☆☆"خدا کہاں تھا؟"☆☆
مصنف : صاحب کپور
برسوں بعد اس کے وطن واپس لوٹنے کی میرے دل کو آج جتنی خوشی تھی، اتنی شاید میری پیدائش پر میرے والدین کو بھی نہ ہوئی ہو گی۔ ایک عجیب کسمساہٹ مجھے بےچین کیے ہوئے تھی۔ میں اسے اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔
میری اس تک رسائی کیسے ممکن ہوئی یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اب ہم دونوں ایک حویلی میں موجود تھے۔ تھوڑا ہوش آنے پر جب اس نے اپنی نیم وا آنکھوں سے مجھے اپنے سامنے عور بدن دیکھا تو بوکھلاہٹ میں اس نے مسہری سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن نیم بیہوشی کے باعث اس میں اُٹھنے کی سکت نہ تھی اور میں اسے دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔۔۔
میں پوری طرح اغلامی ہو چکا تھا۔ میرے اندر کا لوطی دھاڑیں مارتا باہر نکل آیا ، ایسا محسوس ہوا جیسے میں ازل سے سدوم کا باسی ہوں اور آج ہی واپس لوٹا ہوں۔
کہکشاں میں رقص کناں ستاروں کا دلکش منظر کمرے کی کھڑکی سے صاف دکھائی دے رہا تھا ،چاند بھی پورے جوبن پر تھا۔ میرا ضمیر مر چکا تھا یا میں نے اسے موت کی تھپکی دے کر تھوڑی دیر کےلیے سُلا دیا تھا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میں کسی وحشی درندے کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے لب اپنے دانتوں سے کاٹنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اس کے سینے تک جا پہنچا اور خوب نشان الفت مربُوط کیے۔ یہ محبت تھی ، ہوس تھی، یا بدلہ میں یہ بھی نہیں جانتا لیکن میرا خود سے اختیار چِھن گیا تھا۔ اس کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہ تھا۔ میں نے اس کا عریاں بدن دانتوں سے نوچ نوچ کے غربال بنا دیا۔
میرا سفید خون میرے وجود سے نکلنا چاہتا تھا آخر میں نے سانسیں روکتے ہوئے وہ آتش فشاں اس کے وجود میں اتار دیا۔ اس کے بدن سے رِستے خون ، لعاب ، دھکتے لاوے اور دو جسموں کی گرمی نے ایک عجیب سی بُو پورے کمرے میں پھیلا دی، میں گھٹن محسوس کرتے ہوئے حالتِ برہنی میں کمرے سے باہر نکل آیا۔۔ پو پھٹنے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ناگاہ آسمان پہ بادل امنڈ آئے اور زور کی گرج برس شروع ہو گئی، چاند اپنی آب و تاب کھو چکا تھا۔ تیز طوفانی بارش نے ماحول یوں پراسرار بنا دیا جیسے ابھی آسمان سے فرشتے اتریں گے اور اس بستی کے ساتھ ساتھ میری ہستی بھی مٹا دیں گے لیکن میں تو اب خود مٹ جانا چاہتا تھا میری پاک روح مزید اس غلیظ بدن کو برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔
میں نے خود کو ملامت کرتے ہوئے آسمان کو گھورا اور زور سے چِلایا:
“جب اپنے انجام کو پہنچے اس شخص نے میری بہن کی زندگی برباد کی تب خدا کہاں تھا؟”
0 Comments