ وہ سب برہنہ ہیں۔ان کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی بھی نہیں۔وہ جلدی سے اپنی ہتھیلیوں سے اپنا ستر چھپا لیتے۔گل مچھے والا جوگی چلا گیا تھا اور اب سامنے ایک دوسرا جوگی کھڑا مسلسل بین بجا رہا تھا۔مجمع میں کچھ اس طرح کا ڈائیلاگ چل رہا تھا۔۔۔
‘‘سانپ کافی دنوں سے یہاں دیکھا جارہاتھا۔شہر کے بیشتر حصوں میں،تعجب ہے،اس وقت مارنے یا بھگانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئ۔اسی وقت ان جوگیوں کو خبر کیوں نہیں کی گئ کہ وہ آکر سانپ کو پکڑ لیں۔۔’’
‘‘جوگیوں کو خبر کی گئ تھی مگر یہ لوگ اس وقت تک کہیں نہیں جاتے جب تک سانپ کسی کو ڈس نہ لے۔ایسے ہی ان کے گرو اور ان کے گرو بھی کرتے آئے ہیں(سی کی آواز)۔جوگی نے اچانک بین بجانا بند کردیا۔
‘‘لگتا ہے سانپ دور نکل گیا ہے،اب میں کوڑی اڑاوں گا۔’’ مجمع نے دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا۔‘‘میں اب کوڑی اڑاوں گا،سانپ جہاں کہیں ہوگا،جس جھاڑ میں،جس جنگل میں،جس بل میں،یا جس آبادی میں یہ کوڑی اس کے سر پر سوار ہوجائے گی اور اسے مجبور کردے گی کہ وہ آئے اور آہنگر کے جسم سے زہر واپس کھینچ لے۔’’
لوگوں پر سنّاٹا چھاگیا۔ وہ اچک اچک کر دیکھنے لگے،دوسرے جوگی کسمسائے اور اتنی حقارت سے اس جوگی کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔جوگی نے بین سے زمین پر کراس کا نشان بنایا اور جھولے سے چار چمکتی ہوئ کوڑیاں نکال کر انہیں کراس کے چاروں سرے پر رکھ دیا۔یہ مشرق،یہ مغرب،یہ جنوب،یہ شمال۔پھر اس نے ان کوڑیوں پر کالا کپڑا ڈال دیا۔بین کی آواز چاروں طرف گونجتی رہی،چند منٹ تک وہ جھوم جھوم کر بین بجاتا رہا۔پھر ایک لمحہ کے لئے بین زمین پر رکھ دی اور کالا کپڑا کھینچ لیا۔کوڑیاں غائب ہوگئیں تھیں۔غائب؟ کمال ہے بھئ۔سارا مجمع ششدر رہ گیا۔جوگی نے کالا کپڑا پھر کراس پر ڈال دیا اور بین بجانے لگا۔دوسرے جوگیوں کے چہرے پر بڑی حقارت آمیز مسکراہٹ تھی۔سانپ کبھی نہیں آئے گا۔سانپ کبھی نہیں آیا ہے۔اس سے پہلے بھی کوڑیاں اڑائ گئ ہیں،اور اس سے پہلے بھی اور اس سے بھی پہلے۔۔۔۔
جوگی کی بین بند ہوگئ تھی۔اس نے سیاہ کپڑا کھینچ لیا تھا۔چاروں کوڑیاں موجود تھیں۔دوسرے جوگی حقارت سے ہنسنے لگے۔‘‘سانپ نہیں آیا؟’’ کسی نے معصومیت سے پوچھا۔جوگی نے گردن اٹھا کر مجمع کی طرف دیکھا۔‘‘ ہاں سانپ نہیں آیا۔وہ سدھ کیا ہوا سانپ ہے۔ہم جوگیوں میں سے ہی کسی نے اسے یہاں بھیجا تھا۔’’ دوسرے جوگی چراغ پا ہوگئے۔
‘‘ کسی ذمہ دار آدمی کو اتنی غیر ذمہ دار بات نہیں کہنی چاہئے۔اگر وہ ہم میں سے ہے تو صاف صاف اس کی نشان دہی کرنی چاہئے۔’’
‘‘مگر اس سے کیا ہوگا۔’’
‘‘یہ سچ ہے۔’’
‘‘یہ جھوٹ ہے۔’’
‘‘طرفداری ہے۔’’
‘‘ چلو یار، یہ لوگ ایسے ہی لڑتے رہیں گے۔’’
مجمع میں سے بڑی بڑی ٹولیاں آہستہ آہستہ کھسکنے لگیں۔
‘‘ہاں یار چلو۔ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔’’
‘‘انہیں کیا ہے۔یہ تو۔۔۔۔۔’’
لوگ دھیرے دھیرے چلنے لگے۔
انہوں نے پل سے ندی پار کی اور بے منظری کے پس منظر کی طرف بڑھنے لگے جہاں سے اب تک ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ان کے پیچھے جوگیوں کے لڑنے اور چلانے کی آوازیں آتی رہیں،تب ایک آدمی نےدوسرے کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔‘‘یار مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ وہ سانپ جو جھاڑیوں میں چلا گیا ہے،اب پتہ نہیں کس علاقے میں،کس شہر میں نمودار ہوگا۔’’
‘‘ہاں یار یہ تو ہے۔’’ دوسرے آدمی نے حامی بھری۔
0 Comments