"سینڑل چوک" سے پانچ فلیش فکشن از نئیر مصطفیٰ
١۔دو ہزار سینتالیس کی ایک بات
تین جون انیس سو سینتالیس کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے برٹش انڈیا کو تحلیل کرتے ہوئے دو آزاد ملکوں کے قیام کا اعلان کیا تَو محمد علی جناح،موہن داس کرم چند گاندھی،پنڈت جواہر لعل نہرو اور ابو الکلام آزاد تاش کی بازی کھیلنے انڈیا کافی ہاؤس میں اکٹھے ہوئے۔پتے پھینٹنے کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے مستقبل کو لے کر گرما گرم بحث چھڑ گئی۔اُن چاروں کا خیال تھا کہ مستقبل کا برِصغیر اُن کے نام اور نظریے سے پہچاناجائے گا۔ بحث نے شدت اختیار کی تَو پنڈت نہرو نے چاقو اور محمد علی جناح نے بندوق نکال لی۔
اِس سے پہلے کہ خون کی ندیاں بہہ جاتیں،گاندھی نے اہنسا کی طاقت سے کام لیتے ہوئے اُن تینوں کو سو برس کے لیے سلا دیا۔
تین جون دو ہزار سینتالیس کو اُن کی آنکھ کھلی تَو اُنہیں ایک خون آلود باڑ کے آگے پیچھے دو کھنڈر دکھائی دئیے جن میں سے ایک پر ترنگا اور دوسرے پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ابھی وہ بدلے ہوئے زمانی حقائق کے ساتھ خود کو استوار کر ہی رہے تھے کہ اُنہیں گاندھی نظر آیا،جس کے سینے میں ایک پھل دار خنجر پیوست تھا۔
''کیا یہی میرا دو قومی نظریے والا پاکستان ہے؟'' جناح لنے گاندھی کی بجھتی ہوئی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے کہا۔
''نہیں نہیں،یہ تَو محض ایک یادگار ہے۔تمہارا پاکستان تَو اب سے کوئی پون صدی پہلے خلیج بنگال میں ڈوب کر مر گیا تھا!'' گاندھی کے ہونٹوں سے ایک سسکاری برامد ہوئی۔
''اور میراسیکولر بھارت!…اُس کا کیا بنا گاندھی جی؟'' نہرو کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
''اب سےچار دہائیاں پہلے گجرات میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تَو اُس کے بدن میں آگ لگ گئی اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔'' گاندھی نے پنڈت نہرو کے بازو کا سہارا لیتے ہوئے کہا۔
''وہ تَو سب ٹھیک ہے مگر تمہارا یہ حال کس نے کیا؟'' ابوالکلام آزاد نے اپنا کرتا پھاڑ کر ایک پٹی بنائی اور گاندھی کا خون روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔ گاندھی نے باڑ کی جانب اشارہ کیا اور ہمیشہ کیلئے چپ سادھ لی۔
وہ دوڑ کر باڑ کے قریب پہنچے تو انہیں سبز ہلالی پرچم کے قریب ایک سپہ سالار کا مجسمہ دکھائی دیا جو خصی گھوڑے کی ننگی پشت پر بیٹھا،ہوا میں تلوار چلا رہا تھا؛پھر ان کی نظر باڑ کی دوسری جانب ایک الف ننگے آدمی کے مجسمے پر پڑی، جس کے عضوِ تناسل کی جگہ ایک زعفرانی رنگ کا خنجر لٹک رہا تھا۔
''میرے بجائے ایک کانے سپہ سالار کا مجسمہ؟…ڈیم اٹ!'' محمد علی جناح کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
''میری جگہ وینائک دمودر سواریکر کا مجسمہ؟…مائی فٹ!'' پنڈت نہرو نے غم و غصے کی شدت سے اپنے بال نوچ ڈالے۔
''اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مجسمے کس کے ہیں۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ مجسمے زندہ ہیں اور ہماری ہی جانب بڑھ رہے ہیں۔'' ابوالکلام آزاد کے ہونٹوں سے ایک ڈری سہمی سرگوشی برآمد ہوئی۔
٢۔کرما
میں ایک پیپل کا درخت تھا۔میں نے چھاؤں بانٹی اور آکسیجن دان کی۔ایک روز میرے بدن پر تیز دھار آرا چلا کر مجھے کاٹ دیا گیا۔میری لاش سے میزیں اور پلنگ بنائے گئے۔
اگلی دفعہ میں ایک کونج بن کر نمودار ہوا۔میں نے ہوا کے دوش پر رقص کیا،بے ساختہ محبت کی،بہار کی آمد کے گیت گائے اور ایک پیشہ ور شکاری کی گولیوں کا نشانہ بن گیا؛مجھے خوشی ہے میں حالتِ رقص میں قتل ہوا۔
تیسری مرتبہ میں ایک سیاہ ہرن کے روپ میں ظاہر ہوا۔میں نے قلانچیں بھریں،کدکڑے لگائے، بہت سارے بچوں کو جنم دیا، رفتار کی آخری حد کو چھوا اور توازن کے معنی دریافت کیے۔ قریب تھا کہ میں فطرت کی آغوش میں پوری طرح سے ضم ہو کر ہمیشہ کے لیے مکتی پا جاتا کہ تکمیل کی سرحدوں سے ذرا پہلے،ایک آہنی شکنجے نے میرے پیروں کو کچھ اِس طرح سے جکڑ لیا کہ میں آزادی کے لیے ہُوکتا ہوا مر گیا۔
چوتھے جنم میں مجھے ترقی دے کر انسان بنا دیا گیا۔اِس بار زندگی کی تفہیم منہ اور مقعد سے آگے نہ بڑھ پائی۔میں اپنی پانچویں سالگرہ سے بھی ذرا پہلے،ایک نوبالغ ہمسائے کی نئی نویلی مردانگی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اگلی بار مجھے ایک مکمل عورت کے قالب میں ڈھلنے دیا گیا۔میں نے اپنی روح اور بدن کو کھوجنے کے لیے محبت کا سہارا لیا یہاں تک کہ ایک روز میرے بھائیوں اور باپ نے مجھے بد چلن قرار دے کر ذبح کر ڈالا۔اپنی آخری سانسوں کے درمیانی وقفے کی لے پر،موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے،میں نے محبت کی ہر انتہا کو چھوکر دیکھ لیا۔
چھٹے جنم میں مجھے ایک مہان اوتار بناکر بھیجا گیا جو اپنے ہاتھ کے لمس سے بیماروں کو تندرست کرسکتا تھا۔ایک مشتعل ہجوم نے مجھے پیروں تلے روند کر مارڈالا؛میری لاش بھی جلا دی گئی۔
جلد ہی مجھ میں ساتویں مرتبہ زندگی پھونکی گئی تاہم اِس دفعہ مجھے پیدا ہونے کا موقع نہ مل پایا کیونکہ ریڈیالوجسٹ کا خیال تھا میرے جنسی اعضاء کبھی مکمل نہ ہو پائیں گے اور میرا والد بہت دور اندیش آدمی تھا؛ایک خرانٹ سی لیڈی ڈاکٹر نے اپنی تمام طبی صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے،مجھے اپنی ماں کے پیٹ میں ہی ختم کر ڈالا۔
اگلی بار،جب میری آنکھ کھلی تَومیں روشنی کا ایک بے انت پیکر تھا۔مجھے بتایا گیا میرا نام "برہما" ہے اور آج تک اپنی ہر اذیت کا ذمے دار میں خود ہوں۔
٣۔کتابِ پیدائش و اموات کا ایک باب
تیسری عالمگیر برفابی کے پانچ لاکھ سال بعد،جب سورج دوبارہ نمودار ہوا،اور زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بحال ہوئی تَو تباہی کے اسباب جاننے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا گیا،جس کا سربراہ ٹی ریکس نامی ایک سپر روبوٹ تھا۔
کمیشن نے تمام طبعی اور واقعاتی شواہد کا معائنہ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ آج سے چھ لاکھ سال پہلے کرۂ ارض پر”انسان“ نامی ایک سفاک درندے کا راج تھا جو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے جنون میں دیگر جانوروں کا خاتمہ کرتا چلا گیا،یہاں تک کہ کائناتی توازن بگڑا اور نظامِ شمسی کی موت واقع ہو گئی۔کمیشن نے تجویز پیش کی کہ بندروں کی تمام انواع کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تاکہ کل کو وہ انسانوں میں تبدیل ہو کر دوبارہ یہی خونی کھیل نہ دہرا پائیں۔
معاملہ چونکہ نہایت حساس نوعیت کا تھا لہٰذا بین الانواعی سلامتی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا،جس کے تمام ممبران نے کافی بحث و مباحثے کے بعد بندر کشی کی منظوری دے دی۔
ٹی ریکس ڈاکٹرائن پر عمل درآمد شروع ہوا۔پہلی فرصت میں دنیا کے تمام جنگلوں کے گرد باڑیں لگا دی گئیں تاکہ کوئی ایک بندر بھی فرار نہ ہونے پائے۔شمسی توانائی سے چلنے والے روبوٹس کی فوج نے زمین کا چپہ چپہ چھان مارا۔جونہی اُنہیں کوئی بندر یا بندر نما مخلوق دکھائی دیتی،برقی شعاعوں سے اُسے بھون ڈالتے۔
کہا جاتا ہے آخری بندر کی موت کے محض دس ہزار سال بعد آخری کاکروچ،اور نوے ہزار سال بعد آخری روبوٹ کی موت واقع ہوگئی۔
۴۔نسلِ انسانی کے خاتمے کی چار ممکنہ وجوہات
خاتمہ … ۱
دنیا کے آخری آدمی نے دنیا کی آخری عورت کو پروپوز کیا تَو انکشاف ہوا وہ ایک چمپینزی کی منکوحہ ہے!
خاتمہ … ۲
دنیا کے آخری آدمی نے دنیا کی آخری عورت کو پروپوز کیا تَو پتا چلا وہ ایک ہارڈ کور لیزبیئن ہے!
خاتمہ … ۳
دنیا کے آخری آدمی نے دنیا کی آخری عورت کو پروپوز کیا تَو معلوم ہوا وہ ایک فائٹر پائلٹ سے ہی شادی کرے گی!
خاتمہ … ۴
دنیا کے آخری آدمی نے دنیا کی آخری عورت کو پروپوز کیا تَو وہ شادی کے لئے مان گئی،مگر اُس نے بچے پیدا کرنے سے انکار کر دیا!
۵۔احتساب
ببلی کتیاں والے کو شراب نوشی کے الزام میں دھر لیا گیا۔ببلی نے اعترافِ جرم کے بجائے بے گناہی کا واویلاکیا تَو ڈیوٹی پر موجود حوالدار کا پارہ چڑھ گیا۔اُس نے ببلی کی خوب چھترول کی اور ماں بہن کی غلیظ گالیاں دیں یہاں تک کہ وہ تیر کی طرح سیدھا ہو گیا اور مُک مکُا کی دہائیاں دینے لگا۔
مُک مکُا کے پیسوں سے شراب کی ایک بڑی بوتل منگوائی گئی۔
0 Comments