Subscribe Us

Header Ads

*مجید انور مالیگاوں* *اُفق اور عمُود*

مجید انور صاحب کے افسانہ پہ  موت ڈاٹ کا ایک آرٹ 

 *مجید انور مالیگاوں*

  *اُفق اور عمُود*

*نیا اردو افسانہ انتخاب، تجزیہ اور مباحث :- "مرتب 'گوپی چند نارنگ صفحہ نمبر ٢٩٤*


  *🔴انتخاب و ٹائپنگ احمد نعیم (موت ڈاٹ کام بھارت)*


⚫موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت کی پیشکش⚫

ٹرین سے اتر کر میں ویٹنگ روم کی طرف آگیا، تاکہ سامان رکھوا سکوں، کیوں کہ شام کی ٹرین سے واپس بھی جانا تھا،. یہ سامان کہاں لٹکائے لٹکائے پھرتا - سو میں نے سامان وہاں رکھوا دیا - اور جب میں اسٹیشن سے باہر آیا تو کوئی سواری نہ تھی - صرف ایک آٹو رکشا بچا تھا مجھے یہ سواری پسند نہیں اور رکشا ڈرائیور بھی ایک نمبر کے حرامی ہوتے ہیں تیز رفتار لاریوں اور کاروں کے درمیان یوں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ موت سامنے نظر آتی ہے اسی لیے اکثر آٹو رکشا سے اترنے کے بعد دل ہی دل میں ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ منزل تک صحیح سلامت لے آیا ہے

 کوئی اور سواری نہ تھی اس لیے مجبوراً مجھے آٹو رکشا کی طرف بڑھا نوجوان رکشا ڈرائیور باہر کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا مجھے دیکھ کر اس نے اندر بیٹھتے ہوے کہا

"کہاں جانا ہے آپ کو؟"


مجید انور ء1985 کے نیا اردو افسانہ اور اس کا تجزیہ کے عکس میں 


 میں نے اُس کی بیل باٹم پتلون اور سر کے بڑھتے بالوں کے گھونسلے کو دیکھ کر کہا

  "بوڑھوں کی بستی تک جانا ہے پھر سوچنے لگا آج کل بیل باٹم پتلونوں اور سر کے بڑھے بالوں کا رواج کافی تیزی سے پھیل رہا ہے

  وہ انجن اسٹارٹ کرچکا تھا میری بات سن کر اُس نے انجن بند کردیا اور مڑ کر بولا

" تو جناب پھر مجھے کو خالی رکشا لے کر آنا پڑے گا آپ کوئی اور سواری دیکھیے -"


"نہیں بھائی مجھے واپس بھی آنا ہے - بس کچھ دیر کا کام ہے چاہو تو زائد کرایہ لے لینا -"

 اٌس نے کوئی جواب نہ دیا انجن اسٹارٹ کر کے تیزی سے ایک چکّر کاٹا اور شاہراہ پر آکر شہر کی مخالف سمت دوڑنے لگا تھوڑی دیر بعد ہریالی ختم ہوگی اور دھوپ میں جلتے ہوئے زرد میدان شروع ہوگئے جس کے درمیان سڑک ایک لمبے کالے فیتے کی طرح بچھی ہوئی تھی غالباً رکشا میں کوئی عمدہ قسم کا سائی لینسر فٹ تھا - اس لیے شور نہ تھا بلکہ سریلی مدھم آواز تھی جو اس جلتے ہوئے ویرانے سے گزر رہی تھی

 میں نے سگریٹ سلگا کر تیلی باہر پھنک دی اور ڈرائیور کی طرف دیکھا اس کے لمبے لمبے بال ہوا میں اڑ رہے تھے اور عقب نما آئینہ میں منظر تیزی سے پیچھے بھاگ رہے تھے

"بوڑھوں کی بستی میں اکثر تمہارا جانا ہوا ہوگا کیسی بستی ہے؟؟"

میں نے اس سے پوچھا

" اچھی خاصی بستی ہے" اُس نے کہا لیکن اُس کے لہجہ کی بےزاری چھپی نہ رہ سکی "

" اچھی خاصی سے تمہاری کیا مراد؟؟


کیا تمہیں پسند  نہیں ہے ؟ "

" اِس میں پسند اور نا پسند کا کیا سوال؟" 

جیسی ساری بستیاں ہوتی ہیں ویسی ہی ہے - خوبصورت بنگلے - - - صاف ستھری سڑکیں-----  ایک بڑی سے لائبریری - - اور بستی کے درمیان ہرا بھرا پارک - - - اور کیا چاہیے ان بڈھوں کو" 

سڑک ہموار اور سیدھی تھی اس لیے اُس نے رفتار بڑھا دی کانپتا ہوا منظر تیزی سے پیچھے بھاگنے لگا سریلی گنگناہٹ میں کرختگی پیدا ہونے لگی - 

" کیا اتنی تیزی سے سفر کرنا مناسب ہے "؟؟؟ 

" اگر آپ کو حادثے کا خوف ہے تو میں کہوں گا آپ کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے - میں اس رکشا کو اچھی طرح کنٹرول کر سکتا ہوں اور آپ کو قبل از وقت منزل تک پہنچا سکتا ہوں" 

کوئی ضرورت نہیں - " میں نے ترشی سے کہا" قبل از وقت منزل تک نہیں پہنچنا ہے" 

اُس نے کچھ کہا نہیں - البتہ رفتار پھر معمول پر آگی - 

"کیا آپ بھی وہاں رہنے کے لیے جا رہے ہیں -" 

 نہیں - - - - مجھے صرف ایک آٖدمی سے ملنا ہے - اچھا یہ بتاؤ اس بستی کے رہنے والوں کے بارے میں تمہارے کیا خیالات ہیں "-

" بستی میں زیادہ تر پینشن یافتہ بوڑھے رہتے ہیں یا وہ لوگ جن کے بچے شہروں میں کاروبار کرتے ہیں شہروں میں زندگی بےحد تیز رفتار اور ہنگامہ خیز ہوتی ہے اِس لیے یہ لوگ شہر کی زندگی چھوڑ کر یہاں سکون سے رہتے ہیں شہروں میں رہیں تو شہر اُن کے لیے مسئلہ - - - - - - _______اور یہ لوگ بھی شہر کے لیے مسئلہ بن سکتے ہیں اچھا ہے یہ لوگ یہاں سکون سے رہتے ہیں آپ تیز رفتاری کو پسند کرتے ہیں شاید نہیں ورنہ میں ابھی اسّی کی اسپیڈ سے رکشا چلاتا تیز رفتاری کیا دلچسپ شئے ہے. ایسا لگتا ہے جیسے ہوا اڑ رہے ہوں اور ہمارے آس پاس سے پہاڑ، دریا، میدان اور جھیلیں گزرتی جارہی ہیں اور ہم پرواز کرتے ہوئے تیزی سے گزرتے جارہے ہیں

 رکشا کی رفتار پھر تیز ہونے لگی -

دور کی پہاڑیاں لرزنے لگیں اور عقب نما آئینے میں کالی سڑک کا فیتہ تیزی سے کھنچا ہوا محسوس ہونے لگا

"بند کرو اپنی پرواز!" میں نے ڈانٹ کر کہا

"اوہ معاف کیجئے گا کہ میں بھول گیا تھا کہ - - - - - -

رفتار کم ہوگی وہ خاموش ہوگیا دوپہر کی تیز دھوپ میں بستی سنسان اور ویران تھی کہیں کہیں گرد کے بگولے چکرا رہے تھے سناٹا کانوں میں سیٹیاں بجا رہا تھا یوں لگا جیسے اس دنیا کے آخری سِرے پہ آگیا بستی کے بیج میں ہرا بھرا پارک تھا جہاں رنگین پھول تیز دھوپ میں مرجھا رہے تھے - میں نے رکشا رکھوایا اور اُس سے کہا

"تم یہاں انتظار کرو میں جلد ہی آجا ؤں گا -"

ٹھیک ہے لیکن ذرا جلدی آئیے گا کیا قبرستان کا سماں ہے

میں نے جیب سے ڈائری نکالی اور مکانوں کے دروازوں پر لگی پلیٹیں پڑھتا ہوا آگے بڑھنے لگا تھوڑی ہی دیر میں مجھے اپنا مطلوبہ مکان مل گیا میں نے دروازہ پہ دستک دی پھر قدموں کی چاپ سنائی دی جو دروازہ کے قریب آرہی تھی "اور دروازہ کھلا


" موت ڈاٹ کام بھارت کی ادبی پیشکش 


" کہیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں "

" کیا آپ کو میرا خط مل گیا تھا؟ "

" اوہ آپ ہی ہیں اندر تسریف لائیے میں آپ کی آمد کا منتظر تھا - اچھے وقت آئے ہیں ٹی وی پہ کرکٹ میچ ہورہا ہے آئیے - "


ذہنی بالغوں کے لیے ایک منفرد ڈاٹ کام تربیت یافتہ قارئین کے لیے 


 میں اندر داخل ہوگیا کمرے میں کافی ٹھنڈک تھی کھڑکیوں پہ گہرے سبز پردے لٹک رہے تھے جس کی وجہ سے دھوپ کی گرمی اندر نہیں آپا رہی تھی اور کمرے میں ہلکی سبز روشنی اور ملائم خنکی تھی میں صوفے پر بیٹھ گیا وہ کچھ کہے بغیر دوسرے کمرے میں چلا گیا قریب ہی تپائی پر رکھے ٹی وی کے اسکرین پر کرکٹ کا پروگرام چل رہا تھا -

دوسرے کمرے سے وہ جلد ہی آگیا اُس کے ہاتھ میں ٹرے تھی گلاس میں سبز رنگ کا شربت جس میں برف کے ٹکڑے آہستہ آہستہ پگھل رہے تھے


ٹرے تپائی پہ رکھ کر اُس نے ایک گلاس میری طرف بڑھایا میں کچھ کہے بغیر شربت پینے لگا کیونکہ مجھے پیاس محسوس ہورہی تھی -

"ہاں صاحب کہیے، آپ کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں؟؟"

"کچھ عرصہ قبل آپ لوگ ایک تحریک چلا رہے تھے جو بچوں سے متعلق تھی میں اس سلسلے میں آپ سے معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ میں نے خط میں بھی لکھا تھا غالباً آپ اس تحریک کے سرگرم رکن تھے؟؟"

اس نے گلاس تپائی پر رکھ دیا اور کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا -

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ اس تحریک کی تجویز کس نے پیش کی تھی بہرحال ہماری بستی کے کلب میں کسی نے بچوں کی فلاح و بہبود کا ذکر چھیڑ ا تھا پھر وہ ذکر طویل پکڑتا چلا گیا آخر میں طے ہوا کہ باقاعدہ تحریک چلائی جائے کیونکہ یہ تحریک نئی نسل کے لئے بےحد مفید ثابت ہوگی - "


 ایک سوال - - - - - کیا اس تحریک کی پشت پر کوئی نظریہ یا پھر - - - - - - ؟؟؟؟

وہ ہنسنے لگا" لیجیے سگریٹ پیجیے ہم لوگوں نے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ ہماری اس تحریک کا کسی مذہب یا نظریے سے کوئی تعلق نہ ہوگا کیونکہ


کیونکہ صاحب!! کوئی بھی مذہب کوئی بھی نظریہ ایک وقت میں آخر منجمد ہو ہی جاتا ہے اور زندگی آگے نکل جاتی ہے - "

میں نے سگریٹ سلگائی! نیلا دھواں کمرے کے سبز دھندلکے میں آہستہ آہستہ گم ہونے لگا

" میں یہ معلوم کرنا چاہوں گا کہ آپ لوگوں کی تحریک کا طریقہ کار کیا تھا؟ "

" ہم لوگوں نے طے کیا کہ ایک اسکول کھولا جائے جہاں بچوں کو آنے والی زندگی سے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ جب بڑے ہوجائیں اور اپنی علمی زندگی میں قدم رکھیں تو اُن سے وہ غلطیاں سرزد نہ ہوں، جو نوجوانوں سے ہوتی ہیں - اس طرح وہ علمی زندگی کامیابی سے گزار سکیں - ہم ان بچوں کو زندگی سے متعلق اہم نکات پر جانکاری دیا کرتے تھے ہمارے ذہن زندگی کے تجربات سے معمور تھے ہم نے زندگی  کو ہر پہلو سے دیکھا، پرکھا، اور جھیلا تھا ہم قطرہ قطرہ اپنے تجربات ان کے ذہنوں میں انڈیل رہے تھے یہی نہیں بلکہ ہم ان بچوں کو لے کر اسکول سے باہر آتے

اور سڑکوں، گلیوں، چوراہوں، اور بازاروں میں گھومتے پھرتے تاکہ، بچے اپنی آنکھوں سے زندگی کے ہر پہلو کو دیکھ اور سمجھ لیں - "

" آپ لوگ واقعی میں جینیئس ہیں - "میں نے سگریٹ ایش ٹرے میں بجھاتے ہوے کہا

" اس طرح ایک نسل کی ذہنی پرورش ایک کارنامہ ہے کیا آپ حضرات اپنے میشن میں کامیاب رہے - "

" ہم لوگ اپنے میشن میں کامیاب رہے کیونکہ وہ بچے جب بڑے ہوے اور انھوں نے اپنی علمی زندگی میں قدم رکھا تو اُن سے وہ غلطیاں نہ ہوئیں جو نوجوانوں کا خاصہ ہیں اور وہ اپنی زندگی میں انتہائی کامیاب رہے - "

" پھر کیا وجہ ہے کہ آپ حضرات نے وہ تحریک ختم کردی اسے ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے تھا"

وہ کچھ دیر خاموشی سے ٹی وی کے اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں میدان میں کھیل جاری تھا اور فاسٹ باؤلر کی تیز رفتار گیند نے وکٹیں اڑا دی تھیں - 

" ہمیں وہ تحریک ختم کرنا پڑی - اُس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بہرحال فطرت کے آگے مجبور ہے اور فطرت نے اپنے کچھ اصول بنا رکھے ہیں - اِن اصولوں کے دائرے کے باہر جب بھی انسان قدم نکالے گا - اُس کی سزا پائے گا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا - وہ بچے جن کا ذہن تیلی کے پروں جیسا نازک اور پھولوں کی طرح شگفتہ تھا زندگی کے بھیانک اور مکروہ چہرے کو دیکھ کر جھلس گیا یہ سچ ہے کہ وہ اپنی علمی زندگی میں کامیاب رہے تھے لیکن جب وہ نوجوان ہوئے تب ہی اُن کے بال سفید ہوگئے - آنکھیں زرد ہوگئیں اور چہروں پر جھریاں پڑ گئیں اور وہ بوڑھی نسل اپنی زندگی کے ایک جنون خیز عہد سے کٹ گئی جیسے جوانی کہتے ہیں - "

وہ خاموش ہوگیا اور مجھے اپنے چاروں طرف سناٹا گہرا ہوتا ہوا محسوس ہوا - ایسا لگا جیسے خاموشی کی ان دیکھی لہریں مجھے ایک اندھے اور گہرے کنویں میں ڈھکیلتی جا رہی ہیں اور میں اندھیرے خلا میں گرتا چلا جارہا ہوں - ٹی وی کے اسکرین پر کھیل بدستور جاری تھا - اچانک خاموش فضا میں ہارون کی آواز سنائی دی میں نے بوڑھے کی طرف دیکھا وہ خاموش تھا میں اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا اور پردہ ہٹایا - دھوپ تلوار کی طرح چمک کر سبز دھندلکے والے کمرے میں دَر آئی تھی کھڑکی سے باہر جلتے ہوئے میدان کے اس پار درختوں کے سائے میں وہ نظر آیا 

 کون تھا - - - - - ؟؟؟بوڑھے نے پوچھا - 

"ڈرائیور - - - -!! اچھا اب میں چلتا ہوں میں نے آپ کا کافی وقت لیا -" 

"نہیں کوئی بات نہیں - - - - وقت یہاں ایک سپاٹ اور بے رنگ دیوار ہے جو افق تک پھیلی ہوئی ہے اس کا نہ آغاز ہے اور نہ انجام - - - - وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا - 

میں باہر آگیا - دھوپ بدستور نیزے برسا رہی تھی اور وہ کھڑا ہوا سگریٹ پھونک رہا تھا میں رکشے میں بیٹھ گیا انجن غرّا کر جاگا اور منجمد سناٹے کو آواز بلیڈ کی طرح کاٹنے لگی اور رکشا ایک نصف چکر کاٹ کر شہر کی طرف جانے والی سڑک پر چل پڑا 

"کیا ویران سنسان بستی ہے -" اُس نے کہا - 

ایسا لگتا ہے جیسے قبرستان سے آرہے ہیں - "


" ہاں! لیکن اب ہم شہر کی طرف جارہے ہیں - "میں نے کہا 

سڑک کے دونوں طرف دھوپ میں جلتے ہوئے زرد میدان تھے اور سبزے کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا. عقب نما آئینہ میں گرد کا ایک بگولہ تعاقب کر رہا تھا - اور اچانک رکشے کی رفتار بڑھنے لگی دور منجمد پہاڑیاں لرزنے لگیں اور کانپتے ہوئے منظر کے درمیان کالی سڑک کا فیتہ تیزی سے کھسکنے لگا 

میں نے سوچا اسے روکوں اس سے کہوں، رکشے کی رفتار کم کردے. لیکن کچھ نہ کہہ سکا اور سنسان ویران سڑک سے رکشا برق رفتاری سے شہر کی طرف بھاگ رہا تھا 

🔴🔴🔴🔴🔴🎥🎥🎥🎥🎞️🎞️🎞️🎞️


موت ڈاٹ کام بھارت "احمد نعیم 



ختم شدہ

Post a Comment

0 Comments