صدیق عالم کلکتہ |
تجزیے
صدیق عالم کا ناول “صالحہ صالحہ”: اسرار کی دھند میں لپٹی ہوئی کہانی
18 دسمبر, 2021
🎬فیصل اقبال اعوان🔴
” لفظ میں پہلے سے موجود معانی کو لفظ سے خارج کرو، دماغ میں پہلے سے راسخ شدہ تصورات کو مٹائو۔۔۔ اس کے بعد ہی تم منتہائے اظہار اور منتہائے ادراک کو یک جان کر سکتے ہو۔ “
صدیق عالم کا ناول ” صالحہ صالحہ” مطبوعہ ” آج” پڑھتے ہوئے بار بار مجھے دریدا کا مندرجہ بالا قول یاد آ رہا تھا۔
ناول نگار نے اس کتاب میں، معاصر اردو فکشن کی مروجہ تفہیم سے جداگانہ طرزِ سخن اختیار کیا ہے۔ اور باز آفرینی کی بجائے انسانی زندگی کو نئی معنویت اور طرزِ احساس کے ساتھ از سر نو دریافت کرنے کی جستجو کی ہے۔
صدیق عالم کا شمار اردو فکشن کے ان معدودے چند ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو ناول اور افسانے کے مزاج کو بدلا ہے اور اپنی شان دار حقیقت نگاری، اعلا کردار نگاری اور دلآویز اندازِ بیان سے ایسا پُرتخیل ادب تخلیق کیا ہے جس نے نا صرف ہماری ادبی بصیرت میں اضافہ کیا ہے بل کہ ادب سے متعلق ہمارے مروجہ خیالات میں خوش گوار تبدیلیوں کی نمو بھی کی ہے۔
ناول کا فن حسنِ تخیل اور حسنِ ترتیب کے ساتھ ساتھ حسنِ تناسب کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ اردو ادب میں ایسے ناول نگار خاصے کم یاب ہیں جو اس تصنیفی اصول کا تتبع کرتے ہیں۔ بیشتر کو تو شاید خبر ہی نہیں کہ نفسِ مضمون کو تیاگ پَتر دے کر غیر ضروری موضوعات پر صفحات کے صفحات سیاہ کرنے سے تحریر ہی بدسلیقگی کا شکار نہیں ہوتی؛ مصنف کا پھوہڑ پن بھی عیاں ہوتا ہے۔ صدیق عالم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان تصنیفی عیوب سے پاک ہے۔ اس نے اپنے ناولوں میں، اکثر اردو ادیبوں کے من بھاتے، طویل مباحث، ناول کے تھیم سے لا تعلق سیاسی و تاریخی معلومات اور بے ضرورت معاشرتی منظرنامے انڈیلنے کی بجائے کہانی پر فوکس کیا ہے، پلاٹ کی در و بست کے جدید قرینے نکالے ہیں، بیانیے کے نئے پیرائے متشکل کیے ہیں اور حقیقت، رمزیت اور تجریدیت کی باہمی آمیزش سے روایت کو تجربے میں سمیٹا ہے۔ تخلیقی وفور سے بھرپور اس ادیب کے پاس وہ نایاب تجربات و مشاہدات اور خلاق تخیل موجود ہے جو کسی بھی اعلا فن پارے کی تخلیق کے لیے لازم ہے۔
صدیق عالم ماحول کی غنائیت کا بیان شاعرانہ اسلوب کی بجائے ٹھوس نثری پیرائے میں کرتا ہے جس سے واقعہ استعارے میں نہیں ڈھلتا حقائق میں تحلیل ہوتا ہے۔ اس کا اسلوب ایسا پختہ ہے کہ حقیقت سے تجرید کی طرف پرواز کرتے ہوئے تخیل کی سبک سری میں فرق نہیں آتا۔ صدیق عالم کے تخلیقی تجربات فلسفیانہ اور فنی اقدار کا ایسا نظام وضع کرتے ہیں جو ادب کی پرکھ کے نئے معیار متعارف کراتا ہے۔
اردو زبان میں لکھے گئے ناولوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے بیشتر کسی فنی اکائی میں نہیں ڈھلتے۔ ایسے ناول بہت کم ہیں جو اپنے بنیادی موضوع، تھیم اور مرکزی خیال کی آنچ پر پکے ہیں۔ یعنی اکثر ناول اس کاری گری سے محروم ہیں جو انھیں ایک وحدانی یہروپ عطا کرنے کے لیے ناگزیر تھی؛ جو ان کے تاثر میں شدت اور اتکاز پیدا کرسکتی تھی۔ اس سلسلے میں کئی ایسے ضخیم اور مشہور ناولوں کے نام لیے جا سکتے ہیں جو حشو و زوائد سے پاک ہو جائیں تو ان کی ضخامت شاید ایک تہائی بھی نہ رہے۔ صدیق عالم اس بابت بہت محتاط نظر آتا ہے۔ “صالحہ صالحہ” تعمیری سالمیت اور داخلی وحدانیت لیے ہوئے اس کا ایک ایسا ناول ہے جس کا حسنِ تعمیر موضوع کی پیچیدگی کو زبان کی پیچیدگی اور اس کی معنوی وسعت کو بیان کے انتشار میں نہیں ڈھلنے دیتا۔
ناول کی کہانی اپنے مرکزی کردار صالحہ کی پُر الم زندگی کا بیان ہے جو اپنی ہم نام بل کہ مَثنٰی (doppelganger) صالحہ نامی عورت کے گھر میں ملازمت کرتی ہے۔ دونوں شادی شدہ اور آل اولاد والی ہیں۔ اول الذکر صالحہ کو پیدا ہوتے ہی اس کی ماں ایک یتیم خانے کے دروازے کے باہر چھوڑ آتی ہے جہاں سات سال گذارنے کے بعد اسے ایک زمیندار گھرانا گود لے لیتا ہے۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی ایک بارہویں پاس نوجوان سے کر دی جاتی ہے جو بےروزگاری اور غربت سے تنگ آکر شراب نوشی اور جوئے بازی میں پناہ لیتا ہے۔ معاشی زبوں حالی کی وجہ سے صالحہ اپنی ہم نام اور ہم شکل صالحہ کے گھر نوکری کر لیتی ہے۔ ملازمت کے دوران ملازمہ صالحہ پر پے در پے سانحات گذرتے ہیں۔ پہلے اس کا نوزائیدہ بچہ گم ہو جاتا ہے اور پھر قرض کی ادائیگی نہ کرنے پر کچھ غنڈے اس کے شوہر کو قتل کر دیتے ہیں۔ ابھی وہ ان صدمات سے باہر نہیں نکل پاتی کہ اس کے دونوں لڑکوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اغوا کار وہی غنڈے ہیں جنہوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا تھا۔ تاوان کے طور پر اس کے گھر کے کاغذات طلب کیے جاتے ہیں لیکن یہ مطالبہ پورا نہیں ہو پاتا اور وہ ان دونوں معصوم بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس دوران مالکن صالحہ بھی دمہ کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ صالحہ ان سانحات اور دلدوز حادثات کے باوجود جس میں اس کا پورا خاندان ختم ہو جاتا ہے، زندہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن یہ صالحہ کون ہے؟ مالکن یا ملازمہ؟ یا دونوں ایک ہی ہیں؟ یہ معمہ حل کرنا آسان نہیں۔
“صالحہ صالحہ”انسانی مصائب کی داستان ہے جو دو جسمانی دائروں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک وجود سے دوسرے وجود تک، رنج و الم کے ابلاغ و ترسیل کا یہ لامتناہی سفر، علت و معلول سے ماورا ایسے دائروں میں جاری و ساری ہے جن کا قُطر آج تک ناپا نہیں جا سکا۔
ناول کی کہانی، تصور اور تصدیق کی منطق سے بے نیاز، خواب ناک دھندلکے میں حقیقت اور گمان کے پہلو بہ پہلو چلتی ہے۔ اس میں رونما ہونے والے واقعات اور ظاہر ہونے والی اشیا جھٹ پٹ اپنے معانی آشکار نہیں کرتیں بلکہ انھیں ملتوی کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ایک نئی صورت حال ہے جس کی معنویت کو جاننے کے لیے کچھ نئے اسالیبِ فہم درکار ہیں۔ صدیق عالم کے فکشن میں کئی ایسے عناصر ہیں جو محض عقلی تنقید کے باریک ترین دام میں بھی نہیں آتے۔ وہ اپنی تخلیق سے طے شدہ تنقیدی ضابطوں میں ترمیم و تنسیخ کا جواز پیدا کرتا ہے۔ اس کی تحریروں میں موضوعات اور تکنیکوں کا تنوع تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر نئے تنقیدی سانچوں کا تقاضا کرتا ہے۔
صالحہ اور اس کی ہم نام مالکن آئینہ دار وجود ( mirrored existence ) رکھتی ہیں۔ ایک کی سرگرمیاں دوسرے کے معاملات کو متاثر کرتی نظر آتی ہیں: ایک پریشان کن memises جو عقلی وضاحت کی منکر ہے۔ پہلے صالحہ کی اپنی ہم شکل اور ہم نام مالکن سے پہلی ملاقات کا منظر دیکھئیے:
” اس نے زینے پر پہلا قدم رکھا تھا کہ اسے برآمدے کے حاشیے پر ایک عورت کی گلابی رنگ کی چپلیں نظر آئیں جن کے فیتوں سے نکلی ہوئی نسوانی انگلیاں کبوتر کے پیروں کی طرح گلابی تھیں۔ اس نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا اور اس کی سانس رکی کی رکی رہ گئی۔
کیا وہ برآمدے پر کھڑی اپنی طرف تاک رہی تھی ؟
عورت کی آنکھوں میں بھی وہی حیرانی لکھی ہوئی تھی جو صالحہ کی آنکھوں میں تھی۔ خود دونوں بلیاں جو برآمدے پر بید کی سیدھی پشت والی کرسیوں کے ہتھوں پر بیٹھی تھیں، سر گھما گھما کر دونوں کی طرف تاک رہی تھیں جیسے وہ بھی اس واقعے سے حیران ہوں۔ عورت کی گود میں ایک بلی کا بچہ تھا جس کی پیٹھ کو وہ صالحہ کے انداز ہی میں سہلا رہی تھی۔ دونوں برآمدے اور صحن میں کھڑی ایک دوسرے کا جائزہ لے رہی تھیں جب بلی کا بچہ عورت کی گود میں چلبلایا اور ایسا محسوس ہوا جیسے عورت خواب کی دنیا سے جاگ گئی ہو۔( صفحہ نمبر 211)
( یاد رہے کہ ” آج” کراچی نے صدیق عالم کے دو ناول ” چینی کوٹھی” اور ” صالحہ صالحہ” ایک ہی کتاب کی صورت میں اکٹھے شائع کیے ہیں۔ ” صالحہ صالحہ” کا آغاز پہلے ناول کے اختتام پر صفحہ نمبر 193 سے ہوتا ہے)
صفحہ نمبر 215 کی ان سطور میں دونوں کے سراپا میں مماثلت کا بیان ہے:
” سیڑھیاں آگے پیچھے طے کرتی ہوئی دونوں برآمدے پر آئیں۔ برآمدے پر رک کر خاتونِ خانہ نے حاملہ بلی فرش پر ڈال کر بلی کے بچے کو اٹھا لیا جو دوبارہ جانے کہاں سے نکل آیا تھا۔ مگر یہ کوئی دوسرا بچہ بھی ہو سکتا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے صالحہ لالٹین کے ساتھ تھی۔ اس نے دیکھا، نہ صرف دونوں ایک ہی عمر اور قدوقامت کی تھیں بل کہ ان کے جسموں کی بناوٹ اور پشت کے پٹھوں اور کولھوں کے خطوط کی مشابہت کے سبب پیچھے سے کوئی بھی دھوکا کھا سکتا تھا۔”
نام، شکل و صورت اور سراپا کی مماثلت کے ساتھ ساتھ دونوں کے معاملات میں بھی ایک پراسرار ربط ہے۔ ملازمہ صالحہ کی دو بلیاں کنویں سے مردہ برآمد ہوتی ہیں اور اسی روز مالکن صالحہ کے گھر ہوبہو ویسی ہی بلیاں آتی ہیں:
” صالحہ کی نظر جب دونوں بلیوں پر پڑی تو اس کا کلیجہ اچھل کر ہاتھ پر آ گیا۔ دونوں نہ صرف اسی کی بلیوں کی عمر کی تھیں بلکہ وہ اس کی بلیوں کی طرح ہی دودھ جیسی سفید تھیں۔ یہی نہیں جب دونوں مِل کر بلیوں کو شیمپو سے غسل دے رہی تھیں تو صالحہ اس بات کو نظر انداز نہ کر سکی کہ بلیوں نے جہاں ایک طرف بہت آسانی سے اپنے آپ کو اس کے ہاتھوں میں سونپ دیا تھا وہیں وہ چھوٹے چھوٹے پنجوں سے نوچتے کھسوٹتے ہوئے خاتونِ خانہ کے کام میں رخنے ڈال رہی تھیں۔ صفائی کے بعد وہ مخصوص تولیہ سے بلیوں کا بدن صاف کر رہی تھیں جب ان کی آنکھوں کے کنچوں کو دیکھ کر صالحہ گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اسے لگا، یہ ہوبہو ویسے ہی کنچے تھے جو اس کی اپنی بلیوں کی آنکھوں میں نظر آتے تھے بلکہ ان کا
بلکہ ان کا دیکھنے کا انداز بھی ویسا ہی تھا۔ میرے خدا، کہیں میں نے کائی اور کیچڑ میں لتھڑے ہونے کے سبب غلط بلیاں تو دفن نہیں کی ہیں؟” ( صفحہ نمبر 233)
اسی طرح ملازمہ صالحہ اپنے چھوٹے بیٹے کی گم شدگی کے بعد خواب میں رسی کی طرح پتلی ٹانگوں والے مردہ بچے کو جنم دیتی ہے۔ اس کے چوتھے روز جب وہ کام پر واپس جاتی ہے تو مالکن صالحہ کا بچہ دیکھتی ہے جو اس سے قبل کبھی گھر میں دکھائی نہ دیا تھا:
” اس پہلے کہ صالحہ کوئی جواب دیتی، دروازے پر آہٹ ہوئی، اس نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے سامنے ایک چار سال کا دبلا پتلا بچہ اپنی رسی جیسی ٹانگوں پر کھڑا بڑی بڑی لاغر آنکھوں سے اسی کی طرف تاک رہا تھا۔ابھی وہ ٹھیک طرح سے سمجھ بھی نہیں پائی تھی کہ ربڑ کی دو گیندیں لڑھکتی ہوئی آئیں جن کو دو بلیاں اپنے پنجوں سے پکڑنے کی کوشش میں خود بھی ان کے ساتھ لڑھک رہی تھیں۔ صالحہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے دونوں پیروں میں کوئی جان نہ رہ گئی ہو اور وہ کسی بھی پل گر پڑے گی۔” ( صفحہ نمبر 244)
تحیر اور اسرار کا یہ کھیل آگے بھی جاری رہتا ہے اور صالحہ پہلی مرتبہ مالکن کے شوہر کو دیکھتی ہے:
” وہ روز کی طرح دونوں طرف برآمدے پر پونچھا لگا کر باہر کے آنگن میں جھاڑو لگا رہی تھی جب اس کی نظر دالان پر چلی گئی جہاں ایک شخص دانتوں پر برش کر رہا تھا۔ صالحہ کو ایسا لگا جیسے گھر کی دیواریں ہل گئی ہیں۔ جھاڑو اس کے ہاتھ سے گِر پڑا۔ اس کے دونوں پیر برف کی طرح منجمد ہو گئے۔” ( صفحہ نمبر 254)
اسی روز گھر واپسی پر صالحہ کو اپنے شوہر کے قتل کی اندوہناک خبر ملتی ہے۔
صالحہ کی اپنی ہم شکل مالکن کے شوہر کو دیکھ کر یہ حالت کیوں ہوئی؟ کیا وہ اس کے خاوند کا ہم شکل یا بہروپ تھا؟ یا اس کی کوئی اور وجہ تھی؟ مالکن کے شوہر کو پہلی بار دیکھنے سے اس کے خاوند کی موت کا کیا تعلق ہے؟ ناول نگار کو یہ راز افشا کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔ کیوں کہ وہ حتمی فیصلہ کر چکا ہے کہ اس نے ابھی قاری کو مزید حیران کرنا ہے۔ لہذا وہ کہانی پر تحیر کی مزید پرتیں چڑھانے لگتا ہے۔ ایک مشاق فن کار کی طرح صدیق عالم کو اس بات کا بہ خوبی علم ہے کہ ابھی اس شیشے کے ٹوٹنےکا وقت نہیں آیا جس میں صالحہ اپنا عکس دیکھ رہی ہے۔ ابھی واقعات نے اپنے معانی مزید ملتوی کرنے ہیں۔ لہذا مالکن کے گھر رونما ہونے والے واقعات صالحہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
” اس دن وہ خوش خوش گھر کی صفائی میں لگ گئی۔ ہمیشہ کی طرح آنگن کا کام ختم کرکے وہ دالان پر گئی تو سب سے پہلے اس کی نظر بچوں کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازوں پر معمول کے مطابق قفل لٹک رہے تھے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی اور اپنا کام ختم کرکے خاتونِ خانہ کے پاس گئی۔
” تم نے میرے دونوں بچوں کو نہیں دیکھا۔ وہ بہت پیارے بچے ہیں۔” وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ” بچوں کے بغیر گھر کتنا سونا لگتا ہے نا؟ یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے،” اس کی آواز سے نقاہت ٹپک رہی تھی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اسے ہوا سے آکسیجن کھینچنے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ بچوں کے تعلق سے اس کا جملہ اپنے آپ میں صالحہ کے لیے اتنا بڑا بوجھ ثابت ہوا کہ وہ پسینے میں نہا گئی۔ اب اسے بھی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ وہ جلد سے جلد اس جگہ سے چلی جانا چاہتی تھی۔” ( صفحہ نمبر 270)
اسی روز گھر واپسی پر صالحہ کو اپنے دونوں بچوں کے اغوا کی خبر ملتی ہے جنہیں کچھ روز بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایک وجودی دائرے سے دوسرے وجودی دائرے تک مصائب کے ابلاغ و ترسیل کا یہ سلسلہ کب رکے گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ شاید ناول نگار کے پاس بھی نہیں۔ بالآخر متن میں تمام شناختیں مشتبہ ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں پلاٹ کے عناصر سلجھتے ہیں توں توں اسرار کے پردے مزید دبیز ہوتے جاتے ہیں۔ اتنے دبیز کہ ان کی دبازت سے وضاحت کی روشنی بھی نہیں گزر سکتی۔ شوہر کی موت کے بعد صالحہ کی مالک مکان ( مالکن صالحہ کا خاوند) کے ساتھ یہ گفت گو دیکھیے:
” شاید تم سوچتی ہوگی کہ تمھارے ساتھ جو بھی برا واقعہ پیش آیا ہے ان کے پیچھے ہم لوگ ہیں، ہم ان چیزوں کے لیے زمہ دار ہیں،” مالک مکان نے انگوٹھی پہننے والی انگلی کا ناخن دانتوں کے بیچ چباتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ صالحہ کی پیش کی ہوئی کرسی کی طرف دیکھے بغیر اس پر بیٹھ گیا تھا۔ ” تم میرے بارے میں کچھ اس طرح سوچتی ہو گی کہ میں نے تمھارے شوہر کو تم سے چھینا ہے۔ ان حالات میں تم صحیح بھی ہو سکتی ہو۔ جس دن اس کا قتل ہوا مجھے تمھارا اس دن کا چہرہ یاد ہے۔ تم مجھے دیکھ کر کتنی گھبرا گئیں تھیں۔۔۔۔”
” نہیں جلد یا کچھ دیر سے، اسے تو ہونا ہی تھا۔ اب جبکہ وہ واقعہ ہو چکا تو مجھے لگ رہا ہے میں بہت دنوں سے اس دن سے ڈرتی آئی تھی۔ وہ ایک جائز ڈر تھا مگر اب وہ ڈر میرے اندر سے ختم ہو چکا ہے۔ اب آپ نے میرے شوہر کے قتل کے واقعے کو اپنے ساتھ جوڑ کر دیکھا ہے تو پھر بہت سارے واقعات کو ایک ساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگا جنھیں ہم شاید سمجھ نہ پائیں۔ ( صفحہ نمبر 264)
اسی طرح یہ مکالمہ بھی ملاحظہ کیجیے:
” شاید آپ کو اس طرح واپس نہیں آنا چاہیے تھا، گرچہ وہ آپ کا ہی گھر ہے جہاں آپ جب بھی چاہے لوٹ سکتے ہیں۔ مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے کیا کچھ کھو دیا ہے۔ آپ کو اس طرح لوٹ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔”
” تو مجھے واپس چلا جانا چائیے؟” مالک مکان نے ایک آہ بھرتے ہوئے کھڑکی کی طرف دیکھا، جیسے یہ سوال کھڑکی سے کر رہا ہو۔
” نہیں، اب آپ آ گئے ہیں تو خدا کے لیے رک جائیے۔”صالحہ نے سر اٹھا کر کہا۔ ” کم از کم اپنے بچوں کے لیے رک جائیے۔”
” میرے بچے، شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔” مالک مکان بہت فکر مند نظر آرہا تھا۔ ” مگر اس کا کیا کیا جائے کہ میرا رکنا ہر بار کسی نہ کسی سانحے کو جنم دیتا ہے۔” وہ اٹھ کر دروازے کے پاس گیا۔ ” میں ہر روز خود سے یہی سوال کرتا ہوں کہ میں کیوں لوٹ آتا ہوں۔ کہ میرے بستر کے ٹھنڈے پڑے رہنے میں کیا برائی ہے۔”
” شاید اب یہ آپ کے بس میں بھی نہیں ہے۔” صالحہ کی آواز پر مالک مکان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے دیکھا، صالحہ کے ہونٹ بری طرح کانپ رہے تھے۔ ” میرا مطلب ہے آپ واپس آنے پر مجبور تھے۔” ( صفحہ نمبر 265، 266 )
” گلی میں اتر کر مالک مکان نے مڑ کر صالحہ کی طرف دیکھا جو کباٹ کے اوپری سِرے کو تھامے کھڑی تھی۔ جڑی ہوئی بھنوؤں کے نیچے مالک مکان کی گہری آنکھوں کی طرف تاکتے ہوئے صالحہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس سے پہلے بھی دونوں کسی دوسری دنیا میں، کسی دوسری زندگی میں یا بادلوں کے بیچ مل چکے ہیں۔” ( صفحہ نمبر 267)
محولہ بالا مکالموں میں دونوں کردار واقعات کی تشریح نہیں کرتے بل کہ اپنے طور طریقوں سے ایسا معرف پیدا کرتے ہیں جس سے چیزوں کی شرح و بست کی بابت کچھ قرینے ظاہر ہوتے ہیں۔
ناول کے اخیر میں مالکن صالحہ وفات پا چکی ہے۔ اس کے تینوں بچے اور اس کا شوہر اس کی میت کے پاس کھڑے ہیں۔ اس موقع پر بالآخر، صدیق عالم وہ آئینہ توڑ دیتا ہے جس میں اب تک صالحہ اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ یاد رہے آئینے کا ٹوٹنا بھی محض ایک معرف ہے، اس سے زائد کچھ نہیں:
” تم اپنے آنسو بیکار ضائع
تم اپنے آنسو بیکار ضائع کر رہی ہو صالحہ۔” مالک مکان نے اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ کسی اجنبی کی انگلیاں نہیں تھیں۔ وہ تو اس لمس کو برسوں سے جانتی تھی۔
” اتنا سب کچھ کھو دینے کے بعد وہ غریب عورت کیسے زندہ رہ سکتی تھی۔” مکان مالک نے آگے بڑھ کر مریض کی کھلی آنکھوں پر ہتھیلی رکھ کر پپوٹے بند کر دئیے۔ ” تم پریشان نہ ہونا۔ اس اسے برا اور کیا ہو سکتا تھا؟ دنیا میں اس کا ہے ہی کون جس کے لیے وہ زندہ رہتی؟ آؤ اس کے کفن دفن کا انتظام کریں۔”
” صالحہ حیرت سے مکان مالک کی طرف تاک رہی تھی جب اس کے پیروں پر بلی کلبلائی جو اپنی زنجیر گھسیٹتی ہوئی کسی سائے کی طرح پلنگ کے نیچے سے نکل آئی تھی جہاں زنجیر صالحہ کے ہاتھ سے چھوٹتے ہی وہ جا گھسی تھی۔ لالٹین کی تیز روشنی میں اس کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ اس نے بلی سے نظر ہٹا کر مکان مالک کی طرف دیکھا۔ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔” ( صفحہ نمبر 304)
” ہماری اس دنیا میں سب کچھ گڈ مڈ ہو چکا ہے۔ وہ دربان ٹھیک کہہ رہا تھا۔ مگر تم وعدہ کرو، تم اسے عزت و احترام سے دفناؤ گے۔ جب سارا کام ختم ہو جائے گا تو باغ کے لیے ایک مالی رکھ لینا جو ٹھیک طرح سے باغ کی رکھوالی کر سکے۔ ان بچوں نے بہت دکھ جھیلا ہے۔ میں چاہتی ہوں یہ باغ پھر سے پیڑوں پودوں سے ڈھک جائے اور اس میں چڑیاں چہچہایا کریں۔”
” یہ کیا کہہ رہی ہو صالحہ؟” مالک مکان کی آنکھیں حیرت سے ابل آئی تھیں۔ ” یہ تمھارا گھر ہے تم اس طرح کی بات کر رہی ہو جیسے یہاں پر موجود نہیں ہو۔ تم جو چاہتی ہو اسے ہونے سے کون روک سکتا ہے۔” ( صفحہ نمبر 305)
یہ بھی دیکھیے:
اور اب ایک آخری بات جو شاید میں کبھی کہہ نہ پاتی اگر ہم دونوں کی ملاقات نہ ہوتی۔” صالحہ نے بستر پر پڑے بےجان جسم کی طرف اشارہ کیا۔ ” آج میں جان چکی ہوں، ہم الگ الگ دنیا میں جیتے ہوئے بھی ایک ہی زندگی جی رہے تھے۔ ہم نے ساری زندگی ایک ہی بستر پر گزاری ہے، ایک ایسا بستر جس میں پہلے دن سے ہی برف بھر دی گئی تھی۔ ہم ایک دوسرے سے نہ ملے ہوتے تو شاید کبھی اس برف کو نہ سمجھ پاتے۔ مگر اب وہ برف پگھل چکی ہے۔” ( صفحہ نمبر 305)
اور صفحہ نمبر 306 پر یہ مکالمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
” صالحہ میں نے تمھیں ایک اچھی زندگی دی ہے۔”
” ہاں ایک ٹھنڈا بستر اور عمر بھر کی تنہائی۔ یہی تھی وہ ہماری زندگی جسے ہم ہمیشہ جیتے رہے۔” صالحہ نے بستر پر پڑے بے جان جسم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ” سچ کہوں تو اب مجھے یاد بھی نہیں کہ میں کون ہوں اور وہ جو اس ٹھنڈے بستر پر پڑی ہوئی ہے وہ کون ہے؟”
” تم کہاں جا رہی ہو صالحہ؟” مکان مالک کی آواز آئی۔ ” ہمارے بچوں کا کیا ہوگا؟”
” انھیں تنہا رہنے کی عادت ہے۔ مجھے تو بہت پہلے یہاں سے چلا جانا چاہیے تھا۔”
” میں تمھیں یقین دلاتا ہوں، یہ دنیا ہر جگہ ایک جیسی ہے۔ لوٹ آؤ صالحہ۔”
” نہیں، میرے پاس لوٹ آنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔”
یہ ناول جادوئی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ صدیق عالم نے اس میں حقیقت اور فینتاسی کو اپنی فنی مہارت سے یوں ہم آمیز کیا ہے کہ بسا اوقات انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اعلا فکشن میں، زندگی اور آرٹ ایک عجیب، نازک اور جادوئی شراکت داری میں ایک ساتھ رہتے ہیں اور اس شراکت کو حقیقی دنیا میں واپسی پر آسانی سے تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔
” صالحہ صالحہ” فکشن کے اس اصول پر سوال اٹھاتا ہے کہ واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے اور متنی حقائق کی تشریح کی جا سکتی ہے۔ اور تو اور، ناول کا اختتام بھی محض اختتام کا فریب ہے۔ شاید یہ ایک کہانی سے دوسری کہانی میں داخلے کا دروازہ ہے:
اور اب ایک آخری بات جو شاید میں کبھی کہہ نہ پاتی اگر ہم دونوں کی ملاقات نہ ہوتی۔” صالحہ نے بستر پر پڑے بےجان جسم کی طرف اشارہ کیا۔ ” آج میں جان چکی ہوں، ہم الگ الگ دنیا میں جیتے ہوئے بھی ایک ہی زندگی جی رہے تھے۔ ہم نے ساری زندگی ایک ہی بستر پر گزاری ہے، ایک ایسا بستر جس میں پہلے دن سے ہی برف بھر دی گئی تھی۔ ہم ایک دوسرے سے نہ ملے ہوتے تو شاید کبھی اس برف کو نہ سمجھ پاتے۔ مگر اب وہ برف پگھل چکی ہے۔” ( صفحہ نمبر 305)
اور صفحہ نمبر 306 پر یہ مکالمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
” صالحہ میں نے تمھیں ایک اچھی زندگی دی ہے۔”
” ہاں ایک ٹھنڈا بستر اور عمر بھر کی تنہائی۔ یہی تھی وہ ہماری زندگی جسے ہم ہمیشہ جیتے رہے۔” صالحہ نے بستر پر پڑے بے جان جسم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ” سچ کہوں تو اب مجھے یاد بھی نہیں کہ میں کون ہوں اور وہ جو اس ٹھنڈے بستر پر پڑی ہوئی ہے وہ کون ہے؟”
” تم کہاں جا رہی ہو صالحہ؟” مکان مالک کی آواز آئی۔ ” ہمارے بچوں کا کیا ہوگا؟”
” انھیں تنہا رہنے کی عادت ہے۔ مجھے تو بہت پہلے یہاں سے چلا جانا چاہیے تھا۔”
” میں تمھیں یقین دلاتا ہوں، یہ دنیا ہر جگہ ایک جیسی ہے۔ لوٹ آؤ صالحہ۔”
” نہیں، میرے پاس لوٹ آنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا۔”
یہ ناول جادوئی حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ صدیق عالم نے اس میں حقیقت اور فینتاسی کو اپنی فنی مہارت سے یوں ہم آمیز کیا ہے کہ بسا اوقات انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اعلا فکشن میں، زندگی اور آرٹ ایک عجیب، نازک اور جادوئی شراکت داری میں ایک ساتھ رہتے ہیں اور اس شراکت کو حقیقی دنیا میں واپسی پر آسانی سے تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔
” صالحہ صالحہ” فکشن کے اس اصول پر سوال اٹھاتا ہے کہ واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے اور متنی حقائق کی تشریح کی جا سکتی ہے۔ اور تو اور، ناول کا اختتام بھی محض اختتام کا فریب ہے۔ شاید یہ ایک کہانی سے دوسری کہانی میں داخلے کا دروازہ ہے:
وہ پل کے دوسرے کنارے پر پہنچ چکا تھا جب اس نے مڑ کر آخری بار شہر پر نگاہ ڈالی جس کے مکانات اور راستے دھند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ نیم تاریک آسمان پر جگہ جگہ فیکٹری کی چمنیاں شعلے اگل رہی تھیں۔ پل کے دوسرے سرے پر ولایتی چوہے کے پنجڑے کے ساتھ بوڑھی عورت خود اپنی انگیٹھی کے دھوئیں میں چھپتی جا رہی تھی۔ اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا شخص، جس کا سر گنجا تھا اور کندھے غیر معمولی طور پر جھکے ہوئے تھے۔، ایک بقچہ بغل میں دبائے پل کے اندر داخل ہوا۔”
” تم شہر چھوڑ کر جا رہے ہو؟ ” بغچہ دوسری بغل میں منتقل کرتے ہوئے وہ دربان کے سامنے رک گیا۔ ” پل کے اس پار تو کچھ بھی نہیں ہے۔”
” اسی لیے تو جا رہا ہوں۔ “
” لیکن پل سے گزر کر تم جس شہر کے اندر جاؤ گے اسے کبھی سمجھ نہیں پاؤ گے، اسی لیے حیران ہونے کی عادت ڈال لو،” دربان نے کہا اور شکر قند چباتا ہوا پل سے باہر چلا گیا۔” ( صفحہ نمبر 308)
صدیق عالم صرف قاری کے فہم کو مخاطب نہیں کرتا بل کہ اس کی معلوم یا نامعلوم خلاقی کو ابھارتا ہے۔ ایک ذہین فن کار ہونے کے ناطے اسے اس بات کا بہ خوبی شعور ہے کہ وہ شارح یا مبلغ نہیں بل کہ صرف ایک فعال وسیلۂ اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریر کے حتمی معانی معین نہیں کرتا نہ ہی اس کے مطالب اور تشریحات پر اپنا حق جتاتا ہے۔ بل کہ ایک دیانت دار ادیب کی طرح متن سے نکلی اقلیم معانی کی حکومت، قارئین کے سپرد کر دیتا ہے۔
ناول کی فضا میں ایک عجیب طرح کی گھٹن، اداسی اور پراسرار تاریکی ہے۔ یہ تاریکی علامت ہے؛ تمام حواس کو استعمال کرتے ہوئے بھی واضح طور پر سوچنے سے معذوری کی۔ یہ اندھیرا حقیقت اور مافوق الفطرت کے درمیان کھنچی ہوئی موہوم لکیر کو معدوم کردیتا ہے اور حقیقت، ہائپر ریئلٹی میں ڈھل جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں کیا ہوتا ہے؟ یہ ناول غالباً انہی کیفیات کا تخلیقی و تخیلی بیان ہے۔
فکشن میں واقعات بیانیہ کے توسط ہی سے نمو پذیر ہوتے ہیں۔ بیانیہ اصل میں ادیب کا وجودِ ثانی ہے جو اس کی تخلیق کا ذریعہء ترسیل بنتا ہے۔ اس کے موثر ابلاغ کے لیے لازم ہے کہ یہ منظم اور منضبط ہو اور اس کی لسانی صفات، کہانی کی نوعیت سے مکمل ہم آہنگ ہوں۔ صدیق عالم اس فنی تقاضے سے مکمل آگاہ نظر آتے ہیں۔ ” صالحہ صالحہ” کے بیانیے کی تشکیل میں وہ جوہر موجود ہے جس نے متن کی باطنی ترکیب و ترتیب کو حرکی بنا دیا ہے۔ اس کی پرفریب سادگی قاری کو ورغلا کر ایسی بھول بھلیوں میں لے آتی ہے جہاں اسے ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے؛ زرا سی لغزش اسے ہمیشہ کے لیے یہیں کا مکین بنا سکتی ہے۔
ناول کی کہانی ایک پیچیدہ فکری منظر نامہ تخلیق کرتی ہیں تاہم اس کی زبان واضح ہے۔ ناول نگار بڑی عیاری سے، انتہائی پیچیدہ کیفیات کو سادگی سے بیان کرتے ہوئے، قاری کو اپنے زرخیز تخیل کے کانٹے دار راستے کی طرف مائل کرتا ہے۔ صدیق عالم نے اس تحریر کو لفظوں کی ایسی پُررس اور جان دار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس کی تخلیق کی اثر آفرینی دو چند ہو جاتی ہے اور اس کا تخلیقی تجربہ ہمارے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ جس کی مدد سے ہم زندگی کے نئے معنی دریافت کر سکتے ہیں۔ ناول نگار نے زبان کو زندگی کی ازسرِنو ترتیب و ترسیل کا زریعہ بنایا ہے اس کی راہ میں جمالیاتی تجربے کی دیواریں کھڑی نہیں کیں۔
” تم اپنے مرحوم شوہر کے بارے میں بات کر رہی ہو نا؟ ” مالک مکان دلچسپی سے اس کی طرف تاک رہا تھا۔ ” تمھارا زخم ابھی ہرا ہے اسی لیے تم موضوع سے بھٹک کر اسی کا زکر کرنے لگی ہو۔ یہ فطری ہے ابھی تم اس کے بارے میں کسی اور طریقے سے سوچ بھی نہیں سکتیں۔ پھر بھی اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اس نے تمھیں تین بچے دیے، جو ویسے تو پیار کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی مگر ہم اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ سچ کہو تو ان چیزوں سے ہمیں طاقت ملتی تو ہے۔” مالک مکان نے ایک آہ بھرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ” جسے دوسرے انداز سے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا فریب ہم خود کو ہی دیا کریں۔ یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ ( صفحہ نمبر 264)
صالحہ صالحہ ” کی ایک اور خوبی اس کی شان دار منظر نگاری ہے۔ فاضل ناول نگار نے منظر نگاری کو ناول کی کہانی سے، اس نایاب مہارت سے ہم آہنگ کیا ہے کہ قاری اپنے آپ کو کہانی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ صفحہ نمبر 198 کی یہ سطور ملاحظہ ہوں:
” دوا جیسے جیسے اس کی پیٹھ پر سوکھ رہی تھی، جِلد پر چیونٹیوں کے خاردار پیر رینگ رہے تھے۔ وہ دیر تک اسی حالت میں بےحس و حرکت پڑی سیلنگ کی طرف تاکتی رہی جہاں کھپریل کے سوراخوں میں چاند کی کرنیں جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں۔ “
قاری ان سطور کو پڑھتے ہوئے نا صرف کھپریل کے سوراخوں میں جگنوؤں کی طرح چمکتی چاند کی کرنوں کو دیکھتا ہے بل کہ باقاعدہ اپنی پیٹھ پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں بھی محسوس کرتا ہے۔
صفحہ نمبر 203 کی یہ سطور بھی ملاحظہ ہوں:
” وہاں تاڑ اور کھجور کے درختوں کا جھنڈ تھا جن کے درمیان سے مسجد کے سبز میناروں کے اوپری سِرے نظر آیا کرتے۔ اس جگہ درختوں پر گدھ بیٹھے پہرہ دیا کرتے۔ ان مردار خوروں کے چونچ گھسنے کے سبب تاڑ کے درختوں کی پھننگیں ننگی ہو گئی تھیں جن سے نکلے ہوئے کھونچ ڈوبتے سورج کے سرخ گولے پر نشتر لگایا کرتے۔”
اور یہ بھی دیکھیے:
” ڈوبتا سورج بستی کے چھپروں کے اوپر سے کسی مچھیرے کی طرح اپنی آخری کرنوں کا جال سمیٹ رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 262)
” ڈرائیور اسٹئرنگ وِیل تھامے اپنی مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔ نیلا آسمان ونڈ اسکرین کے شیشے پر پھسلتا ہوا اوپر کی طرف غائب ہو رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 282)
” صبح دیر تک سورج زمین کے کنارے تندور کی مانند دہکتا رہا پھر کسی نارنجی گیند کی طرح اچھل کر آسمان پر چلا گیا۔ ” ( صفحہ نمبر 300)
ناول نگار اس فنی تقاضے سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ کسی بھی فن پارہ میں ہر وہ چیز غیر اہم ہوتی ہے جو اس کی تعمیرِ ہیئت سے غیر متعلقہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ناول میں ایک بھی جملہ بھرتی کا نظر نہیں آتا۔ مصنف کی فکر، تخیلی عمل، امیجز، اس کا داخلی ابال غرض کہ ہر وہ شے جس نے اسے اس تخلیق کی طرف مائل کیا محض 115 صفحات ہی میں اپنے نقطہء تکمیل تک پہنچ کر اپنی ہئیت خود وضع کرتی ہے۔
” صالحہ صالحہ” اسرار کی دھند میں لپٹا ایک ایسا ناول ہے جو اپنے اندر بےشمار مضمرات سموئے ایسے مشتاق قارئین کا منتظر ہے جو دم بہ دم زندگی کے نئے معنوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ امید ہے یہ انھیں مایوس نہیں کرے گا۔
0 Comments