"تخلیق کار اور ادبی جبر"
ضروی نہیں کہ ہر ادیب یا شاعر کو وہ سہولتیں میّسر ہوں جو دورانِ تخلیق ہونی چاہئیں جیسے تخلیق کا کا ذہنی طور پر پُرسکون ہونا، یکسُوئی، خاموشی اور جسمانی طور پر آرام دہ ماحول جیسے جاڑے میں گرم کمرہ اور گرما میں ائیر کنڈیشنڈ روم وغیرہ، ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود اگر کوخلیق کار تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو وہ لائقِ تحسین اس لئے ہے کہ حقیقی ادب تخلیق کر رہا ہے، افسانہ نگار سردی سے ٹھٹھرتے ہُوئے افسانہ لکھ رہا ہے تو یہ اٹل ہے کہ اس افسانہ کا قاری بھی اسی طرح ٹھٹھرے گا جس طرح افسانہ نگار، اسی طرح شاعر جبرِ حالات کے باوجود الفاظ کی مالا پرو کر ایک خیال کو شعر کاروپ دے رہا ہوتا ہے ، یہ شعر قاری اور سامع پر اسی طرح اثرانداز ہوتا ہے جس طرح شاعر کی ذات پر لیکن یہی خوبصورت ادب اس وقت اپنی افادیت زائل کر دیتا ہے جب تخلیق کار کسی ادبی محفل میں اس کو پیش کرنے کا فن نہیں جانتا، تخلیق کرنا اگر فن ہے تو پیش کرنا اس سے بھی بڑا فن ۔۔۔
افسانہ نثر ہے، کرداروں کے درمیان مکالمے، رواں گفتگو بالکل ایسے جس طرح افراد کی روزمرہ بات چیت، لیکن افسانے کے کردار چونکہ شعوری کاوش کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کا مادی وجود نہیں ہوتا،ہیولے ہوتے ہیں لیکن بولتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں، ان ہیولوں کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی ان کے درمیان ایک چھپا ہُوا انسان بولتا ہے، وہ انسان جو افسانہ لکھتا ہے، جو کرداروں میں روح پھونکتا ہے، یہی کردار جب قاری تک پہنچتے ہیں تو اس کی نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں، دوران مطالعہ قاری ان کو پڑھ تو سکتا ہے مگر ان کے چہروں کے اتار چڑھاؤ نہیں دیکھ سکتا جب کہ زندہ انسان گفتگو کرتے ہُوئے رُو بہ رُو چہرے کے تاثرات بھانپ لیتا ہے، زندہ انسانوں کی گفتگو اور کرداروں کی بات چیت میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اول الذکر محسوس کی جا سکتی ہے اور ثانی الذکر پڑھی جاتی ہے اور دورانِ مطالعہ یہ بھی ضروری نہیں کہ قاری افسانے کی ہر سطر، ہر مکالمہ اسی انداز میں پڑھے جس میں کردار اسے ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ قاری ہے اور قاری کبھی ادبی جبر کا قائل نہیں رہا، وہ تو بس افسانوی ماحول، مکالمے اور مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے، کہانی سے محظوظ ہوتا ہے لیکن تخلیق کا ہمیشہ ادبی جبر کے حصار میں رہتا ہے کہ تخلیق چاہے افسانہ ہو یا غزل، فطرت ہر دو اصناف کا جزوِ لاینفک ہے اور تخلیق کار ہمیشہ اس کا پابند ہے، بصورت دیگر کسی بھی تخلیق کو مکمل نہیں کہا جا سکتا، جملہ یو یا مصرعہ دونوں فطری طور پر ادا ہونے کا تقاضا کرتے ہیں، طربیہ جملہ ادا کرتے ہُوئے آنکھوں میں آنسُو یا چہرے پر اداسی افسانوی فطرت کے منافی ہے اسی طرح پریشانی کے عالم میں کہے ہُوئے شعر کو مسکراتے ہُوئے پڑھنا بھی شاعرانہ فطرت سے سرکشی ہو گی، غالب کے شعر ۔۔۔۔
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
کو اگر مسکراتے ہُوئے پڑھا جائے تو غالب کی روح تڑپ اٹھے گی، شاعر نے جانے کس کرب میں مبتلا ہو کر یہ شعر کہا ہو گا، شعر میں چونکہ غم اور موت کا ذکر ہے اس لئے اس کا فطری انداز اداسی ہے ورنہ پڑھنے والے پر یقین کر لینا چاہئیے کہ وہ اس شعر کی فطرت سے نا آشنا ہے لیکن یہاں بھی قاری کسی ادبی قدغن کے تابع نہیں ہے وہ جیسے چاہے توڑ مروڑ کر پڑھے لیک جب یہ شعر کسی شاعر کی زبان سے ادا ہو تو فطری پڑاؤ ملحوظ رکھے جائیں گے یوں شعر کی اصلی ساخت واضح ہوگی ۔۔۔۔۔
قیدِ حیات۔۔۔وبندِغم۔۔۔اصل میں دونوں۔۔۔ایک ہیں
موت سے پہلے۔۔۔آدمی۔۔۔غم سے نجات۔۔۔پائے کیوں
بغیر وقفہ (پڑاؤ) کے بھی شعر تو پڑھا جائے گا مگر غیر ادبی اسلوب کے باعث فطری خوبصورتی سے محروم ہو جائے گا یوں ہر مصرعہ یا جملہ اپنا ادلوب خود وضح کرتا ہے اور اسی اسلوب کا تقاضا اپنے خالق سے کرتا ہے، بعض شعراء اپنا کلام اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ اس میں اغلاط کا گمان ہوتا ہے جو درحقیقت ہوتی نہیں ہیں اس لئے یہ گمان شاعر کے غیر شاعرانہ انداز کا شاخسانہ ہوتا ہے، یہ معاملہ مفہوم شناسی کا نہیں اور نہ ہی شعر کی فنی خوبیوں یا خامیوں کا بلکہ شعری خوبصورتی کا ہے، جب شاعر ایک خیال کو الفاظ کی رِدا میں ڈھانپ کر وجود دیتا ہے تو نہ اس وجود کے اعضاء کو الگ الگ پڑھا جائے، اس سی یقینا" شعری جمال میں اضافہ ہو گا ورنہ لکھاری اور قاری کے درمیان تخلیقی تفاوت ہو کر رہ جائے گا، اسی طرح افسانے کا ہر جملہ ایک صعرتِ حال کا عکاس ہوتا ہے، ایک کیفیت کی نشان دہی کرتا ہے، ہر مکالمہ کردار کے حوالے سے افسانوی ضرورت ہوتا ہے اور اپنا فطری انداز رکھتا ہے یوں افسانہ نگار کو افسانہ پڑھتے ہُوئے اتنا FLEXIBLE ہونا چاہئیے کہ وہ ہر کردار میں بخوبی ڈھل جائے اور اس کے فطری اسلوب کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے مکالمے ادا کرے، افسانے میں بھی جہاں رواں جملے ہوتے ہیں وہاں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو توقف کا تقاضا کرتے ہیں جو اگر نہ کیا جائے تو جملہ محض چند الفاظ بن کر رہ جاتا ہے۔
ادب بطور اکائی دو اور دو چار کہنے یا چند سطریں لکھنے سے تخلیق نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کچھ طور اپنانے پڑتے ہیں اور بہت کچھ ملحوظ رکھنا پڑتا ہے کہ ادب قبل از تخلیق محکوم ہوتا ہے اور بعد از تخلیق حاکم بلکہ ایک جابر حاکم جو خالق پر مکمل جبر چاہتا ہے اور خودسری کے نتیجے میں اپنے ہی خالق کو رُسوا کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار : احسان بن مجید ۔ اٹک(پاکستان)
مطبوعہ نوائے وقت ، اسلام آباد
0 Comments