Subscribe Us

Header Ads

*نوبل انعام یافتہ اور عہد ساز ادیب "مارکیز"کے ناول پر معروف صحافی "شکیل رشید صاحب" کا تبصرہ و تجزیہ ‏🔴موت ڈاٹ کام مالیگاوں ‏🔴ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں*کچھ بات گارسیا کے آخری ناول ’ اپنی سوگوار بیسواؤں کی یادیں‘کیتعارف و تبصرہ/شکیل رشید ادب کے نوبل ایوارڈ یافتہ عظیم فکشن نگار گبرئیل گارسیا مارکیز کا آخری ناول ’ میموریز آف مائی میلونکلی ہورز‘ جب شائع ہو کر منظرِ عام پر آیا تھا ،تب مبصرین کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جس نے اس ناول کو ’ردی ‘ اور ’ ایک بچہ باز کی عیش کوشی کی یادیں ‘ کے ساتھ ساتھ ایک ’بازاری ‘ ناول قرار دیا تھا ۔ اس ناول میں ایک ایسے بوڑھے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنی زندگی کے ۹۰سال مکمل ہونے پراپنے لیے ’تحفہ‘ میں، ایک چودہ سالہ باکرہ کے ساتھ ساری رات کی عیش کوشی کا فیصلہ کرتا ہے، اور اس کے لیے وہ اس قحبہ خانہ کی مالکہ سے رابطہ کرتا ہے ،جہاں سےوہ اپنی ساری زندگی طوائفیں حاصل کرتا رہا ہے ۔ ناول کا موضوع چونکہ ’جنسی تصور‘ ہے اس لیے کئی لوگوں نے اسے ایک بوڑھے تخلیق کار کی ذہنی عیاشی بھی قرار دیا تھا ،اور آج بھی کئی نقاد اس ناول کو گارسیا کی ’ذہنی عیاشی‘ ہی قرار دیتے ہیں ۔ لیکن کیا واقعی یہ ایک ’ردّی‘ ناول ہے؟ ایک ’بازاری ‘ اور ’فحش‘ ناول؟ان سوالوں کے جواب کے لیے ناول کے راوی کی زندگی پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ناول کا بے نام راوی بدصورت ہے ،اس قدر بدصورت کہ لوگ اس کا خاکہ اڑاتے ہیں ۔ وہ ایک واجبی سا صحافی ہے ، چونکہ مجرد ہے لہٰذا بچےبھی نہیں ہیں۔ ساری زندگی پیسے دے کر عیش کوشی کرتا ہے اور یہی اس کی زندگی کا حاصل ہےاوروہ اس پر فخر بھی کرتا ہے ۔ ورنہ زندگی اس کے لیےپھیکی پھیکی ،مسرت سے عاری رہی ہے ۔ اسے نہیں پتہ کہ محبت کسے کہتے ہیں،کسبیوں سے بھلا کہیں محبت ملتی ہے !لیکن جب نوّےسال کی عمر میں وہ ایک نوخیز باکرہ کے ساتھ رات گزارنے جاتا ہے تب وہ محبت کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہوتا ہے۔گارسیا کےبوڑھے کردار اور نوخیز لڑکی کے درمیان سیکس تو دور، بات تک نہیں ہوتی یااتنی کم بات ہوتی ہے جسے بات کرنا کہا بھی نہیں جا سکتا، لڑکی تقریباً ساری کہانی کے دوران سوئی ہوتی ہے ،اور بوڑھا اُسے بس سوتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے ، لیکن ایک نوخیز لڑکی کو سوتے ہوئے دیکھنا بوڑھےکی زندگی میں کئی طرح کے احساسات جگا دیتا ہے ،اوراسے لگتا ہے کہ وہ محبت میں گرفتار ہو گیاہے۔ قحبہ خانے کی یہ رات سب کچھ بدل دیتی ہے ،بوڑھے کی چال ڈھال، اداسی کی جگہ مسرت اور پھیکے کالموں کی جگہ محبت ناموں کی شکل میں لکھے گئے کالم ،جو اس کے مداحوں کے تعداد میں اضافہ بھی کرتے ہیں، اور اسے وہ عزت اوراحترام بھی عطا کرتے ہیں،جن سے وہ ساری زندگی محروم رہا ہے۔بوڑھا راوی اس بے نام لڑکی کو دلگدینہ نام دیتا ہے،اور جب وہ کچھ عرصے کے لیےاسے نہیں ملتی تو اس کی یاد میں وہ ایک ایسی بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے ،جسے شدید قسم کی بے قراری کہا جا سکتا ہے ، ایک طرح کا جنون ۔ یہ جنون ہمیں بوڑھے کی سوچ کوسمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے اور یہ سمجھنے میں بھی کہ بوڑھا راوی اپنی نوّے ویں سالگرہ پر خود کو ایک باکرہ لڑکی کا ’تحفہ‘ کیوں دینا چاہتا ہے۔بوڑھے کے دل میں پنپتاہوا نازک سا جذبہ ، ساری زندگی کی محرومی،محبت کے حصول میں اب تک کی ناکامی اورتشنہ آرزو ؤں کا نتیجہ ہی تو ہے! لہٰذا ،اس ناول کے نام سے ،جس کا محمد عمر میمن نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ’’ میری سوگوار بیسواؤں کی یادیں‘‘، کیا ہے، بدکنے کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ یہ سوگوار بیسواؤں کی یادوں سے کہیں زیادہ محرومی کی،محبت کی ، آرزوؤں اور خوابوں کی کہانی ہے ۔اسے معمول سے ہٹی ہوئی محبت کی کہانی بھی کہا جا سکتاہے۔گارسیا کا بوڑھا یادوں کے پٹارے کھولتا تو ہے مگر یہ یادیں عیش کوشی کی نہیں ایک ایسی زندگی کی ہیں ،جوتنہا گزری اور مسرت سے خالی رہی ہے ۔ تنہائی کے ساتھ یہ احساس کہ موت بہت قریب ہے بوڑھے کو اپنی زندگی دوسروں کے ساتھ بتانے پر اکساتا اور یہ احساس دلاتا ہے کہ تنہائی کی موت سے بہتر ہے کہ وہ مرے تو کوئی پاس ہو،اور اس سے بہتر کیا ہے کہ جو پاس ہو وہ نوخیز ہو! یہ ناول صرف محبت کی اہمیت کو ہی اجاگر نہیں کرتا، یہ انسان کی اپنی اخلاقیات سے بھی بحث کرتا ہےاور یہ موت کے فلسفے کو بھی سامنے لاتا ہے ۔جب کوئی اپنی گزری ہوئی زندگی پر نظریں ڈالنے لگے توجان لیں کہ اسے اپنی آنے والی موت کاشدید احساس ہے۔ایک چودہ سالہ لڑکی کے ساتھ رات گزار کر راوی موت کے احساس سے چھٹکارہ بھی چاہتا ہےاور اپنے دل کو سمجھانا بھی چاہتا ہے کہ ’امیدیں اور آرزویں ہمیشہ جوان رہتی ہیں۔‘ مجھے گارسیا کا یہ ناول پسند ہے ،باوجود اس کے کہ فنی طور پر، یہ ناول گارسیا کے دوسرے ناولوں،بالخصوص ’تنہائی کے سو سال ‘اور ’وبا کے دنوں میں محبت ‘کے مقابلے ہلکا ہے ۔ لیکن چند صفحات میں(یہ ناول صرف 75 صفحات پر مشتمل ہے) گارسیا نے سادہ لفظوں اور آسان اندازمیں،فلسفے کی گاڑھی بگھار کے بغیر، نوجوانی ، بڑھاپے ،حسن ، محرومی ، آرزو ،خواب ،موت اور زندگی کے جورموزسمجھا دیے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا فکشن نگار سمجھا سکے۔ اس ناول کے ترجمے کے ذکر کے بغیربات پوری نہیں ہو سکتی۔ محمد عمر میمن اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔میمن صاحب نے بہت ترجمے کیے ہیں ،مغرب کےاچھے ادب کو اردو والوں میں متعارف کرایا ہے ،ان کے ترجمے معیاری ہوتے ہیں ،لیکن فارسی اور عربی الفاظ کی بھرمار سے بہتوں کو الجھن بھی ہوتی ہے ،مگرمجھے ان کے ترجمے پسند ہیں ،کیونکہ وہ نہ ناقص ہوتے ہیں اور نہ ہی غلط۔میمن صاحب کے ترجموں سے بہت سے ایسے الفاظ کی بازیافت بھی ہوتی ہے جنہیں ہمارا حافظہ بھول چکا ہے ۔اس ناول کا ترجمہ مرحوم نے دل لگا کر کیا ہے ،دو مثالیں ملاحظہ کریں:’’ اس کے بعد سے وہ میری یادوں میں اتنی واضح اور شفاف ہوگئی کہ جو میں چاہتا اس کے ساتھ کرسکتا تھا۔میں اپنی ذہنی کیفیت کے مطابق اس کی آنکھوں کا رنگ بدل دیتا: آب رنگ جب وہ بیدار ہوتی،راب رنگ جب وہ ہنستی، اور روشنی کے رنگ کی جب وہ خفا ہوتی۔میں اسے اس عمر اور حالت کے مطابق کپڑے پہناتاجو میری بدلتی مزاجی کیفیتوں سے ہم آہنگ ہوتے:بیس سالہ ناآموزجسے کسی سے محبت ہو،چالیس سالہ بیٹھک کی طوائف ، ستر سالہ ملکہ بابل،سو سالہ سنت۔‘‘ ایک اور مثال:’’ جب میں نے ،ایک بجے شب ،بتّی گل کردی تو وہ ہنوز اپنی سابقہ حالت میں تھی،اور اس کی سانس اتنی آہستگی سے آ جارہی تھی کہ میں نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیازندہ ہے اس کی نبض دیکھی۔خون کسی نغمے کی روانی کے ساتھ اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھا،اس کے جسم کے خفیہ علاقوں میں پھیلتا ہوا اور وہاں سے ، محبت سے دھل دھلا کر،اس کے قلب میں لوٹتا ہوا۔‘‘ میمن صاحب کے اس ناول کے ترجمے کی ایک خوبی یہ ہے کہ انگریزی زبان کے ان الفاظ کے ترجمے،جو انگریزی زبان میں بولنے اور لکھنے میں تو معیوب نہیں سمجھے جاتے ،لیکن اگر ان کے ترجمے اردو میں بغیر سوچے سمجھے کر دیے جائیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں ،اس خوبی سے کیے ہیں کہ بات سمجھ میں بھی آ جاتی ہے اور الفاظ فحش یا گندے بھی نہیں لگتے ۔ایک مثال لے لیں:’’ اس نے سرسری انداز میں کہا،تم اس سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟میں مبہوت رہ گیا۔میں بالکل سنجیدہ ہوں،اس نے اصرار کیا، یہ سستا رہے گا۔ ظاہر ہے، تمہاری سی عمر میں مسئلہ یہ ہے کہ تم کام کے رہے ہو یا نہیں،لیکن تم کہہ چکے ہو کہ یہ مسئلہ حل کر لیا ہے۔میں نے اس کی بات کاٹ دی :جب محبت نہ مل سکے تو جفتی ہی تسکین کے لیے رہ جاتی ہے۔‘‘ گارسیا کا ناول اسپینی زبان میں ہے،اسپینی زبان سے اس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا ،اور میمن صاحب نےاس ترجمے کالاجواب اردو ترجمہ کیا ۔میں نےمرحوم آصف فرخی کے ادارے ’شہرزاد‘ سے شائع اردو ترجمےکے مطالعے سے کچھ پہلے اسے انگریزی میں پڑھا تھا ،پھر دونوں ،انگریزی اور اردو کا ،ساتھ ساتھ مطالعہ کیا ،اور اب ادبی پرچے ’ اثبات‘ کے مالک و مدیر اشعر نجمی کے ادارے سے شائع اس نئی اشاعت کا مطالعہ کیا ہے ، ہر بار اس کے مطالعے سے محظوظ ہوا ہوں۔ اچھے ادب کا جوافراد بھی مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ اسے ضرور پڑھیں ۔یہ ناول ’ اثبات پبلی کیشنز‘ ممبئی (موبائل:8169002417)سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔بتاتا چلوں کہ اشعر نجمی نے نوبل ایوارڈ یافتہ فکشن نگاروں کے تراجم کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے ، یہ ترجمہ اسی کی کڑی ہے۔ اس سلسلے کے مزید تین ناول جو انہوں نے شائع کیے ہیں ،وہ ہیں:’ سفید قلعہ‘ ،ازاورحان پامک ،’چور اور کتے‘،از نجیب محفوظ اور ’پاسپورٹ‘،از ہیرٹا مُلّر۔

Post a Comment

0 Comments