Subscribe Us

Header Ads

‎قمر عباس علوی کی گیارہ منفرد ‏نظمیں ‏"موت ‏ڈاٹ ‏کام ‏مالیگاؤں ‏بلاگ ‏کے ‏لیے ‏

* قمر عباس  علوی کی گیارہ منفرد نظمیں*"موت ڈاٹ کام مالیگاوں" بلاگ صرف سنجیدہ قارئین کے لیے
قمر عباس  علوی کی گیارہ نظمیں
نظمیں
 
          *موت ڈاٹ کام مالیگاوں بلاگ* پہ صرف سنجیدہ قارئین کے لیے 

1:-  سگریٹ نوشی 
مجھے اس لایعنی سلسلے میں کچھ نہیں لینا دینا
کہ مجھےکسی نے خلق کیا یا ارتقائی عمل سے یہاں تک پہنچا
میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ سب میری مرضی سے نہیں ہوا
یہ وہ آگ ہے جو میں نے نہیں جلائی

میں نے آنکھ کھولتے اقدار کو اپنی چاروں اور 
مگرمچھوں کی طرح منہ کھولے دیکھا 
جیسے میں کوئی مجرم ہوں 
یا غلطی سے کسی غیر مطلوبہ جگہ آگیا مسافر
میرا جنم میری ماں کے لیے ایک حیاتیاتی تجربہ ہو
یا باپ کے لیے جنسی
میرے لیے سراسر وجودی ہے

پچھلے تین دن سے میں خون دیکھ رہا ہوں
اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں کا خون
جو بہا نہیں ، بہایا گیا
 کیا ہم دوسروں کو محض اس لیے مار سکتے ہیں
کہ انھوں نے وہ نہیں چُنا جو ہمیں مرغوب ہے؟
یا وہ ہماری طرح نہیں سوچتے؟
میرے سامنے چائے کی پیالی اور سگریٹ کا پیکٹ ہیں
میں ان میں سےباری باری کچھ بھی اٹھا سکتا ہوں
یا ایک ہی بار دونوں
میں سگریٹ کا انتخاب کرتا ہوں
کہ چائے دوستوں کے ساتھ اور سگریٹ تنہائی میں پینے کی شے ہے
مجھے اس کے لیے کسی سے مشورا نہیں چاہیے

 ساتواں سگریٹ ختم ہوتے ہوتے مجھے سمجھ آ گئی
زندگی میرے لیے سگریٹ کی طرح ہے:
جس کے ایک سرے پر آگ ہے تو دوسرے پر میرے لب 
آگ لبوں کی اور بڑھ رہی ہے
جسے روک دینے پر میں قادر نہیں
مگر اس کی رفتار میری سانس پر منحصر ہے
چاہوں تو تیز کر دوں
یا انتظار کروں 
جب تک وہ خود پہنچے
مگر اس سب کے دوران 
میں دھویں سے مرغولے تو بنا سکتا ہوں
گول، منحنی اور ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے دائرے
ایسے ہی جسی تیڑھی ترچھی کائنات
زندگی اس سے مختلف نہیں

 
2۔   ہمیں بہت ساری نظمیں چاہییں *

ہمیں بہت ساری نظمیں چاہییں
اس ناقابلِ برداشت زندگی کو سمجھنے اور جھیلنے کے لیے
اپنے بچھڑے ہوئے مِتروں سے نیا رشتہ قائم کرنے کے لیے
اپنے باطن کی بھیانک اور پُراسرار دنیا سے تعارف کے لیے
یا پھر اندر کے مرتے ہوئےانسان کا نوحہ کہنے کے لیے

ہمیں نظمیں چاہییں
کافی کی طرح کڑوی کسیلی
لیکن زبان پر تاثیر چھوڑنے والی
سگریٹ کی طرح سُلگتی ہوئی 
مگر مَتلی کی کیفیت سے نجات دلانے والی
لفظ کی طرح نرم و ملائم
لیکن اندر سے جھنجھوڑنے والی
دوستوں کی طرح بے تکلّف
مگر تنہائی کی رفیق 

ہمیں نظمیں چاہییں
تاکہ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر سکیں
لکھےہوئے لفظ کی مانند
یا مرے ہوئے دوست کے کتبے کی طرح


3۔  آکٹوپس

میرے پاس دوستوں کی کوئی لمبی چوڑی قطار نہیں
اور اگر سچ کہوں تو اس کی ضرورت بھی نہیں
صرف چند ہاتھ ہیں جو بُرے وقت میں میرے آنسو پونچھتے ہیں
اور اچھے وقت میں مَیں انھیں چوم لیتا ہوں 
زندہ رہنے کو اس سے سوا کیا چاہیے
میرا چھوٹا سا گھر  ٹوٹتی جڑتی چیزوں کا متحمل نہیں

دو چار پرانی کتابیں، کچھ خواب
اور چمکتی ہوئی دو آنکھیں(جو خوابوں کی طرح لامتناہی ہیں)
مجھے کافی ہیں:
دن میں کتاب پڑھتا ہوں اور رات میں خواب دیکھتا ہوں
ان آنکھوں کے خواب
جو کھلی کتاب اور چشمے کے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہوئے بھی بے حد گہری ہیں
موت ان کے سامنے ہیچ لگتی ہے
"میں زندگی سے آکٹوپس کی طرح چمٹے رہنا چاہتا ہوں *"

(* یہ سطر اسد محمد خاں سے ماخوذ ہے)


4.  شناخت نامہ

لکھو!
میں ایک بلوچ ہوں
میری شناخت مسنگ پرسن ہے
اور ہم پانچ بہن بھائی ہیں
جن میں سے تین مارے جا چکے ہیں 
اور دو محفوظ ہاتھوں میں غیر محفوظ ہیں
آپ کو غصہ تو نہیں آ رہا؟

لکھو!
میرے قبیلے کے بیس افراد لاپتہ ہیں
جن میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی ہیں
اور وہ بچے بھی
جنھیں ٹھیک سے اپنا نام بھی نہیں لکھنا آتا

لکھو!
ہم غدار ہیں
ہاں! غدار 
ہم اپنا حق مانگتے ہیں:
زندہ رہنے کا حق، اپنی مٹی پر جینے کا اور اظہارِ رائے کا حق

لکھو!
ہمیں خیرات میں بھوک
اور تہواروں پر ہیلی کاپٹروں سے عزیزوں کے لاشے پھینکے جاتے ہیں
ہمارےپاس بانٹنے کو غم
اور دکھانے کو قبرستان ہیں
جہاں ہمارے اپنوں کی قبریں ہیں

لکھو!
ہمارےپہننے کو کپڑے نہیں کفن ہیں
 کھانے کو روٹی نہیں گولیاں ہیں
پینے کو صاف پانی نہیں غصہ ہے
لیکن ہم ہارتے نہیں
ہم نے پیدا ہوتے ہی
ذلت اور موت میں سے موت کو چنا
زندگی ہم پر آسان نہیں
مگر جیتے جی مرنا نہیں چاہتے

آپ کو اگر غصہ نہیں آ رہا تو

لکھو !
ہم غلطی سے بلوچستان میں پیدا ہوئے
لکھو!
ہم نے خوابوں کی جگہ لاشے
اور بہنوں کی لٹتی عزتیں دیکھیں
لکھو!
ہمارے حق میں بولنے والوں کو مار دیا جاتا ہے
 لکھو!
ہم وطن میں جلاوطن ہیں
لکھو!
ہم بلوچ ہیں



5۔ میرے بھی دکھ ہیں

اب میر و غالب کا زمانہ نہیں 
کہ اپنی ناک کو اونچا رکھنے کے لیے شاہ کا قصیدہ لکھوں
نہ ہی فرنگی دور ہے
کہ میرامن کی طرح تلوے چاٹ کر منشی ہو جاوں
مجھے تو سر سید کی طرح وضاحت بھی پیش نہیں کرنی 
کہ میں اور میرےلوگ نردوش ہیں

میرا زمانہ ان سے مختلف ہے:
میں حلقے کے اجلاس میں صاحبِ صدارت کے ذوق کو چیلنج کر سکتا ہوں
واٹس ایپ پہ ادباء کا گروپ لیفٹ کر سکتا ہوں
یا ایف بی پر کتّے بلوں کو بلاک

مجھے شاہانہ خلعت کے لیے خوشامد نہیں کرنی
کہ لنڈے سے سستی جینز باآسانی مل جاتی ہے
مجھے کوچۂ جاناں میں رسوا نہیں ہونا
کہ نیلی فلموں نے میری سیاہ کاری کو آسان کر دیا ہے
مجھے لکھنے کے لیے شاہی مہر والےکاغذ نہیں
اپنا موبائل کافی ہے
شہرت کے لیے دربار نہیں سوشل میڈیا

میری بھی کچھ مجبوریاں ہیں:
مجھے بھی کھانے کو روٹی
رہنے کو گھر 
اور پینے کو شراب چاہیے

مگر یہ سب آسان کب ہے
اس کے لیے تو پسنا پڑتا ہے 
مشاعرے میں کمپیرنگ کرتے
تو کبھی پرائیویٹ کالج میں بچوں کو میر سمجھاتے
مجھے بھی محبوبہ سے لِپسنگ کےلیے 
اسے شاپنگ کروانی پڑتی ہے
جسے کے بعد نوبت فاقہ کشی کو چھو جاتی ہے


6۔  ہم وہ ہیں

'ہم وہ ہیں جنھیں ماوں نے بوڑھا جنا * ' اور پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوئے
باپ مارے گئے اور مائیں بیاہی گئیں:
غربت ،تنہائی اورمفلسی سے,
پابوں کو تسبیحیں اور بوٹ
اور ماوں کو تنہائی نگل گئی
سو ہم وقت کی رفتار سے تیز چلے 
اور ہکلا گئے

ہم وہ ہیں
جن کی تاریخ گڈ مڈ ہوگئی
جوانوں کی موت بچوں سے:
ایک بڑے کینوس پر چند کم سنوں کا خون پینٹ کرتے
ہم بھول گئے کہ ہمارا گھاو اس سے کہیں گہرا ہے
ایک لاکھ یا شاید کئی لاکھ  'غداروں' کا خون
ہم بھول گئے کہ مٹی خون جذب نہیں کرتی

ہم پیدائشی حرامزادے ہیں
ہماری ماوں نے تاریخی مغالطے پڑھے اور وراثت میں ہمیں نفرت بانٹی
باپ تھے نہیں ورنہ تجزیہ کرتے
سو حرامزادے ہی رہے

* اسد فاطمی کی غزل کا مصرع


7۔   مصلحت پسند

ہم دوسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں
لیکن مزاحمت نہیں کرتے
اس ڈر سےکہ کہیں مارے نہ جائیں
اور پھر ماردیے جاتے ہیں
کسی دن بالکل بے جواز :
کیڑے مکوڑوں کی طرح


8۔  وصیت 
میں مر جاوں تو میرے لیے تم آنسو مت بہانا
کہ مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مرتا
اور آنسو ہمارا آخری سرمایہ ہیں

مجھے سپردِ خاک کرتے پھولوں کی پتیاں مت بکھیرنا
پھول جنازوں میں نہیں
ٹہنی پر یا کسی حسینہ کے بالوں میں اٹکے ہی اچھے لگتے ہیں
میرے ساتھ کسی اضافی چیز کو تہہ خاک نہ کرنا

ہاں کچھ چیزیں ضرور دینا:
مثلاً وہ بوسے
جو میرے پسندیدہ ہونٹوں نے میرے ہونٹوں پر دیے 
اور وہ لمس
جو میرے ہاتھوں نے تمھاری چھاتیوں اور کولہوں سے کشید کیا
اور وہ خواب جنھیں دیکھنے کی مہلت زندگی بھر نہیں ملی




10. مجھے مت بتاو

مجھے مت بتاو یہ بات
کہ مجھےکیا کرنا ہے اور کیا نہیں
اور یہ پاس ہی رکھو اپنی یبوست زدہ جمالیات
اور یہ اخلاقیات کا پلندہ 

مجھے آزاد چھوڑ دو
بالکل آزاد
اس اونٹنی کی طرح 
جس کے پاوں صحرا کے رستوں کو سوار سے بہتر جانتے ہیں
یا اس بھنورے کی طرح
جسے خوشبو کا پتا کسی سے  پوچھنا نہیں پڑتا
یاان پریمیوں کی طرح
جن کے بدن ، بدن کی زبان خوب جانتے ہیں

میں وہ سیّاح نہیں جسے مسافت کے بعد کوئی روداد لکھنی ہے
 نہ وہ نقاد جسے ہر زشت و خو کا شعور چاہیے
اور نہ وہ صوفی جس کا حاصل ہی بھول بھلیاں ہیں
میں تو مسافر ہوں
ایک مسافر
جسے دیکھنا ہے اجنبی شہر کا ہر نادیدہ موڑ
 ہر گلی اور ہر کوچہ 
مگر اپنی نظر سے
صرف ، اپنی نظر سے

             

11 ۔ Stream of Consciousness

  (سولہ دسمبر)

دیوار کے بڑے سے شگاف کو چھوٹے کینوس کی پینٹنگ سے ڈھانپنے کی کوشش میں
فریم ہاتھ سے پھسلا اور گیلے فرش پر آرہا
گیلے فرش پر بھیگتے ہی رنگ بکھرنے لگے
(پانی رنگوں کو بکھیرنے میں جلد باز واقع ہواہے)
ٹی وی پر اینکر نے
فنکاروں کے لیے ایوارڈ اور
 تاریخ نویسی کے لیے بجٹ کی منظوری والے پراجیکٹ کی تصدیق کر دی
شمشیر زن نے شاخ کاٹ کر قلم تراشا
اور اہل قلم نے تاریخ
(آخر بائیں کو دائیں ہی دھوتا ہے)
اور دونوں نے مل کر موقلم خریدا

سرکاری چینل نے سیاہ دن منانے کا اعلان کیا
اور پینٹر نے سفید کاغذ پر رنگ بازی کاآغاز
تصویر رفتہ رفتہ واضح ہونے لگی
گاہگ نے من پسند پینٹنگ مہنگے داموں خریدی اور دیوار پر چسپاں کرنے لگا
فریم ہاتھ سے پھسلا اور زمین پر آرہا

میں نے 'سقوط ڈھاکہ کی تاریخ' گالی دے کر بند کی
کہ بنگالی ہیں ۔۔تیا
اور ٹی وی پر پریڈ دیکھنے لگا
"ہماری فوج دنیا کی بہادر فوج ہے"
اور ہم تاریخ سے نابلد



12۔  محبت

میں نہیں جانتا کہ محبت کیا ہے
اور نہ ہی یہ جاننے کی خواہش ہے
ہم بہت کچھ بنا جانےاچھے سے کر سکتے ہیں
 جیسے نفرت یا کوئی جنسی تجربہ

تمھاری آنکھوں میں جھانکتے
تم پہلے سے حسین لگتی ہو
اور سچ پوچھو تو اپنا آپ بھی
اور زندگی سے جڑی ہر شے بھی
یہ پتا نہیں کیا ہے

میرے پاس دینے کو توجہ
اور جینےکو آپ کے سوا کچھ نہیں
یا جو کچھ ہے وہ اس سے بڑھ کر نہیں
یہ سب تمھارا ہے

میری پشت جب تک تمھاری چھاتیوں کی چبھن
اور کان کی لویں سانس کی حدت کو محسوس کرسکتی ہیں
مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا

جس کےپاس پینے کو شراب
اور جینے کو تم ہو
اسے اور کیا چاہیے
'سو میں اتنی ہی دنیا کو دیکھتا ہوں
جو تمھاری آنکھوں مجھےدکھا سکیں'

Post a Comment

0 Comments