Subscribe Us

Header Ads

مضمون: اسطور کا دائرہ کار اور اعضاء و جوارح تحریر: فرزاد علی زیرک انوکھے منفرد جدید ادیب فرزاد علی زیرک کا اساطیر پہ ایک اہم مضبون ‏

مضمون: اسطور کا دائرہ کار اور اعضاء و جوارح
تحریر: فرزاد علی زیرک

   انوکھے منفرد جدید ادیب فرزاد علی زیرک کا اساطیر پہ ایک اہم مضبون 
  
*سنڈے اسپیشل*

*موت ڈاٹ کام مالیگاوں* پر ملاحظہ فرمائیں 
ہر مذہب کی ایک مخصوص اسطور ہوتی ہے لیکن اسطور کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہوا کرتا۔ اس ضمن میں مجھے اسطور اور اس کے نیریٹو دائرہ کار کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ 
اول تو یہ کہ اسطور ایک معنیاتی خمیر/جوہر کا نام ہے نہ کہ نیریٹو سٹریٹجی کا ،شروع سے یہی سمجھا جارہا ہے کہ اسطور مذہبی سطح پر ایک ماورائی کتھا کا نام ہے اور یہ کسی مثالیہ اخلاقی سبق پر منتج ہوتی ہے ۔اس فکری رویے نے ہومر کے اوڈیسی اور الیڈ میں مذہبی جڑت سے رواج پایا جس میں بہرحال دیگر کئی کردار مذہبی جڑ ت سے الگ تھلگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔اسطور چونکہ ایک لوک کہانی کی طرز پر مافوق الفطرت طاقت کا بیانیہ ہے لیکن اس میں سمجھنے والا امر یہ ہے کہ کرداروں کی تشکیل اور نیریشن کا مافوق الفطرت ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہر اسطور میں ہنومان اور ہرکولیس جیسی طاقت کا ظہور ہو بلکہ بعضے کردار کامک"مزاحیہ" بھی ہوتے ہیں اور بعضوں میں محض حسی سطح پر فطرت سے ہٹ کر افقی یا عمودی ارتفاع انقطاع ہوتا ہے۔ 
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بعض پیراڈاکس بھی اسطور کا درجہ اختیار کر جاتے ہیں جیسےاٹلی کے لیکھک کارلو کولاڈی کے ناول کا ہیرو
Pinocchio
جھوٹ بولنے کی وجہ سے ناک کی طوالت کا ذکر کرتا ہے۔یہ کردارکوریا ، جاپان ، چین ہر جگہ یکساں طور پر معروف ہے ۔ اردو میں شیخ چلی اور عمرو عیار کو اسی ذیل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ گو عمرو عیار کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور زنبیل کی ماورائیت اسے مافوق کی ذیل میں لا کھڑا کرتی ہے ۔
اوپر میں نے ذکر کیا کہ اسطور معنی ہے نیریٹو سٹریٹجی نہیں تو اس ضمن میں چند امثال دیکھیے۔
جے کے رولنگ کے ناول ہیری پوٹر، حالیہ دنوں میں ونڈرفل بیسٹس ، پائیریٹس آف دا کیریبین، لارڈ آف دا رنگز ، ہابٹ، اور بالخصوص نارنیا ۔۔۔یہ سب مافوق الفطرت بیانیے ہیں لیکن ان کی نیریٹو سٹریٹجی میں بہت حد تک افتراقات پائے جاتے ہیں۔۔۔۔مثال کے طو رپر ۔۔۔پلینٹ آف دی ایپس اور دیگر میں فیبل اور پیرابل دونوں کے اختلاط سے بیانیہ وضع کیا گیا ہے ۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ ہرکولیس سے لے کر عمرو عیار تک ہر بیانیے میں فطرت کے طاقت ور نمائندے اور عام انسان کو مخلوط زندگی گزارتے دکھایا جاتا ہے۔
مافوق الفطرت اسطور کے جمالیاتی پکھ میں راون کے دس سر اور گنیش کے دھڑ پر ہاتھی کا سر لگایا جانا جمال کی حسیت کو انگیخت کرتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ققنس پرندے اور اژدہے کا منہ سے آگ اگلنا دیگر دونوں مذہبی کرداروں سے الگ جمالیات کو وضع کر رہا ہے۔ تو گویا مذہب سے الگ بھی مافوق الفطرت کرداروں کی تشکیل ممکن ہے۔
اسطور میں بیشتر کردار علامتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور علامت کو آسان یا مشکل کے انضباطی سانچے میں ڈھالنا تخلیق نہیں بلکہ صحافت ہوا کرتی ہے اور اس امر کو یوں سمجھیے کہ زیوس دیوتا سے لے کر وشنو کے پانی کی کور پر پھیلے ہونے کے بیانیے تک کو علامتی سطح پرسمجھنے کی قوت ہر کس و ناکس میں نہیں اور نہ ہی اس کا واضح ابلاغ ہوتا ہے کیوں کہ پانی زندگی کا استعارہ ہےیہ وہی سمجھ سکتا ہے جو سائنس کا طالب علم ہے اور عمومی مذہبی بیانیے میں سائنس کا کس حد تک دخل ہے اس کا سب کو علم ہے۔مذہب سے الگ اسطور کے معاملات شعری اور نثری سطح پر وسیع الجہت نظر آتے ہیں جیسے کلیشے توڑ کر نیا پیرا ڈاکس وضع کرنا بھی ایک نئی اسطور کی طرح ڈالنے کے مترادف ہے ۔ اور یہاں بھی سمجھنے والا امر یہ ہے کہ کلیشے ہی در اصل اسطور کا درجہ اختیار کرجاتا ہے کیوں کہ اسطور کا ایک لگا بندھا معنی ظاہر ہوتا ہے جس کے سبب اس کی علامتیت کو ایک ہی پیٹرن پر پرکھا جاتا ہے ۔ فطرت کے دو طاقت ور نمائندے نیکی اور بدی ۔۔ین یینگ ،۔۔۔دونوں کی باہم کشمکش ،۔۔۔نیکی کا بدی پر غالب آجانا ایک طے شدہ پیمانے پر معنی کا سفر کرنا ۔۔یہ سب کلیشے ہے اور اس کلیشے کو ہی اسطور کہا جائے گا لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کلیشے میں تخلیقی پیوند کاری کیوں کر ممکن ہے اور اس میں نئی طرح کیسے نکالی جاسکتی ہے۔ تو جواب ہےہر اردگرد کی غیر مادی اور مادی شئے کو محض شئے سمجھنے کی بجائے ایک کردار تصور کیا جائے اور اس کے خدوخال اپنی مرضی سے وضع کر لیے جائیں اور اس سے معنی کے انسلاکات اپنی مرضی سے لف کر لیے جائیں نتائج تو بہرحال بیانیے کی طرز کے دائرہ کار میں رہیں گے لیکن جزیات کو اپنی مرضی سے تشکیل کیا جائے اور ان سے معنی کا ربط بھی اپنی ہی مرضی سے جوڑا جائے۔۔۔۔
مثال کے طو پر: کھونٹے سے بندھی بھینس اور دیوار سے چپکی چھپکلی میں کون سی قدریں مشترک ہیں اور دونوں کا انسان کی جون میں تبدیل ہوجانے کا غیر فطری عمل کیوں کر ممکن ہے اور اس تقلیب کے بعد دونوں میں کون سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔۔۔ مچھیروں کا کشتیوں کوگالیاں بکنا اور عرشوں پر سنہری مچھلیوں کا مگر مچھ بن جانا یہ تقلیب آپ کو فی الفور مافوق کے بیانیے کی صف میں لا کھڑا کرے گی لیکن اگر مافوق سے الگ ایک فطرتی طرز پر منطقی بیانیہ اپنانا چاہیں تو کچھوے اور خرگوش کی کہانی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔۔ جس کی نیریٹو سٹریجی "فیبل" ہے اور وہ کھونٹا وہ معنی کا جوہر جس کو بیان کرنے کے لیے کردار اور طرز وضع کی گئی ہے اسطور کہلائے گا۔۔ جو مافوق الفطرت اسطور سے قدرے مختلف ہوگا لیکن اس میں ایک شرط عائد ہوگی کہ مہم جوئی کاسلسلہ خاصا غیر معروف ہوگا جس سے یکسر نئے معنی کا ظہور ہونا طے ہے۔
چاند پر بڑھیا کا چرخا کاتنا ، جدید اسطور کی ذیل میں ٹرانسفارمرز ، ایلینز، سکائی سکریپرز وغیرہ کسی کا بھی مذہب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ میرے خیال سے اگر مشینیں اسطور کے کردار بن سکتی ہیں تو بعید نہیں کہ میز کرسی اور کتاب کو بھی اسطور کے بیانیے کی ذیل میں فطرت کے /غیر فطرت کے طاقت ور نمائندوں کے طور پر دیکھا جائے۔ یہاں میں نے دانستہ ایک نئی اصطلاح غیر فطرت استعمال کی ہے جس سے مزید واضح ہوگیا ہوگا کہ اسطورطے شدہ کلیہ /فارمولا نہیں بلکہ یہ ایک جڑ ہے جس پر تنا اگتا ہے ، پھل پھول پتے شاخیں ، پرندے ،ہوا پانی سب کا انسلاک اسی جڑ سے ہے اور مٹی تو بہرحال بنیادی عنصر ہے۔۔

Post a Comment

0 Comments