کیا جذباتی قربانی اپنا اثر رکھتی ہے؟ ماہر نفسیات ڈاکٹر ابصار فاطمہ سکھر پاکستان کا ایک کالم
*موت ڈاٹ کام مالیگاوں بلاگ* کے لیے
کیا جذباتی قربانی اپنا اثر رکھتی ہے؟
ہم میں سے کئی لوگ "رضاکارانہ" طور پہ اپنی خدمات اور جذبات مکمل طور پہ چند رشتوں کے لیے مخصوص کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اپنے جذبات اور تعلقات کا دائرہ اسی حساب سے محدود رکھیں۔ جو اکثر نہیں ہوپاتا۔ ایسے میں انہیں لگتا ہے کہ شاید دوسرا شخص ان کے جذبات کی قدر نہیں کر رہا۔ اور یہاں سے تعلقات میں مسائل شروع ہوتے ہیں۔ اس روئیے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پہلی بات وہ یہ کہ جسے ہم رضاکارانہ رویہ سمجھ رہے ہیں وہ مکمل طور پہ رضاکارانہ نہیں ہوتا۔ جب ہم بچپن سے معاشرے کو ایک مخصوص جذباتی روئیے کو سراہتا دیکھتے ہیں تو معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وہی رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اکثر شروعات میں اردگرد سے یہ رویہ اپنانے پہ تعریف بھی ملتی ہے۔ ماں کا بطور ماں اپنی صحت اور تفریح کے لیے وقت نہ نکالنا سراہا جاتا ہے، باپ کا بطور باپ خود کو جذباتی طور پہ مضبوط دکھانا سراہا جاتا ہے، بڑے بہن بھائیوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے ہونے کے باوجود خود سے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کریں گے بتی چیزوں سے روکیں گے، اولاد سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ متشدد روئیے کے جواب میں فرمانبرداری دکھائیں گے چاہے وہ رویہ ناصرف ان کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مجرمانہ حد تک نامناسب ہو۔
جب ہم جب بچپن سے آپس کی بات چیت میں، محاوروں میں، ادب میں، فلموں ڈراموں میں اسی قسم کی مثالیں دیکھتے آرہے ہوں تو اس رویئے کو اپناتے چلے جاتے ہیں چاہے وہ ہمارے اور دوسرے فریق کے لیے کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔
یہ بھی معاشرہ اور تربیت ہمیں یقین دلا دیتا ہے کہ سب کچھ رضاکارانہ کرنا ہے احساسات اور جذبات پہ بات نہیں کرنی سب کچھ خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ کے قربانی دیتے ہی دوسرے فوراً آپ کے جذبات کی قدر کرنے لگیں گے اور وہ بھی رضا کارانہ طور پہ آپ کے لیے یہی طرز عمل اختیار کریں گے جو آپ کا ان کے لیے ہے۔
بد قسمتی سے جذباتی تعلقات ایسے کام نہیں کرتے۔ بیک وقت دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے رضاکارانہ قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنے جذبات بیان نہیں کرتے اور نتیجتاً دونوں یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ صرف وہ قربانی دے رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مثبت تعلقات میں رضاکارانہ جذبات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ ہی قربانی دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ مثبت تعلقات کے لیے جذبات اور احساسات پہ بات کرنا بہت ضروری ہے۔
قربانی بنیادی طور پہ ایسا رضاکارانہ عمل ہوتا ہے جو دوسرے کے تقاضے کے بغیر ہوتا ہے۔ ایسے میں یا تو دوسرے کو احساس نہیں ہوتا اور وہ اس عمل کو فار گرانٹیڈ لیتا ہے یا زیادہ تر سے اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ بالکل ایسے جیسے آپ دیکھیں کہ ایک دمے کے مریض کو سانس نہیں آرہی تو آپ سانس روک کے کھڑے ہوجائیں آپ کو لگا آپ نے اس کے لیے قربانی دی لیکن آپ نے سوچے سمجھے بغیر ایک عمل کیا جس سے اسے تو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن ممکن ہے آپ خود نقصان کا شکار ہوجائیں۔
کبھی کبھی حالات مدعی سست گواہ چست والے بھی ہوجاتے ہیں کہ آپ جس کی مدد کے لیے متحرک ہوئے ہوتے ہیں وہ عین وقت پہ ود ڈرا کردیتا ہے اور آپ پہ جھگڑا کرنے کا الزام آتا ہے۔ اس لیے جس کو ضرورت ہے اس سے بات چیت کی راہ ضرور ہموار رکھیے لیکن اس کے بغیر کہے کچھ پروائیڈ کرنے سے جو خاص طور پہ قربانی کے زمرے میں آتا ہو اجتناب کریں۔
0 Comments