Subscribe Us

Header Ads

بانس کا آدمی سلمی صنم بنگلور

بانس کا آدمی 



سلمی صنم 
   بنگلور

معتبر ادبی بین الاقوامی بلاگ   موت ڈاٹ کام پر  باذوق قارئین کے لیے   احمد نعیم
بانس کے درختوں کے اس پار سورج غروب ہو رہا تھا اور شام کے ملگجے اجالے میں مکریاں ٹوکریاں سمیٹتی ہوئی رتنا کسی خواب کی طرح لگ رہی تھی۔رنگا نے دیکھا جنگل کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا ہے۔آج کل پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی رتنا کی جانب دیکھنے لگتا اس کو لگتا کہ وہ کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے۔یہ بات جب اس نے رتنا سے کہی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
کوئ سوامی نہیں اپاوہ بولی "دھرتی پر بس آدمی رہ گئے ہیں کچھ بانس کے درختوں جیسے اور کچھ جنگلی پیڑ"
پھر سنجیدگی سے رنگا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا" اب آپ یہ بتائیے کہ ہم کیا ہیں"
" ہم سولیگا ہیں بیٹی بانس کے آدمی"
" ہم جنگلی پیڑ بھی ہو سکتے ہیں اپا " اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
جنگلی پیڑ۔۔۔!! وہ چپ ہوگیا۔اس کو لگا کہ اس کے اندر کہیں سے کچھ ٹوٹ گرا ہے۔نارسائ کا دکھ کچھ اس قدر شدید تھا کہ اس کا دل ڈوبنے لگا۔برسوں اس نے چاہا تھا کہ وہ جنگلی پیڑ بن جائے۔زمین میں گہرائ تک اترجائے۔اپنی شاخیں ادھر ادھر پھیلائے۔اس مقصد کے تحت گوڈا کی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ساری کھاد، غذا، پانی ، ہوا سب کچھ  جذب کیا تھا۔مگر پچھلے گرام پنچایت چناو میں جب اس کی جگہ گوڈا نے شیواپا کو ممبر بنایا تو ایک دلخراش حیرانی اس کے وجود پر حاوی ہوگئ۔ پتہ نہیں کیسے کیونکر کہاں کمی رہ گئ تھی کہ وہ جنگلی پیڑ  نہیں بن پایا تھا۔
کیا وہ کبھی جنگلی پیڑ بن پائے گا۔وہ سوچتا ہوا ، الجھتا ہوا ، کڑھتا ہوا کوئ سستی قسم کی بیڑی جلائے چھ سو سالہ قدیم بڑے سمپیگے(چمپا) پیڑ کے قریب آبیٹھا۔پاس ہی بھارگوی چشمے کے پانی میں شام سر سرا رہی تھی۔کہیں اندھیرے سے اتر رہے تھے۔
یہی انھیرےتو سولیگاس کا بھی مقدر تھے۔
سولیگاس بی آر ہلس( بلی گری رنگا ہلس۔کرناٹک) کے آس پاس پھیلے جنگلوں میں صدیوں سے آباد تھے۔جنگل ہی ان کا آسرا تھا۔ان کا ان داتا تھا۔ان کا خدا تھا۔اس جنگل کا وہ ایک حصہ تھے۔اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔اس کی ہر شئے سے ان کی آشنائ تھی۔اسی میں وہ بے خوف وخطر گھومتے تھے۔ان کے لباس سے جنگل کی مہک آتی تھی ۔وہ Bidriamma Tayyi (mother bamboo) کا نمن کرتےتھے اور فطرت سے ان کا رشتہ کچھ اتنا گہرا تھا کہ وہ یہ مانتے تھے کہ بانس سے ان کا جنم ہوا ہے وہ بانس کے آدمی ہیں۔وہ چہکتے رہے ، پھدکتے رہے ان ہی جنگلوں میں گھومتے رہے کہ سرکار کو ہی ان کی زندگی میں کسی معنی و مفہوم کی ضرورت محسوس ہوئ اور انہیں مہذب انسانوں کے  زمرےمیں لانے کی خاطر سرکار نے کئ قانون جاری کئے۔انہیں زمینیں دیں۔ان کےلئے پوڈوس ( گاوں) آبادکئے۔اور یوں وہ گھاس اور بانس سے بنی جھونپڑیوں میں رہنے لگے۔راگی اگانے لگے۔
جنگل سے آملہ، شکا کائ، شہد ، ٹیوبرس  اور بانس حاصل کرنے لگے۔انہیں فروخت کرکے پیسہ کمانے لگے۔کئی غیر سرکاری اداروں نے ان میں بیداری پیدا کی۔ان کے لئے اسکول بنائے مگر۔۔  
بیڑی کا ایک بھرپورکش لگاتے ہوئے رنگا نے دیکھا۔شام کی تاریکیوں میں ڈوبا اس کا پوڈو کس قدر پس ماندہ اور اجاڑ سا لگ رہا تھا کچی سڑکیں، پینے کے پانی کی قلت، خستہ حال مکان،بجلی کی کمی
مہذب انسانوں کے زمرے میں آکر انہیں کیا ملا تھا ؟؟
یہ آئے دن بدلتے سرکاری قانون، سمٹتے ہوئے جنگل ، اپنے رکھ رکھاو سے ہٹتی ہوئ نسل، یہ پس ماندگی، یہ مفلسی اور وہ زندگی جس کے خواب جس کے انتظار جس کی تلاش جس کی چاہت جس کے سحرانگیز طلسم میں ان کے دل ودماغ مقید تھے وہ زندگی کہاں تھی ؟؟
" نمستے رنگا " کسی کی آواز اسے خیالوں کی دنیا سے باہر لے آئ۔وہ شنکرا تھا" گوپالا کے گھر جارہا ہوں۔دوائی کےلئے۔ناگما کو زکام ہوگیا ہے" و ہ بولا تو رنگا کی آنکھوں میں گوپالا کا سراپا گھوم گیا۔ وہ خوش لباس، محنتی اور نیک دل نوجوان جو ڈسپنسری میں ملازم تھا۔بہت اچھا لڑکا تھا۔اپنے پاس دوائ کاذخیرہ رکھتا تھا اور جب بھی ڈسپنسری بند ہوتی گاوں والوں کو اپنی جانب سے دوائ دے دیتا تھا
"گوپالا اچھا لڑکا ہے " شنکرا اس کے گن گاتا رہا۔رنگا کے دماغ میں ایک چور سا خیال آیا۔'رتنا کے لئے ٹھیک ہے' مگر اس نے فورا اس خیال کو جھٹک دیا۔'اونہہ  اچھا ہے تو کیا میری رتنا تو کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے'
' کاش کہ کچھ ایسا ہو جائے میری رتنا کو سوامی مل جائیں'
شنکرا کے جانے کے بعد وہ دونوں ہاتھ جوڑے بڑے سمپیگے پیڑ کا طواف کرنے لگا۔اور وہاں پہ موجودشیولنگوں کی پوجا کرتے ہوئے دعائیں مانگنے لگا۔

2
وہ جس سے جنگلوں کی مہک آتی تھی وہ لباس پہنے ہوئے۔دور دور تک پھیلے ہوئے جنگلوں میں چلتے ہوئے ۔ رکتے تھمتے ہوئے رنگا کو لگا جیسے اس کو دیکھتے ہی درختوں نے اپنا رخ اس کی جانب کرلیا ہے اور اس کے استقبال میں جھک گئے ہیں۔ اس کا دل بھر آیا۔وہ بےساختہ ان سے لپٹ گیا۔اس کو لگا کہیں کچھ ان کے اندر بھی دھڑک رہا ہے۔اور پتوں کی سرسراہٹ اس کی سانسوں سے ہم آہنگ ہے۔دفعتا اسے یاد  ان پیڑوں نے بھی بہت کچھ سہا تھا۔جانے کتنے تھے جو کٹ چکے تھے۔اور بھی بہت تھے جو کٹ رہے تھے۔گر رہے تھے جانے کہاں کہاں سے۔اپنے مفاد کی خاطر یار لوگوں نے جنگلوں میں دہشت مچادی تھی۔کچھ بھی محفوظ نہ چھوڑا تھا۔جنگل سمٹ رہے تھے اور پیڑ پودے گم ہورہے تھے۔
وہ دل برداشتہ سا،اداس ،
مضمحل ٹیوبرس اکٹھا کرنے لگا۔
دوپہر جب دھوپ ذرا تیز تھی۔وہ تلیا کے پاس جنگلی پیڑ کی گھنی چھاوں میں آبیٹھا۔اور یونہی دور دور تک نظر دوڑائ۔مگر یہ کیا۔؟ اس کا دل دھک سا رہ گیا۔حدنگاہ تک گھاس نہیں لنٹانا(lantana weed) کے جھڑپ تھے۔خاردار، زہریلے پتوں والے، دور دور تک اپنا وجود پھیلاتے ہوئے، دھرتی کے سینے پر دندناتے ہوئے،سارے علاقے کو اپنی مٹھی میں دبائے کھاد،ہوا، پانی جذب کرتے ہوئے۔اب ان کی موجودگی میں قدرتی گھاس اگے تو کس طرح ؟ جنگلی جانور کھائیں تو کیا ؟؟۔بہت ضروری تھا کہTheregubenki کا قدیم عمل کیا جائے۔لمبی سوکھی گھاس کو آگ لگائی جائے مگر سرکار نے اس پر پابندی عائد کر رکھی تھی پھر یہ آگ لگائے گا کون؟؟؟
ٹیوبرس اکٹھا کرکے وہ جنگل سے لوٹ رہاتھا کہ اس کا سامنا ہریشا سے ہوگیاجو خاصا پریشان لگ رہا تھا۔
"کیا ہوا" وہ حیران رہ گیا"خیریت تو ہے"۔
"کیا بتاوں رنگا " ہریشا رودینے کو تھا۔بڈی(سود) کی رقم نہیں دے سکتا۔اور ناگپا نے دھمکی دی ہے کہ وہ میری بیٹی کواٹھا لے جائے گا"
ایک اور شکایت۔۔ناگپا کولے کر ادھر کئ دنوں سے جبرواستبداد کی بہت ساری خبریں موصول ہو رہی تھیں۔پھر ہریشا تو اس کادوست تھا۔
"یہ کیا کہ رہے ہو "۔وہ بھی پریشان ہوگیا۔
"میری مدد کرو رنگا " ہریشا گڑگڑایا تو رنگا کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔اس نے ہریشا کو تسلی دی مگر خود اضطراب کا شکار ہوگیا۔یہ نئ نسل پتہ نہیں کس اور جا رہی تھی۔ناگپا بڈی بنگارپا کا بیٹا تھاجن کا سود کا دھندا تھا مگر آج تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔دوسروں کی بہو بیٹیوں ہر نظر رکھنا سولیگا کی ریت نہ تھی۔پتہ نہیں کیوں ناگپا نے اپنے ہاتھ اتنے لمبے کر لئیے تھے کہ حدنگاہ تک بس وہ ہی وہ تھا۔دور دور تک اپنا وجود پھیلاتا ہوا۔دھرتی کے سینے پر دندناتا ہوا۔سارے علاقے کو اپنی مٹھی میں دبائے ساری کھاد،ہوا، پانی جذب کرتا ہوا۔جس کی وجہ سے سولیگاس کا دم گھٹنے لگا تھا۔
"Theregubenki ۔۔۔ "
رنگا نے سوچا"مگر یہ آگ لگائے گا کون؟؟؟؟۔"
3


گھنے جنگلوں میں رات گہری ہورہی تھی۔
پوڈو میں ایک بڑا پنڈال لگا ہوا تھا جس میں برقی قمقے جل رہے تھے۔چاروں طرف بہت روشنی تھی۔فلمی نغموں کا بے ہنگم شور تھا۔بستی کے سارے لوگ وہاں اکھٹے تھے اور بڑے سمپیگے پیڑ کے سائے میں اپنا روایتی تہوار روٹی ہبا(تہوار) منا رہے تھے۔شام ڈھلے انہوں نے تماڈی (مقامی پجاری) سے آشیرواد لیا تھا۔سمپیگے پیڑ کی پوجا کی تھی۔اپنے کھیتوں میں اگائ گئ راگی کی روٹی بنا کر اسے بھگوان کے چرنوں میں ارپت کی تھی پھرسب نے آپس میں مل کر بانٹ کھائ تھی اور خوشیوں بھرے ترانے گنگنا رہے تھے ۔
ادھر اپنے بانس جیسے جسم کو جوترا(روایتی لباس) میں لپیٹے کھلے آسماں تلے درختوں کے جھرمٹ میں بیٹھا رنگا سن رہا تھا۔سیاحوں کی ایک ٹولی سےکوئ گائیڈ کہ رہا تھا
"ابھی گورو ۔۔گوروکو۔۔۔گوروکانہ رقص شروع ہوگا۔ لڑکے رقص کریں گے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کریں گی جس کے اظہار کے لئے وہ بسکٹ یا مٹھائ پھینکیں گی۔اگر لڑکا بھی راضی ہو تو وہ دونوں کچھ دن جنگل میں چلے جائیں گے۔پھر لوٹ کر لڑکا گاوں کے مکھیا کا آشیرواد لے گا۔سوابارہ روپئے ہر جانہ دےگا اور بیاہ ہو جائے گا۔یہی سولیگاس کی ریت ہے "
دفعتا کسی فلمی نغمے کا وہ شور بلند ہوا کہ رنگا کو لگا جیسے بھونچال آگیا ہو۔اس نے دیکھا تمام لڑکے اس دھن پر بے تحاشہ ناچ رہے تھے۔انہوں نے دھیرے دھیرے سیاحوں کو بھی اس میں شامل کر لیا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سیاحوں کی راہ میں بچھے جانے لگے۔
" دیوا" رنگا پریشان ہوگیا " یہ آج کی نسل کو کیا ہو گیا ہے"
وہ اپنی سوچ کی دنیا میں گم خود کو بڑا بے بس محسوس کرنے لگا۔جب شور کچھ حد سے زیادہ بڑھ گیا تو رنگا کو لگا اس کا دم گھٹ جائے گا۔وہ سوامی کے چرنوں میں چلا آیا۔وہیں قریب ہی لڑکیوں کی جھرمٹ میں اسے رتنا دکھائ دی جو چشمے کےپانی میں نہا کر جنگلی پھول بالوں میں سجائے گل رنگ ساری زیب تن کئے بالکل کسملا دیوی لگ رہی تھی اور اس نے گوپالا کو بھی دیکھا جو رقص کی تیاریوں میں مصروف تھا۔اور بھی کئ لڑکے تھے۔ناگپا بھی تھا۔
پتہ نہیں کیا ہو  ۔  ۔۔۔وہ چپ چاپ گم سم سا پریما کے پہلو میں آبیٹھا۔
رات کا جانے کونسا پہر تھا۔گوروکو کی ابتدا ہوئ۔لڑکے بڑے سمپیگے پیڑ کے اطراف دائرے کی شکل میں رقص کرنے لگے۔اور لڑکیاں اپنی نیم باز آنکھوں میں جوانی کی مستیاں سمیٹے رقص دیکھنے لگیں۔
" میں نے رتنا سے کہا ہے کہ وہ گوپالا کو چن لے" پریما سرگوشی میں بولی 
مگر میری رتنا تو کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے۔رنگا نے سوچا
لڑکے محو رقص تھے ۔گوروکو گا رہے تھے
"او مکڑی تو اپنا جالا بن رہی ہے
ڈوڈ سمپیگے میرے سوامی ہماری رکشا کر"
رات بھیگ رہی تھی۔لڑکیاں اچھلتیں۔اٹکتیں۔بل کھاتیں اپنی آنکھوں میں کہکشاں اور چہرے پر چاندنی لئے اپنے من پسند لڑکوں پر بسکٹ اور مٹھائ کے ٹکرے پھینک رہی تھیں۔رنگا رتنا کی جانب دیکھتا رہا جو بہت دیر تک چپ چاپ، گم سم اپنے آپ میں ڈوبی اردگرد سے بے خبر بیٹھی رہی۔دیکھتی رہی سوچتی رہی اور پھر اس نے مٹھائ کے چند ٹکڑے پھینکے۔مگر کس پر اور کیوں ؟؟۔وہ ششدر سا دیکھتا رہ گیا۔وہ تو ناگپا تھا جسے رتنا نے پسند کیا تھا۔دفعتا رنگا کو لگا جیسے اس کے اندر سوا نیزے پر اٹکا سورج اچھلا اور گراہے۔اور پھر دور تک پھیلے ہوئے بانس کے جنگل میں آگ لگ گئ ۔
۔۔۔۔  ۔۔۔۔  ۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔۔   ۔۔۔۔
کسملا دیوی ۔۔۔  سولیگا کی حسینہ جسے سوامی نے چاہا تھا
سوامی ۔۔۔  بھگوان وشنو کے اوتار بلی گری رنگا سوامی

Post a Comment

0 Comments