Subscribe Us

Header Ads

‎سلاوینکا درا کولیچ ‏Slavenka DrakaliC ‎ترجمہ :* اسد محمد خاں(آج، شمارہ 17 (1994) سرائیوو سرائیوو _____بہ شکریہ "اجمل کمال صاحب کے شکریہ کے ساتھ *موت ڈاٹ کام مالیگاوں* کے لیے خصوصی وجودی تحریر ‏

(Slavenka Drakulić) سلاوینکا دراکولیچ

ترجمہ: اسد محمد خاں

(آج، شمارہ 17 (1994) سرائیوو سرائیوو _____بہ شکریہ "اجمل کمال صاحب کے شکریہ کے ساتھ *موت ڈاٹ کام مالیگاوں* کے لیے خصوصی وجودی تحریر 

*موت کا کلوز اپ*

ٹی وی کیمرے دعوت دیتے ہیں :
موت اور خبیثانہ ظلم اور بدمعاشی کو دیکھنے دکھانے کے مرگ پسندانہ شوق سے مغلوب ہو کر کیمرے دعوت دیتے ہیں۔ یادداشت کے نام پر، اور اس خوش فہمی کے ساتھ کہ پھر ایسا کبھی نہیں ہو گا، ٹی وی کیمرے اپنے ناظرین کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔
بتاتے ہیں کہ ایک چھوٹی لڑکی ’’الف میم‘‘ اس وقت ماری گئی جب وہ اپنی رمادان پائی کھائی رہی تھی۔ کچھ اس طرح سمجھیے کہ فروری کے آخر میں صبح کا وقت تھا، اور وہ روشن اور سرد صبح تھی جب یہ واقعہ ہوا۔ آپ خود سے پوچھتے ہیں کہ اس عورت، یعنی بچی کی ماں، نے جنگ کی شروعات کے دس مہینے بعد سرائیوو میں یہ پائی کیسے تیار کر لی؟ اس نے کیسا آٹا، کس طرح کا تیل استعمال کیا؟ پائی میں اس نے بھرا کیا ہو گا؟ یقیناً اس نے اسے ایک رات پہلے پکایا ہو گا۔ مگر پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیسے؟ بجلی تو نہیں ہے، یا اگر ہے تو کبھی کبھی آتی ہے۔ یا شاید اس نے یہ پائی کھلی آگ پر پکائی تھی؟ مگر لکڑی ہے کہاں؛ بہت پہلے ہی شہر کے سب درخت کاٹ دیے گئے تھے — بہرحال، ڈھائی سالہ لڑکی ابھی تک، آدھی سوئی آدھی جاگی، میز پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی کہ اس نے شیلنگ کی آواز سنی۔ ممکن ہے وہ اس آواز سے ڈر گئی ہو، اس لیے وہ دوڑ کر ماں کے پاس چلی گئی۔ ہو سکتا ہے نہ گئی ہو۔ شیلنگ کی آواز تو اب یہاں کا معمول بن گئی ہے۔ مگر نہیں، یہ آواز وہ سن ہی نہیں سکتی تھی۔ لوگ کہتے ہیں ہٹ ہونے والوں کو کچھ بھی سننے کا موقع نہیں ملتا۔ ان کے پاس تو خوفزدہ ہونے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ ایک شیل ان کے گھر کی چھت سے گزرتا کچن میں آ رہا۔ بچی فرش پر گر گئی۔ سبھی کچھ برق رفتاری سے ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ اس کے ماں باپ یا دادا دادی سمجھ پاتے کہ کیا ہوا ہے، وہ مر چکی تھی۔ جب تک اس کا باپ اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھاتا، مدد مانگتا، سب ختم ہو چکا تھا۔
اور پھر — پھر ایک ٹی وی کیمرا موقعے پر آ جاتا ہے۔ بعض تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ آمد شیلنگ کے محض ایک یا دو گھنٹے بعد ہوئی ہو گی۔ ہم چھوٹا سا کچن دیکھتے ہیں جہاں اب چھوٹی لڑکی نہیں ہے۔ کچن کا فرش پلاسٹر اور اینٹوں سے، اِدھر اُدھر پڑے جوتوں سے، اس کے ننھے بوٹوں سے ڈھک چکا ہے۔ ٹی وی کیمرا چھت پر زوم ان کرتے ہوے شیل کا چھوڑا ہوا سوراخ دکھاتا ہے جس میں سے ٹھنڈک اور آسمان کچن میں در آتے ہیں۔ باپ میز پر اپنے بازو ٹکائے بیٹھا رو رہا ہے۔ کیمرا اس کی نیلی آنکھوں اور آنسوؤں کا کلوز اَپ دیتا ہے — حقیقت میں یوں لگ رہا ہے جیسے وہ ’’آن کیمرا‘‘ رو رہا ہو — تاکہ ہم، یعنی ٹیلیوژن ناظرین، یہ تسلی کر لیں کہ اس کے آنسو اصلی ہیں، کہ وہ واقعی رو رہا ہے، وہ، مری ہوئی بچی کا باپ۔ وہ شخص کسانوں کے کام آنے والے موٹے اون کا سفید پل اوور پہنے ہے۔ عام طور پر کچن میں ایسے گرم کپڑے پہن کر نہیں بیٹھا جاتا لیکن ہم اس سردی کے بارے میں کیا جان سکتے ہیں جسے اس وقت وہ بھگت رہا ہے۔ اس کی آنکھوں سے ہٹ کر کیمرا اس کے پل اوور پر آتا ہے تاکہ یہاں ہم وہ سرخ دھبا دیکھ سکیں جہاں اس نے فرش سے اٹھا کر اپنی لڑکی کو اپنے بدن سے لگایا تھا — اور دیر ہو چکی تھی۔ خون ابھی سوکھا نہیں ہے۔ دھبا چمکدار، سرخ ہے، تازہ لگتا ہے۔ میں کھردرے، ہاتھ کے بٹے اس اون کو پہچانتی ہوں جس سے باپ کا پل اوور بنا گیا تھا۔ یوں لگتا ہے میں اسے اپنے پوروں تلے محسوس کر رہی ہوں۔ مدتیں لگتی ہیں اس اون کو سوکھنے میں، اور خون آلودہ اون تو اَور بھی لمبے عرصے گیلا رہتا ہے۔ خون کو دیکھنے سے جی متلا رہا ہے۔ پھر بھی کیمرا لوٹ لوٹ کر بار بار اس پر آتا ہے۔ یہ بالکل غیرضروری ہے۔ مگر اس طرح کی تصویروں سے آپ بچ نہیں سکتے۔ کوئی نہیں ہے جو کہے کہ بھئی یہ سب بےکار ہے۔
اب ہم اسپتال میں ہیں۔ ماں کو پہلی بار دیکھتے ہیں۔ رپورٹر کی آواز بتاتی ہے کہ ماں کے پیٹ میں زخم آئے ہیں۔ تب وہ رپورٹر (مرد یا عورت) ایک بات قطعی طور پر لغو اور فضول کہتا ہے۔ جس عورت کا بچہ ابھی ابھی مرا ہو اس کی ابتلا اور یاس کے لمحے میں آخر اس بک بک کی کیا ضرورت ہے۔ رپورٹر کی آواز کہتی ہے کہ یہ نوجوان عورت شاید اب اَور بچے پیدا نہ کر سکے گی۔ وہ ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے ایک طرح کے سٹریچر پر پڑی ہے۔ وہ سسکیاں لیتی ہے۔ اس کی آواز ایسے آتی ہے جیسے ٹوٹی ہوئی، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو۔ باپ اپنے سرخ دھبے والے سفید پل اوور میں آتا ہے اور اسے گلے سے لگا لیتا ہے۔ صاف ظاہر ہے وہ چھوٹی بچی کی موت کے بعد پہلی بار یہاں ملے ہیں، اسپتال کے کمرے میں۔ ’’آن کیمرا‘‘، پہلی بار۔ ماں کوئی آواز نکالتی ہے؛ کسی اَور جگہ، اَور وقت میں اسے شاید چیخ یا واویلا کہہ سکتے تھے، یہاں بس ایک خالی پن کا آوازہ ہے یہ۔ اس آواز سے عورت نے اپنے شوہر کو بتایا ہے کہ ابھی ابھی وہ سب کچھ کھو بیٹھی ہے۔ یہ خاتمہ ہے۔ جی ہاں، خاتمہ نہیں تو اَور کیا ہے۔ کیمرا اس ماں کے غیرانسانی اندوہ سے آگے نہیں جا سکتا جس نے اپنا بچہ کھو دیا ہو۔ اب نہ تو ہم (ٹیلیوژن ناظرین) اور نہ ہی کیمرے کے پیچھے کھڑے لوگ (جو ہمیں نظر نہیں آتے: رپورٹر، کیمرامین، ساؤنڈمین)، ہم اب اَور برداشت نہیں کر سکتے۔ اسے رک جانا چاہیے۔ اب رک جانا چاہیے۔ میں دل ہی دل میں دہراتی ہوں، اور کیمرا رول کرتا رہتا ہے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا، لیکن نظر جو آ رہا ہے وہی ہے۔ اب ہم ایک سفید چادر دیکھ رہے ہیں جس پر سرخ دھبے پڑے ہیں۔ ہم پہلے ہی اسے ممنوع قرار دے چکے ہیں۔ اس علامت کو پہچانتے ہیں ہم۔ سفید پر سرخ، یہ علامت موت کی ہے۔ خدایا! اس کا خون کتنا چمکدار ہے، میں سوچتی ہوں، اور میرا پورا وجود چیختا رہتا ہے: بس، بس، بس کرو! میں نہیں چاہتی کیمرا اس چادر میں داخل ہو جس سے اس کا چھوٹا سا بدن ڈھکا ہوا ہے۔ لیکن کسی کا ہاتھ میرے خیالوں پر سبقت لے جاتا ہے اور سفید چادر اٹھا دیتا ہے۔ چہرہ، ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اس کا ننھا مسخ شدہ چہرہ جو اب انسان کی صورت نہیں ہے۔ سیاہ بالوں کے میلے کچیلے گچھوں کے فریم میں گھرا ہوا۔ اس کی ادھ کھلی آنکھیں۔ ہم ایک موت کا کلوز اپ دیکھتے ہیں، اور پھر— کٹ! جنازہ۔ لوگ کچھ کہتے ہوے، ایک ’’آف اسکرین‘‘ آواز، باپ، دادا، اتھلی یخ بستہ زمین میں ایک چھوٹا سا تابوت۔ رپورٹ ختم ہو گئی۔ مجموعی طور پر یہ تین منٹ چلی۔

لمحے بھر بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ٹی وی براڈکاسٹ جو ہم نے ابھی دیکھا، ایک فیملی کی ٹریجڈی ہے جسے ان کے بچے کے ہلاک ہونے کے صرف دو گھنٹے بعد فلم بند کیا گیا اور یہ کہ: یہ پوری ٹریجڈی ’’آن کیمرا‘‘ واقع ہوئی ہے! بس ایک چیز جس کے ہم عینی شاہد نہیں ہیں، وہ ہے ڈھائی برس کی الف میم کی موت کا لمحہ۔ جس وقت شیل چھت کو لگے اس وقت باہر سے ایک ٹیک (take) کی جائے۔ پھر اندر کا ایک منظر جب لڑکی کرسی سے گرتی ہو، سلوموشن میں، بالکل یوں لگے جیسے اُڑتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پائی کا ایک ٹکڑا زمین پر گرے اور لڑھکتا چلا جائے۔ یہ ہوئی نا بات! رپورٹر بہت خوش ہے۔ کیوں نہ ہو، ٹھیک تو ہے! اب ہم لوگ بھی، یعنی عوام، اتنے بالغ ہو گئے ہیں کہ جس ڈاکیومنٹیشن (documentation) پر ہم ایمان لائے ہیں اس کے نام پر یہ سب برداشت کر لیں گے۔ بس یہی ایک چیز ہے جو ہم نے اب تک اپنے ٹی وی سکرین پر نہیں دیکھی۔ اور سب کچھ دیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سرکٹی لاشوں کو سؤر اور کتے کھا رہے ہیں۔ دیکھا کہ نوکیلے ہتھیار سے دیدے نکال کر پھینک دیے گئے ہیں۔ ہم نے انسانی بدن کے بکھرے ہوے ٹکڑے دیکھے جو اب کسی بھی جسم، کسی بھی چیز سے متعلق نہیں ہیں۔ پنجر اور ادھ کھائی کھوپڑیاں، بے ٹانگوں کے بچے۔ اور ہم نے شیرخوار دیکھے جنھیں چھپ کر بیٹھے ہوے کسی رائفل بردار نے گولی ماری تھی۔ اور ہم نے زنا بالجبر کی شکار بارہ سالہ بچی دیکھی جو کیمرے کے سامنے بیٹھی روداد سنا رہی تھی۔

دن پر دن گزرتے جاتے ہیں۔ بوسنیا میں موت کو زیادہ، اَور زیادہ بہتر طریقے پر ڈاکیومنٹ کیا جارہا ہے۔ دس مہینوں میں سرائیوو پر آٹھ لاکھ شیل گرے۔ شہر میں اسّی ہزار بچے محبوس ہیں — گویا یہ بچوں کا دنیا میں سب سے بڑا قیدخانہ ہے۔ ان میں سے پانچ ہزار (بچّے!) مار دیے گئے، یا بس، مر گئے۔ باقی بھوک اور طویل موت، آہستہ رو موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ پچاس برس پہلے یہودیوں نے دکھ بھوگے تھے، اب مسلمانوں کی باری ہے۔ کیا آپ کو آؤش وتز (Auschwitz) یاد ہے؟ واقعی؟ کیا کسی کو این فرینک یاد ہے؟ ہاں ہاں، ہمیں سب کچھ یاد ہے، اور اسی یادداشت کی وجہ سے ہمیں خیال آیا کہ ہر چیز کو بہت احتیاط سے ڈاکیومنٹ کیا جائے تاکہ وہ شرمناک تاریخ کبھی نہ دہرائی جا سکے۔ اور اب، دیکھیے، وہی سب پھر ہو رہا ہے۔ سکولوں میں نسلوں نے کنسنٹریشن کیمپوں کے بارے میں، موت کے بارے میں جانکاری حاصل کی؛ نسلیں جن کے والدین قسمیں کھاتے تھے کہ جو کچھ ہوا دوبارہ نہیں ہو گا — کم سے کم یوروپ میں تو نہیں ہو گا — جی ہاں، بالکل درست، ماضی قریب کی زندہ یادداشت کی وجہ سے (نہیں ہونا چاہیے)۔ اور وہی لوگ (وہی لوگ!) یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ تو پھر اس تمام ڈاکیومنٹیشن نے کیا بدلا؟ اس موت کی شعوری اور ٹھیک ٹھیک بک کیپنگ کر کے کہ جو سرائیوو میں مرنے والوں کے ٹرانسمیش دیکھتے ہوے گویا ہماری زندگیوں میں، ہمارے لوِنگ روم میں، واقع ہو رہی ہوتی ہے، آخر اب کون سی چیز بدلی جا رہی ہے؟ چھوٹی بچی کی موت بہت سی ہیبت ناکیوں میں سے ایک ہے۔ ان میں سے تو ہر ایک ہمیں اَور بھی زیادہ بھیانک باتوں کے لیے تیار کر دیتی ہے۔

سب سے بڑی تبدیلی تو ہمارے اندر واقع ہوئی ہے، ہم جو حاضرین، تماشائی اور پبلک ہیں۔ کاسٹ کی اس تنظیم میں ہم نے اپنے پبلک کے رول کو حقیقت سمجھنا شروع کر دیا ہے: اور یہ بھی کہ پبلک کا رول ادا کرنا ممکن ہے۔ گویا جنگ نہیں کوئی تھیٹر ہے۔ بہت آہستگی ہے اور ہمارے جانے بغیر، کوئی چیز ہم میں سرایت کر گئی ہے — ایک نوع کی سختی، حقیقت کا ادراک نہ کرسکنے کی معذوری — یہ علامتیں ہیں ہمارے اپنے خاتمے کی۔ بچی کے مردہ چہرے کا کلوز اپ کچھ زیادہ ہی ہو گیا، نہ ہوتا تو (ہمارے لیے) بہتر تھا۔ یہ احساس کہ جنگ کو پہلی بار اس قدر نزدیک سے اس کی انتہائی بھیانک تفاصیل کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، صرف اس وقت بامعنی بن سکتا ہے جب اس کی وجہ سے کسی چیز میں بہتری اور تبدیلی آ سکتی ہو۔ مگر بدلتا تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے اس قبیل کا ڈاکیومنٹیشن مریضانہ بےراہروی، موت کی پورنوگرافی بنتا جا رہا ہے۔

Post a Comment

0 Comments