بَرین بھُومِک کی بیماری
ستیہ جیت رے
ترجمہ: خالد جاوید
🔴بنگالی طویل کہانی
- *موت
ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت*
کنڈکٹر کی ہدایت کے مطابق ’ڈی‘ ڈبے میں داخل ہوکر بارین بھومک نے اپنا بڑا سوٹ کیس سیٹ کے نیچے رکھ دیا ۔ اسے راستے میں کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کنگھی، برش، ٹوتھ برش، داڑھی بنانے کا سامان، ریل میں پڑھنے کے لیے ہیڈلی چیز کا ناول ـ سب کچھ دستی بیگ میں ہے۔ اس کے علاوہ تھروٹ پلز بھی ہیں ۔ ٹھنڈے ڈبے میں سردی گھسنے کی وجہ سے کہیں گلا بیٹھ جائے تو کل گانا نہیں گا سکیں گے۔ جھٹ سے ایک ٹکیہ منھ میں ڈال کر بارین بھومک نے بیگ کو کھڑکی کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
دلی جانے والی ٹرین کے چلنے میں اب صرف سات منٹ کی دیر ہے، لیکن ان کے ڈبے میں کوئی اور مسافر کیوں نہیں ہے؟ اتنی دور کا سفر کیا انھیں اکیلے ہی طے کرنا ہوگا؟ یہ تو ایک طرح سے عیاشی کی انتہا ہے۔ حالات کا تصور کر کے بارین بھومک کے گلے سے خود بخود ایک گانے کے بول پھوٹ پڑے۔
’’او باغ کی بلبل، پھولوں کی ڈالی پر نہیں تم جھولو!‘‘ بارین بھومک نے کھڑکی سے ہاوڑا اسٹیشن پلیٹ فارم پر کی بھیڑ کی طرف ایک نظر ڈالی۔ دو نوجوان ان کی طرف تاکتے ہوے آپس میں کچھ گفتگو کر رہے ہیں۔ بارین بھومک کو ان لوگوں نے پہچان لیا ہے۔ بہت سے آدمی انھیں پہچانتے ہیں۔ کلکتہ ہی نہیں بلکہ بہت سے قصبوں کے لوگ نہ صرف ان کی آواز کو پہچانتے ہیں بلکہ ان کے چہرے سے واقف ہیں۔ ہر مہینے چھ سات پروگراموں میں ان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بارین بھومک نذرل کے نغمے اور جدید موسیقی کا پروگرام پیش کریں گے۔ شہرت اور دولت دونوں چیزیں اب بارین بھومک کی مٹھی میں ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ ایسے حالات پچھلے پانچ سال سے ہی ہیں۔ اس سے پہلے انھیں کئی برس تک بے حد جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ نغمے کے لیے نہیں؛ وہ گانا گانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر صرف گانے سے کام نہیں چلتا، اس کے ساتھ چاہیے قسمت اور بینکنگ ۔ 1968میں انیس پلّی کے پوجا کے پنڈال پر بھولا دا ـ بھولا بانڈوجیہـ ان سے اگر زبردستی ’بیٹھ وزن‘ میں گانا نہ گواتے...
اسی گانے کے بدولت بارین بھومک دلی جارہے ہیں۔ دلی کی بنگالی ایسوسی ایشن اول درجے کا کرایہ دے کر اپنی جوبلی کے موقعے پر نذرل کے گیت گانے کے لیے انھیں لے جارہی ہے۔ ان کے ٹھہرنے کا انتظام بھی ان کی طرف سے کیا جائے گا ۔ دو دن دلّی میں گزار کر آگرہ، فتح پور سیکری سے ہوتے ہوے ٹھیک سات روز کے بعد بارین بھومک کلکتہ واپس چلے آئیں گے۔ اس کے بعد پوجا آجائے گی اور تب انھیں فرصت ہی نہیں ملے گی۔ ہر پہر موسیقی کی محفل میں حاضری دینا ہوگی، سامعین کے کانوں میں رس برسانے کے لیے۔
’’آپ کے لنچ کا آرڈر، سر...‘‘ کنڈکٹر گارڈ آکر کھڑا ہے۔
’’کیا کیا ملتا ہے؟‘‘ بارین نے پوچھا۔
’’آپ نان ویجیٹیرین ہیں نا؟ دیسی کھانا کھائیے گا یا ویسٹرن اسٹائل؟‘‘
’’دیسی چاہیے تو...‘‘
اپنی پسند کے کھانے کا آرڈر دے کر بارین نے ابھی ایک تھری کیسلز سگریٹ سلگائی ہی تھی کہ اسی وقت ڈبے کے اندر ایک اور مسافر داخل ہوا اور اس کے بعد ہی گاڑی روانہ ہوگئی۔
آنے والے مسافر سے آنکھیں ملتے ہی بارین کو وہ آدمی پہچانا سا لگا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی، مگر اجنبی کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہ پاکر وہ مسکراہٹ ایک ہی پل میں معدوم ہوگئی۔ کیاپھربارین سے غلطی ہوگئی؟ چھی چھی... اس طرح مسکرانے کی کیا ضرورت تھی؟ کتنے عجیب حالات سے گزرنا پڑا! یاد آیا، ایک بار گھڑدوڑ کے میدان میں بھورے رنگ کا کرتا پہنے ایک عمر دراز آدمی کو پیچھے کی طرف سے ’ ’کیا حال ہیں تِروِدا!‘‘ کہہ کر اس کی پشت پر ایک دھول جمانے کے بعدبارین کی سمجھ میں آیا تھا کہ دراصل وہ ترودا نہیں ہیں۔ یہ شرمناک یاد بہت دنوں تک ان کے دل کو کریدتی رہی تھی۔ آدمی کو اس طرح کے مشکل حالات میں ڈالنے کے لیے چاروں طرف کتنی پریشانیاں بکھری پڑی ہیں۔
بارین بھومک نے دوبارہ اجنبی کے چہرے پر نظر ڈالی۔ موصوف چپلیں اتارکر، سیٹ پر پاؤں پھیلائے السٹریٹڈ ویکلی کی ورق گردانی کر رہے ہیں۔کتنی حیرت کی بات ہے! انھیں پھر محسو س ہورہا ہے کہ یہ شخص جانا پہچانا ہے۔ یہ جان پہچان سرسری نہیں بلکہ کافی لمبی ملاقات ہے۔ مگر کب کی جان پہچان ہے؟ کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ گھنی بھنویں، پتلی مونچھیں، پامیڑ سے رنگے ہوے بال، گال کے بیچوں بیچ ایک داغـ اس چہرے سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ ہاں، واقف ہی نہیں، وہ جب سینٹرل ٹیلیگراف میں نوکری کرتے تھے تب سے جانتے ہیں۔ کیایہ یک طرفہ شناسائی تھی؟ بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بارین بھومک ان کے لیے بالکل اجنبی ہیں۔
’’آپ اپنے کھانے کا آرڈر...‘‘
کنڈکٹر گارڈ دوبارہ آیا ہے۔ بہت ہی خوش مزاج اور صحتمند شخص ہے یہ۔
’’سنیے،‘‘اجنبی نے کہا، ’کھانا تو بعد کی چیز ہے،پہلے ایک پیالی چائے مل سکتی ہے؟‘‘
’’یقینا۔‘‘
’’بس ایک کپ سے ہی کام چل جائے گا۔ میں را ٹی لیتا ہوں۔‘‘
بارین بھومک کو محسوس ہوا ان کے پیڑو سے ناف اور آنتیں باہر نکل آئی ہیں اور وہ جگہ بالکل خالی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ ان کے کلیجے میں ہاتھ پیر اُگ آئے ہیں اور وہ ہاتھ پیر سانس کی نلی کے پنجرے میں اچھل کود کر رہے ہیں۔ نہ صرف اس گلے کی آواز بلکہ خاص زور ڈال کر کہے گئے لفظ ’’را ٹی‘‘ (Raw Tea)نے ہی ان کے اندر ہلچل پیدا کردی۔
بارین نے اس شخص کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ ان کے ساتھ بالکل اسی طرح دلّی جاتی ہوئی ٹرین کے فرسٹ کلاس کے اے سی ڈبے میں آمنے سامنے بیٹھ کر قریب قریب آٹھ گھنٹے کا سفر کیا ہے۔ وہ خود پٹنہ جارہے تھے، اپنی ممیری بہن شپرا کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے۔ اس کے تین دن قبل گھڑدوڑ کے میدان میں ٹریول ٹوٹ میں ایک ہی ساتھ ساڑھے سات ہزار روپے جیت کر وہ زندگی میں پہلی بار ریل کے اول درجے میں سفر کرنے کی خواہش کو روک نہیں پائے تھے۔ اس وقت ایک گلوکار کی حیثیت سے وہ اتنے مشہور نہیں تھے۔ یہ واقعہ 1964ہے ،نو سال پہلے کی بات ۔ اس آدمی کے خاندانی نام کی بھی دھندلی سی یاد آرہی ہے... چ سے اس لفظ کی شروعات ہوتی تھی... چودھری؟ چکرورتی؟ چٹرجی؟
کنڈکٹر گارڈ کھانے کا آرڈر لے کر چلا گیا۔ بارین کو لگا، اس آدمی کے سامنے بیٹھنے میں وہ گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ باہر کاریڈور میں جاکر کھڑے ہوگئے، دروازے کے سامنے سے پانچ ہاتھ داہنی طرف، ’چ‘ کی نظروں سے دور۔ اتفاق کے معنی کیا ہیں؟ یہ بات بارین بھومک کومعلوم نہیں۔لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہر آدمی کو زندگی میں اس قسم کے واقعات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ مگر ’چ‘ نے کیا انھیں پہچان لیا ہے؟ نہ پہچاننے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں: ایک، ہوسکتا ہے ’چ‘ کی یادداشت کمزور ہو؛ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے ان نو برسوں کے درمیان بارین کے چہرے میں کافی تبدیلی آگئی ہو۔ کھڑکی سے باہر کے چلتے ہوے مناظر کی طرف دیکھتے ہوے بارین نے سوچنے کی کوشش کی ، ان کے نو برس پہلے کے چہرے اور ان کے آج کے چہرے میں کتنا فرق ہے۔
ان کا وزن کافی بڑھ گیا ہے ، لہٰذا ظاہر ہے کہ ان کا چہرہ بھی پہلے سے زیادہ بھر گیا ہے۔ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ چشمہ نہیں تھا، مگر اب ہے۔ مونچھیں؟ کب انھوں نے مونچھیں منڈوا دی تھیں؟ ہاں، یاد آیا، زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہاجرا روڈ کا وہ سیلون... ایک نیا نوجوان حجام دونوں طرف کی مونچھوں کو یکساں نہیں تراش سکا تھا۔ بارین نے خود اتنا محسوس نہیں کیا، لیکن دفتر کے اس گپّی لفٹ مین شکدیو سے لے کر باسٹھ سال کے بوڑھے خزانچی کیشو بابو نے بھی جب ان کی مونچھوں پر تبصرہ کیا تو بارین کو لاچار ہوکر اپنی پیاری مونچھیں تراشنا پڑیں۔ اس کے بعد سے انھوں نے مونچھیں رکھی ہی نہیں۔
مونچھیں ہٹ گئی ہیں، گال بھر گئے ہیں، آنکھوں پر عینک لگ گئی ہے۔ بارین بہت کچھ مطمئن ہوکر ڈبے کے اندر چلے آئے۔
بیرا ایک ٹرے میں چائے کی پیالی اور چائے لاکر ’چ ‘ کے سامنے رکھ کر چلا گیا۔ بارین بھی کسی مشروب کی طلب محسوس کر رہے تھے، چاہے ٹھنڈا ہو یا گرم۔ لیکن کہتے کہتے رک گئے۔
اگر گلے کی آواز پہچان لے؟
اور پہچاننے کے بعد نتیجہ کیا ہوسکتا ہے، بارین اس کا تصور تک نہیں کرناچاہتے۔ اتنا ضرور ہے کہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ ’چ‘ کس قسم کا آدمی ہے۔ اگر وہ اینمیش دا کی طرح ہوا تو پھر بارین اطمینان کی سانس لے پائیں گے ۔ ایک بار بس میں ایک آدمی اینمیش دا کی جیب ٹٹول رہا تھا۔ اس بات کا علم ہونے پر بھی شرم کے مارے وہ کچھ نہ کہہ سکے۔ بعد میں گھر آکر کہنے لگے، ’’پبلک بس میں اتنے لوگوں کے درمیان ایک سین ہوجائے اور اس میں خاص پارٹ میرا ہی ہوـ ایساکیسے ہونے دوں؟‘‘
یہ آدمی کیا اسی قسم کا ہے؟ ایسا ہونابہت مشکل ہے، کیونکہ اینمیش دا جیسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چہرے سے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی اس قسم کا نہیں ہے۔ یہ گھنی بھنویں، نکیلی ناک، سامنے کی طرف نکلا ہوا نتھنا۔ سب کچھ ملانے کے بعد لگتا ہے یہ شخص اگر بارین کو پہچان لے گا تو اپنے روئیں دار ہاتھ سے شرٹ کا کالر کس کر پکڑتے ہوے کہے گا، ’’تم ہی وہ آدمی ہونا جس نے سنہ 64میں میری گھڑی چرا ئی تھی؟ اسکا ؤنڈرل! نو برس سے میں تمھاری تلاش میں ہوں۔ آج میں تمھیں...‘‘
اس کے بعد بارین بھومک سوچ نہیں سکے۔ اس ٹھنڈے ڈبے میں بھی ان کی پیشانی پسینے سے تر ہوگئی ۔ ریلوے کے ریکسین منڈھے تکیے پر سر رکھ کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بائیں ہاتھ سے اپنا چہرہ ڈھک لیا۔ آنکھوں کو دیکھ کر ہی انسان کو بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے۔
بارین نے بھی آنکھوں کو دیکھ کر ہی شروع میں اسے پہچانا تھا۔
ہر واقعہ انھیں تفصیل سے یاد آنے لگا ہےـ نہ صرف ’چ‘ کی گھڑی کی چوری کی کہانی، بلکہ بچپن سے ہی وہ جن لوگوں کی جو جو چیز چراتے رہے ہیں، وہ تمام منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں ۔ وہ ایک معمولی ڈاٹ پین بھی ہوسکتا ہے (مکل ماما کا) یاپھر چھینی دا کے ہڈیوں کے کف لنکس ، جن کی نہ تو بارین کو ضرورت تھی اور نہ وہ کسی روز انھیں اپنے استعمال میں لائے تھے۔ چوری کی وجہ یہ تھی کہ وہ چیزیں ہاتھوں کے قریب تھیں اور پرائے لوگوں کی تھیں۔ بارہ برس کی عمر سے لے کر پچیس سال تک کم از کم پچاس پرائی چیزیں بارین بھومک کسی طرح ہتھیا کر اپنے گھر لے آئے۔ اسے چوری کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ محض فرق اتنا ہی ہے کہ چور کسی مجبوری یا حالات کے تحت چوری کرتا ہے اور انھوں نے عادتاً چوری کی ہے۔ لوگوں نے کبھی ان پر شک نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ کبھی پکڑ میں نہیں آئے۔ بارین جانتے ہیں کہ اس طرح چوری کرنا ایک قسم کی بیماری ہے۔ ایک بار انھوں نے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے باتوں باتوں میں اس بیماری کانام بھی جان لیا تھا، لیکن اب یاد نہیں آرہا ہے۔
بس اتنا ضرور ہے کہ نو سال قبل ’چ‘ کی گھڑی چرانے کے بعد سے آج تک ایک بھی بار ایسا کام نہیں کیا ہے، یہاں تک کہ چوری کرنے کی وقتی مگر قوی خواہش بھی ان کے اندر ابھی تک نہیں جاگی ہے۔ بارین کو معلوم ہے کہ اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا مل چکا ہے۔
ان کی دوسری چوریوں اور اس گھڑی کی چوری میں بس یہی فرق تھا کہ انھیں حقیقت میں اس کی ضرورت تھی۔ وہ دستی گھڑی نہیں بلکہ سوئٹزر لینڈ کی بنی ایک بہت ہی خوبصورت سفری گھڑی ہے۔ ایک نیلا چوکور بکسا ہے ، اس کا ڈھکن کھولتے ہی گھڑی باہر نکل کر سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے۔ الارم گھڑی ہے اور اس الارم گھڑی کی آواز اتنی شیریں ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ کانوں میں میٹھا سنگیت گونجنے لگتا ہے۔ ان نو برسوں کے درمیان بارین بھومک ہمیشہ اسے استعمال میں لائے ہیں۔ وہ جہاں کہیں گئے ہیں، ان کے ساتھ وہ گھڑی رہی ہے۔
آج بھی گھڑی ان کے ساتھ ہےـ کھڑکی کے سامنے میز پر رکھے اس بیگ کے اندر۔
’’کہاں جائیے گا؟‘‘
بارین یوں چونک پڑے جیسے ان کے بدن سے بجلی کا تار چھوگیا ہو۔ یہ آدمی ان سے مخاطب ہے، سوال پوچھ رہا ہے!
’’دلّی۔‘‘
’’جی؟‘‘
’’دلّی۔‘‘
پہلی مرتبہ بے حد احتیاط برتنے کی غرض سے بارین نے بہت ہلکی آواز میں جواب دیاتھا۔
’’آپ کاگلا کیا سردی کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اکثر ایسا ہوتا ہے۔ دراصل ایرکنڈیشننگ کا صرف ایک ہی فائدہ ہے اور یہ کہ دھول سے نجات ملتی ہے، ورنہ میں فرسٹ کلاس میں ہی سفر کرتا ہوں۔‘‘
بارین چپ ہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو وہ ’چ‘ کی طرف دیکھتے بھی نہیں، لیکن ’چ‘ ان کی طرف دیکھ رہا ہے یا نہیں، یہ بات جاننے کی خواہش میں بار بار ان کی نظر اس کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ لیکن ’چ‘ مطمئن اور پُرسکون نظر آرہا ہے ۔ اداکاری کر رہا ہے کیا؟ یہ بات بارین کو معلوم نہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے اس آدمی کو اور زیادہ جاننا ضروری ہے۔ بارین جو کچھ جانتے ہیں، وہ معلومات پچھلی دفعہ کی ہے۔ ایک یہ کہ دودھ چینی کے بغیر چائے اور پان کی عادت۔دوسری یہ کہ اسٹیشن آتے ہی نیچے اتر کر کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز لے آنے کی عادت۔ نمکین چیزیں، میٹھی نہیں۔ یاد ہے، پچھلی مرتبہ ’چ‘ کی بدولت بارین بھومک کو کئی قسم کی چٹپٹی چیزیں کھانے کا موقع ملا تھا۔
اس کے علاوہ پٹنہ اسٹیشن کے نزدیک پہنچنے پر اس کے کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی اس کی گھڑی کا معاملہ بھی منسلک ہے، لہٰذا وہ قصہ بارین کو بخوبی یاد ہے۔ اس بار امرتسر میل گاڑی تھی۔ گاڑی صبح پانچ بجے پٹنہ پہنچتی تھی۔ کنڈکٹر نے آکر ساڑھے چار بجے بارین کو جگا دیا تھا۔ ’چ‘ بھی غنودگی کی حالت میں تھا، حالانکہ وہ دلی جارہا تھا۔ گاڑی اسٹیشن پہنچنے کے تین منٹ پہلے اچانک رک گئی۔ کیا بات ہے؟
پٹریوں پر لیمپ اور ٹارچ کی بھاگ دوڑ دیکھ کر محسوس ہوا کہ کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ آخر میں گارڈ نے آکر خبرسنائی کہ ایک بوڑھا لائن پارکرتے وقت انجن سے کٹ گیا ہے۔ اس کی لاش ہٹنے کے بعدگاڑی روانہ ہوگی ۔ یہ سنتے ہی ’چ‘ بے حد بے چین ہوکر سلیپنگ سوٹ پہنے ہی اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے اندھیرے میں چلا گیا۔
اسی موقعے کا فائدہ اٹھاکر بارین نے اس کے بکسے سے گھڑی نکال لی۔ اسی رات انھوں نے ’چ‘ کو گھڑی میں چابی بھرتے ہوے دیکھا تھا۔ گھڑی دیکھ کر لالچ نہ ہوا ہو، ایسی بات نہیں ہے ، لیکن یہ سوچ کر کہ موقع نہیں ملے گا، انھوں نے گھڑی کی بات دل سے نکال دی تھی۔ اس وقت اچانک موقع مل جانے سے ان کا لالچ اتنا بڑھ گیا کہ سیٹ پر ایک دوسرے مسافر کے سوئے ہونے کے باوجود انھیں خطرہ مول لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ چند لمحوں کے وقفے میں انھوں نے اس کام کو انجام دے دیا۔ ’چ‘ لگ بھگ پانچ منٹ کے بعد واپس آیا۔
’’بہت دکھ کی بات ہے! گداگر تھا۔ دھڑ ایک طرف ہے تو سر دوسری طرف۔ سامنے کاؤکیچر رہنے پر بھی انسان کیسے کٹ جاتا ہے، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کا کام یہی ہے کہ اگر لائن پر کوئی چیز پڑی ہو تو اسے ہٹاکر باہر پھینک دے!...‘‘
’’آپ دلّی کے باشندے ہیں یاکلکتہ کے؟‘‘
بارین کو یاد آیا، پچھلی مرتبہ بھی اس نے طرح طرح کے سوال کیے تھے۔ زبردستی کسی سے جان پہچان کرنے کی اس قسم کی عادت کوبارین پسند نہیں کرتے۔
’’کلکتہ کا،‘‘ بارین نے جواب دیا۔ انجانے میں ہی اس بار ان کی اصل آواز باہر نکل آئی۔ بارین نے خود کو کوسا ۔ آئندہ انھیں اور زیادہ ہوشیا رہنا پڑے گا۔
لیکن یہ کیا! وہ بارین کو ایک ٹک دیکھے جارہاہے!ایک دم اس طرح کا تجسس ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ بارین نے محسوس کیا کہ ان کی نبض پھر تیز ہوگئی ہے۔
’’آپ کی حال میں اخبار میں کوئی تصویر چھپی ہے؟‘‘
بارین نے سوچا ، اس معاملے میں سچائی چھپانا عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ ریل میں دوسرے بنگالی مسافر بھی موجود ہیں، وہ بھی انھیں پہچان سکتے ہیں۔ اسے اپنی صحیح پہچان بتانے میں نقصان ہی کیا ہے؟ بلکہ اگر اسے اس بات کا علم ہوجائے کہ بارین ایک مشہور ہستی ہیں تو انھیں تو نوبرس پہلے کے گھڑی چور کی شکل میں دیکھنا ’چ‘ کے لیے ناممکن ہو جائے گا۔
’’آپ نے تصویر کہاں دیکھی تھی؟‘‘ بارین نے پوچھا۔
’’آپ گانا گاتے ہیں؟‘ ‘ اس نے دوبارہ سوال کیا۔
’’ہاں، تھوڑ ابہت...‘‘
’’آپ کا اسم گرامی ؟‘‘
’’باریندر ناتھ بھومک۔‘‘
’’اوہ، یہ کہیے نا،بارین بھومک۔ اسی لیے آپ جانے پہچانے سے لگ رہے تھے۔ آپ بیچ میں ریڈیو پربھی گاتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’میری بیوی آپ کی فین ہے۔ گانے کے سلسلے میں ہی کیا دلّی جارہے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
بارین نے سوچا کہ وہ زیادہ تفصیلی گفتگو سے پرہیز کریں گے۔ صرف ہاں یا نہیں میں ہی مختصر بات کریں گے۔
’’دلّی میں ایک او ربھومک ہیں، فنانس منسٹری میںـ اسکاٹش کالج میں میرے ساتھ پڑھتے تھے۔ پورا نام ہے نتیش بھومک ۔ آپ سے کوئی رشتے داری وغیرہ ہے؟‘‘
رشتے داری ہے۔ بارین کے چچیرے بھائی ہیں۔ سخت نوابی مزاج کے آدمی ہیں، اس لیے بارین کے سگے ہونے پر بھی ایک گوتر کے نہیں ہیں۔
’’جی نہیں، میں انھیں نہیں پہچانتا۔‘‘
یہاں جھوٹ بولنا ہی بارین نے غنیمت سمجھا۔ اب یہ آدمی باتیں کرنا بند کردے تو اچھا رہے۔ آخر اتنی جرح کیوں کر رہاہے؟
خیر، کھانا آگیا ہے۔ امید ہے کچھ دیر تک سوالات کے تیر نہیں برس سکیں گے۔
ہوا بھی یہی۔ ’چ‘ کھانے کا شوقین ہے۔ ایک بار کھانا شروع ہوجاتا ہے تو گفتگو کا سلسلہ خود بخود تھم جاتا ہے ۔ بارین بھومک کا خوف حالانکہ کافی حد تک دور ہوگیا ہے، لیکن پھربھی ایک عجیب سی بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ اب بھی بیس گھنٹے کاراستہ باقی ہے۔ انسان کی یادداشت بھی بڑی غضب کی شے ہے۔ کب دھکا دے کر کس زمانے کی یادوں کو جگا دے کہنا دشوار ہے۔ جیسے اسی بات کو لیجیے۔ بارین کا خیال ہے کہ اگر وہ اُس خاص لفظ کو نہ سنتے تو نو سال پہلے کے گھڑی مالک کی باتیں ان کے ذہن میں ہرگز نہ آتیں۔ اسی طرح بارین کی کوئی بھی حرکت ان کی پرانی واقفیت کو ’چ‘ کے سامنے لاکر کھڑا کردے تو؟ ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد بارین نے طے کیا کہ اب وہ نہ تو گفتگو کریں گے اور نہ ہی کوئی کام ۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے چہرے کے سامنے ہیڈلی چیز کی کتاب کھول کر اور تکیے کو اپنے سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گئے۔ پہلا ورق ختم کر کے انھوں نے ہوشیاری سے گردن گھمائی اور دیکھا کہ ’چ‘ سو گیا ہے۔ کم از کم دیکھنے سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے۔ رسالہ ہاتھ سے فرش پر گرپڑا ہے۔ آنکھیں ہاتھ سے ڈھکی ہوئی ہیں، مگر سینے کا پھولنا پچکنا دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سوئے ہوے آدمی کی فطری اور آزاد سانسیں ہیں۔
بارین نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ میدان ،پیڑ پودوں اور مکانوں کا ملا جلا بِہار کا روکھا سوکھا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ کھڑکی کے دوہرے شیشے کو پار کر کے ریل کی آواز نہیں کے برابر سنائی دے رہی ہے، جیسے دور بہت سے مِردنگ ایک ساتھ ایک ہی بول میں بج رہے ہوںـ دھادھاناک... ناون ناک... دھاون ناک... ناون ناک... دھاون ناک... ناون ناک...
اس آواز میں اب ایک اور آواز شامل ہوگئی ہے: ’چ‘ کے خراٹوں کی آواز۔
بارین بھومک کو بہت اطمینان کا احساس ہوا۔ نذرل کے ایک چنے ہوے گیت کی سطر گنگنا کر دیکھا۔ صبح کی مانند اتناشیریں نہ ہو نے پربھی انھیں برانہ لگا۔ اب گلے کی آواز کو تیز نہ کرتے ہوے، ایک بار گلے کو کھنکھار کر انھوں نے دوبارہ اس گانے کو گانا شروع کیا۔
ایک چونکانے والی آواز نے ان کے گلے کو خشک کردیا اور ان کا گیت گانا تھم گیا۔وہ گھڑی کے الارم کی آواز تھی۔
ان کے بیگ میں رکھی ہوئی سوئس گھڑی کا الارم نہ جانے کیسے بج اٹھا، اور اب بھی بج رہا ہے۔ بارین بھومک کے ہاتھ پیر جیسے ان کے پیٹ کے اندر سما گئے۔ ان کابدن لکڑی ہوگیا۔ آنکھیں سوئے ہوے ’چ‘ پر جاکر ٹک گئیں۔
’چ‘ جیسے ہل اٹھا ہو۔ بارین مصیبت کے اندیشے سے کانپ اٹھے۔ ’چ‘ کی نیند ٹوٹ چکی ہے۔ آنکھوں پر سے اس کے ہاتھ ہٹ گئے۔
’’گلاس ہے کیا؟ اسے اتارکر رکھ دیجیے۔ وائبریٹ کر رہا ہے۔‘‘
بارین بھومک نے دیوار میں لگے اسٹینڈ کے اندر سے گلاس کو جیسے ہی اٹھایا، آواز تھم گئی۔ اسے میز پر رکھنے سے پیشتر انھوں نے اس کے اندر کے پانی کو پی کر اپنے گلے کو تر کر لیا اور اس سے انھیں تھوڑا آرام ملا۔ پھر بھی گانا گانے میں ابھی وقت لگے گا۔
ہزاری روڈ کے کچھ آگے چائے آئی۔ ایک ایک کر کے دو پیالی گرم چائے پینے کے بعد اور ’چ‘ کی طرف سے کسی قسم کے جرح یا شک کے نشان نہ پاکر بارین کے گلے کاروندھا پن تھوڑا اور کم ہوگیا ۔ باہر تیسرے پہر کی ڈھلتی دھوپ اور دور کے ٹیلے کی طرف دیکھنے کے بعد گاڑی کے چھند سے چھند ملاتے ہوے جب انھوں نے ایک جدید گیت کا ٹکڑا گایا تو اس مصیبت کا بچا کھچا اندیشہ بھی ان کے دل سے دور ہوگیا۔
گیا میں’چ‘ اپنی نو سال کی عادت کے مطابق پلیٹ فارم پر اتر کر سیلوفون میں مڑے ہوے دو پیکٹ چنا چورلے آیا اور ایک پیکٹ بارین کی طرف بڑھا دیا ۔ بارین نے اسے خوب مزے سے کھایا۔ گاڑی کی روانگی کے وقت سورج غروب ہوچکا تھا۔ ڈبے کی بتیاں جلا کر ’چ‘ نے کہا:
’’ہم کیا دیر سے چل رہے ہیں ؟ آپ کی گھڑی کیا بجارہی ہے؟‘‘
اس وقت پہلی مرتبہ بارین کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ’چ‘ کی کلائی میں گھڑی نہیں ہے۔ اس بات کو سوچ کر انھیں حیرانی ہوئی اور اس حیرانی کا ایک ٹکڑا شاید ان کی آنکھوں سے جھانکنے لگا۔ دوسرے ہی پل انھیں یاد آیا کہ ’چ‘ کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ اپنی گھڑی کی طرف سرسری نگاہ دوڑاتے ہوے کہا،’ ’ سات بج کر پینتیس منٹ۔‘‘
’’پھر تو ہم ٹھیک وقت پر ہی جارہے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’میری گھڑی آج صبح ہی ... ایچ ایم ٹی بالکل ٹھیک وقت بتاتی تھی!... نوکر نے بستر کو چادر کویوں کھینچا کہ گھڑی ایک دم...‘‘
بارین خاموش ہیں۔ گھڑی کا ذکر آجانا ہی ان کے لیے اشبھ ہے۔
’’آپ کی کون سی گھڑی ہے؟‘‘
’’ایچ ایم ٹی۔‘‘
’’اچھی سروس دیتی ہے؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’دراصل میری گھڑی کی قسمت ہی خراب ہے...‘‘
بارین نے ایک جماہی لے کر خود کو گھبراہٹ اور بے چینی سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے اعضا کاسن پن ان کے جبڑوں تک پہنچ چکا ہے۔ سننے کی طاقت ختم ہوجاتی تو انھیں بے حد خوشی ہوتی، لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ ’چ‘ کی آواز بخوبی ان کے کانوں میں پہنچ رہی ہے...
’’جانتے ہیں، ایک سونے کی سوئس گھڑی، ٹریولنگ کلاک، میرے ایک دوست نے جنیوا سے لاکر مجھے دی تھی۔ ایک مہینہ بھی استعمال نہیں کرسکا...ریل سے دلی جارہا تھا، تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے... ہم اور آپ جس طرح سفر کر رہے ہیں، اسی طرح ایک ڈبے میں ہم دو آدمی ـمیں اور ایک دوسراشخص... بنگالی...سوچیے تو کتنی خوفناک بات!
’’شاید میں باتھ روم گیا ہوں گا، یا اسٹیشن پر اترا ہوں گا یا پلیٹ فارم پر ۔ بس، اسی بیچ گھڑی غائب کردی۔ حالانکہ دیکھنے میں ایسا نہیں لگتا تھا۔ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا، بھلا سا آدمی اور خوبرو چہرہ تھا۔ تقدیر اچھی تھی کہ اس نے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد سے میں ریل میں بیٹھا ہی نہیں۔ اس بار بھی ہوائی جہاز سے جاتا، لیکن پائلٹوں کی ہڑتال کے چلتے...‘‘
بارین بھومک کا گلا خشک ہورہا ہے۔ ہونٹوں کا ہر حصہ بے بس ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لبوں کو کسی نے سی دیا ہے۔ لیکن وہ اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ ان تمام باتوں کے باوجود خاموش رہنا غیر فطری لگے گا، یہاں تک کہ مشکوک بھی ہوسکتا ہے۔ جی جان سے کوشش کرنے پر ، بے حد ہمت کر کے انھوں نے اپنی زبان سے چندالفاظ ادا کیے۔
’’آپ نے تلاش نہیں کی تھی؟‘‘
’’تلاش کیا کی جائے؟ ڈھونڈنے سے کیا یہ چیزیں واپس ملتی ہیں ؟ بس اتنا ضرور ہے کہ اس شخص کے چہرے کو میں نے بہت دنوں تک یاد رکھا تھا۔ اب بھی دھندلا سا یاد ہےـ سانولا رنگ، مونچھیں، آپ کے برابر ہی قد ہوگا، اور ہاں، دبلا پتلا تھا۔ اگر دوبارہ اس سے ملاقات ہوجاتی تو اسے باپ کانام یاد کرادیتا ۔ جانتے ہیں، کسی زمانے میں میں باکسنگ کیا کرتا تھا۔ لائٹ ہیوی ویٹ چیمپئن تھا۔ اس شخص کے چودہ اجداد کی قسمت اچھی ہے کہ دوبارہ اس پر نظر نہیں پڑی۔‘‘
اس کانام بھی بارین کو یاد آگیاـ چکرورتی، پُلک چکرورتی۔ حیرت ہے! باکسنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہی اس کا نام سنیما کے ٹائٹل کی طرح بارین بھومک کی آنکھوں کے سامنے تیر گیا۔ پچھلی مرتبہ بھی باکسنگ کے بارے میں پلک چکرورتی نے بہت سی باتیں بتائی تھیں۔
مگر نام جاننے سے بھی کیا ہوگا ؟ اس نے تو کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ مجرم تو خود بارین ہیں۔ اور اس جرم کابوجھ انھیں بے حد مضطرب اور بے چین کر رہا ہے۔ اگر اقبال جرم کرلیں تو کیسا رہے؟ گھڑی واپس کردیں تو کیسا رہے؟ ہاتھ کے پاس کے بیگ کو کھولتے ہی...
دھت!... وہ پاگل ہوگئے ہیں کیا؟ وہ اتنے فکر مند کیوں ہورہے ہیں؟ اپنی پہچان چور کی شکل میں کرائیں گے ؟ وہ ایک مشہور گلوکار ہیں، بغیر کہے کیوں وہ پرائی چیز لینے کی بات تسلیم کریں گے؟ اس وجہ سے جب ان کا نام خاک میں مل جائے تو تب کیا گانا گانے کے لیے ان کو مدعو کیا جائے گا؟ ان کے مداحوں کے دل کیا کہیں گے؟ کیا سوچیں گے وہ؟
پلک چکرورتی بار بار ان کی طرف گھور رہاہے۔ اب دلّی پہنچنے میں سولہ گھنٹے رہ گئے ہیں۔ کسی بھی منحوس گھڑی میں پہچان لیے جانے کا خطرہ ہے۔ ارے، یہ تو وہی آدمی ہے۔ بارین نے تصور کیا، ان کی مونچھیں کھسک کر گرپڑی ہیں، گال سے گوشت جھڑگیا ہے، آنکھوں سے چشمہ اتر گیا ہے۔ پلک چکرورتی بغور ان کے نو سال پہلے کے چہرے کو گھور رہاہے۔ اس کی نظر آہستہ آہستہ مرکوز ہوتی جارہی ہے، لبوں پر ایک بے درد ہنسی ابھر آئی ہے۔ ہاں ہاں، پیارے! اب راستے پر آؤ۔ اتنے دنوں کے بعد تم پکڑ میں آئے ہو۔ مزہ تو لوٹا ہے مگر نتیجہ نہیں دیکھا ہے۔
دس بجے بارین بھومک کو کپکپی کے ساتھ بخار آگیا۔ گارڈ کو بلاکر انھوں نے ایک او رکمبل طلب کیا۔ اس کے بعد دونوں کمبلوں کو ایک ساتھ ملا کر پاؤں سے ناک تک ڈھک کر لیٹ گئے۔ پلک چکرورتی نے ڈبے کا دروازہ بند کر کے چٹخنی لگا دی۔ بتی بجھا تے وقت بارین کی طرف مڑ کر کہنے لگا، ’’لگتا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ دوا لیجیے گا؟ میرے پاس بہترین ٹکیہ ہے، دو عدد کھالیں۔ معلوم ہوتا ہے آپ کو ایر کنڈیشننگ کی عادت نہیں ہے۔‘‘
بھومک نے دوا کی ٹکیہ کھالی۔ اب صرف یہی بھروسا ہے کہ اگر پلک چکرورتی گھڑی چور کی شکل میں انھیں پہچان بھی لے تو بیماری کی حالت میں ان پر ترس کھاکر سخت سزا نہیں دے گا۔ اس بیچ انھوں نے ایک بات طے کرلی ہے ۔ پلک اگر انھیں نہ پہچانے تب بھی دلی پہنچنے سے قبل ہی موقع ملتے ہی وہ سوئس گھڑی کو اصلی مالک کے بکسے میں رکھ دیں گے۔ اگر ممکن ہوا تو آدھی رات میں ہی اس کام کو انجام دے دیں گے۔ لیکن اگر بخار کم نہیں ہوتا ہے تو کمبل کے نیچے سے نکلنا دشوار ہے۔ اب بھی بیچ بیچ میں پورا جسم کانپ اٹھتا ہے۔
پلک اپنے سر کے پاس ریڈ نگ لیمپ جلائے ہوے ہے۔ اس کے ہاتھ میں کھلی ہوئی ایک پیپربیک کتاب ہے۔ لیکن کیا وہ واقعی مطالعہ کر رہاہے یا کتاب کے اوراق آنکھ پر رکھے کچھ سوچ رہا ہے؟ کتاب کو ایک ہی طرح سے کیوں تھامے ہوے ہے؟ ورق کیوں نہیں الٹ رہا ہے؟ آمنے سامنے کے دو صفحے پڑھنے میں کتنا وقت لگتا ہے!
اب بارین نے غور کیا کہ پلک کی نظر کتاب کے صفحے سے ہٹتی جارہی ہے۔ اس کا سر آہستہ آہستہ بغل کی طرف مڑ گیا۔ آنکھیں گھوم کر بارین کی طرف آرہی ہیں۔ بارین آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کچھ دیر تک آنکھیں بند کیے پڑے رہتے ہیں۔ اب بھی کیا پلک ان کی طرف گھور رہا ہے؟ خوب ہوشیاری سے بارین اپنی پلکوں تھوڑا سا کھولتے ہیں، اس کے بعد پھر بند کر لیتے ہیں۔ پُلک ان کو ہی گھور رہا ہے ۔ بارین کو محسوس ہوا کہ ان کی چھاتی کے اندر وہی مینڈک پھر سے کودنے لگا ہے، پسلیوں کی ہڈیوں میں پھر سے دھکا لگ رہا ہے۔
دُھک پُک... دُھک پُک... دُھک پُک...دُھک پُک... دادرے کا چھند ہے۔ ریل گاڑی کے پہیوں کے گمبھیر چھند میں گم ہوتا جارہا ہے۔
ایک بار آہستہ سے کھچ کی آواز ہوتے ہی آنکھیں بند ہونے پر بھی بارین کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ ڈبے کی آخری بتی بجھ چکی ہے۔ اب ہمت کر کے بارین آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں۔ دروازے کے پردے کی درار سے آتی ہوئی ہلکی روشنی نے ڈبے کے اندھیرے کو زیادہ گہرا نہیں ہونے دیا ہے۔ اسی روشنی میں وہ دیکھتے ہیں، پُلک چکرورتی نے اپنے ہاتھ کی کتاب کو بارین کے بیگ کے پاس رکھ دیا ہے، اس کے بعد کمبل کو گھٹنے تک اوڑھ کر کروٹ لی ہے اور پھر بارین کے آمنے سامنے ہوکر ایک جماہی لی ہے۔
بارین بھومک کو احساس ہوا کہ ان کی چھاتی کی دھڑکن آہستہ آہستہ بحال ہوتی جارہی ہے۔ کل صبح... ہاں، کل صبح، پلک کے ٹریولنگ کلاک کو اپنے بیگ سے نکال کر پلک کے سوٹ کیس میں کپڑے لتوں کے نیچے رکھ دینا ہے۔ سوٹ کیس میں تالا نہیں لگا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی پلک نے سلیپنگ سوٹ نکال کر پہنا ہے۔ بارین کی کپکپی بند ہوگئی ہے۔ شاید دوا کام کر گئی ہے۔ اس نے انھیں کون سی دوا دی تھی؟ نام نہیں پوچھ سکے تھے۔ اپنی بیماری کے باعث کہیں دلی کے موسیقی کے شوقینوں کی واہ واہ سے محروم نہ ہوجائیں، اسی خوف سے انھوں نے بہت تیزی کے ساتھ پلک چکرورتی کی دی ہوئی دوا کھالی تھی۔ لیکن اب لگتا ہے...نہیں،ان فکروں کو اب وہ ٹکنے نہیں دیں گے۔ گلاس کی ٹن ٹن کی آواز کو گھڑی کا الارم سمجھ کر ان کی کیسی حالت ہوگئی تھی۔ ان تمام باتوں کے لیے ذمے دار ہے ان کا احساسِ جرم میں ملوث بیمار دل ۔ کل صبح وہ اس احساس سے نجات کاانتظام کریں گے۔ دل اگرپرسکون نہ ہوا تو گلا نہیں کھلے گا، گیت باہرنہیں نکل پائے گا... بنگالی ایسوسی ایشن ...
چائے کے سامان کی کھٹ پٹ سے بارین بھومک کی نیند کھل گئی۔ بیرا ٹرے لے آیا ہے۔ چائے ، روٹی، مکھن، آملیٹ لایا ہے۔ لیکن یہ سب کیا وہ کھاسکتے ہیں؟ اب بھی بخار ہے کیا؟ شایدنہیں ہے۔ جسم ہلکا ہوگیا ہے۔ کمال کی دوا دی تھی پلک چکرورتی نے۔ اس کے تئیں بارین کے دل میں شکرگذاری کا احساس جاگ اٹھا۔
لیکن وہ کہاں چلا گیا؟ معلوم ہوتا ہے، باتھ روم میں ہے، یا پھرکاریڈور میں۔
بیرے کے چلے جانے کے بعد بارین باہر نکلے۔کاریڈور خالی ہے۔ بھلا آدمی کب سے باتھ روم میں ہے؟ کیا چانس لیا جاسکتا ہے؟
بارین نے چانس لیا، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بیگ سے گھڑی نکال کر پلک چکرورتی کے سوٹ کیس کو کھینچ کر نکالنے کے لیے جیسے ہی جھکے، عین اسی وقت تولیہ اور داڑھی بنانے کا سامان ہاتھ میں لیے پلک ڈبے کے اندر داخل ہوا۔ بارین بھومک داہنے ہاتھ کی مٹھی باندھے سیدھے ہوکر کھڑے ہوگئے۔
’’کیسی طبیعت ہے؟ آل رائٹ؟‘‘
’’ہاں، وہ... اِسے پہچان رہے ہیں؟‘‘
بارین نے اپنی مٹھی کھول کر گھڑی سمیت اپنا ہاتھ پلک کے سامنے کردیا۔ اب ان کے دل میں حیرت انگیز توانائی آگئی ہے۔ چوری کی بیماری سے انھیں کافی پہلے نجات مل چکی ہے، لیکن یہ آنکھ مچولی بھی تو چوری ہی ہے۔ اس فطری حالت کو چھپانے کی عادت، اگر مگرکرنا، احساس جرم، یہ پیڑو کا خالی پن ، گلے کی کھسکھساہٹ، کانوں کا گرم ہونا، چھاتی کا دھڑکناـ یہ سب بھی توایک قسم کی بیماری ہی ہے۔ اسے دور کیے بغیر نجات نہیں ، سکون نہیں۔
پلک چکرورتی نے اپنے ہاتھ کے تولیے کے ایک حصے کو اپنے داہنے ہاتھ کی درمیانی انگلی کے سہارے ابھی کانوں پر رکھا ہی تھا کہ تبھی بارین کے ہاتھ میں گھڑی دیکھ کر اس کا ہاتھ کان پر ہی ٹکارہ گیا۔ بارین نے کہا، ’’وہ آدمی میں ہی ہوں۔ موٹاہوگیا ہوں، مونچھیں صاف کردی ہیں اور چشمہ لگ گیا ہے۔ میں پٹنہ جارہا تھا اور آپ دلّی۔ سنہ 64کی بات ہے۔ وہاں جب ایک آدمی کٹ گیا تھا اور آپ اسے دیکھنے گئے، اسی وقت میں نے گھڑی نکال لی تھی۔‘‘
پُلک کی نگاہ اب گھڑی سے ہٹ کر بارین کی آنکھوں پر جاکر ٹک گئی۔ بارین نے دیکھا اس کے ماتھے کے بیچ میں دو متوازی لکیریں ہیں۔ آنکھیں غیر فطری طور پر باہر نکلی ہوئی ہیں۔
دونوں ہونٹ ایک دوسرے سے الگ ہوکر کچھ بولنا چاہتے ہیں، لیکن کہہ نہیں پارہے ہیں۔ بارین کہنے لگے:
’’جانتے ہیں، دراصل یہ میری بیماری ہے۔ یعنی میں حقیقت میں چور نہیں ہوں۔ ڈاکٹر اس کا کچھ نام بتاتے ہیں، لیکن اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ بہر حال میں اب میں قطعی طور پر نارمل ہوں۔ اتنے دنوں تک گھڑی میرے پاس تھی، میں نے اسے استعمال بھی کیا ہے، آج بھی وہ میرے ساتھ ہے۔ آپ سے ملاقات ہوگئی، تقریباً معجزے کی طرح، اس لیے آپ کو واپس کر رہا ہوں۔ امید ہے، آپ کے دل میں کوئی میل نہیں رہے گا۔‘‘
پُلک چکرورتی ایک دبے دبے ’’تھینکس‘‘ کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی گمشدہ گھڑی اسے واپس مل گئی ہے، حیران سے اسے ہاتھ میں لے کر کھڑا ہے۔بارین نے اپنے بیگ سے دانت کامنجن، دانت صاف کرنے کابرش اور داڑھی بنانے کاسامان باہر نکال کر تو لیے کو ریک سے نیچے اتارا اور ڈبے کے دروازے کے باہر آگئے۔ باتھ روم کے اندر جاکر دروازے کو بند کرلیا۔ نذرل کے ’’کتنی راتیں یونہی بیت جاتی ہیں‘‘ گیت کی ایک سطر گانے کے بعد انھیں محسوس ہوا کہ ان کے گلے میں طاقت لوٹ آئی ہے۔
فنانس منسٹری کے این سی بھومک کو ٹیلیفون پر پانے میں لگ بھگ تین منٹ کا وقت لگا۔ آخر میں ایک مانوس اور سنجیدہ آواز سنائی دی،’ ’ہیلو!‘‘
’’کون، نتیش دا؟ میں بھوندو بول رہا ہوں۔‘‘
’تو پہنچ گیا ہے؟ آج تیری گلے بازی سننے آؤں گا۔ آخر کار تو ناگ ہی نکلا۔ تصور نہیں کیا جا سکتا! خیر، کیا حال چال ہے؟ اچانک نتیش دا کو کیوں یاد کیا؟‘‘
’’وہ... پلک چکرورتی نام کے کسی آدمی سے آپ کی واقفیت تھی؟ آپ کے ساتھ اسکا ٹش کالج میں پڑھتا تھا۔ باکسنگ کرتا تھا؟‘‘
’’تو جھاڑودار کے بارے میں بات کر رہا ہے؟‘‘
’’جھاڑودار؟‘‘
’’وہ سارا سامان جھاڑ پونچھ لیتا تھاـ کسی کا قلم، لائبریری سے کتاب، کامن روم سے ٹینس کابیٹ۔ میرا پہلا رن سن وہی اڑا کر لے گیا تھا۔ حالانکہ اسے کوئی کمی نہیں ہے، بہت امیر آدمی ہے۔ یہ ایک قسم کی بیماری ہے۔‘‘
’’بیماری؟‘‘
’’معلوم نہیں ہے؟ کلپٹومینیا... کے ایل ای پی...‘‘
ٹیلیفون رکھ کر بارین بھومک نے کھلے سوٹ کیس کو دیکھا۔ ہوٹل آکر سوٹ کیس کھولتے ہی انھیں چند چیزیں ندارد ملیں۔ ایک کارٹن تھری کیسلز سگریٹ، ایک عدد جاپانی بائناکلر، ایک ایک سو کے پانچ نوٹ سمیت منی بیگ۔
کلپٹو مینیاـ بارین کو یہ نام معلوم تھا ، لیکن بھول گئے تھے۔ اب نہیں بھولیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments