Subscribe Us

Header Ads

رجّو‘‘تحریرثمینہ نذیر-افریقہ ٭۔۔-

’رجّو‘‘
تحریر
ثمینہ نذیر۔افریقہ 
٭۔۔۔٭۔۔--

’’ارے نکالو باہر کرو حرامزادی کو‘‘۔۔
ابا اجابت سے فارغ ہوئے ہی تھے۔۔ ایک ہاتھ میں پیتل کا بھاری لوٹا اور دوسرے ہاتھ سے ناڑہ تھامے، جوش جذبات میں یونہی باہر چلے آئے۔۔
اماں اور تائی نے منہ دوسری طرف کو کرلیا۔۔
لیکن ابا کے صبر کا پیمانہ آج لبریز ہی ہوچکا تھا۔۔
’’نہ باپ کا پتہ، نہ ماں کا۔۔ ہندو کہیں کی۔۔ تم نے یونہی گھر میں ڈال لیا۔‘‘
کل میں مغرب پڑھ کر نکلا۔۔ یہ فراٹے کی گالیاں بکتی جارہی تھی یہ۔۔ آپ کی لاڈلی رجو۔۔
ابا کلمہ پڑھ کر خسووخشوع سے نل پر بیٹھے وضو کرنے لگے۔۔
بھولی گڑیا جیسی تائی بولیں
اے کونسی گالیاں بھیا۔۔؟
لا حول ولا قوۃ۔۔ اب میں وہ رذیل اور گندی گالیاں گھر میں دہراؤں بھی۔۔ واہ۔۔
وضو ٹوٹ جانے کا ڈر نہ ہوتا۔۔ تو۔۔ دہرا بھی دیتا۔۔
درود شریف کا ورد کرتے ہوئے پاک صاف نورانی ابا مسجد کو جانے لگے۔۔
کہے دیتا ہوں واپس آکر اُس۔۔۔ حرافہ(گالی پی کر) کی صورت گھر میں نظر آئی تو
میں خود گھر چھوڑ جاؤں گا۔۔ 
یہ کہا اور طیش کے عالم میں باہر نکل گئے۔۔
اماں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔۔ مزے سے تائی کے ساتھ مل کر دھان چنتی رہیں۔۔
تائی: اے گھر چھوڑ جانے کا کہہ رہے ہیں بھیا۔۔
اماں: رہنے دو۔۔ بوا۔
مردوں کا غصہ بس یونہی ولایتی شیمپوجیسا ہوتا ہے۔۔ پل میں جھاگ کا پہاڑ بنا اور پل بھر میں پانی۔۔
تائی۔۔ مگر رجو کلموہی اچھال چھکہ کو دفع کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔۔
اماں۔۔اے لو بوا۔ خوب کہی یہ بھی۔۔ رکابیوں، ڈونگوں، دیگچیوں کا ایک پہاڑ پلک جھپکنے میں دھو ڈالتی ہے۔۔ میاں جی کے یہ سفیدجھک، کلف دار کرتے پاجامے۔۔؟ رجو ہی کا دم ہے جو روز کے روز یہ کرتی ہے۔۔ پھر یہ کچا آنگن جھاڑنا، کمروں کی جھاڑ پونچھ، ادرک لہسن چھیلنا، مسالے کوٹنا، لونڈوں کے کمرے درست کرنا ۔۔۔ کس کا جگر گردہ ہے جو یہ سب کرے۔۔ ہیں۔۔؟
تائی: ہاں۔ میرے پاندان کی صفائی تو وہی مردار کرسکتی ہے۔۔ پھر ساڑھیوں کی استری، نہاتے ہوئے پیٹھ کس سے ملواؤں گی۔۔؟ سر میں سرسوں کے تیل کی مالش۔۔ یہ سب بھی تو رجو ہی کرے ہے۔۔
اماں: میاں گھر چھوڑتے ہیں۔۔ سو بسم اللہ۔۔ میں تو رجو کو کہیں نہ جانے دوں ۔۔
اے پان تو کھلاؤ بوا۔۔ منہ پھیکا ہورہا ہے۔۔ قوام کم لگانا ذرا۔۔
اپنی تعریفوں کے پل بندھتے دیکھ کر رجو اور بھی لجا گئی۔۔ میں اناڑی گھڑ سوار، اُن دنوں ر جو کے زیر تربیت تھا۔۔ اور میرا ہاتھ جو اُس وقت اُس پنڈلیوں پر تھا۔۔ جوش مستی میں ذرا اوپر تک لے گئی۔۔ رجو سے میں کم از کم پندرہ سال چھوٹا تھا۔۔ ابھی مَسیںبھی نہ بھیگی تھیں۔۔ دودھ کے دانت جھڑے ہی تھے۔۔۔ کہ یہ مرغ مسلم ہاتھ لگ گیا۔۔6 کمرے، ۲ ہال، ۲ غسل خانے، ۲ پاخانے، ایک دالان، صحن اور باغ پر ہمارا مکان مشتمل تھااور پھر یہ کالی کوٹھڑی جو میرے لئے کسی شیش محل سے کم نہ تھی۔۔ سالوں ہی میں کوئی بھولے یہاں بھٹکے آتا تھا۔۔ میں، رجو اور یہ کال کال کوٹھڑی۔۔ میرے تو وارے نیارے ہوگئے۔۔ہر روز دوپہر میں، اس کال کوٹھری کے اندر میں شہزادہ سلیم ہوتا اور رجو میری انارکلی۔۔
اسکول کا کام ختم کرتے ہی میں مولوی صاحب سے سبق لینے کیلئے بے چین ہوجاتا۔۔ اماں اس بات پر میری بلائیں لیتے نہ تھکتی تھیں۔۔ مسجد میں بے دلی سے سبق لے کر، پچھلے دروازے سے میں تیر کی طرح کوٹھڑی میں دبے پاؤں داخل ہوجاتا۔۔ رجو وہاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہوتی۔۔ ہم بات چیت میں وقت ضائع کرنے کے قائل ہی نہ تھے، کام عین عبادت ہے۔۔ تو بس اُس ایک گھنٹے میں عابد ہوتا تھا اور وہ معبود۔۔
اماں کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔۔ عشاء کے بعد ابا، معمول کی طرح پان چباتے گھر آگئے اور صبح والے ہنگامے کو بھول بھی گئے۔۔ میں نے سکون کی سانس لی۔۔ رجو کے جانے سے اماں کی سلطنت تو ہل جاتی، میری اٹھتی جوانی کا کون پرسان حال ہوتا۔۔ خاندان میں کہنے کو تو ماموں زاد، پھوپھی زاد ہزاروں کے حساب سے تھیں مگر آخ تھو۔۔ سوکھی، سڑی، آگے پیچھے دونوں طرف سے چپٹی، سخت۔۔ جیسے کہ ابا کا تخت۔۔ یا اماں کی نماز کی چوکی۔۔
دو ایک سے کوشش بھی فرمائی میں نے۔۔ مگر اُن چوزیوں کو تو بوسے کا مطلب تک پتہ نہیں تھا۔۔ اور پھر ان کی ہائے اللہ اوئی اللہ۔۔ مزہ تو تب ہوتا ہے جب عورت پہل کرے۔۔ اور عورت ہی آخر۔۔
ادھر رجو کا تو یہ حال تھا کہ بوسے کے نام پر میرے ہونٹ چوس کر بالکل ہی انہیں سوکھی گنڈیریوں جیسا کر چھوڑتی تھی۔۔ پھٍ اُس کے وہ مخروطی اعضا، وہ گولائیاں اور اُس کم بخت کے دلاآویز خطوط۔۔ ساری جیومیٹری اس کے رسیلے بدن پر تو سمجھی جاسکتی تھی۔۔
جیومٹری کے پیرئڈ میں جب میں پرکار سے 4" قطر کا دائرہ بناتا تو رجو بے طرح یاد آتی۔ باقی زاویئے، خم اور تکون تمام کے تمام رجو کے بدن کے کو نگاہ میں رکھ کر باآسانی سمجھ میں آجاتے تھے۔۔
موسم سرما میں اماں خاص پکوان بنایا کرتیں، جیسے کہ نہاری، پائے، مچھلی اور اخروٹ بادام کا حلوہ۔۔ ویسے تو یہ پکوان خاص ابا کیلئے بنائے جاتے۔۔ مگر ان کو کھا کر بے چارے ابا لوٹا لئے، پاخانے کی طرف دوڑا کرتے۔۔ یہی کھانے پھر اماں ہمیں کھلا ڈالتیں کہ بڑھتے جسم ہیں۔۔ ان کو کھا کر مجھے رجو کی طلب اور بھی بڑھ جاتی۔۔ اور وہ کیٹلی بھی میرے ’’فریضۂ محبت کے طویل معرکے‘‘ کے خوب مزے لیتی۔۔ گرم سانسوں کے تبادلے کے دوران آہستہ سے پوچھتی ’’کیا کھا کر آئے ہو منے میاں۔۔ دم لینے نہیں دے رہے۔۔ اور میرے لب اُس کے منہ کو سی کر جملے کو ادا ہونے سے روک دیتے۔۔
۲۔۴ دن ہوگئے تھے۔۔ میں ’روزِ وصل‘ کے بجائے ’شب فراق‘ زیادہ کاٹ رہا تھا۔۔ دس دس مرتبہ کوٹھڑی کے چکر لگائے وہ ندارد۔۔ آتے جاتے اُسے چٹکیاں کاٹیں۔۔ اس نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔۔ دشمنوں کی نظرِ بد آخر لگ ہی گئی۔۔
اگلنائی میں آیا تو دیکھا وہ کولہوں پر سوتی ساڑھی کسے، ڈنڈے سے کوٹ کوٹ کر کپڑے دھو رہی تھی اور ادھر میرا دل اُسے انجان دیکھ کر، ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا۔۔ چھوٹی چھوٹی کنکریاں میں اسکول سے آتے، جھولی بھر لے آیا کرتا تھا۔۔ تاک تاک کر وہ کنکریاں میں ہمیشہ اُس کے گہرے بلاوز سے جھلکتے دو چاندوں پر دے مارتا۔۔ مگر آج اُس نے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں۔۔چپ چاپ کنکریاں دو چاندوں کے درمیان سے نکالیں اور ایک طرف کو رکھ دیں۔۔
میرے دل میں شک آگیا۔۔ کہ ہو نہ ہو مردار، بے حیا کسی اور کے پہلو کو گرما رہی ہے۔۔ ادھر اُدھر جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ بھائن بہت کھلکھلاتے پائے گئے۔۔ جب دیکھو رفیع کے رومانوی گیت گنگنا رہے ہیں، ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔۔یہاں تک کہ سوتے میں بھی مسکرایا جارہا ہے۔۔ ہم دونوں بھائیوں کا کمرہ سانجھا تھا اور وہ مجھ سے کم از کم 6 سال بڑے تھے۔۔ ایکدم لٹھ مار کے کیسے پوچھ لیتا کہ۔۔
بھائن! آجکل جو آپ اس قدر کے خوش ہیں تو انگیٹھی کے بجائے کہیں میری رجو سے تو بستر گرم نہیں فرمارہے۔۔
الٹا رات کو بھائن کے پیر دبا کر خدمت کی اور بولا۔۔
بھائن۔۔ یہ آپ کا ملازماؤںکے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟
یہ کیسی ہوتی ہیں۔۔ جیسے کہ رجو۔۔ اپنی رجو۔۔ کیا ان سے محبت ہوسکتی ہے۔۔؟
بھائن نے اٹھ کر اگلدان میں تھوکا اور بولے۔۔
لاحول ولا۔۔ غلیظ اور بے حیا رنڈیوں کا نام محبت سے جوڑتے تمہیں شرم نہیں آئی میاں۔۔؟
کہاں یہ اور کہاں محبت۔۔محبت تو قرانِ پاک کی طرح پاک صاف اور مقدس شے ہے۔۔
ایک کاغذ نکال کر پوری غزل پڑھنے بیٹھ گئے جو اُن کی ہم جماعت غفورن بانو کی مدح سرائی میں تھی۔۔ 
میرا دل پرسکون ہوگیا۔۔ میں نے فرط مسرت سے بھائن کا ماتھا چوم لیا۔۔
بھائن بس ایک سوال اور۔۔
بھائن۔۔ ہاں ہاں پوچھو۔۔۔
بھائن محبت یعنی کہ سچی محبت میں کیا ایک دوسرے کو ہاتھ لگانا۔۔ جائز ہے؟
بھائن زور سے بولے
بالکل نہیں۔۔ سچی محبت تو پاکیزہ ہوتی ہے۔۔ پوجا کرتے وقت کیا دیوی کو ہاتھ لگلاتے ہیں۔۔؟ ہیں۔۔؟ اور دور سے  اُس کی پوجا کی، زبان سے اُس کی حمدوثنا بیان کی اور دعا کے بعد چل پڑے کام پر۔۔
میں: اچھا۔۔ پھر۔۔ شب بخیر۔۔
ہونہہ!  بھائن ابھی بچے ہیں کاہے کی دیوی کہاں کی پوتر پوجا۔۔ یہاں تو خود دیوی جی مجھے چیرپھاڑ کر، نوالے بنا کر کھاجاتی ہیں اور یہ حضرت بات کرتے ہیں۔۔ خیر۔۔
بے چاری رجو۔۔ چہ چہ چہ۔۔
پیدائشی یتیم یسیرسنتے ہیں۔۔ ایک ہندو عورت نے اُس کو پالا پوسا اور پھر ہماری ہاں کام کرنے بھیج دیا۔۔ بدلے میں ابا سال کے سال اناج اور اماں دو نئے جوڑے، ۲ وقت کا کھانا اور بے حساب اترن دے دیا کرتی تھیں۔۔
تاریخ کے استاد نے آج بنگال کے قحط کے بارے میں پڑھایا کہ کس
طرح وہاں کے لوگ بھوک کے مارے سوکھ گئے تھے۔۔ میں نے باورچی خانے سے کچھ کھانا چرایا، باہر سے مٹھائی لایا، چھپ چھپا کر رجو کو دے آیا کے بے چاری کھا پی لے۔۔اگر رجو کا رسیلا بدن سیکھ گیا تو پھر میں کیا کروں۔۔
میں نے بتایا ناں سوکھے ڈھانچے جیسے بدن مجھے زہر لگتے ہیں۔۔
میں رجو کی بے نیازی کا سبب تلاش کرہی رہا تھا کہ اُس دن ایک اور ہنگامہ ہوا۔۔
ابا فجر کی نماز پڑھ کر آئے اور گھر میں ایک غل غپاڑہ مچادیا کہ نکالو اس حرامزادی کو۔۔ ہندو، اچھوت کو۔۔برسبیل تذکرہ بات یہ ہے کہ امام صاحب جب بھی کوئی درس دیتے، ابا پر اس طرح کی رقت اور مسلمانی کیفیت چڑھ جاتی۔۔
اس دن تک تو اماں نے رجو کی پروموشن بھی کردی تھی۔۔ خواہ مخواہ ہی بھنگی، سارا صحن الانگ کر اُسے پلید کرتا ہوا پاخانے تک جاتا تھا اور فضلہ لے کر جاتا تھا۔۔۔ تو کھڈیاں صاف کرنے کی ذمہ داری بھی اماں نے رجو ہی کو دے دی۔۔اللہ اللہ خیر صلیٰ۔۔
نکالو اس حرامزادی، اچھوت ہندو کو گھر سے۔۔
ورنہ میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔۔
اُس دن ابا نے اماں کو ڈرانے کیلئے ایک گھڑا اور ایک صحراحی بھی توڑ دی۔۔ اور کام پر چلے گئے۔۔ اماں اور تائی سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔۔
میں اسکول سے گھر آنے لگا تو گھر میں اگر بتیاں، لوبان جلنے کی بو کلو حلوائی کی دکان تک آرہی تھی۔۔ مسجد کے امام صاب بھی گھر کے اندر جارہے تھے۔۔ میں دوڑا کہ الٰہی خیر۔۔ کیا ماجرا ہے۔۔ کہیں دادی یا تائی تو۔۔ اندر پہنچا تو میری معصوم بھولی جان جگر رجو دلہن کی طرح شرمائی بیٹھی تھی۔۔ نئی سوتی ساڑھی، سر پر پلو اور وہی گہرے گلے کا بلاؤز۔۔ دل چاہا کہ امام صاحب کی ٹپکتی رال کو صاف کرنے کی بجائے رجو کو موٹی چادر سے ڈھک دوں۔۔ مگر میں بے بس تھا۔۔
آگے آیا تو سب بیبیاں ، سر پر آنچل ڈالے انتہائی مقدس ماحول طاری کئے بیٹھی نظر آئیں۔۔ امام صاحب نے کلمہ طیب کا ورد کیا اور رجو اُسے دہراتی چلی گئی۔۔ پتہ چلا کہ آج رجو کو مسلمان کردیا گیا تھا۔۔ اب اُس کا اسلامی نام مریم رکھ دیا گیا۔۔
میں ایکدم سے اُداس ہوگیا۔۔ رجو مسلمان ہوگئی ہے۔۔ رجو سے مریم۔۔ اب وہ مجھے کیا گھاس ڈالے گی۔۔ اُسے تو کوئی مسلمان دلہا مل جائے گا۔۔ میں ایسے ہی پہلی محبت کا ماتم کرتا رہ جاؤں گا۔۔خاندان کی سوکھی سڑی ڈھانچہ نما خالہ زاد ماموں زاد پر غور بھی کرنے لگا۔۔ کہ کچھ عجیب سا ہوا۔۔
اگلے ہی دن میں منہ لٹکائے مدرسے سے آیا۔۔ رحل اور قاعدہ رکھ ہی رہا تھا کہ کنکری آکر لگی۔۔ پلٹ کر دیکھا تو رجو کال کوٹھڑی کی طرف بلا رہی تھی۔۔ اُس دن یہ بھی پتہ چلا کہ دنیا کے تمام محبت کرنے والوں کا مذہب ایک ہے۔ اور عبادت کا طریقہ بھی زیادہ مختلف نہیں۔۔اُسی پاکیزہ محبت والے اندازسے۔۔
حجابانہ۔۔!!اُ س دن ہم دونوں نے خوب تجدید محبت کی۔۔
۲ برس ہوئے اماں نے اپنا کمرہ علیحدہ کرلیا تھا۔۔ تائی کے ساتھ مچھر دانی میں سوتی تھیں بے چارے ابا پر الزام تھا کہ وہ خراٹے بہت زور سے لیتے ہیں اور چورن کھانے کی وجہ سے کمرے میں بدبودار ریاحی گیس کا راج رہتا ہے۔۔ اماں ٹھہری چنبیلی کے اور موگرے کے بستر اور تکئے میں خس کا عطر مل کر سوتی تھیں۔۔
اب بے چارے ابا مرتے کیا نہ کرے، خدا سے لو لگالیں۔۔ اُن کا تو کا یہ عالم تھا کہ نماز، روزہ، تہجد سب کے پابند ہوگئے اور ہم دونوں بھائیوں کو بھی آتے جاتے نماز کی تلقین کرنے لگے۔۔
انہیں کیا پتہ کہ جوانی میں تو بس ایک ہی عبادات پر ایمان لایا جاتا ہے، جس میں ناغہ کرنے کو دل کبھی نہیں چاہتا۔۔
اماں نے ویسے کمرہ ضرور علیحدہ کرلیا تھا۔۔ مگر ابا پر شیرنی کی نظر رکھتی تھیں۔۔ مجال ہے جو پورے خاندان میں سے کوئی جوان عورت ابا سے ۲ منٹ بھی بات کرلے۔۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں وہ ابا کو کولہے سے لگائے رکھتی تھیں کہ ابا کا قدم نہ لڑکھڑا جائے کسی پرانی محبت کو دیکھ کر۔۔ساری خواتین بزرگ و جوان پر اماں یہ ظاہر کرتیں جیسے کہ اب بھی ہر صبح وہ غسل خاص کرتی ہیں، جبکہ ایسا نہیں تھا۔۔ 
رجو اب مریم ہوچکی تھی۔۔بھائن غفوراً بانو کے پاکیزہ عشق میں سرتاپا بھیگے ہوئے تھے۔۔پورا دیوان لکھ چکے تھے۔۔ اورابا تہجد گزار نمازی ہوگئے تھے۔۔ گھر میں اس حرامزدی کو نکالو والے جھگڑے ختم ہوچکے تھے۔ اماں نے اس مسئلے کا کیا خوب سدباب کیا تھا، کہ رضیہ سلطان کی بصیرت ان کے آگے پانی بھرتی نظر آتی تھی۔۔
۲۔۴ دن سے اماں، دادی اور تائی تینوں ابا کے لائے افیون سے شوق فرما رہی تھیں۔۔ اماں ساری رات گھوڑے بیچ کر سویا کرتیں اور دن بھر بھی اونگھا کرتیں۔۔
میں نے اُس رات پکا سوچ رکھا تھا کہ بھائن سے ضرور افیون کے فوائد کے بارے میں پوچھوں گا۔۔ شائید اسے کھا کر ’’اظہار محبت‘‘ میں زیادہ اور دیر تک لطف آتا ہو۔۔بستر میں پڑا رجو کی جیومیٹری کے سبق کو یاد کررہا تھا کہ۔۔
صحن میں ایک سایہ سا گزرتا نظر آیا۔۔ پھر کنکر گرنے کی آواز ہوئی۔۔
ارے یہ تو ابا ہیں۔۔ شائید تہجد کیلئے اٹھے ہوں گے۔۔ چلو اُن کو گرم پانی دے آؤں۔۔
۲ قدم چلا ہی تھا کہ ابا غسل خانے کے بجائے غڑاب کالی کوٹھڑی میں گھس گئے۔۔ اور صرف ۲ ہی لمحے بعد رجو اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ برآمد ہوئی اور کالی کوٹھڑی میں غروب ہوگئی۔۔
میں نے جاکر دیوار سے کان لگادیئے۔۔
آوازوں، آہٹوں، سسکیوں سے یقین ہوگیا کہ اندر واقعی عبادت ہو رہی تھی۔۔
معبود تو ایک ہی تھا۔۔
آج عابد بدل گیا تھا۔۔
ختم شد

Post a Comment

0 Comments