کوڑھ سرشت معاشرے کا نوحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر داس!
آپ نے جس فضا میں آنکھیں کھولیں
اُس میں پہلے سے
ٹرین کے ڈبوں کے موافق
انسانی زندگی کو
درجوں میں رکھا جانا دستور میں شامل تھا
اور انسانی جسم کو
چار دھڑوں میں تعین کرکے
اور نچلا اس تعبیر میں
آخر تلک نچلا ہی رہا
اور یہی آزار روپ بدل کر
ہماری معاشرت میں منعکس ہونے کے
قرینے تراشنے نکلا
ویسے ہم بھی کہتے ہیں کہ
ہمارے ہاں
رنگ نسل اور عقیدے کو لے کر
کوئی درجہ بندی نہیں
اور نہ ہی سلوک روا رکھنے کی ذہنیت ہے
پر یہ سب باتیں، قیاس پر مبنی
اور سینہ بہ سینہ وضع کی گئی
تعبیرات ہیں
جن کا معاشرتی انسلاک کوئی نہیں
اور نہ ہی اس میں سچائی کی للک
دیکھنے میں آتی ہے
اس لیے آپ کو بھی علم پرور ہونے کے باوجود
بھنگی کہا جانا
اِس معاشرت کی کوڑھ سرشت اشاریہ ہے
حالان کہ آپ نے
ہر بچے کو انسان ہونے کی صورت
علم کی روشنی میں زندہ ہونے
اور جیون بونے کی
لکھت پڑھنت سے
روشن رکھا
اور ساتھی اساتذہ کی جانب
اور خود کے لیے
ان کی طرف سے
بھنگی کا اعزاز ہی پایا
شاید اسی لیے کہا جاتا ہے
کہ جہاں سے متعلق ہو
وہی تعارف لے کر جینا
اور اس سکرات کے پیوند میں
پر بیچ کی کڑیاں
انسان ہونے کی سان میں گزری
لیکن ہم
کتنے کھٹور تھے
یہ معمول میں شامل ہے
_____________________ 🔴🔴 کے بی فراق
ایک دن کیا دیکھتا ہوں مَیں
چوہے بلی نے
باہمی مشاورت سے
ایکا کرکے جینے کی بنیادیں رکھ لیں
میرے شہر میں نمی کچھ ایسے پڑتی ہے
کہ لوگ بھی اس منظر میں خود سے
جینے کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں
اور حیوانی جھلک میں نبھا کے پرتو
روز
صبحِ دم
دیکھا کرتے ہیں
اور مَیں کبھی اس سوچ میں پڑتا ہوں کہ
عصر میں جینے والے لیکھک
کیسے طاعونی فکر میں
شبد لکھا کرتے ہیں
چوہے بن کر جینے میں
اور زمین کھود کر
ہر شئے کی مانند
بس کُترنے کی لت میں یونہی
چوہے بلی کی سنگت کے موافق
لفظ اور معنی کے افتراق میں ایسے
سیندھ لگائے
اور کُترنے کے عمل میں جیسے
منقلب ہو جاتے ہیں۔
اس کھٹالی میں گِس کر فقیر رہے وہ
اور داس بنا انسانی قدروں کا
لیکن درونا چاریہ کی ربیت تو
ختم ہوا نہیں
اور آج کے ایکلویہ کو ہم نے
اچھال دیا۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ ہم
کلمہ گو جو ٹھہرے
کے بی فراق
29-10-2020
0 Comments