Subscribe Us

Header Ads

میت زدہ 🔴عائشہ سعدیہ کی موت ڈاٹ کام بھارت کے لیے تازہ کہانی


 عائشہ سعدیہ مقیم "ملائشیا"


میت زدہ انسان


جس طرح کوشش سے ہر اُتھتا قدم کامیابی کر طرف ہوتا ہے، ٹھیک وہی اُٹھا ہوا قدم موت کی طرف بھی ہوتا ہے۔ قدم تو ایک ہوتا ہے اور راستے دو۔ کامیابی ملے نا ملے پر زندگی کے آخر میں موت ضرور ملتی ہے، ریئگاں کچھ نہی جاتا اُٹھا ہوا قدم بھی نہیں۔ 

زندگی و موت کو دیکھنے کا دوسرا زاویہ یہ بھی ہے کے ہماری ہر سانس آخری سانس ہوسکتی ہے، یا ہماری ہر سانس زندگی کم کر کے موت کی طرف لے کر جا رہی ہوتی ہے۔   جتنی مرضی بھاگ دوڑ ہو، مرنا تو ہے ہی، لوگ آتے ہیں تو جایئں گے بھی نا، بس اس درمیاں کے وقت کے سب روگ ہیں۔ ناجانے کیوں ہم موت سے بے خبر ہیں، یا رہنا چاہتے ہیں۔ سوچا جائے تو ہم قطرہ قطرہ، لمحہ لمحہ ہر سانس مر رہے ہیں ، پر عجیب ہیں زہر سے بھرے ہیں، زندگی کم ہو رہی ہے زہر بڑھ رہا ہے، اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے۔ بڑِے سے بڑے نامور لوگ مرنے کے ساتھ ہی میت ، مردہ بن جاتے ہیں ساری عمر کی تگ و دو کے بعد بھی مرنے کا بعد یہی نام ملتے ہیں مردہ، میت۔

اب اور کتنا تماشہ بنائے گی قسمت

پھروں میں اپنا جنازہ کہاں کہاں لے کر




اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کے ہماری ہر سانس ہم میں سے نکلتی ہے تو مر جاتی ہے، مطلب ہر بار اپنے اندر ہم ہوا نہیں کھینچتے بطور سانس ہم موت کھینچتے ہیں، ہوا بھلے  کاربن ڈائی اکسائیڈ کی شکل میں باہر آتی ہو پر موت ٹہر جاتی ہے اندر، جس دن پورے جسم میں مکمل موت بھر جاتی ہے ہم اس دن زمین کے اندر چلے جاتے ہیں۔ ہم چلتے پھرتے مردہ ہیں، جو اپنے کاندھوں پر اپنی میت لیے پھرتے ہیں، اور جوں جوں مردہ پرانے ہوتے جاتے ہیں۔ جب ان کو دفنایا نہی جاتا وہ تعفن زدہ ہو جاتے ہیں۔ پھر یہی تعفن ہم ہر جگہ ہر ذی روح کے لیے پھیلاتے پھرتے ہیں۔


تربیت یافتہ اور ذہنی بالغوں کے لیے ایک منفرد بلاگ 


Post a Comment

0 Comments