Subscribe Us

Header Ads

بِسر جن :🔴 ‎شبیر احمدکولکاتا، انڈیا

بِسرجن

از: شبیر احمد
کولکاتا، انڈیا
🔴🔴
وہ پارک میں بیٹھامونگ پھلی چبارہاتھا ! انگلیوں کی انگوٹھیاں نچا رہا تھا!!
انٹریودینے جب کبھی کلکتہ آتاتوشام کواس پبلک پارک میں چلاآتااور باؤنڈری وال پر بیٹھ کر ہوڑہ پل، ودّیا ساگر سیتو،آتی جاتی کشتیوں اور لہروں کوتکتارہتا۔کبھی لمبی لمبی سانسیں کھینچ کھینچ کر بھستریکا،کبھی چھوٹی چھوٹی سانسیں باہرنکال نکال کر کپال بھاتی اور کبھی ناک کے سوراخوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے باری باری دبادباکرانلوم بلوم کرتا۔اور جب ان پرنایموں سے فارغ ہوجاتا توجیب سے ٹھونگا نکال کر مونگ پھلی چباتااور رہ رہ کر انگوٹھیاں نچاتا۔
اس روز بھی وہ یہی کررہاتھاکہ یکایک بوڑھا نمودار ہوا،گیروے رنگ کا جبّہ اور گلے میں ردراکش کی مالائیں پہنے۔ ڈنڈے کومڑوڑ کر سانپ کی طرح بل دیتا ہوا اس کی جانب بڑھنے لگا۔ قریب آیااور اس کے کندھے پرہاتھ رکھ کر پوچھا،’’انٹریو ہوگیا؟‘‘
وہ چونک پڑا۔ مڑکردیکھا،’’آپ !آپ یہاں!! آپ کو تو میں نے ...‘‘
اندرنیل ذہن پر دباؤ ڈالنے لگا اور پھر بولا،’’ہاں ہاں! حسن آباد، حسن آباد اسٹیشن پر، اور...کئی مرتبہ اچھّامتی کے کنارے بھی.... دیکھاہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے گمبھیر لہجے میں پوچھا،’’لیکن آپ یہاں؟اس وقت؟‘‘
’’میںیہاں!وہاں!!جب جہاں، تب وہاں !!پرنتو تو نے بتایا نہیں ۔انٹریو ہوگیا ؟ ‘‘بوڑھے نے اپنا سوال دہرایا۔
’’ہاں! لیکن آپ کو کیسے پتا کہ میں انٹریودینے آیاتھا؟‘‘
بوڑھے نے آنکھ میچتے ہوئے کہا،’’مجھے سب پتاہے ! سب کچھ!!بھوت، بھَوِش سب !!!‘‘
’’اور برتمان؟‘‘
’’ارے مورکھ!سمے کاچکربہت تیز گھومتاہے!!‘‘ وہ پیشانی پر بل ڈال کر بولا، ’’اتنا تیز کہ اس میں ورتمان کا کوئی استھان نہیں !!!تیرابھَوِش اجوّل ہے ،بس ایک بادھا ہے۔‘‘
’’بادھا!کیسی بادھا ؟‘‘ اندرنیل کے چہرے پر مسکراہٹ سکڑنے لگی۔
’’ہاں ،بادھا ہے ۔ایک بادھا ہے۔‘‘ بوڑھے نے ڈنڈا زمین پرٹھونک کر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’لیکن میں توہرروز اخبار میں اپنی راسی ملاتاہوں۔آج بھی ملائی ہے۔مجھے تو کوئی بادھاوادھانظرنہیں آئی۔‘‘
’’راسی ملانے سے کچھ نہیں ہوتا۔یدی راسی کاسمبندھ بھاگ سے ہوتاتو ایک ہی دن جنم لینے والے لاکھوں لوگوں کے بھاگ ایک جیسے ہوتے۔چھوڑ ان باتوں کو۔ میں کہتا ہوں ، ایک بادھاہے،توبادھاہے۔‘‘
’’بادھا، ہونہہ !‘‘اس نے پیشانی پربل دیتے ہوئے کہا،’’کیسی بادھا؟‘‘
بوڑھے نے کہا،’’ اپرادھ کی بادھا۔‘‘
’’ اپرادھ کی بادھا !!‘‘
’’ہاں ،اپرادھ کی بادھا ! !اور جب تک یہ بادھا دور نہیں ہوگی ، توروزگارنہیں کر سکتا!!‘‘
’’لیکن اپرادھ کاروزگارسے کیاسمبندھ ؟‘‘اندرنیل نے حیرت سے پوچھا۔
بوڑھے نے ندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’ندی کا سمبندھ سمندر سے ہے،سمندر کابادل سے۔ اوربادل کابارش سے۔اس لیے بارش کا سمبندھ ندی اور سمندرسے ہے۔ہربستو کا ہربستو سے سمبندھ ہے!! ‘‘
اتنا کہہ کر بوڑھا مسکرایا، سانپ نماڈنڈے سے اس کی پیشانی کی طرف اشارہ کیا اورتیزگامی سے جانے لگا۔
اندرنیل تعجب سے اسے تکتا رہا!!دوچار قدم چلنے کے بعد بوڑھا رکا۔ گردن کو خم دے کربولا،’’اورہاں!سن ،آج رات کو ہلسا سنبھل کر کھانا،کانٹا چبھنے کی سمبھاؤنا ہے ! !‘‘یہ کہہ کربوڑھا چلاگیا۔
اس دن اندرنیل پارک میں دیرتک گم صم بیٹھارہا۔ایساگم صم کہ چکرریل کی آخری ٹرین کب چلی گئی اسے خبر ہی نہ ہوئی ۔

۔دو۔
تری دیب بابو بارسوخ آدمی ہیں ۔ سیاست اورباگدہ پالن ان کا خاص مشغلہ ہے ۔ پنچائت سمیتی کے سبھا پتی ہیں ۔ پارٹی نے یقین دلایاہے ۔ اگر ضلع پریشد پر قبضہ ہوا تو اس بار سبھادی پتی بنادیئے جائیں گے۔اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کا بیٹا کاروبار سنبھال لے تو وہ آئندہ الیکشن میں اپنی پوری قوت جھونک دیں گے۔لیکن اندرنیل عجب لڑکا ہے۔ اسے سیاست سے سروکار ہے ،نہ کاروبار میں دلچسپی!! اپنی قسمت خود بنانا چاہتا ہے۔ خود سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو نا چاہتاہے۔نوکری کرناچاہتاہے ۔درجنوں انٹریو دے چکاہے ۔ اس باربھی ایک انٹریو دے کر پارک میں بیٹھا مونگ پھلی چبارہاتھاکہ بوڑھا پھر وارد ہوا!بولا،’’کہاتھانا،جب تک بادھا دور نہیں ہوگی، تو روزگارنہیں کرسکتا!! انٹریوونٹریو سے کوئی لابھ نہیں !!‘‘
’’اپرادھ ! ایک اپرادھ ،اور پھرسکھ ہی سکھ !آنند ہی آنند!!یہ کہہ کر بوڑھا جانے لگا۔ لیکن جاتے جاتے مڑااوربولا،’’ سر سنبھال کے رکھنا، چوٹ لگنے کی سمبھاؤناہے !!‘‘ اور پھر تیزتیز قدموں سے چلتاہواجھاڑیوں میں گم ہوگیا!!
بوڑھے کو دوسری بار دیکھ کر اندرنیل حواس باختہ ہوگیا۔اس دن بھی اسے تعجب ہوا تھا ،جب رات کے کھانے میں اس نے ہلسامچھلی دیکھی تھی،اور کھاتے وقت کانٹا اس کے مسوڑے میں چبھ گیاتھا۔ وہ درد سے کرہا اٹھا تھا۔ماں نے ساری کاآنچل اس کے منہ میں ڈال کربڑی احتیاط سے کانٹا نکالاتھا۔خون بھی نکل آیا تھا۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہاتھا کہ ٹرین کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ آخری لوکل تھی۔ وہ اسٹیشن کی طرف لپکا۔ ٹرین سرسراتی ہوئی پلیٹ فارم سے نکلتی جارہی تھی ۔ اس نے دوڑ لگائی اور کسی طرح ٹرین میں سوار ہوگیا ۔ دروازے کے پاس سے ایک شخص کندھے پر دودھ کا کنستر لیے گزر رہا تھا ۔ گاڑی نے خاصی رفتار پکڑلی تھی۔ اندرنیل خود کو سنبھال نہ سکا اور کنستر والے سے جاٹکرایا۔ دم بھی نہیں لے پایا تھاکہ سامنے بیٹھے شخص نے کہا ، ’’ بھائی ،پیشانی سے خون بہہ رہاہے !!‘‘
اندرنیل نے جھٹ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پیشانی پر پھیری۔ دیکھا،خون کا دھبہ ہے۔ دوسرے ہی لمحہ بوڑھے کی آواز اس کے کانوں میں گونج اٹھی ،’’سر سنبھال کر رکھنا۔چوٹ لگنے کی سمبھاؤنا ہے ! !‘‘
’’ توکیااب اپرادھ !‘‘وہ سہم گیا!!ایک انجانے خوف نے اسے آگھیرا۔ اس کے بعد اندرنیل میں تبدیلی آتی گئی۔اب اس نے نوکری کے لیے درخواست دینی بند کر دی۔ ساراسارا دن اِدھر اُدھر سرگرداں پھرنے لگا۔کھسیاتا ہوا، بدبداتا ہوا،’’اپرادھ! ایک اپرادھ ،اور پھرسکھ ہی سکھ !آنند ہی آنند!!‘‘اور سوچنے لگا کیسے روز گار کی راہ میں حائل وہ رکاوٹ جلد سے جلد دور ہوجائے۔
ایک دن رات کے ایک بجے وہ چوراہے پرجاپہنچا۔ خبطی کی طرح چکرلگانے لگا۔ نائٹ پٹرولینگ دستے نے اس حال میں دیکھاتوا سے گھر جانے کو کہا۔ لیکن وہ راضی نہ ہوا۔کہنے لگا، ’’مجھے گرفتار کرلو!اتنی رات گئے چوراہے پر اس طرح پھرنا کیا اپرادھ نہیں؟ میں نے اپرادھ کیا ہے۔ گرفتار کرلو مجھے۔‘‘
انسپکٹر نے پہچان لیاکہ سبھاپتی کابیٹا ہے۔ اس نے التجاکی ،’’ اندرنیل بابو، جیپ میں بیٹھئے، آپ کو گھرچھوڑ دیتاہوں۔‘‘
لیکن اندرنیل بضد تھا، کہتا جارہا تھا،’’میں نے اپرادھ کیا ہے! گرفتارکرلو مجھے!!‘‘
اس روز پولس والے اسے بزور گاڑی میں بیٹھاکرگھر لے آئے ۔گاڑی کی آواز سن کر ماں دوڑی باہر آئی۔تری دیب بابو بھی پیچھے پیچھے نکلے ۔ انسپکٹر نے سارا ماجرا سنایا۔ ماں نے لپک کربیٹے کو سینے سے لگالیا۔سسک کر بولی،’’کیاہوا بیٹا؟کیاہوااندو؟ کہاں چلا گیا تھا، میرا لال ۔‘‘
تری دیب بابونے بیوی کو ڈانٹ پلائی ،’’تمہار ے اسی لارڈ پیار نے اس کا دماغ خراب کردیاہے۔‘‘اتنا کہہ کر انھوں نے دھوتی کا کونچا مٹھی میں دبایا اور پھنپھناتے ہوئے اندر چلے گئے۔
۔تین۔
اوردوسرے دن اندرنیل اچھّامتی کے کنارے دیوانہ وار پھر رہا تھا۔ اس کے ذہن میں کیا آیا کہ اس نے اچانک ندی میں چھلانگ لگا دی۔ تیرتاہوا اُس پار جانے لگا۔ اچھّا متی ندی کے اس پار بنگلہ دیش ہے ۔ چنانچہ بی.ایس .ایف . کے جوان فوراً حرکت میں آگئے۔ کشتی لے کر دوڑ پڑے ۔ اسے کھینچ کرباہر نکالا۔ایک جوان نے کہا،’’ارے ،یہ تو سبھاپتی جی کے سپتر ہیں!‘‘
اندرنیل پاگلوں کی طرح چیخ رہا تھا،’’ ندی پار کرنااپرادھ ہے ۔ میں نے اپرادھ کیاہے۔ مجھے گرفتارکرو ۔ مجھے گرفتارکرو...‘‘
اور اس بار بی.ایس.ایف.والے اسے گھر چھوڑنے آئے۔ تری دیب بابو سے کہا،’’ سبھاپتی جی،لگتا ہے ان کی مانسک حالت ٹھیک نہیں۔ آپ سے بنتی ہے۔ انھیں ندی کنارے جانے نہ دیں۔ آتنک واد کے خلاف مہم تیزہے۔چوکسی بڑھادی گئی ہے۔گولی چلادینے کاآرڈر ہے ۔ ‘‘
بی.ایس.ایف.والے جاچکے تھے،لیکن تری دیب بابواپنی جگہ کھڑے رہے ۔منہ پھاڑ ے !بت بنے!!ماں اوربیٹے کو گھورتے رہے! !

اور ایک دن اندرنیل نہرکے اس پار چلاگیا۔ہاں، آبادی کی دوسری جانب ایک نہر ہے،اورنہر کے اس پار ایک کشادہ میدان ،جہاں ہر بدھ کو ہاٹ لگاکرتاہے۔
اس روز بھی بدھ تھا۔وہ ہاٹ میں سارادن سرافگندہ پھرتارہا۔ دکانداروں کو دھمکاتارہا ۔خریداروں سے الجھتارہا۔ ہر کوئی اس کے باپ کی پوزیشن کاخیال رکھ کر غصہ پی جاتا۔اس کے پاگل پن کو نظرانداز کردیتا۔اور جب وہ شام کو لوٹ رہاتھا تو اس کی نگاہ فوڈ انسپکٹر پر پڑی ۔اسی پنچائت سمیتی کے دفتر میں اس کی پوسٹنگ تھی ۔وہ بھی اسی ناؤ پر سوار تھا ۔ اسے دیکھتے ہی اندرنیل بدبدایا ، ’’اپرادھ ! ایک اپرادھ ،اور پھرسکھ ہی سکھ !آنند ہی آنند!!‘‘اوراس نے بے چارے انسپکٹر کے گال پر ایک طمانچہ جڑدیا۔ ناؤ میں کھلبلی مچ گئی۔ بات تھانے دار تک پہنچ گئی۔ تھانے دار نے تری دیب بابو سے دھیمے لہجے میں کہا،’’سر،وہ سرکاری ملازم ہے۔ شکایت بی. ڈی. او. نے فارورڈ کردی ،تو آپ جانتے ہی ہیں،میں بھی سرکاری ملازم ہوں . ..اور سر،یہ اندرنیل بابو کو ہوا کیا ہے؟ دن بھر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں؟ آئے دن کچھ نہ کچھ کر بیٹھتے ہیں ۔ انھیں کسی ڈاکٹر کو ...‘‘
تری دیب بابو نے تھانے دار کوترچھی نگاہوں سے گھورا۔ تھانے دار کی زبان لڑکھڑا گئی ،’’سر،میرا مطلب ہے...!سر، آپ تو جانتے ہیں..‘‘
’’او.سی.صاحب، میں جانتاہوں ،مجھے کیاکرناہے ۔آپ جایئے ، اپناکام کیجئے۔ ‘‘ اورتری دیب بابو پیشانی پر بل دے کرتھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے ،پھراوپر نیچے سر ہلاتے ہوئے بڑبڑانے لگے ،’’ ہاں ، اب کچھ کرنا ہی ہوگا!‘‘

دوسرے دن بیوی کے کان میں کچھ کہااور بستر پر پھیل گئے ۔
ماں منہ بسور کر بیٹے سے بولی ،’’اندو ، تیرے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ ڈاکٹر نے آرام کرنے کو کہاہے۔لیکن انھیں کون سمجھائے۔ ضد کر رہے ہیں، گھیری پر جانے کو۔ کہہ رہے ہیں، ’’ کل پرنیماہے اورابھی تک جھانکا (بانس کے تراشے سے بنا پنجرانماپھندا) نہیں ڈالا گیا ۔ پارٹی کا فون پر فون آرہاہے۔اگرآج رات سے جھانکانہیں ڈالاگیا تو باگدہ مچھلیاں مر جائیں گی۔نقصان تونقصان ، مارکٹ میں بدنامی بھی بہت ہوگی۔ اس لیے اب مجھے ہی گھیری پر جانا ہوگا ۔ تو بابا کے کمرے میں سوجانا ۔ انھیں وقت سے دوا ئیں دیتے رہنا، دیکھ، یہ گولی اوریہ سیرپ ...‘‘
ماں کی بات پوری بھی نہیں ہوپائی تھی کہ اندرنیل نے چونک کرکہا،’’تو گھیری پر جائے گی!وہ بھی رات کو!!‘‘
’’تو بتا کیا کروں!! کون جائے گا؟بول!‘‘
اندرنیل تھوڑی دیر خاموش کھڑا نیم وا آنکھوں سے ماں کا چہرہ تکتا رہا۔ پھر دھیرے سے بولا،’’ٹھیک ہے !میں چلاجاؤں گا!! ‘‘

۔چار۔
اس روزاندرنیل رات کوگھیری پرگیا۔کمپنی کی دو ائرکنڈیشن وین پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ہر جھانکے میں دس کلو،بارہ کلو باگدائیں پکڑی اور وین پر لادی جارہی تھیں ۔ صبح صادق تک یہ سلسلہ چلتارہا۔ساڑھے چھ ٹن سے زیادہ باگدائیں پکڑی گئیں۔کمپنی والوں نے بائیس لاکھ روپے نقداندرنیل کے حوالے کئے۔اندرنیل بانس کے پل سے ہوتا ہوا مچان پر چڑھ گیا۔روپے کی تھیلی کھولی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اتنے ڈھیر سارے روپے ایک ساتھ اس نے کبھی دیکھے نہ تھے۔پانچ پانچ سواورہزارہزارکے کرارے کرارے نوٹوں کے پلندے ! وہ انھیں دیر تک گنتارہا! کبھی جلدی جلدی اورکبھی ٹھہر ٹھہر کر!!
گھر لوٹ کر جب اس نے روپے کی تھیلی ماں باپ کے سامنے رکھی، تو انھوں نے بیٹے میں خوش آئند تبدیلی محسوس کی۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی!!تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔

دوسرے دن بھی اندرنیل گھیری پر پہنچا۔لاکھوں کی باگدائیں پکڑیں اور فروخت کی گئیں۔اندرنیل نے اسی طرح مچان پر بیٹھ کردیر تک روپے گنے ،اور تھیلی چھاتی سے چمٹائے گھرآیا۔
یہ سلسلہ پانچ دنوں تک چلتا رہا۔ چھٹے دن اندرنیل نے تری دیب بابو سے کہا،’’بابوجی ،کیوں نا، ہم کھال (نہر)کے اس پار والے کھیت کو بھی گھیری میں بدل کر باگدہ پالن کریں ؟ ‘‘
کاروبار میں بیٹے کی دل چسپی دیکھ کر تری دیب بابو پھولے نہ سمائے۔کہنے لگے، ’’واہ ! تو نے تو میرے منہ کی بات چھین لی ۔ کئی دنوں سے میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ ایک کام کر، میری وہ اٹیچی لا۔‘‘
اورتری دیب بابو اٹیچی سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ،’’دیکھ یہ ان کسانوں کی لسٹ ہے ،جن کی زمینیں ہمارے کھیت کے آس پاس ہیں۔انھیں سرکار نے زمینیں کاشتکاری کے لیے دی ہیں۔تو ایک کام کر ان لوگوں کی ایک کواپرٹیو بنا۔ میں تجھے اس کا چیئر مین بنادوں گا۔‘‘
اوردیکھتے دیکھتے کواپرٹیو تیارہوگئی ۔تقریباًڈیڑھ سو بیگھا زمین یکجاکی گئی۔کمر تک گہری مٹی کھود کر اینٹ بھٹوں کوبیچی گئی۔جو پیسے حاصل ہوئے ان سے زمین کے ایک کونے میں کنکریٹ کے تین پروسیسنگ ٹینک بنائے گئے، اورنہر سے پانی کھینچنے کے لیے ڈیزل پمپ سیٹ خریدے گئے۔جن کسانوں کی زمینیں لی گئی تھیں ان سبھوں کو سستی مزدوری پر باگدہ پالن کے کام میں جوت دیاگیا۔ ٹینکوں میں پِن (باگدہ کے انڈے) کی دیکھ بھال ہو،یاہر دس دن بعد ایک سے دوسرے ٹینک میں ان کی تبدیلی ۔ فِڈ اور دوائیں دینے کی ذمہ داری ہو یا انھیں گھیری میں منتقل کر کے رات رات بھر بانس کے مچان پر بیٹھ کر پہرہ دینے کاکام ۔ہر کام کے عوض روزانہ ستّر، اسّی روپے محنتانہ طے تھا۔کسان بھی خوش تھے۔ زمین تو انھیں مفت میں ملی تھی۔اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پردھان ، پارٹ بوکرآخر انھیں ملتا بھی کیاتھا۔اور پھر تری دیب منڈل جیسے نیتاؤں سے وابستگی تو اپنے آپ میں ان کے لیے ایک قابلِ رشک بات تھی۔غرض یہ کہ چند ہی مہینوں میں نئی گھیری باگدہ پالن کے لیے تیار ہوگئی۔ اور بھلا ہوتی بھی کیوں نہیں،اچھامتی ندی سے نکلنے والی اس نہر کا پانی ویسے تو میٹھا ہے، لیکن جب ندی میں جوار آجاتاہے اور سندر بن کے راستے خلیج بنگال کانمکین پانی اس میں بھر جاتا ہے تو یہ نہر میٹھے اور نمکین پانی کا آمیزہ بن جاتی ہے۔اس آمیزہ میں باگدائیں خوب پھلتی پھولتی ہیں۔عام دنوں میں جھینگا مچھلی کی یہ نسل کیچڑ مٹی میں دبی بیٹھی رہتی ہے،مگر جب چاندکی روشنی فضامیں پھیلتی ہے، تویہ کیچڑ سے نکل کرسطحِ آب پر آجاتی ہے۔ اندرنیل کی اس نئی گھیری میں بھی اب باگدائیں سطحِ آب پرآنے لگی تھیں۔ چنانچہ جال پھینکے گئے ۔ ٹنوں باگدائیں پکڑی گئیں۔چار رات تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
آج پانچویں رات تھی۔ رات بھر جال ڈالنے ، باگدہ پکڑنے ، وزن کرنے اور وین پرلادنے کاکام چلتارہا۔

۔پانچ۔
پوپھٹ چکی تھی۔ فضامیں ہلکی ہلکی روشنی پھیل گئی تھی۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سے پوراماحول گونج اٹھاتھا۔ کمپنی والے روپوں سے بھری تھیلی اندرنیل کودے کر چلے گئے تھے ۔ مزدوروں کی ٹولی بھی جاچکی تھی۔پہرہ دار مچان پر بیٹھے اونگھنے لگے تھے۔گھیری کی تہ سے اٹھنے والی بدبوشمال مشرق سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں تحلیل ہورہی ت

ھی ۔ رات بھر کے کام سے پگڈنڈیاں کیچڑ آلود ہوچکی تھیں۔اندرنیل چھاتی سے روپوں کی تھیلی چمٹائے پگڈنڈیوں پرپیر جما جماکرسڑک کی جانب بڑھتا جارہاتھاکہ کسی نے اچانک اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔وہ چونک پڑا!! مڑ کر دیکھا ۔سامنے بوڑھاکھڑاتھا ،اپنے مخصوص بھیس میں۔اندرنیل نے بوڑھے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، ’’آپ، یہاں! اس وقت!! ‘‘
’’میںیہاں! وہاں!!جب جہاں، تب وہاں !!!‘‘ بوڑھے نے پتلیاں نچاتے ہوئے کہا،’’اپرادھ ! ایک اپرادھ ،اور پھرسکھ ہی سکھ ! آنند ہی آنند!!‘‘
’’لیکن آپ کی بات تو جھوٹ نکلی۔دیکھئے ،بنا کوئی اپرادھ کیے ہی مجھے کتنا اچھا روزگارمل گیاہے،لاکھوں روپے کمانے کا!‘‘اندرنیل نے روپے کی تھیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بوڑھے نے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجائی اور گردن کو جنبش دیتے ہوئے کہا، ’’اچھا!سچ مچ ،تونے کوئی اپرادھ نہیں کیا ؟‘‘
اندرنیل چھاتی تان کر کہا،’’ نہیں میں نے کوئی اپرادھ نہیں کیا۔‘‘
بوڑھا لمحہ بھر خاموش کھڑا رہا اورپھرڈنڈا نچا کربولا، ’’اپجاؤزمین پر باگدہ پالن اپرادھ نہیں؟ ‘‘
’’باگدہ پالن اپرادھ!!‘‘ اندرنیل بدبدایا۔
بوڑھے نے آنکھیں موند لیں اور دھیمے لہجے میں کہنے لگا، ’’ ہاں، اپرادھ ہے ، گھور اپرادھ۔ اس کے علاوہ بھی تونے کئی اپرادھ ...!! ‘ ‘
اس نے اپنی بات پوری بھی نہ کی تھی کہ اندرنیل نے گھٹنوں کے درمیان روپے کی تھیلی دبائی ،جسم کا اوپری حصہ موڑکر دونوں ہاتھوں سے بوڑھے کی گردن دبوچ لی۔ پوری طاقت سے کھینچا اور گھیری میں پھینک دیا۔
’’چھپاک ‘‘سے ایک آواز ابھری،اور دوسرے ہی لمحہ فضامیں خاموشی چھا گئی!!
پانی کی سطح پر بننے والا دائرہ رفتہ رفتہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلاگیا ! ! *

Glossory
1.بسرجن - غرق آب
2. سیتو - پل
3. بهستریکا - یوگا کے ایک آسن کا نام
4. کپال بهاتی - یوگا کے ایک آسن کا نام
5. انلوم بلوم - یوگا کے ایک آسن کا نام
6. پرنایم - یوگا کا عمل
7. ٹهونگا - کاغذ کا ڑونگا
8. ردراکش - ایک پیڑ جس کے گول
گول پهل کی مالا بنا کر
سادهو لوگ پہنتے ہیں
9. گمبهیر - سنجیدہ
10. اچها متی- ایک ندی کا نام
11. پرنتو - لیکن
12. بهوت - ماضی
13. بهوش - مستقبل
14. برتمان - حال
15. مورکه - احمق
16. سمے کا چکر- وقت کا پہیہ
17. ستهان - جگہ
18. اجول - روشن
19. بادها- رکاوٹ
20. راسی - برج کے نشانات zodiac signs
21. یدی - اگر
22. سمبندہ - تعلق
23. بهاگ - مقدر
24. اپراده - جرم، گناہ
25. ہلسا - ایک قسم کی مچهلی
26. بستو - شے
27. سمبهاونا - امکان
28. باگدہ - جهینگا مچهلی، Prawn
29. ضلع پریشد - ڈسٹرکٹ بورڈ
30. سبهادی پتی -ڈسٹرکٹ بورڈ کے صدر
31. سکه - آرام
32. آنند - خوشی
33. سپتر - بیٹا
34. سبها پتی - بلاک بورڈ کے صدر
35. گهیری - بڑا ساتالاب جس میں
پراون کی کاشت کرتے ہیں

Post a Comment

0 Comments