کبھی دل سوچتا ہے ان طوائف زادیوں کی زندگی لکھوں
کہ جن کے روز و شب کوٹھے کی چھوٹی کوٹھری میں ملگجی سی روشنی میں زندگی کی تلخیاں چن کر گزرتی ہیں
کہ جن کے پھول سے کومل بدن نے تھوک سے لتھڑے بدن کا فاصلہ سا طے کیا ہو چند لمحوں میں
کہ جن کے تن سے لاکھوں وحشیوں نے رات و دن کے ہر پہر میں جانفشانی سے ہوس کی فصل کاٹی ہو
کبھی دل چاہتا ہے ان طوائف زادیوں کی زندگی برتوں
جو دن ڈھلتے ہی روزینہ بدن پر خوش نما چادر چڑھا کر اپنے حصے کی منڈیروں سے جھلکتی ہیں
ڈھلکتی چھاتیوں کو اک ادائے بے نیازی سے ہوس کے نیلگوں بازار میں نیلام کرتی ہیں
پچکتے پیٹ سوکھے تھن کی زرخیزی کی خاطر وہ زمین جسم کے رازوں کو طشت از بام کرتی ہیں
کبھی دل کلبلاتا ہے کہ پوچھوں آئینوں کے شہر میں بے چہرگی کیسی
وہ وحشی جو پس دیوار اپنے دست جنسی سے در ناسفتہ کی پاکیزگی کو تار کرتے ہیں
انہیں دن کے اجالے میں انہیں اعمال ناموں کے حوالوں سے سوالوں میں پرونے سے بھلا بے غیرتی کیسی
وہ چیخیں جو پس زندان گھٹتی ہیں سسکتی ہیں وہ سائے جو پس دیوار رلتے ہیں کچلتے ہیں
مجھے ان کی کہانی کو گھنونی زندگانی کو یوں نظموں میں سمونے سے زمانے کو بتانے سے بھلا بے پردگی کیسی
عاصم بدر
0 Comments