Subscribe Us

Header Ads

آخری کمپوزیشن ‏🔴 ‎بلراج مینراء تیسری دنیا کے دانشوروں کے نام)🔴

علامچہ ادبی بیٹھک 2019
آخری کمپوزیشن
بلراج مینراء 
(تیسری دنیا کے دانشوروں کے نام)
کمپوزنگ: احمد نعیم مالیگاؤں مہاراشٹر

اُس کے لفظ چھین لو اور اسے چھوڑ دو -
یہ مجھے منظور نہ تھا اور نہ ہے
گزرے ہوے کل اور آنے والے کل کا یہ درمیانی لمحہ ،جسے میرا ایک رفیق آج کہتا ہے
چھ ضرب چھ کا ایک ننگا بچاُ سرد کمرہ ہے ،جس کی تین دیواریں پتھر کی ہیں اور چھوتھی لوہے کی
جگ بتیے ،اس آج سے پہلے گزرے ہوئے کل ،کھلے آسمان تلے ،میں انجانے میں انَ گنت لفظ کھو بیٹھا ___تاریخ ،جعفرافیہ ،دیو مالا ،کہاوتیں ،خون کے رشتے ناطے اور دل کے معاملات ،صبح و شام تھے ،کبوتروں کا پھڑپھڑانا بھوک تھی اورلغزشِ پا پیاس تھی - ہنستے ہنستے رو دینا شاعری تھی اور روتے روتے ہنس دینا کہانی - پو پھٹنے سے پہلے بدھ ملتا بعد دوپہر خیام اور شام ڈھلے دیوداس
کبھی قدر عنا کو آنکھیں نم کیے غم کی تصویر دیکھتے اور کبھی روکھے سوکھے گھنے لمبے پریشاں سیاہ بالوں میں سورج کے ذرّے - بازوں پر پستان کا ہلکا سا دباؤ ،موسم سرما کی صبح کی دھوپ ،لبوں کا لمس الاؤ کی آنچ ،بدنوں کا ملاپ ،بارش اور بعد بارش کاسکھ __زماں ومکاں کی ایک ایسی سازش کہ جس کا میں شکار تھا ؛کہ جس میں میں َ بھی شریک تھا -
میں ،جو بیک وقت سازش کا شکار اور سازش میں شریک تھا لفظوں کو معنیٰ نہ دے پایا - لفظ ،جو دن تھے ،گرما سرما ،خزاں بہار کے گرد چکرّ کاٹتے رہتے - موسم جو لفظ تھے معنی نہ تھے __سازش کا شکار میں یوں تھا کہ لفظوں کے حصار میں تھا اور سازش میں شریک یوں تھا کہ میں نے اس حصار کو توڑنے کی کوشش نہ کی تھی ___وہ دن ہوس پرستوں اور شہریت پسند وں کے دن تھے
گزرے ہوئے کل کی ایک رات تھی ،جیسے میرا رفیق آج کہتا ہے
اس رات نرم گرم بستر بنے ہوئے بدنوں کی سانسوں کی دھونکنی مدھم پڑرہی تھی اور تھپکیاں دے رہی تھی کہ پاس ہی کی کوئی سیڑھیاں ،کوئی وزنی ،غیر مہذّب قدم اُترتے سنائی دیے - میرا دایاں ہاتھ ،جو نرم گداز بھرے بھرے ،لعاب لتھڑے ،ماند ہوتے ہوے پستان پر رکھا ہوا تھا جیسے وہیں کا ہو ، آپ سے آپ علیحدہ ہوگیا ،. دھونکنی سرد پڑ گئی اور میں ابھی کچھ سوچ بھی نہ پایا تھا کہ مجھے محسوس ہوا ،کسی نے سسکی لی ہے - ایسی پھیلتی ہوئی ، سمٹی ہوئی سسکی جیسے اک پل پھیل جائے ،سمٹ جائے - ایسی بے چارگی ،ایسا ضبط جیسے رات نے سسکی لی ہے ___کوئی آئے تھے ؛ کسی کو لے گئے تھے؛. کوئی ضبط کررہا تھا -
اس رات کی آج سی اُجلی صبح ہوئی
اک چہرہ تھا سانولا سا ، اُداس ،اُجلی آنکھوں والا ؛ جیسے بارہا دوست کہنے کو جی چاہا ، ہر صبح نظر پڑتا تھا ،. کہیں نظر نہ آیا
راتیں سسکیاں بن گئیں

دن اُجلے ہوگئے
بازاروں میں جوان چہرے کم نظر آنے لگے
طویل و عرض میں ایک ایسی چپ چھائی کہ ایک دوسرے کے دل کی ڈھرکن سنائی دینے لگی - گھر سے ذرا پرے ،اس طرف کورے بدن سلگنے لگے -
کان سے جو سنُا تھا ، ناک سے جو سونگھا ،سچ تھا اور آنکھ سے جو دیکھا ،ابھی جھوٹ تھا -
لفظوں کی کھال اُدھڑ گئی -
کورے بدن جھلس رہے تھے __گلیاں بازاریونیور سٹیاں ، کھیت کھلیان ،ندی ، نالے پہاڑیاں ، بادل ،سب اک سلگتا نعرہ تھے - لفظ ، معنی - آنکھ جو کچھ دیکھ سکتی تھی ، معنی تھے -
ہر حس اک معنی بن گئی -
کتابیں. حوصلہ؛
کھوپڑیاں ٹائم بم ؛
ہاتھ رائفیلں ؛
پہاڑیاں پناہ گا ہ
دل لبھانے والے لفظوں سے کھنیچی گئی جغرافیائی لکیروں کی بھٹیاں جواب تک کورے بدنوں سے سلُگائی جاتی تھیں ، کلفٹن ، میرین ڈرائیور اور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے ایندھن سے دہکنے لگیں ، -
لفظ ، جو دن تھے اور بے معنی موسموں کے گرد بے کار چکرّ کاٹتے تھے ، اکِ معنی اور اک موسم بن گئے -
اس رات گھر لوٹتے سمے میں نے دیکھا ، دہکتی بھٹیّ کی تپش سے لرزاں ندی میں دمکتے بدن بہہ رہے ہیں -
مجھے محسوس ہوا ، میں سازش کا شکار نہیں ہوں ، میں سازش میں شریک نہیں ہوں -
گھر پہنچا دیکھا ، بے معنی کل کے دوست میرے منتظر ہیں ___دوستی بے معنی سی شناسائی محسوس ہوئی - ان گنت لفظ کھو دینے کا دکھ ہوا

ایک سکوّں کے شہر سے لوَٹا تھا اور خوش تھا - دوسرا تعلقات کی سیڑھیوں کی خرید و فروخت سے مالا مال تھا - تیسرا بےحسی کے محکمہ میں ترقیاں کررہا تھا-
"ایک زمانہ ہوا ، دل کا خوں کیے ___"
"بھنےُ ہوئے آلو __"
"بہتی آگ"
میں کیا کہتا ؟
میں نے کہا "دل خون ہورہے ہیں ، بھن رہے ہیں اور ہمارے چاروں اور آگ ہی آگ ہے"
تیسرے نے میری بات کاٹ دی -
"بند بوتلوں کی آگ ہی سے آنکھیں چندھیا گئیں ؟میاں! یار اپنا اس شہر سے لوٹا ہے ،جہاں گلیوں میں چاندی بہتی ہے __یار کے آسمانی رنگت کے کرتے نے وہاں جادو جگادیے ہیں __"دوسرے نے بات بڑھائی
"" یار کی باتوں کے ہیرے اُسی شہر میں بک سکتے تھے ___"
میں نے پہلے کی جانب دیکھا اور پھر تیسرے اور دوسرے کی جانب ____وہم و گماں کے کردار -
میں نے اُسی سمے گھر چھوڑ دیا -
گھر چھوڑا ___ہر گھر اپنا ہوگیا ____سہمے ہو گھر ، دل والے گھر ، بےحس گھر -
اور پھر اُس رات وہ آئے تھے ؛ مجھے لے گئے ؛ ضبط کا کوئی قصہ ّ ہی نہ تھا
__تم نے جو سنُا ہے ، تم نے جو سونگھا ہے ، اسے جھوٹ کہہ دو ___ہم تمہیں چھوڑ دیں گئے -
یہ مجھے منظور نہ تھا ___میں خاموش رہا
میری خاموشی اک لفظ نہیں تھی ، __میں نے اب تک اُن گنت لفظ کھوئے تھے ، اب میں نے پہلی بار اک لفظ پایا تھا - اگر میں ان کی بات مان لیتا ، میں اک لفظ اور کھودیتا اور پہلا لفظ کبھی نہ پاسکتا - ___میرا لفظ میری قوت اور اُن کا خوف تھا -
میں نے ایک لمبا سانس کھینچا ___چند لحموں میں میں نے کئی لفظ پا لیے تھے - ____اس کے لفظ اس کے پاس رہنے دو اور اسے بند کردو -
یہ اُن کی بھول تھی کہ لفظوں کے ساتھ میں آزاد تھا - قید بے معنی تھی-
تین ننگی بچیُّ سرد دیواریں پتھر کی اور چوتھی لوہے کی ___انھوں نے مجھے بند کردیا -
آزادی کے وہ دن سکھ کے پہلے دن تھے __بھنچی ہوئی مٹھیوں کے پسینے کا نمک اس سے پہلے بھلا کب چکھا تھا!
ہر حس اک معنی تو کب کی بن چکی تھی ، تجربہ اب بنی تھی -
قدموں کو چاپ ملی ، آنکھوں کو روشنی __ننگے پاؤں ٹھنڈے فرش پر ٹہلتا تو آنکھوں کو بے پناہ سکون ملتا - ٹہلنا اک نشہ تھا - تھک جاتا تو جی بھر کے سوتا - سوچتا تو خوب سوچتا - ایک اور دیکھتا تو دیکھتا ہی رہتا -
چند ہی دنوں میں میَں نے محسوس کیا ، میری پتلیوں کی جنبش سے میرے بدن میں زلزلہ آجاتا ہے ،
ایسے ہی ایک دن لوہے کی دیوار سے پشت جوڑے ، ٹانگیں پسارے ننگے فرش پر بیٹھا ہوا تھا اور چھ فٹ کے فاصلے پر سامنے کی پتھر کی دیوار پر آنکھیں گاڑھے ہوے تھا
دیوار میں اک بےصدا لہر اُٹھی اور اک ہلکے سے ارتعاش کے ساتھ فرش میں اترُ گئی
دیکھا ، سامنے کوئی بیٹھا ہوا ہے -
پہلی نظر میں پہچان نہ پایا -
یکایک محسوس ہوا ، فاصلہ کچھ زیادہ ہے ___فاصلہ واقعی زیادہ تھا فاصلہ بارہ فٹ تھا -
فاصلے کا صحیح انداز ہ ہوا تو جان پڑا ، دیوار چھ فٹ کے فاصلے پر ہے اور وہ دیوار میں چھ فٹ اندر میری اورَ رُخ کیے ، ٹانگیں پسارے بیٹھا ہوا ہے اور لوہے کی دیوار سے پشت ٹیکے ہوئے ہے - پہلی نظر میں پہچان نہ پایا تھا ، ذرا سوچا تو مسکرا دیا ___میرا رفیق ہے!
مسکرا کر خیر مقدم کیا - مسکراہٹ میں شکریہ ملا - سامنے چھ فٹ کے فاصلے پر پتھر کی دیوار کے چھ فٹ اندار لوہے کی دیوار تھی ، میری دیوار جیسی - تج ، مضبوط ، رنگ جیسے زنگ
وہیں اپنی اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ہم نے نہ جانے کتنی ان کہی باتیں کیں (وہ سن نہ لیں) تھک گئے تو آنکھیں موند لیں ___آنکھیں کھولیں ، تو پھر وہی تعجب اور پیار بھری آنکھیں —
ایسے ہی ایک پل اس کی کی لوہے کی دیوار کی جانب دیکھ رہا تھا کہ پھر دیوار میں اک بے صدا لہر اُٹھی اور ایک ہلکے سے ارتعاش میں اتر گئی -
دیکھا ، اس کی پشت کے ساتھ پشت جوڑے کوئی اور بیٹھا ہے اور اُدھر دیکھ رہا ہے - میں کیسے پہچانتا کہ میری جانب تو اس کی پشت تھی اور بارہ فٹ کی دوری میں نے اس کی جانب دیکھا
وہ بھی حیران تھا -
وہ میری جانب دیکھ رہا تھا اور اس کی پشت کے ساتھ کسی اور کی پشت جڑی ہوئی تھی - میں نے پھر ادھر دیکھا اور چونکا -
اس کے تھوڑے اور فاصلے پر کوئی اور بیٹھا ہوا تھا اور پتھر کی دیوار کے چھ فٹ اندر لوہے کی دیوار کے اندر لو ہے کی دیوار سے پشت جوڑے میری یا شاید اس کی جانب دیکھ رہا تھا -
میرا سر گھوم گیا -
میں نے آنکھیں بھینچ کر ہتھییلوں سے آنکھیں مسلیں چند لحموں کے بعد سر کو جھٹکا دے کر آنکھیں کھولیں اور حیرانی بڑھ گئی -
دیوار کے اندر ، دیوار کے اندر ، دیواروں کے سلسلوں میں پشت سے پشت جوڑے ،آمنے سامنے بیٹھے ہوئے اَن گنت وہ، جو مجھے دیکھ رہے تھے یا ایک دوسرے کو ، دوسرا تیسرے کو ، تیسرا چوتھے کو ، چھوتھا پانچواں........
حیرانی کو معنی دیے تو مسکراہیٹں ہی خیر مقدم بینں اور مسکراہیٹں ہی شکریے بنے __سب رفیق ہیں!
لفظ بھی یہاں پائے تھے اور لفظوں کو معنی بھی یہیں ملے تھے ___اب معنوں کو لفظ دینے کا وقت آگیا تھا -
آنکھوں آنکھوں میں وقت بندھ گیا اور جب __جب وہ گھڑی آئی،. ایک ساتھ سب ہاتھ اٹھے ، ایک ساتھ سب قدم اٹھے ، ایک ساتھ سب سر دیواروں سے ٹکرائے -
دیواریں کرچی کرچی ہوگئیں -
جب مجھے ہوش آیا ، میں نے دیکھا :میں سائیں سائیں کرتے جنگل میں پڑا ہوں - قطرہ قطرہ خون میری رگوں میں اتر رہا ہے -
تھوڑی دیر بعد مجھے خبر دی گئی :ہمارے تین رفیق ہلاک ہوئے ہیں ، دو لاپتہ ہیں اور باقی سب محاذ پر ہیں .
تیسری دنیا کے نام 🔴کمپوزیشن سیریز 

(سویرا "لاہور 1971)

Post a Comment

0 Comments