حفیظ تبسم |
خوف کے لفافے میں لپٹا ہوا خط
🔴 حفیظ تبسم پاکستان کی سات دھنگ رنگ نظمیں 🔴
*موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت**کے لیے
جب تاریخ کی کتاب سے جملے چرا کر
عجائب گھر میں رکھے گئے
ادب کے دربار سے فرمان جاری ہوا
باغیوں کو دیوار میں چننے کے بجائے
تاریک کنویں میں رکھا جائے اور پیشہ ور ادیبوں سے لکھوائی گئی
تاریخ کی نئی کتاب
جو نصاب میں شمولیت کی منظوری کے لیے
سنسر بورڈ کو بھیجا گیا
خوف کے لفافے میں لپٹا ہوا خط
کتاب گھر سے ناپسندیدہ کتابیں
فحاشی کے الزام میں جلا دی گئیں
اور کوک شاستر کے مصنف کو پھول پہنا کر
عقیدت سے ہاتھ چومنے کی رسم ایجاد کی گئی
باغیوں نے حلف نامے میں عہد کیا
شہر کی دیوار پر مرثیہ لکھنے کا
اور ایک اساطیری جنگل کی تلاش میں پھرتے
ایک مندر میں پناہ گزین ہوئے
جس کا ذکر
نئی تاریخ میں نہیں ملتا
🛑🛑🛑🛑
بارش کی خواہش بھی اک موت ہے
مون سون سے پہلے
پانی کی تقسیم پر
زمین کے بڑے خداؤں نے اپنے اجلاس کا آغاز
گالیوں کی طویل فہرست سے کیا
جو جنگ کے دنوں میں ایجاد ہوئیں
امن پسند راہب جنگل میں چھپ گئے
اور بدھا کے مجسمے پر بیٹھے پرندے
اداس گیت گاتے گاتے
پتھروںمیں تبدیل ہوگئے
جنگ کے لیے
نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا
مائیں دیر تک بچوں کی گنتی پوری کرتی رہیں
بوڑھے باپ
سانسوں کے تاوان میں اناج کی بوریاں اٹھا لائے
اور دروازے غیر معینہ مدت کے لیے
دیواروں میں تبدیل ہوئے
گورگنوں نے قبر کی کھدائی کا معاوضہ دوگنا کردیا
لوگ مرتے رہے
یہ اندازہ لگانا مشکل ہوا
چالیس روزہ آرام دہ قبر کس کے حصے میں آئے
جنگ کوئی نمایاں کھیل نہیں
جو جاری رہے بہت دن تک
سو آخر جنگ ختم ہوجاتی ہے
ذرا سستانے کے لیے
البتہ جنگ کی کہانی
ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچ جاتی ہے
صلح نامے میں درج ہے
روحیں/ پانی کے خواب میں سفر کررہی تھیں
جب زمین سے رخصت ہوئیں
وہ پانی۔۔۔
جس کے لیے جنگ ہوئی
مون سون سے پہلے
🛑🛑🛑
ایک نادار ملک کی تاریخ
تاریخ بنائی نہیں جاتی
یہ خود بن جاتی ہے
قدیم داستان کی طرح
روٹی کی تلاش میں
ہم جنگل میں داخل ہوئے
جس کے کنارے فاختہ کے نشان والا پرچم نصب تھا
سالانہ تہوار کے دن
بادشاہ کے قصیدے
اور ملکہ کے لیے گیت گائے جاتے
جو کسی قومی شاعر نے نہیں لکھے تھے
اس کے باوجود
متعدد زبانوںمیں ترجمہ ہوکر چھپے
تخت کے چوتھے پائے میں
خوبصورت ترین لڑکی کے کپڑے اُتارے جاتے
جس کا نام
رواں سال کی رائے شماری میں درج نہیں ہوتا
اور ذبح کردی جاتی تھی
یہ جانتے ہوئے بھی
کہ یہ رسم منسوخ ہوچکی ہے
رات دیرتک
خواب فروش لطیفے سنانا
اور وزیرمقدس حلف نامے میں ترمیم کرتے
نئے سال کے کیلنڈر پر
جب بادشاہ کے سرخ دستخط رسید ہوتے
تب تالیوںکی گونج میں
مذہب کے نام پر زندہ لوگ رقص کرتے
جو نہ پرہیز گار تھے نہ گناہ گار
یہ پوری تاریخ نہیں
ایک نادار ملک کی کہانی ہے
جو دنیا کے نقشے میں نہیں ملتا
🛑🛑🛑
Death anniversary of bomb blast
وہ سب رورہے تھے
یادگار پر پھول چڑھا کر
اور فریم میں لگی تصویروں کے چہرے
سیاہ حاشیے سے
پسند کا پھول چومنے سے قاصر تھے
بوڑھے چہرے نے
ساتھ کی تصویر کو کہنی مارتے ہوئے کہا:
اتنے آنسو کہاں سے آئے
ہمارے دور میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں
’’خاموش رہو‘‘
تقریب کے بعد بتاؤں گی
چھوٹے بچے نے
ساتھ کے فریم میں بیٹھے بچے سے کہا:
اتنے کھلونے کہاں سے آئے
ہمارے قصبے میں ایسی دوکانیں نہیں تھیں
’’خاموش رہو‘‘
ہمیں پہچان لیا جائے گا
تقریب کے اختتام پر
تصویریں عجائب گھر واپس لوٹیں
پھول اور کھلونے
انتظامیہ کے گھروں میں
حاشیے میں نیند جھولتی تصویریں
کئی ہفتے تبصرہ کرتی رہیں
وہ کون لوگ تھے
جو آنسو بہانے کے مقابلے میں شریک ہوئے
🛑🛑🛑
شہوت کی بیٹی
ہم نے محبت کے نشے میں رات کی ملاقات ایجاد کی،
رات نے بوسہ ایجاد کیا،
جب ہم وعدوں کے معاہدے پر دستخط کرتے تھک جاتے، تو تاریکی کے سائے میں شیطان قہقہہ لگاتا تھا،تاکہ ہم خود پر اترے خوف کا منہ نوچ سکیں،
جب ہم نے چومنے کے معنی سیکھے،اُن دنوں کنڈوم ایجاد ہوچکاتھا اور ہم ٹیلی ویژن کے اشتہار میں دیکھ چکے تھے،مگر ہم جسم کی عطر سونگھنے سے ڈرتے تھے۔
آخری ملاقات کی رات،
ہم جدائی سے پہلے رونا چاہتے تھے، تاکہ دل کی بانسری پر منفرد دھن ایجاد ہوسکے،
ہمارے سامنے میز پر ماضی کے دن پڑے تھے،اور ان پر پھپھوندی لگ چکی تھی،
ہم فراموش کررہے تھے، دماغ میں شور مچاتی یادوں اور ایمبولینس کے سائرن کی طرح چیختے وعدوں کو،
ہم محبت کی لاش کو سرکاری اعزاز سے دفن کرنا چاہتے تھے،تب شیطان نے تاش کا آخری پتہ پھینکا اورہماری بے ترتیب سانسیں گننے لگا۔
172 دن گزرے تو معلوم ہوا کہ
تمھارے اندر ایک لڑکی ہے،جو آخری ہم بستری کا شہادت نامہ تحریر کررہی ہے،
اگر تم کہو، وہ محبت کی نشانی ہے ،میں کہوں گا ۔۔۔نہیں،
اگر تم کہو، وہ معصوم ہے اور اسے ہمارے گناہ کی سزا نہیں ملنی چاہیے ،میں کہوں گا ،نہیں،
لڑکی تمھاری ہے اور نہ میری،
وہ کون ہے ،اس سے کیا فرق پڑتا ہے،
ہمیں اس کا نام شہوت کی بیٹی رکھ دینا چاہیے۔
🛑🛑🛑
بسترِمرگ سے: ایک دوست کے نام
جب ہم ملے تھے، میں ایک بچہ تھا،جسے دوستی کے معنی معلوم نہیں تھے،
ہم نے بوڑھے پیپل کے سائے میں طویل شام گزاری،اور سوکھے پتوں کی گنتی کرتے ایک لفظ بھی نہ بول سکے،اگر چاہتے تو پتوں کی سرگوشیاں سنتے تنے پر محبت کی پہلی سطر لکھ سکتے تھے،
میں نے وہ رات جاگ کر گزاری،
ایک لڑکے کے ساتھ اپنی داستان پڑھتے،جس سے محبت کرتا تھامگر اسے جانتا نہیں تھا،
تمھارے نام سے صبح کی پہلی تلاوت کرتا،اس دوران دن ایک اور دن میں اتر جاتا تھا،
میں خاموش رہتا،حالانکہ میرا منہ بھرا ہوتا تھا لفظوں سے، زمانے کی گالیوں،طعنوں اور بچپنے والی ہنسی سے،
تمھارے ساتھ میرے شب و روز ایسے ہی ہوا کرتے تھے،
طویل برس گزر گئے،آج ایک خوبصورت دن کھانس کر گزارا،
(میں بوڑھا نہیں ہوں،اس کے باوجود بڑھاپے کے مرض میں مبتلا ہوں)
مجھے اب بھی یاد ہے کہ کس طرح دو الگ شہروں میں زندہ رہے اور ایک دوسرے کے خط پڑھ کر روئے،
میں زندگی کی میراتھن میں تھک کر گرچکا ہوں،موت پانی کی بوتل پیش کررہی ہے اور ہاتھ پکڑ کر چلنے کا دعوت نامہ بھی۔۔۔
میں مررہاہوں،جس طرح آدمی مرجاتے ہیں،
میں چاہتاہوں،جس روز موت سے ہمکنار ہوں،
میری قبر پر فاتحہ پڑھنے کی بجائے وہ گیت سنانا، جو ہم قصبے کی گلیوںمیں گنگناتے تھے،
وہ گیت سن کر محسوس ہوگا کہ میں دوبارہ زندہ ہورہاہوں،
میری قبر کے کتبے پر تحریر کرنا وہ نام،جو تم نے رکھاتھا اور ولادت کی تاریخ مٹاکر لکھ دینا،
’’وہ 10جنوری 1990کو پیدا ہوا اور ایک سانس لے کرمرگیا‘‘
اگر تم یہ نہیں کرسکتے ،تب میری موت پر قہقہہ لگانا،
’’پاگل
کمینے
میرے دوست‘‘
🛑🛑🛑
کائنات کا آخری دکھ
خدا کے گھر میں نقب لگاکر
روٹیاں چرانے والے
فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھانے لگے
کئی دن سے بھوکے کتوں نے شور مچاکر
پہرے داروں کو آگاہ کر دیا
وہ تین تکونی بارگاہ میں پیش کیے گئے
تو انصاف کی اونچی مسند پر
تسبیح کے دانوں نے دستک دی
جو مسمار شہر سے برآمد ہوئے
اور سستے داموں خریدے گئے فتوؤں کا عکس
ایک دائرے میں
روحانی مسرت سے جھومنے لگا
سوچ کے سناٹے میں بیان کیا گیا
کائنات کا آخری دکھ
مگر خاموشی کے ساتھ طے کردی گئی
شہر کے وسطی چوک میں شورمچاتی
موت کے جشن کی تاریخ
اور پتھروں کی بارش کے ڈر سے
ڈسٹ بن میں پھینک دیاگیا
بھوک کا دستخط شدہ خط بھی
پھر خداکے نام کی تختی دیکھ کر گھنٹی بجانے والوںنے
کٹہرے کو کئی بار چوما
اور اندھیرے کے آگے سجدہ ریز ہوگئے
🔴🔴🔴
جہنم کے گرد و نواح میں
رنگ و نسب کے نام پر
غیر اعلانیہ ہجرت کا اعلان ہوا
ہم بڑوں کی انگلی تھامے
ادھر آئے
اور سڑک کے کنارے تختی پر لکھے حروف دیکھ کر رک گئے
’’ جہنم دس میل آگے ہے‘‘
اور بلا اجازت خیمے گاڑدیے
ہم نہیں جانتے
بارش کے انتظار میں کتنے دن گزرے
اور بچوں نے کب
قحط زدہ علاقے کا قومی گیت ایجاد کیا
یہی وہ جگہ ہے جہاں
ہماری عورتیں
دھوپ میں دعائیہ کلمات پڑھتے بانجھ ہوئیں
اور بوڑھے
اپنے کیے پر ندامت محسوس کرتے مرنے لگے
ایک دن
اونچی چٹان پر سجدے کے دوران
بوڑھے شاعر نے کتاب سے آخری نظم نکالی
جو کمزور ہاتھوں سے کھائی میں جاگری
اور اس کے ساتھ امیدبھی
یہی وہ جگہ ہے جہاں
کئی دنوں سے خالی دن میں
پرانے کیلنڈر سے سارے تہوار منسوخ کرکے
بینر لکھا
جہنم کے گردونواح میں بستے لوگ
روزنامچے بغل میںلیے
ایک اور زمین ،اور آسمان کی تلاش میں نکل جائیں
🛑🛑🛑
0 Comments