کیا مرد کو روبوٹ ہونا چاہیے؟
آج کل یہ بحث بہت شدت اختیار کر چکی ہے کہ عورت کا نا مکمل لباس مرد کو اکساتا ہے یا نہیں، اور مرد اس کے ردعمل میں کیا کرتا ہے۔
ہم نے جنس کے ساتھ جس طرح اخلاقیات کو جوڑ دیا ہے ہم اسے باقی جبلتوں اور دوسری انسانی اقدار کی طرح یا تو سمجھتے نہیں یا سمجھنا چاہتے نہیں۔ جنس کے موضوع پہ بات ہو تو ہمیں فوراً یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں ہم اپنی روایات اور تہذیب سے دور نہ ہوجائیں۔ اور ان روایات میں بد قسمتی سے بالجبر جنسی تعلق سرِ فہرست ہے۔
ابراہم میسلو کے مطابق انسان کو ایک معاشرے میں اپنی بقاء کے لیے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ سب ایک ساتھ نہیں چاہیے ہوتیں۔ بتدریج چاہیے ہوتی ہیں۔ یعنی کچھ ضروریات کا پورا ہونا بقاء کے لیے ضروری ہے جو سب سے بنیادی سطح ہے۔ کچھ ضروریات تحفظ کے لیے ضروری ہیں کچھ جذباتی تعلق کے لیے اور پھر معاشرے میں مقام کے لیے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس میں جسمانی بقاء کے لیے صرف تین چیزیں اہم ہیں کھانا پینا، رفع حاجت اور جنسی تعلق۔
ہم نے جس قسم کا معاشرہ تخلیق کیا ہے اس میں ہم صرف کھانے پینے پہ کھل کے بات کر سکتے ہیں باقی دو ضروریات پہ بات کرنا بالترتیب فحش اور فحش ترین ہے۔
ہم نے جگہ جگہ ٹھیلے تو لگا لیے ہیں لیکن بیت الخلاء نہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ صرف کھانا کھانا مہنگا پڑتا ہے لیکن مشاہدہ کیجیے کہ کچھ بھی مفت نہیں ہے۔ گھر کے سودے میں باتھ روم کا سامان کچن کے بعد سب سے مہنگا ہے۔ اور وہ دیہی علاقے جہاں لگتا ہے کہ یہ سب مفت ہے کیوں کہ بیت الخلاء کا جھنجھٹ ہی نہیں وہاں اس "نہ ہونے" سے جو بیماریاں ہوتی ہیں وہ اسے مزید مہنگا کردیتی ہیں۔
پاکستان ہندوستان جیسے معاشروں میں آپ کسی بھی جگہ کچھ بھی کھا سکتے ہیں لیکن رفع حاجت نہیں کر سکتے۔ ٹھیک ہے کرنا بھی نہیں چاہیے لیکن کیا ریاست پبلک باتھ روم فراہم کر رہی ہے؟ پیشاب روکنا بھوک برداشت کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اور اس فیکٹ کو ہم ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ کھانے پینے اور رفع حاجت کے معاملے میں قانون سازی بھی کوئی خاص نظر نہیں آتی۔ مطلب کھلے عام کھانے پینے کی چیزیں سجانے پہ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ وہ اشیاء حفظان صحت کے مطابق ہیں یا نہیں اس پہ کوئی خاص توجہ نہیں ہوتی۔ ہمیں کھلی، ابل کر بہتی نالیوں میں بھی بہت کچھ سجا نظر آتا ہے اس پہ بھی ہماری اقدار کو کوئی نقصان ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایک چیز جو قابلِ توجہ ہے وہ یہ کہ یہاں بقاء کی دونوں ضروریات میں انسان اکیلا ہے۔ یعنی پیٹ بھرنے کے لیے ہمیشہ کسی کے ساتھ کھانا کھانا ضروری نہیں۔ دوسری ضرورت کے لیے بھی پرانے زمانے میں کھیتوں میں "کمپنی" مل جایا کرتی تھی۔ لیکن اب یہ اخلاقیات بدل گئی ہیں۔ اور پرانے زمانے میں بھی اس "کمپنی" کا ملنا بنیادی ضرورت نہیں تھا۔
اب آتے ہیں کہ ان دو ضروریات سے متعلق جرائم کس نوعیت کے ہیں۔ بھوک سے کی گئی چوری اکثر سب سے زیادہ ہمدردی کے لائق جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کبھی کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں نے تمہیں سڑک پہ کھاتے ہوئے دیکھا اس لیے دو گھنٹے بعد کسی سے چھین کے کھانا کھا لیا۔
نہ کسی کو یہ دعویٰ کرتے دیکھا گیا کہ فلاں بندہ گلی کے کونے پہ رفع حاجت کر رہا تھا اس لیے مجھے بھی ضرورت ہونے لگی اور کھلے عام کردیا۔
یہاں آپ یہ بات واضح طور پہ دیکھ سکتے ہیں کہ کھانا خرید کے کھانے والوں، چھین کے کھانے والوں اور چوری کرکے کھانے والوں کی شعور اور معاشی سطح میں بہت فرق ہے۔ یہی فرق کسی حد تک کھلے عام رفع حاجت کرنے والوں اور گھر کے باتھ روم تک کنٹرول کرنے والوں میں نظر آئے گا۔ لیکن جہاں نظام تباہی کے دہانے پہ موجود ہو وہاں یہ فرق بتدریج کم بھی سکتا ہے کیوں کہ جہاں ریاست کو اپنا کردار نبھانا چاہیے وہاں وہ نظر نہیں آتی۔
چلیے یہاں تک تو ہم نے پہلی دو بقاء کی ضروریات پہ بات کی جس کا مقصد ان کی عام زندگی میں اہمیت کا اندازہ کروانا تھا تاکہ جب ہم بقاء کی تیسری ضرورت پہ بات کریں تو قارئین کو اندازہ ہو کہ ہم کتنے اہم مسئلے سے نبرد آزما ہیں۔
جنسی تعلق جسمانی بقاء کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ جس پہ ہم سرے سے اس انداز میں بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں لگتا ہے شادی اس لیے کی جاتی ہے کیوں کہ امی کو پوتا چاہیے۔ گھر میں بچوں کی قلقاریاں گونجیں۔ یا بستر مرگ پہ موجود دادی کو پوتے کے سر پہ سہرا دیکھنا ہے۔ کمرشل ادب اٹھا کے دیکھا جائے تو لگتا ہے لڑکی کی شادی صرف اس لیے ہورہی ہے کیوں کہ باپ کے مرنے کے بعد وہ تنہارہ جائے گی۔ اس لیے کسی ایسے شخص سے نکاح کردیا جاتا ہے جو نکاح کے بعد دوسال تک تو صرف تصویر میں ہی دکھائی دیتا ہے۔
ہم نے ہر ممکن کوشش کر لی ہے کہ یہ پتا نہ چل سکے کہ شادی جنسی تعلق کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تشکیل دیا نظام ہے۔ اور اس میں اولیت اسی امر کو دینی چاہیے۔ "دو بندے جو ایک دوسرے میں جنسی کشش محسوس کرتے ہیں وہ معاشرتی اقدار کے تحت یہ تعلق استوار کرسکیں"۔ ( یہ جملہ خاص طور سے انورٹڈ کوماز میں ہے کیوں کہ مضمون کے اختتام پہ کمنٹس کا سیلاب ہوگا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ مضمون غیر شرعی تعلق کو فروغ دینے کے لیے لکھا گیا ہے)
ہمارا سارا زور دو باتوں پہ ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ کہیں ہماری نسل اپنی پسند کے شخص سے اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر تعلق نہ بنا لے۔ اور دوسرا یہ کہ دنیا کے کسی تیسرے کونے میں موجود اقوام نے ان تعلق کو نبھانے کی اقدار ہر ممکن "یوزر فرینڈلی" کر لی ہیں۔
ہم اس بات پہ معترض ہیں کہ فلاں ملک میں بغیر شادی ساتھ رہنے کی اجازت ہے۔ محترم اگر وہاں ایک تعلق کو معاشرتی قبولیت حاصل ہے تو یہ "شادی" کی ہی ایک قسم ہے۔ کیوں کہ شادی کے لیے ہماری بھی توجیہ یہی ہوتی ہے کہ ایک معاشرے میں ساتھ رہنے کے لیے معاشرتی قبولیت ہونی چاہیے۔
چلیے آپ ان کی اقدار نہیں ماننا چاہتے مت مانیے۔ ہمیں حق حاصل ہے کہ جن اخلاقیات کی توجیہ ہمیں سمجھ نہ آئے یا جو ہمیں اخلاقیات نہ لگیں ہم انہیں نہ مانیں۔ لیکن ملک میں بڑھتے جنسی جرائم کے لیے کچھ حوالوں سے ہمیں اپنے نظریات پہ دوبارہ غور کرنا ضروری ہے۔
ہمارے وزیراعظم صاحب نے انٹرنیشنل میڈیا پہ بیٹھ کر بیان دیا کہ جب عورتیں نامناسب لباس پہنیں گی تو مرد ٹرگر ہوں گے کیوں کہ وہ روبوٹ نہیں ہیں۔
محترم وزیراعظم صاحب عورتیں کچھ پہنیں یا نہ پہنیں مرد کشش رکھیں گے یہ سمجھنا اہم ہے کہ جس وقت کسی فرد کو جنسی تعلق کی ضرورت ہے اس وقت اسے متعلقہ جنس میں کشش محسوس ہوگی۔ جس طرح ہر شخص ہر وقت بھوکا نہیں ہوتا، ہر شخص ہر وقت باتھ روم میں نہیں بیٹھا رہتا اسی طرح ہر وقت وہ جنسی تعلق کے لیے پریشان نہیں ہوتا۔ اور اگر ایسا ہورہا ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی مسئلہ موجود ہے جس کا جسمانی یا نفسیاتی علاج ہونا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ افراد کا مثانہ کمزور ہوجائے تو یہ اسپیشل کنڈیشن ہوتی ہے۔ کسی کو مسلسل بھوک لگ رہی ہے یا وہ جتنا کھا لے پیٹ بھرنے کی کیفیت نہیں ہے یہ اسپیشل کنڈیشن ہے۔
ہاں جب کسی روبوٹ میں ایسا کچھ فیڈ کردیا جائے کہ جب جب تم برہنہ یا نیم برہنہ عورت کو دیکھو تو تمہیں اس سے جنسی تعلق بنانا ہے یا اس تک رسائی نہ ہو تو جس تک رسائی ہو اور وہ برہنہ نہ بھی ہو تو
"اف دین ایلس" (if than else)
کی کنڈیشن کے تحت ریپ کرنا ہے تب وہ خواہش کے بغیر بھی ہر دفعہ ایسا ہی کرے گا۔
اسی طرح جب بھوک لگے تو ٹھیلے پہ سے بغیر پوچھے سامان اٹھا کے کھا لینا۔ کسی کے گھر میں گھس کے صرف کھانا نہ کھانا بلکہ ان کو تشدد کا نشانہ بنانا اس کے بعد دکھا دکھا کے کھانا۔ اس اخلاقیات کا سرے سے احساس نہ ہونا کہ جب ہم کسی دوسرے کی "چیز" بغیر اجازت استعمال نہیں کرتے تو کسی کا جسم بہرحال اس سے کہیں زیادہ قابلِ احترام اور ذاتی ہوتا ہے۔
اور یہ رجحانات، مجرمانہ حد تک بڑھ جانے والے نفسیاتی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جس طرح بھوک میں چوری کرنا انفرادی جرم لگتا ضرور ہے لیکن ہوتا نہیں اس میں معاشرہ اور ریاست بھی قصور وار ہوتی ہے۔ اسی طرح جنسی جرائم میں بھی معاشرہ اور ریاست ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں ریاست کااہم ترین نمائندہ جب انٹرنیشنل میڈیا پہ ایسا بیان دے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوتا کہ ریاست کا اپنی ذمہ داری نبھانا تو دور کی بات ہے یہاں ریاست جرم کو سرے سے جرم تسلیم کرنے پہ تیار ہی نہیں بلکہ سارا الزام متاثرہ فریق کے اوپر ڈالا جارہا ہے۔
جنسی تعلق تک آسان رسائی نہ ہونا فرسٹریشن پیدا کرتا ہے کئی دوسرے نفسیاتی مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے۔ لیکن کیا ہر جنسی فرسٹریٹڈ شخص جنسی جرائم کا مرتکب بھی ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب "نہیں" میں ہے۔ کسی کمزور سے چھین کر کھانا کھالینا جب کہ آپ کو بھوک نہیں لگ رہی، کسی کے دروازے کے آگے رفع حاجت کر آنا تاکہ اس سے اپنی نفرت کا اظہار کیا جاسکے اور کسی کو اغواء کرکے، گھر میں گھس کے تشدد کرکے جنسی تعلق بنانا یہ سب ایسے نفسیاتی مسائل کی علامات ہیں جو مجرمانہ حدود سے تجاوز کرچکی ہوں۔ جہاں ریاست کا ایسے افراد کو عام عوام سے فوری الگ کرنا ضروری ہے۔
اس کے بعد ان سے نمٹنے کے لیے سزا کا چناؤ ہو یا ریہیبلیٹیشن کا یہ اس سے اگلے قدم کی بات ہے۔ جس کے لیے معاشرتی شعور اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن کم از کم ریاست پہلے اپنی یہ ذمہ داری تو سمجھے کہ جرم ہورہا ہو تو ریاست کسے روکے گی اور کس پہ حد جاری کرے گی۔
جنسی جرائم کے مرتکب افراد کے نفسیاتی تجزئیے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ان کے جرم میں جنسی تعلق کی خواہش کا عنصر کبھی غالب نہیں ہوتا بلکہ غصہ، معاشرے یا کسی خاص فرد سے نفرت اور اپنی طاقت کا اظہار کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
ہم جب تک رضامندی سے قائم کیے جنسی تعلق اور جنسی جرائم کا فرق نہیں سمجھیں گے ہمیں پتا نہیں ہوگا کہ کونسا مسئلہ روکنے کے لیے کیا اقدامات لینے ہیں۔
ہم شادی کے بغیر ساتھ رہنے، ہم جنسیت، گھر میں گھس کے جنسی زیادتی اور بچوں پہ جنسی تشدد سب کو ایک ہی کیٹیگری میں رکھتے ہیں جب کہ شروع کے دو تعلق اخلاقی اعتبار سے آپ کے معاشرے میں فٹ نہ بھی ہوں نفسیاتی اعتبار سے مجرمانہ رجحان میں نہیں آتے جب کہ بالجبر جنسی تعلق مجرمانہ رجحان ہے جسے اسی طرح دیکھنا چاہیے۔
اگر آپ ملک میں بغیر شادی ساتھ رہنے کے رجحان پہ فکرمند ہیں لیکن اسے ریپ کی طرح حل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا کیوں کہ یہ دو الگ مسائل ہیں۔ اس میں "ملوث" افراد الگ قسم کی شخصیات کے مالک ہیں اور ان کے پیچھے الگ معاشرتی عوامل ہیں۔ یہاں ایک نکتہ بتانا چاہوں گی۔ اکثر لوگ بچوں سے زیادتی کرنے والے سب افراد کو پیڈوفائل کہتے ہیں۔ پیڈوفیلیا بچوں میں جنسی کشش رکھنے کے رجحان کو کہتے ہیں اور ایسے پیڈوفائل موجود ہیں جو یہ رجحان رکھنے کے باوجود کبھی کسی بچے سے زیادتی کے مرتکب نہیں ہوئے کیوں کہ ان کی اخلاقی اقدار ان کے لیے یہ فیصلہ کرنے میں معاون ہوتی ہیں کہ اس رجحان کے باوجود اس پہ عمل ایک غیر اخلاقی اور مجرمانہ عمل ہے۔
خواتین کا لباس بہرحال ان عوامل میں سب سے غیر متعلق عنصر ہے۔ اسی لیے اس پہ میں نے پورے مضمون میں بات ہی نہیں کی۔
آپ یقیناً میرے پیش کیے گئے تمام نکات سے متفق نہ ہوں نہ میں یہ فرمائش کروں گی کہ آپ فوراً آنکھیں بند کرکے تمام نکات مان لیجیے۔ لیکن ان پہلوؤں پہ سوچیے ضرور۔
0 Comments